مفسرین اور علوم قرآن کے ماہرین
کے درمیان یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ آخر کون سی آیت یا کون سی سورت سب سے
آخر میں نازل ہوئی ہے؟ اس سلسلہ میں متعدد اقوال اور مختلف روایات ہیں،
علوم قرآن کا ایک عام طالب علم اس وقت بڑی الجھن کا شکار ہوتا ہے جب وہ یہ
طے نہیں کرپاتا کہ آخر ان مختلف اقوال میں کس کو راجح اور صحیح تسلیم کرے
نیز یہ کہ ان متعدد اور بظاہر متضاد روایتوں کے درمیان تطبیق و جمع کی کیا
صورت ہوگی؟ زیر نظر مضمون میں ہم ان ساری روایتوں کو یکجا کرکے ان پر سند و
متن کے اعتبار سے تحقیقی نظر ڈالیں گے اور پھر ان میں تطبیق و جمع کی کوشش
کریں گے، پھر آخر میں اس مسئلہ پر اپنی رائے اور دلائل کا ذکر کریں گے-
اس بحث کے آغاز سے قبل ایک اہم سوال یہ ہے کہ آخر اس بات کی کیا اہمیت ہے
کہ کون سی آیت پہلے یا بعد میں یا سب سے آخر میں نازل ہوئی ہے؟ کیونکہ
قرآن کریم کی موجودہ ترتیب خود صاحب قرآن علیہ التحیۃ والثناء کے حکم سے
دی گئی ہے اور شریعت مطہرہ نے اسی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے تلاوت قرآن
کرنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا اب اس بحث میں پڑنے سے کیا فائدہ کہ کون سی آیت
سب سے پہلی اور کون سی سب سے آخری ہے؟ اس سوال کے جواب میں علامہ ڈاکٹر
عبد العظیم الزرقانی نے اس بحث کے تین فوائد بیان کیے ہیں، فرماتے ہیں:
’’ نزول کے اعتبار سے تقدیم و تاخیر کی اہمیت اور اس میں بحث و تحقیق کے
فائدے تین بنیادی نکتوں سے اجاگر ہوتے ہیں-
(۱) ناسخ و منسوخ کی معرفت یعنی اگر دو یا اس سے زائد آیات کسی ایک ہی
موضوع سے متعلق ہوں اور دونوں میں الگ الگ حکم ہو تو باعتبار نزول تقدیم و
تاخیر یا اول و آخر کی تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کون سی آیت ناسخ ہے
اور کون سی منسوخ-
(۲) شریعت اسلامیہ کے تدریجی ارتقا کا علم اور بالتدریج نزول احکام میں
مضمر اعلیٰ حکمتوں کا ادراک، نیز اسلام کے اس اعتدال پسندانہ مزاج کی
واقفیت جس نے رفتہ رفتہ احکام نازل کر کے سہولت، سماحت اور تیسیر کا اعلیٰ
معیار قائم کیا-
(۳) قرآن کریم کے ساتھ امت مسلمہ کے گہرے لگاؤ اور شغف کا اظہار کہ اس
امت نے دیگر امتوں کے بر خلاف اپنی آسمانی کتاب کے ہر ہر پہلو پر غور و
خوض اور بحث و تحقیق کی ہے‘‘(۱)
سب سے پہلے ہم ان ساری روایات کو یکجا کرکے پیش کرتے ہیں جن کی رو سے قرآن
کریم کی کوئی آیت یا کوئی سورت آخری قرار پاتی ہے- (۲)
(۱) امام بخاری نے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے
کہ سب سے آخر میں آیت ربا یعنی سودوالی آیت نازل ہوئی ہے- آیت ربا سے
سورۂ بقر کی یہ آیت مراد ہے- یا أیھا الذین آمنواا تقوا اللہ و ذروا ما
بقی من الربا ان کنتم مؤمنین (بقرۃ آیت:۲۷۸)
امام بخاری کے علاوہ حضرت ابن عباس کے اس قول کو ابن جریر، ابو عبید اور
امام بیہقی نے بھی بروایت شعبی نقل کیا ہے (۳) اسی قسم کی ایک روایت حضرت
فاروق اعظم سے بھی مروی ہے جس کو امام بیہقی، امام احمد اور ابن ماجہ نے
حضرت عمر سے اور ابن مردویہ نے حضرت ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے- حضرت
ابو سعید خدری کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر نے ہمیں خطبہ دیا جس
میں فرمایا کہ قرآن کی سب سے آخری آیت آیت ربا ہے- (۴)
(۲) امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت براء بن عازب سے روایت کیا ہے کہ
قرآن کی سب سے آخری آیت یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلالۃ(۵) ہے اور
آخری سورت برأت یعنی سورہ توبہ ہے-
(۳) امام نسائی نے بطریق عکرمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی
ہے کہ قرآن کی آخری آیت واتقوا یوماً ترجعون فیہ الی اللہ ثم توفی کل
نفس ماکسبت وھم لا یظلمون(۶)
یہ روایت عکرمہ کے علاوہ حضرت ابن عباس سے اور بھی کئی حضرات نے روایت کی
ہے مثلاً:
(۱) بطریق عبید بن سلیمان عن الضحاک عن ابن عباس
(ب) بطریق حجاج عن ابن جریح عن ابن عباس(۷)
(ج) ابن مردویہ نے بطریق سعید بن جبیر عن ابن عباس
(د) ابن ابی حاتم نے بھی بطریق سعید بن جبیر عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ
عنہم (۸)
(۴) ابن جریر نے بطریق ابن شہاب، سعید ابن مسیب سے روایت کی ہے کہ قرآن کی
آخری آیت آیت دَین ہے یعنی یا ایھا الذین آمنوا اذا تدا ینتم ( الی
آخرا لآیۃ (۹) یہ قرآن کریم کی سب سے طویل آیت بھی ہے-
(۵) عبد اللہ ابن احمد نے زوائد میں ابی ابن کعب سے روایت کیا ہے کہ سب سے
آخر میں سورۂ توبہ کی یہ آیت نازل ہوئی- لقد جاء کم رسول من انفسکم
الخ(۱۰)
اس آیت کے متعلق دوسری روایات بھی ہیں جن میں بعض حضرت ابن عباس سے بھی
مروی ہیں جو ابی بن کعب کی روایت کی تائید کرتی ہیں (۱۱)
(۶) امام مسلم نے حضرت عبد اللہ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ قرآن کی آخری
سورت اذا جاء نصر اللہ و الفتح ہے-
(۷) امام ترمذی اور حاکم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی
ہے کہ سب سے آخری سورت سورۃ مائدہ نازل ہوئی ہے تو تم اس میں جس چیز کو
حلال پاؤ اس کو حلال قرار دو-
نیز امام ترمذی اور حاکم نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما
سے روایت کی ہے کہ قرآن کی آخری سورتیں مائدہ اور فتح ہیں- یہ روایت
سابقہ دونوں روایتوں کو جمع کرتیہے- یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس روایت
میں سورۂ فتح سے حضرت عبد اللہ ابن عمر کی مراد سورۂ نصر ہے یعنی اذا جاء
نصر اللہ والفتح کیونکہ سورۂ نصر کا ایک نام سورۂ فتح بھی ہے، ورنہ وہ
سورۂ فتح کے نام سے مشہور ہے جس کی ابتدا انا فتحنا لک فتحا مبینا سے ہوتی
ہے- اس کے بارے میں اتفاق ہے کہ وہ صلح حدیبیہ کے موقع پر مکہ مکرمہ اور
مدینہ منورہ کے درمیان نازل ہوئی تھی، خود اس سورت کی آیات بھی اس جانب
واضح اشارہ کرتی ہیں لہٰذا اس کا آخری ہونا بعید از قیاس ہے-
ان سابقہ سات روایات کے علاوہ اور بھی کچھ روایات ہیں جن کی رو سے قرآن
کریم کی کوئی نہ کوئی آیت آخری قرار پاتی ہے، لیکن ان روایات کو خود امام
سیوطی نے بھی ’’ غریب‘‘ قرار دیا ہے لہٰذا ہم بھی ان کے ذکر کو قلم انداز
کرتے ہیں، ان ساری روایات پر بحث کے بعد امام سیوطی نے سورۂ مائدہ کی اس
آیت کی طرف توجہ کی ہے جس کا آخری ہونا مشہور ہے یعنی الیوم اکملت لکم
دینکم و اتممت علیکم نعمتی(الی آخر الآیۃ، المائدہ:۱۳)
اس سے قبل کہ ہم ان روایات کا تحقیقی تجزیہ کریں چند بنیادی نکات ذہن نشین
کرلینا ضروری ہے-
(۱) یہ صحابہ کرام اور تابعین کے اقوال ہیں اگر ان کی صحت فرض کرلی جائے
اور ان کی نسبت ان کے قائلین کی طرف درست کرلی جاے تو پہلی قابل توجہ بات
تو یہ ہے کہ ان میں کوئی روایت مرفوع نہیں ہے، اصطلاح حدیث میں مرفوع اس
روایت کو کہتے ہیں جس میں صحابی یہ کہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا یا یہ کرتے ہوئے دیکھا یا حضور علیہ السلام نے یہ
فرمایا وغیرہ وغیرہ، ان روایات کا مرفوع نہ ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا
ہے کہ صحابہ کے یہ اقوال ان کے اپنے اجتہاد پر مبنی ہیں، قاضی ابوبکر ’’
الا نتصار‘‘ میں فرماتے ہیں:
ھذہ الاقوال لیس فیھا شیٔ مرفوع الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم و کل ماقالہ
بضرب من الاجتہاد و غلبۃ الظن (۱۲)
ان اقوال میں کوئی بھی قول نبی اکرمﷺ تک مرفوع نہیں ہے اور ہر شخص نے اپنے
اجتہاد اور غلبۂ ظن کی بنیاد پر اپنی رائے کا اظہار کیا-
اب ان مختلف اقوال میں جمع و تطبیق کے لیے ایک عام تاویل یہ کی جائے گی کہ
جس صحابی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے خود سب سے آخر
میں جو آیت سنی اسی کو مطلقاً قرآن کی آخری آیت گمان فرمایا، علامہ
ڈاکٹر محمد بلتاجی تحریرفرماتے ہیں:
’’یہ بعض صحابہ اور تابعین کی طرف منسوب چند اقوال ہیں، اگر ان کی صحت فرض
کرلی جاے تو اس بات کا قوی احتمال ہے کہ جس صحابی نے براہ راست خود حضور
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے آخر میں حضور کے وصال سے کچھ قبل یا آپ
کی نا سازی طبع سے کچھ قبل جو آیت سنی اس کے بارے میں خبر دی، اب ان کے
علاوہ کسی دوسرے صحابی نے سب سے آخر میں حضور سے کوئی آیت سنی جس کو پہلے
والے صحابی نے نہیں سنا اور دونوں نے یہ گمان فرمایا کہ جو آیت انہوں نے
سب سے آخر میں سنی ہے وہی قرآن کی آخری آیت ہے- (۱۳)
(۲) دوسرابنیادی نکتہ یہ ہے کہ یہ اختلاف اس وقت مانا جائے گا جب ہم ان
روایات کی صحت فرض کرتے ہوئے ان کی نسبت ان کے قائلین کی طرف درست تسلیم
کریں، جب کہ ان کی عدم صحت کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا، آپ
نے گزشتہ اوراق میں ملاحظہ فرمایا کہ اس مسئلہ میں صرف حضرت عبد اللہ ابن
عباس ہی سے چار مختلف اقوال مروی ہیں- جو ’’ غریب روایات‘‘ ہم نے ترک کردیں
ان میں بھی ایک روایت حضرت ابن عباس سے مروی ہے، یہ بات بعید از قیاس ہے کہ
ایک ہی مسئلہ میں حضرت ابن عباس پانچ متضاد آرا کے حا مل ہوں، لہٰذا یہ
بات حتمی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ درمیان کے راویوں کو سننے یا سمجھنے میں
کوئی مغالطہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہ متعدد اور مختلف اقوال آج ہمارے
سامنے ہیں، اس مغالطہ کے اسباب تلاش کیے جائیں تو دو احتمال فرض کیے جاسکتے
ہیں-
(۱) صحابی نے کسی خاص موضوع یا معین مسئلہ کے بارے میں فرمایا ہو کہ اس
موضوع سے متعلق یہ آخری آیت ہے، اب اس کے بعد اس موضوع پر کوئی آیت نازل
نہیں ہوئی،لیکن سننے والے نے یہ سمجھا کہ مطلقاً یہ قرآن کی آخری آیت
ہے-
(۲) صحابی نے فرمایا ہو کہ ھٰذہ الآیۃ من آخر مانزل یعنی یہ آیت ان
آیتوں میں سے ہے جو آخر میں نازل ہوئی ہیں، اس جملہ سے مراد یہ تھی کہ
آخری دور میں جو چند آیات نازل ہوئی ہیں ان میں یہ آیت بھی ہے- لیکن
سننے والے نے یہ سمجھا ہو کہ ھٰذہ الآیۃ آخر ما نزل یعنی یہ آیت سب سے
آخر میں نازل ہوئی ہے، جملہ میں لفظ ’’من‘‘ کے ہونے یا نہ ہونے سے زمین و
آسمان کا فرق پیدا ہوگیا ، یہ دونوں احتمال قرین قیاس ہیں ،عقلا بھی ممکن
ہیں اور عادتاً بھی-
(۳) سننے یا سمجھنے میں یہ احتمال اس صورت میں فرض کیے جائیں گے جب یہ
تسلیم کیا جاے کہ یہ غلطی سہواً اور بلا قصد واقع ہوئی ہے، ورنہ تحریف، وضع
اور کذب بالعمد کو بھی سرے سے رد نہیں کیا جاسکتا، مثال کے طور پر اس سلسلہ
میں جو اقوال حضرت ابن عباس سے مروی ہیں، ان میں ایک قول بروایت کلبی عن
ابی صالح عن ابن عباس بھی مروی ہے- اس طریقۂ روایت کے متعلق امام سیوطی کا
فیصلہ ملاحظہ فرمائیے:
جن طریقوں سے حضرت ابن عباس سے تفسیر مروی ہے ان میں سب سے گیا گزرا طریقہ
وہ ہے جس میں کلبی ابو صالح سے اور وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں اور کلبی
سے اگر محمد بن مروان السدی الصغیر روایت کریں پھر تو یہ طریقہ سلسلۃ الکذب
ہے ‘‘- (۱۴)
ان بنیادی نکات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اب ہم الگ الگ ہر روایت کا تحقیقی
تجزیہ کریں گے- یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ ان روایات میں ایک سے
زیادہ روایتیں ایسی ہیں جن میں صحت و ضعف اور سند روایت کے اعتبار سے کلام
کی گنجائش ہے مگر ہم اس طویل بحث میں پڑنے کی بجاے ان کی صحت فرض کر کے ان
کا تجزیہ کریں گے-
سب سے پہلی روایت جو آیت ربا کے بارے میں حضرت ابن عباس اور حضرت عمر رضی
اللہ تعالیٰ عنہم سے مروی ہے، اس کے بارے میں مفسرین نے ان دونوں احتمالات
کے امکان کو تسلیم کیا ہے جن کا ہم نے ذکر کیا تھا، یعنی یا تو یہ آیت سود
کے سلسلہ میں نازل ہونے والی آیات میں سے آخری ہے یا پھر یہ آیت منجملہ
ان آیات میں سے ہے جو آخری دور میں نازل ہوئی تھیں، علامہ آلوسی فرماتے
ہیں:
ان المراد من ھٰذا ان آخر مانزل من الآیات فی البیوع آیۃ الرباء او ان
المراد ذالک من آخر ما نزل کما یصرح بہ ما اخرجہ الامام احمد (۱۵)
ترجمہ: آیت ربا کے آخری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بیوع (خرید و فروخت اور
مالی معاملات ) کے سلسلہ میں نازل ہونے والی آیات میں یہ سب سے آخری آیت
ہے- یا پھر یہ مراد ہے کہ جو آیات آخر میں نازل ہوئیں منجملہ ان آیات
میں آیت ربا بھی شامل ہے- جیسا کہ امام احمد کی روایت میں اس کی تصریح
موجودہے-
علامہ موصوف نے امام احمد کی جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے اس کو علامہ
سیوطی نے نقل کیا ہے، فرماتے ہیں:
عند احمد و ابن ماجہ عن عمران من آخر مانزل آیۃ الرباء (۱۶)
ترجمہ: امام احمد اور ابن ماجہ نے حضرت عمر سے روایت کی ہے کہ جوآیات آخر
میں نازل ہوئی ہیں ان میں آیت ربا بھی ہے-
اس احتمال کو علامہ ابن حیان الاندلسی نے بھی لکھا ہے کہ در اصل آیت ربا
’’ من آخر ما نزل‘‘ ہے (۱۷) گزشتہ اوراق میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ روایت
میں لفظ ’’ من‘‘ کے ہونے اور نہ ہونے سے معنی میں زمین و آسمان کا فرق
پیدا ہوگیا- ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ اس آیت کے سبب نزول کے سلسلہ میں
روایتیں اتنی مضطرب اور مختلف ہیں کہ اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں
کہا جاسکتا- (۱۸)
(۲) حضرت براء بن عازب کی جو روایت ہم نے امام بخاری و مسلم کے حوالے سے
نقل کی تھی اس کی رو سے سورۂ النساء کی آخری آیت ’’ یستفتونک قل اللہ
یفتیکم فی الکلالۃ‘‘ ( جو آیت کلالہ کے نام سے مشہور ہے) آخری قرار پاتی
ہے اور سورۂ توبہ آخری سورت-
اس آیت کے سبب نزول کے سلسلہ میں جو روایات ملتی ہیں ان میں کہیں سے کہیں
تک یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ مطلقاً قرآن کی آخری آیت ہے- صحیح
روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ابن الخطاب کو اس کا معنی سمجھنے میں
دشواری ہوئی تھی جس کے لیے آپ نے کئی مرتبہ حضور اکرم ﷺ کی طرف رجوع کیا
تھا- حضرت عمرکے استفسار اور حضور کے جواب کے سلسلہ میں بھی متعدد روایات
ہیں لیکن ان میں بھی کوئی ایسا اشارہ نہیں ہے جس کی بنیاد پر اس کو قرآن
کریم کی آخری آیت سمجھا جاے (۱۹)، لہٰذا یہاں بھی اس بات کا قوی احتمال
ہے کہ اپنے موضوع میں یہ آخری آیت ہے- یہ آیت وراثت اور ترکہ کی تقسیم
کے سلسلہ میں ہے- اس موضوع سے متعلق متعدد آیات سورۂ بقر اور سورۂ نساء
کے شروع میں ہیں- لہٰذا یہاں بھی یہ کہا جائے گا کہ وراثت کے بارے میں جو
آیا ت ہیں ان میں یہ سب سے آخری آیت ہے اور اس کے بعد وراثت کے موضوع پر
کوئی آیت نازل نہیں ہوئی- امام حجر عسقلانی نے بھی اس احتمال کا ذکر
فرماکر اسی کو راجح قرار دیا ہے-
ویحتمل ان تکون الآخریۃ فی النساء مقیدۃ بما یتعلق بالمواریث مثلا بخلاف
آیۃ البقرۃ و یحتمل عکسہ والاول ارجح (۲۰)
ترجمہ: اور احتمال ہے کہ اس کا آخری ہونا وراثت کے سلسلہ میں نازل ہونے
والی آیات کے ساتھ مقید ہو بر خلاف سورۂ بقر کی آیت کے اور اس کے برعکس
کا بھی احتمال ہے ( یعنی بقرۃ والی آیت خاص موضوع پر آخری ہو اور نساء
والی مطلقاً آخری ہو) لیکن پہلی والی بات زیادہ راجح ہے-
حضرت ابن عباس کا قول آیت ربا کے بارے میں اور حضرت براء بن عازب کا قول
آیت کلالہ کے بارے میں ان دونوں اقوال میں تطبیق دیتے ہوئے امام ابن حجر
فرماتے ہیں:
کلا منھما اراد آخریۃ مخصوصۃ (۲۱)
دونوں حضرات نے آخریت مخصوصہ مراد لی ہے-
اس آیت کلالہ کے سلسلہ میں امام سیوطی نے بھی یہی تاویل کی ہے:
وقول البراء آخر مانزل ’’ یستفتونک‘‘ ای فی شان الفرائض (۲۲) اور حضرت
براء کا یہ قول کہ یستفتونک سب سے آخر میں نازل ہوئی ہے، اس سے مراد یہ ہے
کہ فرائض (یعنی وراثت) میں سب سے آخری ہے-
جیسا کہ ہم نے نقل کیا تھا کہ حضرت براء بن عازب کی اس روایت میں یہ بھی ہے
کہ آخری سورت سورۂ برأت ہے، سورۂ توبہ کی آیات اور ان کے اسباب نزول
کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ سورت کسی بھی حال
میں قرآن کی آخری سورت نہیں ہوسکتی، اس میں متعدد آیات بالکل آخری
زمانے میں نازل ہوئی ہیں- یہ بات تو درست ہے مگر اس میں بہت سی آیات ایسی
ہیں جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک سے برسوں قبل نازل
ہوچکی تھیں بلکہ بعض آیات کا تعلق تو ہجرت اور جنگ بدر سے بھی ہے (۲۳)
لہٰذا حضرت براء بن عازب کے اس قول میں تاویل کی جائے گی، علامہ ابن حجر
عسقلانی نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ غالباً سورۂ برأۃ کا اکثر حصہ آخری
دور میں نازل ہوا تھا اس لیے حضر ت براء نے تغلیباً اس کو آخری سورت قرار
دیا ہے-(۲۴)
(۳) حضرت سعید ابن المسیب نے فرمایا ہے کہ آیت دَیْن قرآن کی آخری آیت
ہے-
اس پر عرض ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت سعید بن المسیب صحابی نہیں ہیں
بلکہ تابعی ہیں، دوسرے یہ کہ آپ اس قول میں منفرد ہیں یعنی آپ کے علاوہ
کسی صحابی یا تابعی نے آیت دین کو آخری آیت نہیں کہا ہے، تیسرے یہ کہ
آپ کے قول کے بر خلاف صحابۂ کرام کے اقوال موجود ہیں، ان تینوں امور کے
پیش نظر آیت دین والے قول کو راجح قرار نہیں دیا جاسکتا- حد سے حد یہی کہا
جاسکتا ہے کہ ممکن ہے تشریعات مالیہ اور معاملات کے سلسلہ میں یہ آخری
آیت ہے-
علامہ سیوطی نے ایک تاویل یہ کی ہے کہ آیت ربا، واتقوایوما الخ اور آیت
دین کے آخری ہونے میں کوئی منافات نہیں ہے- ممکن ہے جس طرح یہ موجودہ
ترتیب میں یکے بعد دیگرے واقع ہوئی ہیں اسی طرح تینوں آیات ایک ساتھ سب سے
آخر میں اسی ترتیب سے نازل ہوئی ہوں، لہٰذا یہ تینوں روایات اپنی جگہ درست
ہیں- آخر میں علامہ سیوطی نے وذالک صحیح کہہ کر اس تاویل کو صحیح قرار دیا
ہے (۲۵)
(۴) حضرت ابی بن کعب نے فرمایا کہ سب سے آخر میں سورۂ توبہ کی یہ دو
آیتیں نازل ہوئی ہیں:
لقد جاء کم رسول الیٰ قولہ وھو رب العرش العظیم ( آیت۱۲۸-۱۲۹)
ہم نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ سورۂ توبہ کا
اکثر حصہ آخری عہد میں نازل ہوا ہے- ظاہر ہے کہ یہ دونوں آیات بھی دور
آخر میں نازل ہوئی ہوںگی- لیکن ان آیتوں کو مطلقاً قرآن کی آخری آیات
قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ خود حضرت ابی ابن کعب کی زیر نظر روایت میں اس
بات کا اشارہ موجود ہے کہ یہ آیتیں قرآن کی نہیں بلکہ سورۂ توبہ کی
آخری آیتیں ہیں- حضرت ابی کی پوری روایت اس طرح ہے:
سیدنا صدیق اکبر کے زمانۂ خلافت میں قرآن کریم جمع کیا جارہا تھا اور لوگ
اس کو لکھ رہے تھے، جب لکھنے والے سورۂ توبہ کی اس آیت تک پہنچے ’’ ثم
انصرفوا صرف اللہ قلوبھم بانھم قوم لا یفقھون‘‘ (توبہ:۱۲۷) تو انہوں نے
گمان کیا کہ یہی آخری آیت ہے، حضرت ابی ابن کعب نے ان سے فرمایا کہ رسول
اللہﷺ نے مجھے اس آیت کے بعد دو آیات اور تعلیم فرمائی تھیں لقد جاء کم
رسول الیٰ قولہ وھو رب العرش العظیم ( آیت ۱۲۸؍۱۲۹) اور فرمایا کہ یہ
قرآن میں سب سے آخر میں نازل ہوئی ہیں- (۲۶)
اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت ابی ابن کعب کی مراد یہ نہیں ہے کہ یہ
آیتیں مطلقاً قرآن کی آخری آیات ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ یہ سورۂ توبہ
کی آخری آیات ہیں، یہ بات بعید از امکان ہے کہ لکھنے والوں نے آیت نمبر
۱۲۷ کو یہ سمجھا ہو کہ یہ قرآن کی آخری آیت ہے جس پر حضرت ابی ابن کعب
نے فرمایا ہو کہ قرآن کی آخری آیات ۱۲۸ و۱۲۹ ہیں- اس لیے کہ آخری آیت
کے سلسلہ میں اتنی کثرت سے مختلف روایات کے باوجود کسی روایت میں یہ نہیں
ہے کہ توبہ کی ۱۲۷ قرآن کی آخری آیت ہے- لہٰذا یہی بات قرین قیاس ہے کہ
لکھنے والوں نے اس کو سورۂ توبہ کی آخری آیت گمان کیا ہو جس پر حضرت ابی
نے فرمایا ہو کہ یہ سورۂ توبہ کی آخری آیت نہیں ہے بلکہ اس کے بعد دو
آیا ت اور بھی ہیں جو سورۂ توبہ کی آخری آیات ہیں اور ان کے بعد سورۂ
توبہ میں کوئی آیت نازل نہیں ہوئی- اس بارے میں جو روایت ابن عباس سے ہے
اس میں بھی یہی تاویل کی جائے گی کہ یہ توبہ کی آخری آیت ہے-
(۵) امام مسلم نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ قرآن کی آخری سورت
سورۂ نصر ہے، اس سلسلہ میں اور بھی چند روایات ہیں جن سے اس بات کی تائید
ہوتی ہے کہ یہ سورۃ بھی آخری دور میں نازل ہوئی ہے- اگر چہ ایک روایت میں
یہ بھی ہے کہ اس کے نزول کے بعد حضور اکرمﷺ دو سال تک اس ظاہری دنیا میں
جلوہ افروزر ہے (۲۷) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ سورت حجۃ الوداع کے
موقع پر ایام تشریق کے درمیان نازل ہوئی ہے (۲۸) صحیح روایات سے ثابت ہے کہ
اس کے نزول کے بعد بعض صحابہ ( حضرت عمر اور ابن عباس ) نے یہ سمجھ لیا تھا
کہ اس سورت میں حضور کے جلدی ہی پردہ فرمانے کی طرف اشارہ ہے (۲۹) اس سے اس
بات کی تائید ہوتی ہے کہ یہ سورت آخری عہد میں نازل ہوئی تھی- اگر یہ
قرآن کی سب سے آخری سورت ہے (جیسا کہ زیر بحث روایت سے ظاہر ہے ) تو اس
کی آخری آیت قرآن کی بھی سب سے آخری آیت قرارپائے گی- لیکن ہمیں ڈاکٹر
بلتاجی کی اس بات سے اتفاق ہے کہ یہ اس معنی میں آخری سورت ہے کہ اس کے
بعد کوئی مکمل سورت نہیں نازل ہوئی بلکہ اس کے بعد متفرق آیات نازل ہوئی
ہیں - (۳۰)
(۶) سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کہ سورۂ مائدہ سب سے آخر
میں نازل ہوئی ہے- یہ بات حتمی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ سیدہ عائشہ کی مراد
یہ ہے کہ حلال و حرام کے سلسلہ میں یہ آخری سورت ہے- کیونکہ اسی روایت میں
آپ نے فرمایا ہے:
فما وجدتم فیھا حلالاً فاستحلوہیعنی سورۂ مائدہ میں تم جس چیز کو حلال
پاؤ اس کو حلال قرار دو، سورۂ مائدہ کے موضوعاتی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے
کہ بعض چیزیں جو مسلمانوں پر حرام تھیں اس سورت میں ان کو حلال قرار دے دیا
گیا ہے مثلاً آیت ۴،۵،۹۶ وغیرہ وغیرہ، رہی یہ بات کہ پوری سورۂ مائدہ
مطلقاً سب سے آخر میں نازل ہوئی ہے تو یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی کیونکہ
جب اس کی آیات کے اسباب نزول پر غور کیا جاے تو معلوم ہوگا کہ اس کی آیات
مختلف مواقع اور مختلف مناسبتوں سے نازل ہوئی ہیں- یہ ایک طویل سور ت ہے جس
میں ۱۲۰ آیا ت ہیں بلکہ اس میں کچھ آیا ت تو ایسی ہیں جو قبل ہجرت مکہ
مکرمہ میں نازل ہوئی ہیں (۳۱) آخری آیت کے سلسلہ میں جو روایات ہیں ہم نے
اپنے محدود مطالعہ کی روشنی میں ان کا تحقیقی تجزیہ کیا، اب صرف دو روایتیں
باقی رہتی ہیں جن میں سے ایک حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ سب سے آخر میں
سورۂ البقرۃ کی یہ آیت نازل ہوئی ہے-
واتقوا یوماً ترجعون فیہ الی اللہ ثم توفی کل نفس ما کسبت وھم لا یظلمون (
البقرۃ:۲۸۱) اور دوسری سورۂ مائدہ کی وہ آیت جس کے بارے میں مشہور ہے کہ
وہ سب سے آخر میں نازل ہوئی ہے یعنی الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم
نعمتی ورضیت لکم الاسلام دیناً (المائدہ:۱۳) پہلے ہم اسی آیت کی طرف توجہ
کرتے ہیں اس کے بعد واتقوا یوماً الخ پر اپنی رائے کا اظہار کریں گے-
بعض متاخرین نے بڑی شدومد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہی آیت علی
الاطلاق قرآن کی آخری آیت ہے( مثلاً علامہ ڈاکٹر محمد الزفزاف ،التعریف
بالقرآن والحدیث،ص:۳۱ تا ۳۳) اور عام طور پر مشہور بھی یہی ہے- مگر اس بات
کو تسلیم کرنے میں ہمیں ذرا تأمل ہے- سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمیں کسی کی
کتاب میں کوئی صحیح روایت تو درکنار ضعیف روایت بھی ایسی نظر نہیں آئی جس
کی رو سے اس کو آخری قرار دیا جاسکے- یہی وجہ ہے کہ امام سیوطی جیسے وسیع
النظر محدث نے بھی صرف اس کی شہرت کا حوالہ دیا ہے ، کوئی ضعیف سے ضعیف
روایت بھی اس شہرت کی تائید میں پیش نہیں کی- (۳۲)
دوسری بات یہ کہ یہ آیت آخری ہو یا نہ ہو مگر بہر حال اس میں کوئی شک
نہیں کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے میدان میں نازل ہوئی-
بخاری و مسلم نے جعفر ابن عون سے اور عباد ابن ابی عمار نے حضرت ابن عباس
سے اور امام سیوطی نے حضرت عمر سے یہ روایت بیان کی ہے کہ یہ آیت میدان
عرفات میں حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی (۳۳) حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے وصال مبارک اور حجۃ الوداع کے درمیان ذو الحجۃ کے باقی ایام، محرم
و صفر کے دو ماہ اور کچھ ایام ربیع الاول کے حائل ہیں، اس اختلاف سے قطع
نظر کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ربیع الاول کی کس تاریخ میں پردہ
فرمایا، بہر حال اس آیت کے نزول کے بعد حضور اکرمﷺ لگ بھگ ڈھائی سے تین
ماہ کے عرصہ تک اس دنیا میں ظاہری طور پر جلوہ افروزر ہے- متعدد صحیح
روایات سے ثابت ہے کہ اس درمیانی عرصہ میںبھی قرآن نازل ہوتا رہا- ابن
حیان الاندلسی لکھتے ہیں کہ جمہور مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس کے بعد بھی
قرآن نازل ہوتا رہا مثلاً آیت ربا اور آیت کلالہ وغیرہ (۳۴) امام بغوی
نے بھی حضرت ابن عباس کے حوالے سے کہا ہے کہ آیت ربا اس کے بعد نازل ہوئی
ہے (۳۵) امام رازی نے بھی حضرت ابن عباس کی اس روایت کا ذکر فرمایا ہے (۳۶)
لہٰذا پورے یقین سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ قرآن کی آخری آیت نہیں
ہے- در اصل آخری آیت کی حیثیت سے اس کی شہرت کی اصل وجہ اس کا معنی ہے جس
میں اکمال دین اور اتمام نعمت کی بشارت دی گئی ہے- اس بشارت سے یہی ظاہر
ہوتا ہے کہ اب تمام فرائض و احکام مکمل ہوگئے اور حلال و حرام کے سارے
قوانین بتادئیے گئے اور اللہ نے اپنی نعمت کا اتمام اس طور پر کردیا کہ
قرآن مکمل نازل ہوگیا،اب قیامت تک دنیا کو کسی دوسری کتاب اور کسی دوسرے
قانون کی ضرورت نہیں رہ گئی- چنانچہ بعض مفسرین نے اس بات کی صراحت کی ہے
کہ اس کے بعد کوئی حلال و حرام نازل نہیں ہوا، تفسیر خازن میں ہے کہ اس کے
بعد نہ کوئی حلال و حرام نازل ہوا اور نہ فرائض میں سے کچھ نازل ہوا (۳۷)
اسی طرح امام رازی نے بھی لکھا ہے کہ شریعت میں اس آیت کے بعد کوئی
زیادتی، نسخ یا تبدیلی وارد نہیں ہوئی (۳۸) امام سیوطی لکھتے ہیں کہ:
’’ اس آیت کا ظاہری معنی یہ ہے کہ تمام فرائض و احکام مکمل ہوگئے اور بہت
سے لوگوں نے اس بات کی صراحت بھی کی ہے مثلاً السدی نے کہا ہے کہ اس کے بعد
کوئی حلال و حرام نازل نہیںہوا‘‘ (۳۹)
مفسرین نے اکمال دین اورا تمام نعمت کا جو معنی بتایا ہے ( یعنی احکام و
فرائض کا مکمل ہونا اور حلال و حرام کا نازل نہ ہونا) اس سے ایک الجھن یہ
پیدا ہوگئی کہ آخر پھر ان روایات کا کیا بنے گا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ
آیت ربا وغیرہ اس آیت کے بعد نازل ہوئی ہیں- ظاہر ہے کہ سودوالی آیت میں
سودسے بچنے کا حکم ہے اور اس کا لینا حرام قرار دیا گیا ہے- علامہ سیوطی کو
بھی اس الجھن کا سامنا ہوا تھا، فرماتے ہیں:
’’السدی نے کہا ہے کہ اس کے بعد حلال و حرام نازل نہیں ہوا حالانکہ آیت
ربا، دَین اور کلالہ کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ وہ اس آیت کے بعد نازل
ہوئی ہیں ‘‘- (۴۰)
اس اعتراض اور بظاہر تعارض سے بچنے کے لیے مفسرین نے دو طرح کے جوابات دئیے
ہیں، پہلا تو یہ کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ دین کی اساس اور بنیادی ارکان
بیان کردئیے گئے اور اس کے بعد بنیادی فرائض و احکام میں سے کچھ نازل نہیں
ہوا- یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اب ایسی آیات بھی نازل نہ ہوں جو ان
بنیادی ارکان میں کوئی نسخ و زیادتی نہ کرتی ہوں بلکہ پہلے سے نازل شدہ
احکام کی تائید اور ان پر عمل کی تاکید کرتی ہوں یا پہلے سے نازل شدہ احکام
و قوانین کا تکملہ ہوں مثلاً آیت ربا یعنی سود والی آیت ہی کو لیں جو اس
آیت کے بعد نازل ہوئی ہے- اس آیت ربا سے سود کو حرام نہیں کیا گیا ہے
بلکہ سود کی حرمت تو بہت پہلے نازل ہوگئی تھی ،اس آیت میں محض سود سے بچنے
کی مزید تاکید کی گئی ہے- علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: ربا والی آیت
کے بعد میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سود سے متعلق بعض آیات کا نزول
متاخر ہے، رہی سود کی حرمت تو وہ اس آیت ربا سے ایک زمانے پہلے اللہ
تعالیٰ کے اس قول میں نازل ہوگئی تھی یا ایھا الذین آمنوا لا تاکلو الربا
اضعافاً مضاعفۃ واتقوا اللہ لعلکم تفلحون(۴۱) اسی قسم کی تاویل دیگر آیتوں
میں بھی کی جائے گی- اس تعارض کا دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اکمال دین
اور اتمام نعمت کا معنی یہ نہیں ہے کہ فرائض و احکام اور حلال و حرام کے
سلسلہ میں دین مکمل کردیا گیا بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ فتح مکہ کے باوجود
مسجد حرام میں مشرکین کے آنے اور حج وغیرہ کرنے کی ممانعت نہیں تھی،
چنانچہ مسلمانوں کے ساتھ مشرکین بھی اپنے طور پر حج اور دوسرے مناسک ادا
کیا کرتے تھے مگر سورۂ برأت کے نزول کے بعد مشرکین کا داخلہ قطعاً ممنوع
قرار دے دیا گیا اور دس ہجری میں مسلمانوں نے اس شان سے حج ( حجۃ الوداع)
کیا کہ ایک بھی مشرک ان کے درمیان موجود نہیں تھا، در اصل اکمال دین و
اتمام نعمت کا یہی معنی ہے- ابن جریر الطبری فرماتے ہیں کہ ’’ اکمال دین کا
معنی یہ ہے کہ بلد حرام میں صرف مسلمان ہی تھے اور مشرکین کو اس سے نکال
دیا گیا تھا یہاں تک کہ مسلمانوں نے اس طرح فریضۂ حج ادا کیا کہ ایک بھی
مشرک ان کے درمیان میں موجود نہیں تھا-‘‘ اب جریر نے اپنے بیان کردہ معنی
کی تائید میں بطریق ابن ابی طلحہ حضرت ابن عباس سے ایک روایت بیان کی ہے-
حضرت ابن عباس ارشاد فرماتے ہیں کہ مشرکین اور مسلمان ایک ساتھ حج کیا کرتے
تھے پھر جب برأت نازل ہوئی اور بیت حرام سے مشرکین کو نکال باہر کیا گیا
اور مسلمانوں نے اس شان سے حج کیا کہ بیت حرام میں ان کے ساتھ ایک بھی مشرک
نہیں تھا در اصل یہی اتمام نعمت ہے‘‘ (۴۲) یہاں یہ بتانا بھی غیر مناسب نہ
ہوگا کہ تفسیر کے سلسلہ میں حضرت ابن عباس کی روایات جن طرق سے مروی ہیں ان
میں سب سے بہتر اور جید طریقہ یہی علی ابن ابی طلحہ عن ابن عباس والا ہے-
امام بخاری نے حضرت ابن عباس کی تفسیر کے سلسلہ میں اسی طریقہ پر اعتماد
کیا ہے- نیز علامہ سیوطی نے اس طریقۂ روایت کے سلسلہ میں امام احمد بن
حنبل، ابن جریر، ابن ابی حاتم ابن منذر اور ابن حجر وغیرہ کی توثیق کا
تذکرہ کیا ہے (۴۳) آیت زیر بحث میں اکمال دین اور اتمام نعمت کا یہ معنی
ابن جریر کے علاوہ دیگر مفسرین مثلاً امام رازی، ابن حیان اور علامہ آلوسی
وغیرہ نے بھی ذکر کیا ہے (۴۴) اب آخر میں ہم حضرت ابن عباس کی اس روایت کی
طرف توجہ کرتے ہیں جس کی روسے سورۂ بقر کی آیت نمبر ۲۸۱ یعنی و اتقوا
یوما ترجعون فیہ الی اللّٰہ الخ -آخری قرار پاتی ہے- اس آیت کے سلسلہ میں
کچھ ایسے شواہد و قرائن موجود ہیں جن کی بنیاد پر اس کو قرآن کریم کی
آخری آیت کہا جاسکتا ہے، اکثر مفسرین نے اسی قول کو راجح قرار دیا ہے، اس
سلسلہ میں گہرے مطالعہ کے بعد ہم بھی اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ مذکورہ بالا
آیت مطلقاً قرآن کی آخری آیت ہے- ہماری ناقص رائے میں اس قول کی ترجیح
کے چند اسباب ہیں:
(۱) اس آیت کے آخری ہونے کے سلسلہ میں متعدد صحابہ اور تابعین سے مختلف
طرق سےاس کثرت سے روایات وارد ہوئی ہیں کہ اس کی صحت کا پایہ زیر بحث مسئلہ
میں وارد ہونے والی تمام روایات سے بلند ہے-
(۲) اس کے علاوہ کسی روایات میں اس مدت کی تحدید نہیں ہے کہ حضور کے وصال
مبارک سے کتنے دن قبل یہ آیت نازل ہوئی ہے؟ صرف اسی روایت میں اس بات کا
بیان ملتا ہے ،یہ الگ بات ہے کہ اس مدت میں اختلاف ہے ،بعض کے نزدیک یہ
آیت حضور کے وصال مبارک سے تین ساعتیں قبل نازل ہوئی ہے، بعض کے نزدیک سات
دن بعض کے نزدیک نوراتیں بعض کے نزدیک ۲۱ دن اور بعض کے نزدیک ۸۱ دن قبل
نازل ہو ئی ہے-۸۱ دن والی روایت اس لیے زیادہ قابل اعتبار نہیں ہے کہ اس کو
کلبی نے ابو صالح سے اور انہوں نے ابن عباس سے روایت کیا ہے- گزشتہ اوراق
میں اس طریقہ روایت کے متعلق آپ علامہ سیوطی کا فیصلہ ملاحظہ کرچکے ہیں-
اس سلسلہ میں علما نے نو راتوں والی روایت کو زیادہ پسند کیا ہے، اس لیے کہ
ازروئے سند اس کا پایہ دوسری روایات سے بلند ہے اور پھر یہ اس روایت کی
تصدیق بھی کرتی ہے کہ حضور کی نا سازی طبع تک مسلسل قرآن نازل ہوتا رہا-
(۴۵)
(۳) آیت ربا، دَین اور کلالہ وغیرہ کے برخلاف اس کا معنی بھی نزول کے
اختتام کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس دن سے ڈرو جس دن تم سب اپنے رب کی طرف
واپس جاؤگے اور اس دن ہر نفس اپنے کیے کا بدلہ پائے گا،اس حال میں کہ کسی
پر کوئی زیادتی نہ کی جائے گی، یوم قیامت کا ذکر اس کے لیے تیار رہنے کا
حکم اور اس میں اعمال کے حساب و کتاب کا ذکر وغیرہ، اختتام وحی کے عین
مناسب ہے-
جن علما نے اس کو آخری آیت کے طور پر ترجیح دی ہے ان میں علامہ زمخشری
(۴۶) امام رازی (۴۷) ابن جریر طبری (۴۸)، بغوی (۴۹) خازن (۵۰) علامہ آلوسی
(۵۱) وغیرہم شامل ہیں، امام عسقلانی نے اس کو اصح الاقوال قرار دیا ہے (۵۲)
ابن حیان نے اس کو جمہور کا قول قرار دیا ہے (۵۳) متاخرین اور معاصرین میں
علامہ عبد العظیم زرقانی (۵۴) ڈاکٹر محمد عبد اللہ الدروزہ (۵۵) ڈاکٹر محمد
بلتاجی (۵۶) اور استاذ گرامی ڈاکٹر جمال مصطفی وغیرہ نے بھی اس کو آخری
آیت تسلیم کیا ہے-
(جامِ نور اکتوبر ۲۰۰۵ئ) |