انسانی زندگی نشیب و فراز سے
عبارت ہے۔ جس طرح ایک فرد ماحول اور معاشرے میں بسنے والے دیگر افراد سے
متاثر ہوتا ہے اور انہیں بھی متاثر کرتا ہے بالکل اسی طرز پر ماحولیاتی
تبدیلیاں اور موسمی تغیرات بھی انسان کو بے حد متاثر کرتے ہیں۔ اسی طرح غم
یا خوشی کے عنوان سے منسوب اوقات، ایام یا جگہیں بھی اپنے اپنے انداز میں
افراد میں مثبت یا منفی ردعمل کا موجب بنتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم کائنات
کی رنگینیوں میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ اشیاءکا درست طور پر تجزیہ کرنے کی
طرف ذرا برابر متوجہ نہیں ہوتے اور دوسروں کی دیکھا دیکھی نامعلوم سمت میں
بہے چلے جاتے ہیں۔ ہم کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ ماحول میں خوشی
یا غم سے نتھی کردہ اوقات و ایام درحقیقت ایسے ہی ہیں یا کسی نے خود کسی دن
کو خوشی اور کسی دن کو اظہار تاسف کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔۔۔۔۔؟
ثقافتی اثرات (cultural impacts) بلاشبہ ایک حقیقت ہیں لیکن جس برق رفتاری
کے ساتھ ہم اپنی ثقافت میں مغربی تہذیب کے پیوند لگا رہے ہیں دنیا میں کہیں
بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ ایک طویل الذیل موضوع ہے۔سردست سال نو کی آمد
اور اس سے متعلق جذبات کے بے ڈھنگے اظہار پر مغزماری کرتے ہیں۔ ہر سال 31
دسمبر کی شام سے ہمارے ملک نئے سال کو خوش آمدید کہنے کیلئے لوگوں کی بڑی
تعداد گھروں سے باہر نکل آتی ہے۔ اس کار خیر میں سب سے زیادہ پرجوش ہمارے
نوجوان ہوتے ہیں۔ بائیکوں سے سائیلنسرز کے بوجھ شام سے قبل ہی اتار دئے
جاتے ہیں اور ان میں سماعت کش قسم کے ہارن چن دیے جاتے ہیں۔ پھر ملک کی
شاہراہوں پر سرکس کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ون ویلنگ اور مختلف زاویوں
سے کھلی سڑکوں پر ڈرائیونگ کے کرتب پیش کئے جاتے ہیں۔ شکم سیر نوجوانوں کی
ایک بڑی تعداد کاروں کے ٹائروں سے دھواں نکالنے کے فن کا مظاہرہ کرتی ہے۔
سردی و خنکی سے بے نیاز "خود مختار" جوڑے ساحلوں، پارکوں اور تفریح گاہوں
کا رخ کرتے ہیں۔ اور رات گئے تک آسمان بے حیائی کے شرمناک مناظر دیکھتا
رہتا ہے۔ وہ گردوں کہ اقبالؒ نے ہمارے نوجوانوں کو جس کا ٹوٹا ہوا تارا
قرار دیا تھا۔ اپنے تاروں کو حیرت سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح آتش بازی
اور فائرنگ کے نتیجے میں جو نقصانات ہر سال ہوتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ
نہیں۔ یکم جنوری کا تازہ اخبار جہاں سال ِنو کے اعزاز میں استقبالی مضامین
اور سالِ گزشتہ کی مختلف جائزہ رپورٹیں لے کر آتا ہے، اسی طرح سال کی آخری
شب میں ہونے والے مختلف جانی اور مالی نقصانات کی لرزہ خیز خبریں بھی لاتا
ہے۔ بڑے شہروں میں کھلے عام آتشیں اسلحے کا استعمال ایک عام سی بات ہے۔ ہر
سال اس بھونڈے شوق کے اظہار کے نتیجے میں درجنوں افراد اندھی گولیوں کا
نشانہ بن جاتے ہیں۔ اسی طرح موبائل فون ایس ایم ایس اور سوشل نیٹ ورکس پر
بھی غیر معمولی سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ عشرت کدوں پر پینے پلانے اور
رقص و سرور کی محافل کے ساتھ سال گذشتہ کو الوداع اور نئے برس کو خوش آمدید
کہا جاتا ہے۔(کیا یہ سچ نہیں۔۔۔۔؟) فوڈ اسٹریٹس اور ہوٹل رات بھر خواتین و
حضرات سے کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ نہ جانے کس کس انداز میں
New Year کو منایا (celebrate) جاتا ہے۔
یہ تو ایک مختصر سی کتھا تھی اس دیس میں سال ِنو کے استقبال اور اظہار مسرت
کی ۔خوشی منانے کے معتدل، سنجیدہ اور مہذب طریقے پر بات کرنے سے قبل خود اس
بات پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ آیا یہ اس قدر خوشی منانے کا موقع ہے بھی یا
نہیں؟ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ رات 11:59 PM سے 12:00 AM کے درمیان
صرف ایک سیکنڈ کا فاصلہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ایک ساعت میں دنیا میں کون سی
ایسی عجیب تبدیلی واقع ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں
اور عجیب و غریب غیر سنجیدہ حرکات پر اتر آتے ہیں ۔۔۔۔؟ چلئے ہم کچھ دیر کے
لئے مان لیتے ہیں کہ نئے سال کی آمد ایک خوشی کا موقع ہے۔ اس کے باوجود ذہن
میں ایک اور سوال انگڑائی لیتا ہے کہ آیا ہماری مذہبی تعلیمات، پاکیزہ
روایات اور صاف ستھرا تمدن اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم نئے سال کا اس
انداز میں استقبال کریں؟ یقینا جواب نفی میں ہوگا۔ یہ طرز عمل ہماری
تعلیمات اور روایات سے ذرا برابر میل نہیں کھاتا۔
ہماری دینی تعلیمات اور اسلاف کی زندگیاں تو یہ بتاتی ہیں کہ کسی بھی کام
کے آغاز میں اپنے خالق حقیقی کو یاد کرنا چاہئے۔ بحیثیت انسان اپنے
معاشرتی، اخلاقی اور دینی فرائض کی تن دہی اور دیانت داری سے ادائیگی کا
مخلصانہ عزم کرنا چاہئے۔ ہمیں تو نیک فال لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ سال نو
کی ابتداءمیں مالکِ حقیقی کے سامنے سر بسجود شب گزاری، انسانوں کی بھلائی
اور فلاح کی جانب ہماری توجہ کیوں نہیں جاتی؟ ہم یہاں یہ نیک فال کیوں نہیں
لیتے کہ "چلو سال کا پہلا دن ہے کوئی اچھا عمل کر لیتے ہیں تاکہ سال بھر اس
کی توفیق ملتی رہے"۔
آج سے چودہ صدیاں قبل ہمیں یہ اصول زریں دیا جا چکا کہ" مسلمان تو وہ ہے جس
کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں"۔ اس کے باوجود ہمیں بائیکوں
کے سائیلنسر کھول کر خوفناک آوازیں نکالتے ہوئے ان مریضوں کا خیال ہمیں
کیوں نہیں آتا جن کے دیدے عرصہ دراز سے دوگھڑی کی نیند کو ترس رہے ہیں۔ سہم
جانے والے معصوم بچوں اور ہسپتالوں میں کراہتے مریضوں پر رحم کیوں نہیں
آتا؟ کیا یہ عمل دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث نہیں ہے؟
کوئی ڈیڑھ ماہ قبل پیچھے کی بات ہے، کراچی ایکسپو سنٹر میںاےک ادبی تقرےب
میں شرکت کے بعد باہر سڑک پر نکلا۔ یہ رات کا آخری پہر تھا۔ ماحول پر سکون
تھا۔ اچانک ایک جانب سے فلک شگاف فراٹے بھرتی ہوئی بائیکوں کا جمگھٹا
نمودار ہوا۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ کچھ نوجوان لیٹے ہوئے اور کچھ بیٹھے
ہوئے مختلف انداز سے جان لیوا موٹرسائیکل ریس میں مشغول ہیں۔ ان میں سے بعض
ون ویلنگ کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ میں یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ایک تو
رات کا آخری پہر دوسرا قوم کے نوجوانوں کا یہ عجیب و غریب مشغلہ۔ اسی دم
مجھے اقبال کے یہ پرسوز اشعار یاد آگئے:
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا جس کا تو ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا تھا آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں کے تلے تاج سردارا
اقبال نوجوانوں کو جھنجوڑتے جھنجوڑتے اس دنیا سے گزر گئے مگر نوجوان ابھی
تک شاہین نہ بن سکے اورنہ جانے کب تک یہ لاحاصلی کا بے ہنگم سفر جاری رہے
گا۔
مذکورہ بالا سطور سے یہ تاثر ہرگز نہ لیا جائے کہ میں علاقائی، قومی اور
ملکی تہذیب اور تمدن کی اہمیت کو نظر انداز کر رہا ہوں۔ بس ایک اصول ہے جو
ہر وقت ملحوظِ نظر رہنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنے تمدن اور تہذیبی اقدار
کو تعلیمات اسلام کی چھلنی سے چھان کر اپنائیں۔ جب ہماری ثقافت ہمارے دین
کی ارفع تعلیمات و ہدایات سے متصادم نہ ہو تو اس کے اپنانے میں بظاہر کوئی
مانع نہ ہونا چاہئے۔ رہا مسئلہ مغربی تمدن (western culture) اور اجنبی
ثقافت کی اندھی تقلید کا، یہ افسوسناک ہے۔ اس کا بڑا اور بنیادی سبب ہمارے
اند رپایا جانے والا احساس کمتری ہے۔ انگریز برصغیر پر ایک طویل عرصہ
حکمرانی کے بعد واپس انگلستان سدھار گیا ،مگر یہاں کے باشندوں پر اس کا
فکری رعب تاحال قائم ہے۔ اپنے خالص اور صاف ستھرے تمدن کے بارے میں معذرت
خواہانہ رویہ اور مغربی انداز ِزیست کو قابل فخر سمجھنا دراصل اسی فکری
بیماری کا نتیجہ ہے ،جسے اہل دردِ نے "خوئے غلامی" کہا ہے۔ مغربی کلچر کی
بالادستی اور اس کے رجحان میں تیز رفتار اضافے کا ایک اور بڑا سبب ہمارا
میڈیا ہے۔ پرنٹ میڈیا بالعموم اور الیکٹرانک میڈیا بالخصوص اس مہم میں
سرگرم ہے۔ اور ہم سادہ لوح عوام ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے پیچھے
سرپٹ بھاگنا شروع کر دیتے ہیں۔
مختلف تہذیبوں اور تقافتوں کے اثرات اور ان کا باہم تصادم یہ ایک مستقل
موضوع ہے۔ جہاں تک سال نو کی تقریبات کا تعلق ہے تو اس بابت ہمارا طرزعمل
نظر ثانی کا متقاضی ہے۔ نیا سال خواہ وہ قمری ہو یا شمسی ہو اس کی
ابتداءذاتی محاسبے سے کرنا چاہئے۔ ہم میں سے ہر شخص مختلف قسم کی گھریلو،
خاندانی، معاشرتی، سماجی اور مذہبی ذمہ داریوں کا حامل ہے۔ ہر شخص کی ذات
سے دوسرے بہت سے افراد کے حقوق متعلق ہوتے ہیں۔ سال بیت جانے پر اور نئے
سال کے شروع میں ہمیں مذکورہ بالا ہلڑبازی کے مظاہرے کرنے کی بجائے اپنے آپ
کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہئے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں اور حقوق کی
ادائیگی کے حوالے سے سال بھر کی کاکردگی کا جائزہ لینا چاہئے۔ کسی بھی کام
کی ابتداءاچھی ہو تو پورا کام بہتر انداز میں انجام پذیر ہوجاتا ہے۔ ہم
زندگی کے جس شعبے سے بھی وابستہ ہوں ،ہمیں چاہئے کہ نئے سال کی ابتداءایک
ولولے اور جوش کے ساتھ کریں۔ اپنی جانب تفویض کردہ ذمہ داریوں کو حد درجہ
دیانت داری سے انجام دیں۔ سال بھر سستی اور کاہلی سے بچنے کا عزمِ صمیم
کریں۔ معاشرے میں بسنے والے ہر فرد (جو کسی بھی نسبت سے ہم سے متعلق ہو) کے
حقوق کا خیال رکھیں۔ اس انداز میں ہم اپنے سال کی ابتداءکر کے مثبت اور
تعمیری نتائج کی امید رکھ سکتے ہیں۔
بہرکیف یہ جو کچھ سالوں سے ہمارے ملک میں نئے سال کی آمد کو celebrate کرنے
کی روش زور پکڑ رہی ہے، اس کے منفی پہلوؤں کی جانب توجہ دینا از حد اہم ہے
ورنہ ہمیں اپنی روایات اور شناختیںبسر جانے میں کچھ زیادہ وقت نہ لگے گا۔
ذاکٹر صفدر محمود ہمارے ملک کے مایہ ناز مورخ بالخصوص پاکستانیات کے ماہر
ہیں۔ پاکستان کی قانونیات اور تاریخ میں حوالہ سمجھے جاتے ہیں۔ گذشتہ دنوں
انہوں نے اپنے ایک مضمون میں مغربی ممالک کے درآمد شدہ کلچر اور اس کے حیرت
ناک پھیلاؤ کا تذکرہ کرتے ہوئے انتہائی پرسوز انداز میں لکھا "یہ مغربی
شعبدے مغرب کے کلچر کا حصہ ہیں۔ اور ان کا محرک کمرشل یعنی پیسہ کمانا ہے۔
یہ میڈیا کا کمال ہے کہ ہم انہیں فیشن کے طور پر اپنا رہے ہیں۔ اور اپنے
معاشرتی اطوار سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ ہم مغرب کی عسکری یلغار، ڈرون حملوں
اور نیٹو حملوں کے خلاف تو زوردار احتجاج کرتے ہیں۔ امریکی جھنڈے جلاتے ہیں
اور امریکی صدر کے پتلے جلاتے ہیں اور یہودی منصوبوں سے بھی خوف زدہ رہتے
ہیں، لیکن امریکی ،یہودی اور مغربی فیشن اور تہواروں کے شعبدوں کو اپنے لئے
باعث صد افتخار سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ بھی ڈرون حملوں اور عسکری یلغار سے
کم خطرناک نہیں۔ وہ ان ہتھکنڈوں سے ہمارے ذہنوں کو متاثر کرتے اور جیبوں پر
ڈاکے ڈالتے ہیں اور ہمیں بے وقوف بناتے ہیں۔ بعض معاملات میں سڑکوں پر
احتجاج بھی ضروری ہوتا ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری مغرب کے فیشن کی یلغار
اور کمرشل ہتھکنڈوں کا بائیکاٹ ہے جو ہماری اقدار کو پامال کرتے اور ہماری
قیمت پر ان کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ خدارا غور کیجئے اور اس طوفان کے سامنے
بند باندھنے کی تدبیر کیجئے"۔
قارئین! آئیے ہم عزم کریں کہ اب کی بار سال ِنو کی ابتداءنیکی، بھلائی اور
فلاح کے کاموں سے کریں گے۔ مغرب کے اسٹائل اور کمرشل ہتھکنڈوں کا مکمل
بائیکاٹ کر کے ایک بامقصد زندگی گزانے والے انسان اور اپنی دینی اور قومی
روایات سے محبت کرنے والے مسلمان کی طرح نئے سال کو خوش آمدید کہیں گے لیکن
اس کے ساتھ ساتھ گذشتہ سال کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی تلافی کا پختہ
ارادہ بھی کریں گے۔ |