احسن چوہدری
کسی ایک خاندان میں سے اس خاندان کا سرپرست یا اس خاندان کی سربراہ فوت ہو
جائے تو وہ خاندان ٹوٹ جاتا ہے، کچھ سربراہ کے جانے کا غم ، اور کچھ گھر کے
اخراجات پورے کدھر سے ہوں گے ؟ اس کا غم لیکن اس فرد کی اولاد اگر بڑی ہو
تو وہ گھر سنبھال لیتی ہے اور گھر کو چلا لیتے ہیں لیکن اس فرد کے بچے
چھوٹے چھوٹے ہوں تو ان کا گھر کہاں سے چلے تب تو دل بہت روتا ہے خاص کر اس
بیوہ ہونے والی عورت کا جو اپنے بچوں کے بارے میں جب سوچتی ہے کہ یہ بچے اب
کدھر سے پڑھیں گے ، اگر میں ان کو کام پر لگا دوں گی تو یہ پڑھ نہیں سکیں
گے ، اگر میں خود کام کاج کر کے ان کے اخراجات پورے کروں تو یہ میری نظروں
کے نیچے کم رہیں گے اور اس معاشرے میں یہ بگڑ جائیں گے ،اور جب سربراہ فوت
ہو جائے تو سب چھوڑ دیتے ہیں چاہے اس دنیا سے جانے والے کے بھائی کیوں نہ
ہوں لیکن اس آزمائش پر ان بچاروں کے کون کام آئے لیکن وہ اللہ کے اس فیصلہ
پر بے بس ہو جاتے ہیں اور اللہ کی اس رضا کو تسلیم کر لیتے ہیں لیکن ان کا
دل ہر وقت روتا ہے کہ اب گزر کیسے ہو گا؟ پس وہ خاندان اللہ کے سامنے دعا
کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا۔
جب اللہ نے ملک الموت کو آدم کی جان نکالنے کا حکم دیاتو ملک الموت نے
انکار کر دیااور اللہ سے کہا اے میرے رب اور میرے مالک ، میں تمہارے حکم سے
کیسے انکار کر سکتا ہوں؟ لیکن جب میں آدم کی اولاد کی جان قبض کروں گاتو یہ
لوگ مجھے بد دعا دیں گے اور آپ نے اس مخلوق کو اشرف المخلوقات بنایا ہے (یعنی
تمام مخلوق سے بہتر مخلوق) اور اس طرح تمام لوگ مجھے گالیاں اور بددعائیں
دیں گے کہ ہمارے عزیز کو ملک الموت لے گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، تم ان
کی جان نکالو گے لیکن یہ لوگ یہ کبھی نہیں کہیں گے کہ ہمارے اس عزیز کو ملک
الموت لے گیا ہے بلکہ میں کوئی بہانہ بناﺅں گا۔ ہر کام اللہ کی رضا سے ہوتا
ہے اس میں بندہ اپنی کوئی مرضی نہیں کر سکتا، اب لوگ بیماریوں، ٹریفک
حادثات اور لڑائیوں جھگڑوں سے مر رہے ہیں، جو بھی اس دنیا فانی سے رخصت
ہوتا ہے کسی وجہ سے وہ مرتا ہے ،لیکن آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہمارے
فلاں عزیز کو ملک الموت لے گیا ہے بلکہ کہتے ہیں کہ اس فرد کو فلاں بیماری
تھی یا اس فرد کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا ہے یا اللہ کو ایسے ہی منظور
تھااور اس میں اللہ کی رضا ہے اور ہم اللہ کی رضا کے سامنے کچھ نہیں کر
سکتے، اس دنیا سے ہر ایک کو رخصت ہونا ہے چاہے وہ کیسے بھی ہولیکن اس نے
ایک دن خالق حقیقی سے جا ملنا ہے، ہمیں بھی اپنے آپ کو اس دن کے لیے تیار
کر لینا چاہیے۔
آ پﷺنے ایک حدیث میں فرمایا، اگر کوئی فرد کسی یتیم بچے کے سر پر پیار و
محبت اور شفقت سے ایک مرتبہ ہاتھ پھیرتا ہے تو اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال
آجائیںتو اس فرد کے اتنے سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیںلہذا ہمیں یتیموں کا
خاص خیال رکھنا چاہیے کیونکہ یہ آپ کی یہ حدیث ہے نہ کہ کوئی آجکل کہانی
نہیں، ایک روز آپ ﷺ کے صحابی نے آپ کو بتایا کے اے اللہ کے نبی میرے بھتیجے
یتیم ہیں ، ان کے ہمسائے کے گھر کھجور لگی ہے ، اگر کسی پرندہ کی کھائی
ہوئی کھجور نیچے گر جائے تو میرے بھتیجے اس کو اٹھا کر کھا لیں تو وہ کھجور
کا مالک ان کے منہ سے نکال لیتا ہے، آپﷺ ان کے گھر گئے اور اس فرد سے بات
کی کہ مجھے یہ ٹیڑھی کھجور دے دو میں تمہیں جنت کی کھجور کی بشارت دیتا ہوں
، وہ کھجور کا مالک کچھ عرصہ پہلے ہی مسلمان ہوا تھا، وہ بولا یہاں ہی جو
اس کے بدلے دینا ہے بات کرو پتہ نہیں کون جنت جاتا ہے۔ آ ُپ واپس آئے اور
اعلان کیا، جو مجھے اس فرد سے وہ ٹیڑھی کھجور خرید کر دے گا میں اسے جنت کی
کھجور کی بشارت دیتا ہوں، حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس کھجور کے مالک
کے پاس گیا اور اسے کہا کہ مجھ سے اس کھجور کے بدلہ میں تم میرے باغ سے ایک
کھجور لے لو لیکن وہ نہیں مانا آہستہ آہستہ وہ چالیس کھجوروں پر مان گیا۔
اور وہ کھجور آپ ﷺ نے ان یتیم بچوں کے نام کر دی، اسی طرح آپ ﷺ نے یتیموں
کے ساتھ بہت ہمدردی کی۔آپ ﷺ نے خود یتیموں کے ساتھ ہمدردی کی اور ہمیں بھی
یتیموں کے ساتھ ہمدردی کرنے کی تلقین کی۔
میرے والد صاحب پہلے ایک گورنمنٹ کے سکول نیو روشنی سکول بونگی کلیاں(قصور)
میں پڑھاتے رہے ہیں اس سکول میں سٹوڈنٹ بڑے بڑے تھے میرے والد محترم نے
مجھے بتایا کہ میرے سٹوڈنٹ مجھ سے بڑے تھے اور ان میں سے کچھ کی تو شادی
بھی ہوئی تھی ۔ میں اور میرے والد محترم ، ہم عید پر اس گاﺅں میں گئے کہ ہم
ان سے مل لیں، ہم ان کے گاﺅں گئے اورمیرے ابونے کہاکہ سب سے پہلے اپنے
سٹوڈنٹ شبیر کے پاس چلتے ہیں کافی سالوں کے بعد میں یہاں آیا ہوں اب ان کے
گھر ڈھونڈنے پڑیں گے تو ہم نے لوگوں سے پوچھ کر ان کے گھر پہنچے تو وہاں
ہمیں اس کا کزن ملا جس نے ہمیں بتایا کہ شبیر گھر میں نہیں ہے اور وہ گم ہو
گیا ہے ، کچھ سال پہلے اسے بہت تیز بخار تھا اوروہ اپنے سالہ کے ساتھ لاہور
میں علاج کے لئے جا رہے تھے اور وہ گاﺅ ں سے موٹر سائیکل پر گئے اورٹھینگ
موڑ( میں شہر) میں پہنچ کر شبیر کے سالہ نے شبیر کو وہاں اتارا اور کہا کہ
یہاں بیٹھنا اور کہیں جانا نہیں میں یہا ں اپنے ماموں زاد کزن کے گھر موٹر
سائیکل رکھ کر آتا ہوں پھر یہاں سے بس پر سوار ہو کر لاہور جائیں گے اور وہ
چلا گیا اور اس کے کہنے کے مطابق تقریباُُ 10منٹ کے بعد وہ وہاں واپس آیا
جہاں پر شبیر کو بیٹھا کر آیا تھا، لیکن آکر اسے وہاں نہ پایا اور سمجھا کہ
شبیر لاہور چلا گیا ہے اور غصہ سے گھر واپس آگیا اور بتایا کہ شبیر سے اتنا
بھی انتطار نہ ہو سکا اور وہ لاہور چلا گیا اب میں کیا کرتا اسے کہاں لاہور
جا کر ڈھونڈتا نہ تو اس کے پاس کو ئی موبائل ہے جس پر اس سے بات کر کے اس
کے پاس پہنچ جاتا، تو شبیر کے والدنے کہا کہ میں کل خود لاہور جاﺅں گا اور
اسے ڈھونڈ کر اس کا علاج کر وا کر آؤں گا، اگلے دن اس کا والد لاہور گئے
اور سروس ہسپتال جہاں پر شبیر کا جانے کا پروگرام تھا وہاں جا کر اسے ڈھونڈ
ا سا را ہسپتال چھان مارا لیکن اس کا کہیں سے کچھ پتہ نہیں چلا اور ان کے
والد بھی واپس آگئے اور انہیں اس بات پر یقین ہو گیا کہ شبیر کو کسی نے
اغواہ کر لیا ہے، نہ تو دشمنی کسی سے تھی ، شبیر کے چھوٹے چھوٹے چھے بچے
ہیں لیکن آج تک اسے آٹھ سے نو سال ہو گئے ہیں لیکن اس کی کچھ خبر نہیں ملی،
ان کا دل ڈوبتا رہتا ہے کہ ان کا والد پتہ نہیں کس حال میں ہوگا پتہ نہیں
اس کے ساتھ کیا بیت رہی ہو گی ؟ پتہ نہیں زندہ ہو گا یا اس دنیا سے چلا گیا
ہے، ہم تو اس کا لمحہ انتظار کرتے رہتے ہیں یا یہ حضرت یوسف ؑ والا واقعہ
کی طرح تو نہیں ہے؟ لیکن اس کے گھر والے صبر کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے ،
شبیر کے تین بھائی ہیں لیکن وہ ان کے بچوں کے پاس نہیں رہتے اور وہ ان سے
دور علاقوں میں چلے گئے ہیں لیکن شبیر کا والد اس کے بچوں کی دیکھ بھال
کرتا ہے اوران کے پاس رہتا ہے، جب ہم وہا ں تھے تو ہمیں شبیر کا ایک بیٹا
بھی ملا جس کا نام عبداللہ تھا ، میرے والد نے اس کا نام پوچھا اور اسے
پیار کیا جس کی عمر تقریباُُ 12سال تھی میں نے جب اسے دیکھا تو دل میں بہت
ترس آیا کہ وہ بکریاں چراتا ہوا گھر آیااوربالکل معصوم تھا ، اس غم کے موقع
پر تو شبیر کے بھائی بھی چھوڑکر چلے گئے، یہ فقرہ بڑا سننے میں آیا ہے کہ
جب کسی کے پاس پیسے ہوں تو اپنے تو اپنے ہی ہوتے ہیں بلکہ غیر بھی اپنے بن
جاتے ہیں لیکن جب پاس کچھ نہ ہو تو اپنے بھی اپنے نہیں رہتے، لیکن اللہ نے
ان کا رزق جہاں لکھا ہے انہیں ملتا رہتا ہے ، اللہ تو پتھر میں رہے والے
کیڑے کو بھی رزق دیتا ہے اور ایک نابینا سانپ کو بھی دیتا ہے اس کے لیے
اللہ کوئی وسیلہ بناتا ہے۔
پاکستان میں بہت سے غریب اور یتیم ہیں اور بہت ساری امدادی ٹیمیں بھی ہیں
اور وہ سب ٹیمیں لوگوں سے غریبوں کے نام کا فنڈ لیتے ہیں اور خود کھاتے ہیں
کچھ امیر بھی اپنے آپکو غریب کہتے ہیں اور لوگوں سے حتیٰ کہ غریبوں سے بھی
لیتے ہیں لیکن اس میں دینے سے کوئی انکار نہیں کر سکتا جیسا کہ ہمارے
موبائل فون سے ہر ری چارج پر 15%ٹیکس کٹتا ہے نہ تو وہ موبائل کمپنی والے
کاٹتے ہیں اور نہ ہی گورنمنٹ کو ملتے ہیں بلکہ ان امیروں کو ملتے ہیں جو
بینظیر کے دور میں دس پرسنٹ کہلاتے تھے، لیکن اس پاکستان میں ایک تنظیم
فلاح غربت فاﺅنڈیشن پاکستان جو کہ غریبوں اور یتیموں کی امداد کر رہی ہے ان
کی ایک بہت بڑی ٹیم جو کہ غریبوں کی امداد میں مصروف ہیں اور بغیر کسی
معاوضہ کے کام کر رہے ہیں صرف و صرف نیکی کی خاطر کام کر رہے ہیں۔
پاکستان میں کچھ غریب سفید پوش ہیں جوکہ اپنے حق کے لیے نہیں بولتے،لیکن
کچھ امیر لوگ جو غریب بنے پھرتے ہیں اور غریبوں سے اپنے لیے فنڈ لیتے ہیں
ٹیکسز کی صورت میں، ہر چیز پر مہنگائی کیوں ہے؟ کیونکہ ان امیروں نے ٹیکس
بڑھا کر اپنے لیے فنڈ اکٹھا کر رہے ہیں موبائل فون میں ہر ریچارج پر ٹیکس
اور وہ ٹیکس بھی ہر ایک کی جیب سے نکلتا ہے اوریہ ٹیکس ہر یتیم کی جیب سے
بھی نکلتا ہے ، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ دن قریب ہیں جس دن فٹ پاتھ پر چلنے
کے بھی ٹیکس شروع ہو جائے گا۔
حضرت محمد ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا، میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت
میں اس طرح ہوں گے جس طرح ہاتھ میں شہادت اور درمیان والی انگلی کے درمیان
فاصلہ ہے۔(آپ نے اشارہ کرتے ہوے بیان کیا)
قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ نے یتیموں کے بارے میں بیان کیا ہے اور
یتیموں سے نہائیت ادب اور پیار ومحبت اور شفقت سے رہنے کی تلقین کی ہے۔ |