پیر کوہندوستان کے دارالحکومت
نئی دہلی کے قیام کو 100 سال مکمل ہوگئےتاہم اس موقع پر حکام کی جانب سے
کسی باضابطہ تقریب کا انعقاد نہیں کیا گیا۔آج سے ٹھیک سو برس قبل برطانیہ
کے اس وقت کے بادشاہ جارج پنجم نے ایک بڑی تقریب میں دارالحکومت کو مشرقی
شہر کولکتہ سے شمال کی جانب دفاعی نکتہ نگاہ سے نسبتاً محفوظ مقام پر منتقل
کرنے کا اعلان کیا تھا۔اس مقصد کیلئے برطانوی حکمرانوں نے ہندوستان میں مغل
بادشاہت کے دور میں دارالخلافہ رہنے والے دہلی کے نواح میں ایک نیا شہر
بسایا۔نئے شہر میں امورِ مملکت کی انجام دہی کیلئے نوآبادیاتی طرز کی کئی
عمارات تعمیر کی گئیں جبکہ شاہِ برطانیہ کے ہندوستان میں نمائندے
’وائسرائے‘کیلئے ایک محل بھی تعمیر کیا گیا۔کشادہ سڑکوں اور چوراہوں،
عالیشان باغات اور برطانوی حکمرانوں کیلئے وسیع و عریض رہائش گاہوں سے مرصع
یہ شہر نئی دہلی کہلایا اور 1947میں ہندوستان کی برطانوی تسلط سے آزادی کے
بعد بھی اس شہر کی دارالخلافہ کی حیثیت برقرار رہی۔جبکہ حکومت کی جانب سے
شہر کے قیام کے 100 برس مکمل ہونے کے موقع پر کوئی تقریب منعقد نہیں کی گئی
جس کا بظاہر سبب شہر کی نو آبادیتی تاریخ کا اعتراف کرنے میں ہندوستانی
حکام کی ہچکچاہٹ ہے۔تاہم حکام کا کہنا ہے کہ و ہ آئندہ برس شہر کے قیام کی
صد سالہ تقریبات منعقد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جن کا آغاز جنوری سے ہوگا۔
حکام کے مطابق تمام برس جاری رہنے والی ان تقریبات میں شہر کی ثقافتی تاریخ
کو اجاگر کیا جائے گا۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا پایہ سلطنت ہونے
کیساتھ ساتھ یہ شہر تیزی سے معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ملک کی کاروباری
سرگرمیوں کا مرکز بھی بنتا جارہا ہے۔
وائسرائے جارج پنچم سے پہلے بھی کم از کم 6 حکمرانوں نے دہلی کو بسانے کی
کوشش کی مگر ہر بار محض اجڑنے کے خوف کی وجہ سے دہلی نہیں بسی۔ 1911 میں
کنگ جارج پنچم کے ذریعے برطانوی دورمیںہندوستان کے دارالحکومت کلکتہ جسے
موجودہ میں کولکتہ کہا جاتا ہے‘یہاں سے دہلی لانے کے اعلان کے ساتھ ہی دہلی
کو ایک نئی صبح ملی تھی جبکہ دہلی کو بنانے اور سنوارنے کی کوششیں گزشتہ
آٹھ سو سال سے چلی آ رہی ہیں۔ حالانکہ دہلی کی موجودہ شکل میں شاہجہاں اور
جارج پنچم کے راج کی ہی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ سو سال پہلے جارج پنچم نے
دہلی کو دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ دارالحکومت سے
پہلے دہلی پنجاب صوبے کی محض ایک تحصیل تھی۔ دہلی کو دارالحکومت بنانے
کیلئے دہلی اور بلبھ گڑھ ضلع کے 128 دیہاتوں کی زمین ایکوئر کی گئی۔ اس کے
علاوہ میرٹھ ضلع کے 65 دیہاتوںکو بھی شامل کیا گیا۔ میرٹھ ضلع کے گاؤں کو
ملا کرجمناپار علاقے بنایا گیا۔نامورمورخ پروفیسر رضوان قیصر نے بتایا کہ
دہلی ہمیشہ سے تہذیبوں کا سنگم رہی ہے۔ یہاں ملک کی زیادہ تر ثقافتیں ساتھ
رہی ہیں اور کبھی بھی ایک تہذیب ایک دوسرے پر حاوی نہیں ہوئی۔اس کے علاوہ
یہ جغرافیائی طور پر بھی ہمیشہ سے حکمرانوں کی پسندیدہ جگہ رہی۔
جمنا ندی اور اراولی پہاڑیوں کے درمیان بسی اس جگہ کا کئی بڑے تجارتی شہروں
سے ہمیشہ سے وابستگی رہی ہے۔اس وجہ سے بھی یہ علاقہ دارالحکومت کے طور پر
پسند کیا گیا۔ حالانکہ انگریزوں کے ذریعہ کلکتہ سے دارالحکومت کو دہلی لانے
کی اصل وجہ وہ سیاسی وجہ بتاتے ہیں۔ تقسیم بنگال کے فیصلہ سے بنگالیوں کے
بغاوت کا مسلسل نشانہ بن رہی برطانوی حکومت کے لئے اپنے سلطنت کو بچانے کے
لئے بھی یہ فیصلہ لینا ضروری ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو خوش کرنے
کے لیے انہوں نے دارالحکومت کے طور پر دلی کو منتخب کیا۔آج یہ ایک
کروڑ86لاکھ آبادی کے ساتھ یہ ہندوستان کا دوسرا اور دنیا کا آٹھواں سب سے
بڑا شہر ہے۔
تاریخ دانوں کی مانیں تو دہلی میں ایک شہر کے طور پر سات بار بسی اور پھر
اجڑی۔ یہ سلسلہ 1191 سے شروع ہوا جب تومر اولاد سے قطب الدین ایبک نے قلعہ
رائے پتھورا پر اپنا قبضہ قائم کیا تھا۔ فی الحال یہ جگہ دہلی کے ادھ چینی
گاؤں کے پاس ہے جہاں آج بھی قلعہ کی دیواروں کے کچھ باقیات موجود ہیں۔دوسری
کوشش میں 1303 میں علاالدین خلجی نے اس جگہ کو منتخب کیا۔ آثار قدیمہDelhi
Circle of Archaeological Survey of India کے افسر محمدکے کے کیمطابق مغربی
ایشیا میں حملوں کی وجہ سے مغربی اور وسطی ایشیا میں منگولوں کی سلطنت ٹکڑے
ٹکڑہ ہو رہی تھی جس کی وجہ سے وہاں کے کئی آرکی ٹیکٹروں نے دہلی میں پناہ
لی اور اپنے ساتھ سلجوقی طرز تعمیر کی روایت بھی لے آئے۔ یہی قلعہ کی طرز
تعمیر میں بھی نظر آتی ہے۔ یہ قلعہ بھی آج کھنڈر میں تبدیل ہو گیا ہے۔تیسری
بار 1321 میںغیاث الدین تغلق نے یہاں حکومت کی۔ تغلق آباد دہلی کے سات
شہروں میں سے تیسرا شہر تھا۔ لال بلوآئی پتھر سے بنے اس قلعے کے باقیات قطب
مینار سے تقریبا 8 کلومیٹر پہلے آج بھی نظر آتے ہیں۔ اس کی دیواریں ہی
باقیات کے طور پر موجود ہیں۔ اس کے بعد 1325 میں محمد بن تغلق نے اس شہر کو
پھر سے بسانے کی کوشش کی اور یہاں 1351 تک حکومت کی۔ پانچویں دہلی کے طور
پر فیروز شاہ تغلق نے اسے 1351 میں منتخب کیا۔
کہا جاتا ہے کہ 1388 تک یہاں ایک بار بھی نہ تو وباپھیلی اور نہ ہی بیرونی
حملے ہوئے۔ اس کے باوجود یہ پھر اجڑی۔ اندرپرستھ دور کے ڈھانچہ والے پرانے
قلعہ کو 1538 میں شیر شاہ سوری سوری نے اپنے ہاتھوں میں لیا اور یہاں دین
پناہ کے نام سے اس جگہ کی بنیاد رکھی۔ آخر میں شاہجہان آباد کے طور پر 1638
میں دہلی ایک شہر کے طور پر قائم ہوتا ہوا نظر آیا۔اسی شہر میں آج کا
چاندنی چوک اور لال قلعہ آتا ہے۔ اے ایس آئی کے مطابق شاہجہان آباد کو
گھےرنے والی قدیمی فصیل اور شہر کاخاکہ 1650 میں تیار ہوا جو 1857 تک اپنی
اصل صورت میں رہا۔ اس کے بعد برطانوی دور اقتدار میں یہ پھر سے دارالحکومت
کے طور پر اپنایا گیا جو آج ایک خوبصورت بسی دارالحکومت کے طور پر ہمارے
سامنے موجود ہے۔شہر کی تعمیر کیلئے یہاں آرٹی ٹیکٹ ار ایڈون لٹین اور ہربرٹ
بیکر کو ایک منظم دارالحکومت بنانے کی ذمہ داری دی گئی جن کی کوششوں کا ہی
نتیجہ ہے کہ آج ملک کے دارالحکومت اس شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ خوبصورت طرز
تعمیر اور منظم شہر تعمیر کے طور پر دہلی کا پارلیمنٹ ہاؤس ، نارتھ اور
ساؤتھ ایونیو ، خوبصورت اور منظم سڑکیں ، بڑے ہوٹل ، کناٹ پلیس ،قرولباغ ،
پہاڑگج ، ریگل تھیٹر جیسی کئی تاریخی عمارتیں تبھی کی دین ہیں جو آج بھی
ملک کی ترقی میں غیر معمولی معاونت بہم پہنچا رہی ہیں۔
سو سال پہلے 12 دسمبر کو جمنا کنارے براڑی میں سجے دربار میں برطانیہ کے
کنگ جارج پنچم نے جہاں نئے دارالحکومت کا اعلان کیا تھا‘ اب اسی جگہ پر
کورونیشن پارک کوفروغ دیاجارہا ہے۔ 57 ایکڑ میں پھیلے اس پارک کی ترقی کا
فیصلہ تقریبا تین سال پہلے دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی اعلی سطحی میٹنگ میں
کیاگیا تھا ، لیکن ابھی تک اسے پوری طرح سے تیار نہیں کیا جا سکا ہے۔
البتہ دسمبرکا مہینہ گزرنے کے باوجود اس کی تعمیر کا کام جاری رہے گا۔
کورونیشن پارک میںداخل ہونے کیلئے ایک بڑا دروازہ تعمیرکیا جائے گا
اورکورونےشن کالم کے چاروں طرف پتھر لگائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ یہاں پر
ایک پلیٹ فارم کی تعمیر بھی کی جائے گی جس پر جارج پنچم ، لارڈ ہارڈنگ
سمیت5 افراد کے مجسمے نصب کئے جائیں گی اور ان کے اوپر ایک چھتری کی تعمیر
کی جائے گی۔اس کے علاوہ یہاں پر ایک 31 میٹر اونچا لےگ پوسٹ لگایا جائے گا
جس پر ترنگا لہرایا جائے گا۔ ساتھ ہی 1947 میں آزادی کے وقت کی سرگرمیوں کا
رواں عکاسی کرنے کیلئے ایک پلازہ کی تعمیر بھی کیا جائے گا جس میں تمام
پرانی تصویریں رکھی جائیں گی۔ یہاں پر ایک اے پی تھیٹر بھی تعمیر کیا جائے
گا۔
ڈی ڈی اے کے رابطہ عامہ مشیر نمودھر کے مطابق یہاں پر محض2 فٹ کی کھدائی پر
پانی نکل آتا ہے۔ بارش اور پانی کی وجہ سے ہی پارک کی ترقی میں تاخیر ہوئی
ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے مارچ 2012 تک مکمل کر لیا جائے گا۔ ماہرین کے
مطابق 12 دسمبر 1911 کو برطانیہ کے کنگ اور کوئن نے کورونیشن پارک میں نئے
دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا۔ 12 دسمبر کی رات کو دربار کا اختتام
ہوا۔ دارالحکومت کی تعمیر میں 29 ہزار مزدوروں نے کام کیا اور اس کے تعمیر
پر ایک سو ملین پونڈ خرچ کئے گئے۔ لٹین نے مشورہ دیا تھا کہ دارالحکومت میں
کوئی بھی عمارت 45 فٹ سے اونچی نہ ہو۔ پنڈال میں لگ گئی تھی۔ آگ پہلے شاہی
دربار کا انعقادپنڈال میں منعقدکرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن چانک
آتشزدگی کی وجہ سے دربار کو کھلے میدان میں منعقد کیا گیا۔ شاہی جلوس لال
قلعہ سے شروع ہوکر جامع مسجد ، پریڈ میدان ، چاندنی چوک ، کشمیری گیٹ ، سول
لائنس ، مال روڈ سے ہوتا ہوا شاہی دربار والے میدان تک پہنچا تھا۔لٹیس نے
نئی دہلی کی سرحدیں پہاڑگنج ریلوے اسٹیشن ، خونی دروازہ ، دہلی گیٹ ، پرانا
قلعہ ، ریس کورس ، ایڈیشنل رج روڈ تک مقرر کی تھیں۔ اوکھلا سے آنے والی ایک
نہر اس علاقے کے درمیان سے گزرتی تھی جس سے آبپاشی کا کام لیاجاتا تھا۔ |