بسم اﷲ الرحمن الرحیم
(21دسمبر:قومی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
نیپال، چاروں طرف سے ہمالیہ کی بلندوبالاچوٹیوں سے گھری ریاست ہے۔ جنوبی
ایشیاکا یہ ملک جس کے شمال میں چین ہے اورمشرق مغرب اور جنوب میں ہندوستان
کی سرحدیں ہیںکم و بیش ستاون ہزار مربع میل کے رقبے پر پھیلاہے۔جغرافیائی
تنہائی کی طرح 1950ءتک نیپال سیاسی طور پر بھی تقریباََ ساری دنیاسے
کٹاہواتھا۔ایک محلاتی سیاسی تبدیلی کے بعد سے اس ملک کا باقی دنیاؤں سے
بھرپور تعارف ہوا۔”کھٹمنڈو“ یہاں کا دارالحکومت ہے جو ہمالیہ کی نشیبی
پہاڑیوں کے عین دامن میں واقع ہے۔یہ شہر ملک کاسب سے بڑا سیاسی ،تجارتی ،صنعتی
اور ثقافتی مرکزبھی ہے لیکن ان سب کے باوجوداس کی اصل وجہ شہرت سیاحت
ہے،دنیابھر کے شوقین سیاح ایشیاکے دلفریب نظاروں سے لطف اندوزہونے کے لیے
اس شہرکاسفرکرتے ہیں۔کھٹمنڈوکے سیاحوں کی آمد نیپال کے لیے زرمبادلہ کابھی
بہت بڑاذریعہ ہے۔ہندو،بدھ اورایک قلیل تعدادمیں مسلمان بھی اس شہر میں بستے
ہیں۔
ماہرین بشریات کے مطابق نیپال کی سرزمین پر انسانوں قدموں کے نشان دس
ہزارسال قدیم تک ملتے ہیں۔قدیم نیپال کی معلوم تاریخ کاسراغ اگرچہ پہلی صدی
قبل مسیح میں ملتاہے لیکن مورخین کے اندازوں کے مطابق موجودہ نیپال کی
تاسیس اٹھارویں صدی میں ہوئی ۔”کیرانٹ“کی پہاڑیوں میں آباد قبائل کھٹمنڈوکے
اولین حکمران مانے جاتے ہیں۔400عیسوی کے لگ بھگ یہاں پر ”لکچاوی“خاندان نے
اپنی حکومت قائم کی اور کھٹمنڈوکواپنا پایہ تخت بنایا۔”لکچاوی “اور پھراس
کے ساتھ ساتھ” مالا“خاندان کے ادوار میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کو یہاں
قبول عام حاصل ہوا۔”لکچاوی“خاندان نویں صدی مسیحی تک یہاں پر حکمرانی کے
جھولے جھولتارہا۔اس کے بعد نیپال کا ازمنہ وسطی کادورآتاہے جس کی تحریری
دستاویزات نہ ہونے کے برابر ہیں،شاید اس زمانے میں برہمییت کے غلبے کے باعث
تعلیم پر توجہ نہیں دی گئی ہوگئی۔کچھ ناپختہ معلومات سینہ بہ سینہ روایتی
داستانوں کی صورت میں پہنچی ہیں لیکن ان پر کسی تاریخی شہادت کی بنیاد نہیں
رکھی جاسکتی۔
اٹھارویں صدی کے وسط 1769ءمیں یہاں پر ”شاہ“خاندان کی حکومت قائم ہوئی
اور”پرتھوی نریان شاہ“اس خاندان کا پہلا حکمران بنا۔اس زمانے میں نیپال کی
سرحدیں اتنی وسیع ہوئیں کہ ہندوستان میں تاج برطانیہ اورنیپال آمنے سامنے
ہوگئے اور1814سے1816تک ان کے درمیان جنگ و جدل کا بازار گرم رہا یہاں تک کہ
نیپال موجودہ جغرافیہ تک اس زمانے سے محدود ہوگیا۔انیسویں صدی میں نیپال
ایک بار پھر سیاسی عدم استحکام کا شکارہوااور”جنگ بہادر“جو رانا خاندان کا
بانی تھا،نیپال کا خود ساختہ وزیراعظم بن گیا۔اس نے بادشاہ کے اختیارات
محدودکردیے اور وزارت عظمی کے منصب کو ملوکیت کی شکل دے کر اپنے خاندان میں
جاری کر دیا۔پہلی جنگ عظیم کے دوران نیپال نے برطانیہ کی دل کھول کرمددکی
جس کے بدلے کے طورپر برطانوی حکومت نے 1923میں ایک معاہدے کے ذریعے نیپال
کی آزادی کا وعدہ کیا۔دوسری جنگ عظیم میں بھی نیپال نے گورکھاافواج کی کمک
بھیج کر برطانیہ کی عسکری مددکی۔1940میں رانا خاندان کے حکمران مسلسل تنقید
کا نشانہ بننے لگے اور بالآخر1951میں نیپال میں جمہوریت بحال کردی گئی اور
بادشاہت ایک بار پھر عود کرآئی۔
2008کے مطابق نیپال کی آبادی تین کروڑ نفوس تک پہنچ رہی تھی،”نیپالی“زبان
یہاں کی دفتری زبان ہے اور یہ دنیاکی واحد ریاست ہے جس کا سرکاری مذہب
”ہندومت“ہے۔یہاں کی آبادی دو بڑے بڑے گروہوں پر مشتمل ہے،ایک ہندوستانی
نیپالی ہیں جن کے آباؤ، اجدادجنوب سے وارد ہوئے تھے اور دوسرے تبتی نیپالی
ہیں جن کے بڑے شمال سے ہجرت کر کے تو اس سرزمین میں داخل ہوئے تھے۔ایک
زمانے سے اکٹھے رہتے ہوئے ان دونوں گروہوں کے درمیان اگرچہ بہت سارے
مشترکات ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی جداگانہ لسانی،تہذیبی اور
ثقافتی شناخت ترک نہیں کی۔ہندوستانی نیپالی قوموں کے لوگ سنسکرت سے نکلی
ہوئی زبانیں بولتے ہیں اور ہندومت کے پیروکارہیں،جبکہ نیپالی زبان بھی اسی
قبیل سے تعلق رکھتی ہے۔ہندوستانی نیپالیوں کے درمیان بھی بہت سارے گروہ ہیں
لیکن وہ ہندوؤں کے ذات پات کے تصور سے تعلق رکھتے ہیں۔تبتی نیپالی گروہ بھی
متعدد قبائل کاحامل ہے جن میں سے ”نیوار“، ”شرپا“، ”گورنگ“
،”ماگر“،”تامانگ“،”رائی“،”لمبو“اور ”بھٹائی“زیادہ مشہور اور تعداد اور آباد
علاقوں کی وسعت میں بھی بہت زیادہ ہیں۔اگر چہ یہ قبائل بھی نیپالی زبان
بولتے اور سمجھتے ہیں لیکن ان میں سے ہر قبیلہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ اپنی
اپنی زبان ہی بولتاہے۔تبتی نیپالیوں کا مذہب سائیبیریاسے آئے ہوئے مذہبی
رجحانات کا مرغوبہ ہے جس میں ارواح کا تصور غالب ہے،تاہم بدھ مت کے پیروکار
بھی اس گروہ میں بکثرت ملتے ہیں۔باقی سارے ملک میں بھی بدھ مت کے ماننے
والے بکثرت ہیں اسکی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ”شری مہاتماگوتم بدھ“کی
جائے پیدائش”لمبینی“ نیپال میں ہی واقع ہے۔”ماننگ“قبائل کے لوگ نیپال کے
اندرہمالیہ کی بلندوبالا چوٹیوں کے مکین ہیں اور پوری دنیاسے الگ تھلگ
تنہائی کی زندگی گزار رہے ہیں،یہ بدھ مت پر سختی سے عمل کرنے والے اورخالص
تبتی نسل کے لوگ ہیں۔تجارت ،زراعت اور سخت کوشی سے ان کی زندگی عبارت ہے۔ان
کے کھیتوں میں آلو،گندم،باجرہ اورمکئی اگائے جاتے ہیں جو ان کے اور ان کے
جانوروں کی تسلسل حیات کے ضامن ہیں۔رانا خاندان کے دوراقتدار(1846-1951)میں
صرف اعلٰی نسل کے شہریوں کو تعلیم کی سہولت میسر تھی جبکہ انقلاب کے بعد کم
از کم پرائمری تعلیم سب آبادی کے لیے لازمی قرار دے دی گئی ہے۔
نیپال کی معیشیت میں زراعت کو نمایاں مقام حاصل ہے اورملک کی 79%آبادی اس
پیشے سے وابستہ ہے۔”تارائی“کاعلاقہ خاص طور پر زرعی اعتبار سے بہت بارآور
خطہ ہے۔چاول،مکئی،آلو،متعددچکنے بیج،گنا،جواورتمباکویہاں کی نقدآور فصلیں
ہیں۔صنعتیں صرف زراعت کی بنیاد پر ہی چل پاتی ہیں یا پھر ہندوستان سے درآمد
شدہ خام مال سے تیاری بھی کچھ کارخانوں میں ہوتی ہے۔بڑی بڑی صنعتیں حکومت
کے زیرانتظام چلتی ہیں جن میں چینی،سگریٹ،ماچس،جوتے،سیمنٹ اور اینٹیںتیارکی
جاتی ہیں۔نجی صنعتیں صرف قالین بافی اورٹوکریوں یاتنکوں سے بنی اشیاتک ہی
محدود ہیں۔نیپال میں پٹرول،مشینری اورکھاد درآمد کی جاتی ہے جبکہ
گیہوں،قالین ،کپڑااور چمڑے کی مصنوعات یہاں سے برآمد کی جاتی ہیں۔1990کے
آئین میںنیپال سیاسی طور پر آئینی بادشاہت کا ملک قراردیاگیا۔2006کے بعد سے
بادشاہ کے بہت سارے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کر دیے گئے جوانتخابات کے
نتیجے میں اکثریتی جماعت کا نمائندہ ہوتاہے۔قانون سازی کے دو ادارے ہیں جن
میں سے قومی کونسل براہ راست منتخب کی جاتی ہے اور قومی کونسل ایوان بالا
کی حیثیت رکھتی ہے۔
تاریخی طور پر نیپال میں مسلمانوں کی ابتداکاکھوج لگانا کافی مشکل ہے تاہم
تیرہویں صدی میں جب بختیار خلجی نے یہاں حملہ کیاتواس کے کچھ مسلمان سپاہی
یہاں رہ گئے جو یہاں کے اولین مسلمان باشندے تھے۔پندرہویں صدی میں کشمیری
مسلمان تاجر بھی یہاں پر وارد ہوئے۔لیکن 1857کی جنگ آزادی کے بعد جب یہاں
کے بادشاہ نے ملکہ” بیگم اودھ“کو پناہ دی تو اس وقت مسلمانوں کے انبوہ کثیر
نے نیپال کا رخ کیااور ”تارائی“کے علاقے میں آباد ہوئے۔اب تک نیپال میں
مسلمانوں کا 97%”تارائی“میں ہی آباد ہے،یہ علاقہ بہاراوریوپی کی سرحدوں سے
ملحق ہے۔اسلام یہاں کا اقلیتی مذہب ہے اوریہاں کے مسلمان ہندوستان سے
آکریہاں آبادہوئے۔صدیوں سے ہندؤں کی مقدس کتب کی یہاں پر بادشاہی رہی ،بدھ
مت کوتوہندوؤں نے اپنا فرقہ بنالیااس لیے انہیں کوئی دقت پیش نہ آئی لیکن
مسلمانوں کے لیے بہت کڑی شرائط کے ساتھ زندگی گزارناممکن رہا۔مسلمانوں کو
اسلام کی تبلیغ اوراپنی شرعی اصطلاحات تک کے استعمال سے روک دیاگیااور
وراثت کاقانون بھی ہندوؤں کے مطابق ہی جاری رہا،ریاست ایسے مسلمان کو
سزادیتی تھی جو ان پابندیوں کی خلاف وازی کرتاتھا۔صدیوں تک یہ صورتحال
مسلمانوں کے لیے بہت تکلیف دہ رہی ۔1853کے آئینی حکم میں مسلمانوں کو ملیجھ
نسل قرار دیاگیااوربہت براسلوک کیاجاتارہاتاآنکہ 1963کے قانون میں سب
شہریوں کو برابر کے حقوق میسر آئے لیکن مسلمانوں کے خلاف پھر بھی امتیازی
سلوک جاری رہاتاہم بادشاہ نے اس قانون کے بعد اپنی پنچائت میں ایک مسلمان
رکن کو شامل کیااور مدرسے کھولنے کی اجازت بھی مل گئی۔سرحد پار کے مسلمانوں
نے اس قانونی رعایت کے بعد اپنے مسلمان نیپالی بھائیوں کی دل کھول کر مددکی
اور 2008کے مطابق نیپالی سرحد کے ساتھ ہندوستان کے علاقے میں 300مدارس اور
اس سے زیادہ مساجد ہیں جبکہ 181مدارس اور282مساجد نیپال کے اندرواقع ہیںاور
اس کے علاوہ بہت سے سکولز اور دینی تربیت کے دیگر ادارے بھی قائم
ہیں۔1991کے مطابق حکومتی اعدادوشمارمسلمانوں کو 3.4%بتلاتے ہیں جبکہ
مسلمانوں کا دعوی ہے کہ وہ 10%کی تعداد کے حامل ہیں۔ |