پاک افغان طالبان کا تمام توجہ اتحادی افواج پر مرکوز رکھنے کا اعلان

 کراچی… پاکستان اور افغان طالبان نے اپنیاپنے ملکوں کی سیکوریٹی فورسز کے خلاف جنگ روکنے کا عہد کرتے ہوئے اپنی تمام توجہ افغانستان میں موجود اتحادی افواج کے خلاف کارروائی پر مرکوز کر نے کا اعلان کیا ہے۔طالبان کے سپریم کمانڈر ملا محمد عمر کی ہدایت پرپاکستان اور افغانستان کے طالبان نے پانچ ارکان پر مشتمل شوریٰ قائم کی ہے۔شوریٰ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے اپنے ملکوں کی سیکوریٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں نہیں کریں گے۔طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ملا عمر پاکستانی طالبان کی جانب سے کئے جانے والے خود کش حملوں ،تاوان کے لئے اغوا اور معصوم شہریوں کے قتل سے خوش نہیں ہیں۔انہوں نے اِن لوگوں کے پاس غیر اسلامی کارروائیاں یا ملا عمر کو اپنا سپریم لیڈر کہنے سے روکنے کے لئے اپنے سینئر کمانڈرز کو بھیجاتھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ملا عمر اس بات سے بھی پریشان تھے کہ ایسے پاکستانی طالبان کی تعداد بڑھ رہی ہے جنہوں نے اپنی توجہ افغانستان سے پاکستان کی جانب کر لی ہے،جس کی وجہ سے افغان طالبان کو طاقتور نیٹو اور ایساف فورسز کی جانب توجہ رکھنے میں مشکل ہورہی ہے۔طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ ملا عمر چاہتے ہیں کہ پاکستانی طالبان گروپ افغانستان پر توجہ دیں ،جہاں غیر ملکی افواج کے خلاف فیصلہ کن مرحلہ آپہنچا ہے۔طالبان کے ایک رہنما نے ملاعمر کا یہ بیان جاری کیا ہے جس میں انہوں نے پاکستانی طالبان سے کہا ہے کہ آپ افغانستان میں مداخلت کرنے والی قوتوں کے خلاف جنگ کرنیکا اپنا اصل مقصد بھول گئے ہیں۔ذرائع کہتے ہیں ملاعمر امریکا کے لئے جاسوسی کرنے والوں کے اغوا اور قتل کئے جانے کی اطلاعات پر بھی بہت پریشان ہیں ،انہوں نے یہ کاروائیاں فوری طور پر روکنے پر زور دیا ہے۔افغان طالبان کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر نے والوں اور اغوا برائے تاوان اور بے قصور افراد کا قتل روکنے کے لئے ساتھ کام کرنے کا وعدہ کرنے والوں میں جنوبی وزیرستان کے مولوی نذیر گروپ،حکیم اللہ محسود گروپ،مولانا ولی الرحمنٰ گروپ اور تحریک پاکستان طالبان کے شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر گروپ اور طاقتور حقانی گروپ شامل ہیں۔
https://www.jang.net/urdu/archive/taza_details.asp?nid=134154

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیا اتحاد شوری مراقبہ ،القائدہ کی کوششوں سے معرض وجود میں آیا ہے اور یہ القائدہ کی اپنی ساکھ اور قد کو کو بڑھانے کی ایک غیر متاثر کن اور بھونڈی کوشش ہے۔ القائدہ پاکستانی فوجوں کی کاروائی اور مسلسل امریکی کوششوں و ڈرون حملوں کے نتیجہ میں بڑی حد تک عضو معطل ہو کر رہ گئی ہے ۔ القائدہ کے فنڈز کے سوتے اور نئی بھرتی کے ذرایع بند ہوچکے ہین اور اسامہ اور دوسرے بڑے لیڈروں کی ہلاکت کے بعد القائدہ کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور القائدہ کے مقصد میں لوگوں کی دلچسپی اب نہ ہونے کے برابر ہے۔ القائدہ کے غبارے کی رہی سہی ہوا عرب سپرنگ نے نکال دی اور عام لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ مسلح جدوجہد کے بجائے پر امن جمہوری اور سیاسی عمل کے ذرایع سے جدوجہد ان کو جلد حقوق دلا سکتی ہے۔

نام نہاد معاہدہ کی ایک شق کے مطابق طالبان اغوا برائے تاوان میں ملوث نہ ہونگے۔ یاد رہے کہ طالبان عمومی طور پر اغوا برائے تاوان کے مرتکب ہوتے ہیں تاکہ اس روپے پیسہ سے اپنے گروپوں کی مالی اعانت کرسکیں۔

شوری مراقبہ ایک چون چون کا مربہ ہے۔ اس کے ممبران ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کو دوڑ رہے ہیں۔ حکیم اللہ محسود اپنے نائب ولی الرحمن کو قتل کروانے کے درپے ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اچھے اور برے طالبان ایک صف میں کھڑے ہو جائین اور شیر و میمنے مل بیٹھیں۔

القائدہ ،پاکستان کی کبھی دوست نہ تھی اور نہ ہی ہو گی۔ القائدہ کے تعاون و اشتراک سے طالبان نے پاکستان کے معصوم لوگوں کے خلاف خون کی ہولی کھیلی۔۔

مزید اس اتحاد کے دعوؤں کی آزاد ذرائع سے ابھی تک تصدیق نہ ہو سکی ہے اور نہ ہی اس دعوے کا کوئی ثبوت مل سکا۔ آج ہی روزنامہ ایکسپرس میں طالبان کی طرف سے آیا ہے کہ طالبان پاکستان نے افواج پاکستان کے خلاف حملے بند کرنے کا کوئی فیصلہ نہ کیا ہے۔

پاک انسٹیٹیوٹ برائے مطالعہ امن کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے کہا ہے کہ عسکریت پسندوں کا اتحاد کوئی نئی چیز نہیں ہے اور یہ ماضی میں بھی واضح وجوہات کی بناء پر ہوتا رہا ہے۔ اس نئے اتحاد سے پاکستان کی صورت حال پر کچھ خاص اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم یہ بات ضرور ہے کہ اگر مختلف اطراف سے افغانستان میں نئے جنگجو داخل ہونا شروع ہو گئے تو اس سے ملک میں موجود نیٹو اور اتحادی فورسز کے لئے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ افغان بحران کو حل کرنے کے لئے امن مذاکرات کی کوششیں تیز ہونے کے دوران طالبان زیادہ سے زیادہ متعلقہ فریقوں کو اپنے کیمپ میں شامل کرنا چاہتے ہیں تا کہ مذاکرات کرنے کے لئے ان کی پوزیشن مضبوط ہو۔ دوسری چیز یہ ہے کہ وہ اپنی اس عوامی ساکھ کو بھی بڑھانا چاہتے ہیں کہ وہ ایک طاقتور فریق ہیں جو امن کے لئے کوشاں ہے۔ رانا کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکیم اللہ محسود کی زیر قیادت تحریک طالبان پاکستان اور دیگر ذیلی تنظیموں مثلاً افغانستان میں مقیم ملا فضل اللہ گروپ، طارق آفریدی گروپ اور فقیر محمد کی زیر قیادت باجوڑ طالبان کی جانب سے اس قسم کا کوئی وعدہ نہیں کیا گیا کہ وہ پاکستان پر حملے نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ آیا چھوٹے گروپ بھی اس معاہدے کا حصہ ہوں گے یا نہیں۔ رانا نے کہا کہ اگر قبائلی علاقوں میں القاعدہ کی موجودگی میں اضافہ ہوا تو پاکستانی فوج مزید دباؤ میں آ جائے گی۔

تجزیہ کاروں کا خیا ل ہے کہ طالبان کی جانب سے مختلف دھڑوں کو متحد کرنے کی کوششیں کا دعویٰ امن عمل کے تناظر میں اپنی ساکھ کو بڑھانے اور افغانستان کے مستقبل کے سیاسی نظام میں اپنی جگہ کو مستحکم کرنے کی جانب قدم ہے اور یہ ایک پبلک ریلشنز سٹنٹ بھی ہو سکتا ہے تاکہ لوگوں کو باور کرایا جا سکے کی دہشت گردوں کے تمام دہڑے ایک ہو چکے ہیں۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ نام نہاد اتحاد ایک ڈس انفرمیشن کا حصہ ہو جو طالبان کے مختلف گروپوں اور القائدہ نے اپنے مقاصد حاصل کر نے کے لئے پہیلایا ہو اس ایک مقصد کسی اور کو پیغام پہنچانا ہو ۔

بریگیڈیر محمود شاہ نے کہا کہ اتحاد کے بارے میں بات چیت طالبان کا شورش پسندوں پر دباؤ بڑھانے کا ایک ہتھکنڈا ہے جس کا مقصد مستقبل کے افغانستان میں اپنی جگہ بنانا ہے۔ بصورت دیگر وہ افغانستان اور پاکستان میں بے وقعت ہو کر رہ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شورش پسندوں کا نیا اتحاد بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے مگر وہ حالات کا رخ موڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

ان کے بقول بین الاقوامی قوانین کی رو سے افغانستان سے پاکستان کے معاملات میں دخل اندازی غیر قانونی ہے اور افغانستان سے پاکستان کو ہدایات جاری کرنا کسی بھی لحاظ سے قانونی فعل نہیں ہے۔ یہ طالبان کا شورش پسندوں پر دباؤ بڑھانے کا ایک ہتھکنڈا ہو سکتاہے۔

نئے اتحاد میں کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ قبائلی علاقوں میں کامیاب فوجی کارروائیوں کے باعث غیر منظم اور بکھرے ہوئے گروپوں نے پہلے ہی راہ فرار اختیار کر رکھی ہے، جبکہ افغان گروپوں کے اپنے ہی بہت سے مسائل ہیں جن کی پاکستانی طالبان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اگر ملا عمر کی درخواست پر پاکستانی طالبان کے گروپ پاکستانی فورسز پر حملے کرنا چھوڑ دیں تو یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہو گی مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
Iqbal Jehangir
About the Author: Iqbal Jehangir Read More Articles by Iqbal Jehangir: 28 Articles with 42487 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.