وہ بھی ہم جیسے نہیں

عدنان فاروق

کسی بھی ملک یا ریاست کا اندازہ اسکی داخلی صورتحال مثلاً عدلیہ اور انتظامی اداروں کی آزادی اور امن و امان سے لگایا جاتا ہے۔ اس میں اہم ترین ادارہ جو براہ راست عوام سے متعلق آئینی و قانونی اور اخلاقی لحاظ سے عوامی مفادات انکی جان و مال کا تحفظ جسکی ذمہ داری ہے وہ محکمہ پولیس ہے۔ کسی نقصان کی چھان بین اور بعدازاں عدالت میں کسی کے گناہگار یا بے گناہ ہونے کا انحصار اسی محکمے کی فائل ورک یاتفتیش سے ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے اگر یہ محکمہ نہ ہو تو تو پھر ہر طرف انارکی اور بدامنی کا راج ہو۔ مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ عوام کو سب سے زیادہ شکایات بھی اسی محکمہ سے ہیں۔ہمارے تھا نے وہ عقوبت خانے ہیں جو برطانوی راج میں حکومت کے باغیوں کیلئے بنائے گئے تھے۔ جن کو دیکھ کر شریف آدمی پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے اسکی وجہ وہ بدنما واقعات ہیں جو اکثر ہم سنتے بھی ہیں اور آئے روز اخبارات و ٹی وی پر اسکی تصاویر بھی دیکھتے ہیں ۔ کسی غریب ریڑھی بان، چھابڑی والے، یا پھر کسی چھپر ہوٹل پر مفت کھانا کھایا، مفت سودا لیا تو پیسوں کے تقاضے پر وہی محافظ جلاد بن جاتے ہیں اور وہ بے چارہ مزدور مزید کچھ دیکر ہی جان چھڑاتا ہے جبکہ یہی وردی پوش بڑے بڑے سٹوروں اور ریستورانوں پر اپنی پوری ایمانداری سے ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔ اور کبھی انکی زبان سے کوئی ناشائستہ لفظ ادا نہیں ہوتا۔ چونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ یہاں پر ہماری ذرہ سی غفلت یا لاپروائی ہماری نوکری کیلئے خطرناک ہوگی اور یہی گھٹن، غصہ وہ بے اختیار اور لاچار لوگوں پراتارتے ہیں جنکی شنوائی ماسوائے اللہ کے کسی دنیاوی طاقت کے سامنے نہیں ہوتی۔

برصغیر پاک وہند کا معاشرہ بنیادی طور پر جاگیر درانہ نظام کے گرد گھومتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسمبلیوں میں اکثریت انہیں لوگوں کی ہوتی ہے اور یہ جاگیر دار طبقہ اپنے کارکنوں اور ہاریوں کو ہر صورت اپنے زیرنگین رکھنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کیلئے انہیں بہرصورت پولیس کا تعاون درکار ہوتا ہے۔ اسی مقصد کیلئے وہ اپنے علاقے میں اپنی مرضی کا SHOلگواتے ہیں جو تنخواہ تو ریاست کے خزانے سے لیتا ہے مگرکام وہ چوہدری صاحب ،خان صاحب یا سردار صاحب کا کرتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں اس موضوع پر بے شمار فلمیں اور ڈرامے بھی بن چکے ہیں اور مقبول بھی ہوئے ہیں اسکی بنیادی وجہ یہ ہےکہ ان فلموں اور ڈراموں میں انکے جذبات کی ترجمانی ہوتی ہے حالانکہ اسی محکمے کی ذیلی شاخیں بھی ہیں مثلاًCIA, FIAٹریفک پولیس وغیرہ ۔مگر ان ذیلی اداروں سے عوام کو شکایات نہ ہونے کے برابر ہیں وہ اس لیے کہ یہ ادارے اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرتے اور میرٹ پر تفتیش کرتے ہیں۔ پھر سب سے بڑی اور اہم بات یہ ہوتی ہے کہ یہ ادارے صرف اور صرف ان لوگوں کو پکڑتے ہیں جو واقعی مجرم ہوتے ہیں عموماً دیکھنے میں یہ بھی آیا ہے کہ جو پولیس آفیسر مقابلے کے امتحان کے ذریعے آتے ہیں ان کا رویہ عوام سے دوستانہ ہوتا ہے اور وہ کسی سیاسی اور جاگیر دارانہ دباﺅ کا شکار بھی کم ہی ہوتے ہیں اس کے برعکس پرموٹی آفیسران کی گردن میں سریا ہوتا ہے اور انکے ٹارچر کے قصے بھی زبان زدِ عام ہیں۔

موجودہ حکومت کے دو بڑے اہم نام اورموجودہ اپوزیشن رہنما سمیت موجودہ چیف جسٹس صاحب ماضی قریب میں براہ راست پولیس گردی کا شکار ہوچکے ہیں چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اب جبکہ بااختیار ہیں ایسی قانون سازی کریں کہ کسی شیرجوان کو کسی مظلوم و بے گناہ پر ظلم کرنے کی ہمت نہ ہو۔ مگرائے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

اسی محکمہ میں کچھ اچھے لوگ بھی ہیں جنکی لوگ مثالیں دیتے ہیں مثلاً سابق آئی جی چوہدری سردار محمد، موجودہ DIGآزاد جموں و کشمیر یٰسین قریشی،PDSPچوہدری مشتاق، نائب محرر سٹی تھانہ میرپور چوہدری سعید اور بے شمار بے نام ہیں جو اس محکمہ کی نیک نامی کا باعث ہیں۔یہی اچھے نام، اچھے جوان ہماری جان و مال عزت آبرو کے نہ صرف محافظ ہیں بلکہ بے شمار جوان اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے بم دھماکوں اور شرپسندوں کی گولیوں سے جام شہادت بھی نوش کر چکے ہیں، یہ نہ صرف ہمارے بھائی تھے بلکہ وطن عزیز کے ہر شہری کو ان پرفخر بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اور محکمہ پولیس اس بات پر متفق ہوں کہ یہ وردی پوش ، ریڑھی بان چھابڑی فروش اور غریب مزدور الغرض معاشرے میں بسنے والے ہرشخص کورہن سہن کیلئے مساوی حقوق حاصل ہیں۔اگر محکمہ پولیس کے یہ شیر دل اپنے اختیارات سے تجاوز نہ کریں تو یہی غریب اور چھابڑی فروش لوگ انکی راہ میں آنکھیں بچھائے کھڑے ہونگے جس طرح مشکل وقت میں افواجِ پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ پوری قوم کھڑی ہوتی ہے۔
Zulfiqar Shah
About the Author: Zulfiqar Shah Read More Articles by Zulfiqar Shah: 3 Articles with 2084 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.