میں ۔۔۔ میرا کمرہ۔۔ اور اس میں
کہیں گم میرا سراپا سوچ میں ڈوبا ہوا وجود۔۔ کسی جواب کی منتظر آنکھیں جو
کبھی ایک سمت میں ٹکٹکی باندھے رکھتی ہیں اور کبھی مختلف سمتوں کو ٹٹولنے
لگتی ہیں ۔ گویا کہ ہوا سے کوئی نمودار ہوگا اور میرے ہر سوا ل کا جواب دے
جائیگا۔ کاش۔۔ سوچ کی کوئی لگام کیوں نہیں ہوتی؟ وہ کیوں یوں بیباک دوڑے
چلی جاتی ہے؟ لیجئے! یہ تو ایک اور سوال پیدا ہو گیا۔۔ چلئے چھوڑ ئیے ان
سوالوں کو۔۔ کیوں نہ کسی جواب کو زیرگفتگو لایا جائے؟ ایسا جواب جو سراسر
میری خود سر سوچ کا نتیجہ ہے۔ لہذا آپکو پورا حق حاصل ہے کہ آپ میرے ادنی
نظریے سے اتفاق کریں یا نہیں۔
میں اکثر سوچا کرتی تھی کہ وہ کون سا ایک ایسا عامل ہے جوبنیادی طور پر ہر
گناہ کے مرتکب ہونے کا باعث بنتا ہے۔ پھر چاہے وہ گناہِ صغیرہ ہو یا گناہِ
کبیرہ ۔ چھوٹا سا جھوٹ ہو یا بڑے پیمانے کی بد عملی۔ پھر ایک لحظہ ایسا آیا
جب مجھے اِسکا جواب مل ہی گیا جسکو بیان کرنے کیلئے ایک لفظ ہی کافی ہے۔۔ 'حرص'۔
اس جہانِ فانی میں ہر کوئی حرص کی کسی نہ کسی صورت میں مبتلا نظر آتا ہے۔
کسی کو دولت کی حرص ہے تو کسی کو شہرتِ عام کی۔ کسی کو محبت کی حرص ہے تو
کسی کو بقائے دوام کی۔ مجھے تو ہر شر کی جڑ حرص ہی لگتی ہے! حقیقت بس یہ ہے
کہ ہم نے اسکو ہر صورتحال کے مطابق مختلف نام دئیے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں
میں نے حرص کیلئے استعمال کیا جانے والا گھٹیا ترین لفظ دریافت کیا ۔ ۔ 'ضرورت'
۔ جی ہاں! میں نے خود کو اور اپنے گرد لوگوں کو ضرورت کے نام پر اپنی لالچ
و طمع کو مطمئن کرتے پایا۔
اس جدید زمانے میں ہماری ضرورتیں کیوں د ن بدن بڑھتی چلی جا رہی ہیں؟ عمرِ
حضر کی طرح ان کا کوئی اختتام کیوں نہیں؟ پہلے لوگ دو وقت کی روٹی کیلئے
ترس رہے ہوتے ہیں اور جب وہ ملتی ہے تو بڑے بڑے ریستورانوں میں جانے کے
خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ کیا قناعت نام کی چیز اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہے؟ ہم
کبھی یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر ہمیں زندگی کی بنیادی سہولیات میسر ہیں تو
ہم دوسروں کو بھی اپنے ساتھ دوڑ میں شامل ہونے کا موقع دیں ۔ انکو جنہیں
حقیقی معنوں میں ضرورت درپیش ہے اور وہ با صلاحیت ہونے کے باوجود مواقع سے
محروم ہیں۔ ہم کو کیوں احساس نہیں ہوتا کہ ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ دوسروں
کو روند کر دولت سمیٹتے چلے جائیں اور پھر اُس میں سے ضرورت مندوں کو کچھ
خیرات دے کر خود کو سخی ثابت کریں۔
کاش کہ ہر 'شاہ دل' امیر خیرات دینے کی بجائے خیرات مانگنے کی وجہ ختم کرنے
کی کوشش کرتا۔ اِسطرح دو طرفہ لالچ میں کچھ تو کمی واقع ہوتی۔ مگر یہاں تو
ہم میں سے ہر کوئی ایک دوسرے کو نیچا دٍکھانے میں سرگرداں ہے! افسوس! صد
افسوس! میں مانتی ہوں کہ اٍس دنیا میں ہر کسی کو اپنی اہلیت کے مطابق سب
کچھ پانے اور ترقی کرنے کا حق حاصل ہے پر اِس کی کوئی تو حد متعین چاہئیے؟
یا پھر یہ شعر ہی حتمی حقیقت ہے کہ
انسان کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں چاہئیے دو گز کفن کے بعد
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اگر ہم اپنے دلوں کی زمین سے حرص کی جڑیں کاٹ
پھینکیں تو ہمارے اضطراب ختم ہو جائیں اور اِس دنیا میں امن و آشتی چھا
جائے؟ میری خدا سے دعا ہے کہ میں اور میرے جیسے تمام افراد جو اِس عارضہ
میں مبتلا ہیں انہیں شفاء کاملہ عطا فرمائے۔ آمین۔ |