معاشرتی ویب سائٹوں کی لگام کون کسے گا؟

کل تک لوگوں میں سیاسی اور سماجی شعور بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کر نے کی دعویدارسماجی ویب سائٹوں کا قباحت بالآخرہندوستان میں بھی محسوس کی گئی۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر دیوی دیوتاؤں اور سیاسی قائدین کی تصویریںاور ہتک آمیز مواد کیا شائع ہوئے کہ غفلت کا پردہ چاک ہوگیا جبکہ فیس بک پر نبی کریمﷺ کے خاکوں کے حوالے سے ایک گستاخانہ مقابلے کے ا ہتمام پر ہزار شکوں کے باوجود حکومت کے سر پر جوں بھی نہیں رینگی تھی فیس بک ، گوگل ، یاہو اور مائکروسافٹ سمیت 22 سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ کے لئے مہلت طے کرتے ہوئے دہلی کی ایک عدالت نے انہیں مذہب مخالف اور سماج مخالف مواد ہٹانے ہی نہیں بلکہ6 فروری تک فیصلے کے تعمیل کی رپورٹ دینے کا حکم بھی دیا۔ ایڈیشنل سول جج مکیش کمار نے 20 دسمبر کو یکطرفہ حکم کے تحت سوشل نیٹ ورکنگ سائیٹس کوسمن جاری کرتے ہوئے عدالت نے انہیں اپنے حکم کی تعمیل کے لئے ڈیڑھ ماہ کا وقت دیا جس میں تفصیل سے بتانا ہوگا کہ عدالتی حکم کے مطابق قابل اعتراض اور منفی مواد ہٹانے کیلئے انہوں نے کون سے اقدامات کئے۔عرضی غزار مفتی قاسمی فتویٰ آن لائن چلاتے ہیں۔ا ن کے علاہو اےک ہندو عرضی گذار ونئے رائے نے بھی مقدمہ دائر کیا جن کا مشترکہ طور پر سنوائی ہورہی ہے۔ عدالت نے 20 دسمبر کو سوشل نیٹ ورکنگ سائیٹس کو حکم دیا تھا کہ وہ فوٹو گراف ، ویڈیو یا تحریری طور پر وہ قابل اعتراض مواد ہٹا لیں ، جس سے کسی کی مذہبی جذبات ٹھیس پہنچاءہو سکتی ہیں۔ مجسٹریٹ نے نوٹ کیا کہ عرضی گزار نے ویب سائٹ پر موجود مواد نہایت قابل اعتراض ہے۔ اس میں پیغمبر اسلام، ہندو دیوی دیوتاﺅں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انتہائی قابل اعتراض تصاویر اور تحریر موجود ہے۔

اس سے قبل پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے فیس بک ، یاہو ، گوگل ، مائیکرو سافٹ اور یو ٹیوب سمیت 21 سوشل نیٹ ورکنگ سائٹوں کو قابل اعتراض مواد کی وجہ سے مقدمے کا سامنا کرنے کا نوٹس ضرور دے دیا ۔ عدالت نے اس معاملے میں مرکزی حکومت کو ضروری قدم اٹھانے کو بھی کہا ۔ ساتھ ہی 13 جنوری تک رپورٹ طلب کی ہے۔تین دن پہلے ہی ان سائٹوں کے خلاف کورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔ سماعت کے دوران کورٹ نے فیس بک ، گوگل اور یوٹیوب کو ’مذہب مخالف‘ یا ’غیرسماجی‘ مواد کو ویب سائٹ پر دکھانے سے روکا تھا۔ کورٹ کا کہنا تھا کہ اس سے مذہبی جذبات کو ٹھےس پہنچتی ہے۔

ایک دیگر معاملے میں ان تمام سوشل نیٹ ورکنگ سائٹوں کے خلاف کریمنل کمپلینٹ دائر کی گئی جس میں الزام لگایا گیا کہ ان سائٹوں پر مختلف مذاہب کے لوگوں کے جذبات کو ٹھےس پہنچانے کیلئے دیوی ‘ دیوتاؤں کی فحش تصاویر ڈالی گئی ہیں۔ سیاستدانوں کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ان پر قابل اعتراض باتیں اور تصویر بھی دستیاب ہیں۔ ان پر موجود فحش مواد کو 18 سال سے کم عمر کے نوجوان بھی دیکھ سکتے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس طرح کے مواد بغیر کسی رکاوٹ کے تمام کیلئے دستیاب ہے اور اسے ہر عمر کا فرد استعمال کر سکتا ہے۔

اس سے قبل جون کے مہینے کے دوران سروے کے ذریعے بھی منفی رجحانات سامنے آئے تھے جس کے تحت پتہ چلا تھا کہ سماجی ویب سائٹ کا زیادہ استعمال عادی بنا دیتا ہے، باہمی تعلقات میں خرابی پیدا ہوتی ہے اور انسان تنہا ہوجاتا ہے۔ امریکہ کےPew Research Centerنے سماجی ویب سائٹوں کے استعمال کے بڑھتے ہوئے رجحان کے منفی و مثبت اثرات کے بارے میں ایک سروے کیاجس کے دوران یہ ثابت ہو گیا کہ فیس بک یا ٹویٹر سیاسی اعتبار سے بہت کارآمد ثابت ہوئی ہیں لیکن ان ویب سائٹوں کے صارفین کی زندگی کے حوالے سے امریکہ میں ایک سروے کیا گیا کہ کیا ان کی بھی کوئی حقیقی زندگی ہوتی ہے یا وہ ورچوئل ورلڈ کے ہی ہو کر رہ جاتے ہیں جبکہ ان سائٹوںمیں فیس بک سرفہرست ہے۔ دنیا بھر میں اس کے صارفین کی تعداد سات سو ملین بنتی ہے۔ سروے میں شامل زیادہ تر افراد نے بھی اس بات کی تائید کی اور کہا کہ انہیں بھی فیس بک سب سے زیادہ پسند ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فیس بک کے عام ایک صارف کےاوسطاً 229 دوست ہوتے ہیں۔ 15فیصد لوگ ایسے ہیں جو روزانہ اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہیں۔22 فیصد ارکان دیگر افراد کے پیغامات پرcomment لکھتے ہیں۔20 فیصد افراد تصاویر پر تبصرے، 10فیصد ’Like‘ کا آپشن استعمال کرتے ہیں اور صرف10 فیصد ایسے ہیں جو دوستوں کو محض پرائیوٹ پیغام ارسال کرتے ہیں۔

بظاہر ان سوشل ویب سائٹوں کے ذریعے دوستوں اور عزیزوں تک رسائی موجودہ دور کا پسندیدہ مشغلہ ہے لیکن ہیکروں کی کارروائیاں اس تفریح کو مصیبت میں بدل دیتی ہیںجس کا احساس اب وسیع ہوتا جارہاہے۔سوشل سائٹوں پر ذاتی معلومات اور تصاویر شیئر کرنے ‘پاس ورڈ شیئر کرنے کی بدولت ہیکنگ اور بھی آسان ہو جاتی ہے جبکہ ان سوشل سائٹوں کو ہیک کرنا ایک کاروبار بن چکا ہے جس کے ذریعے ہیکر مافیا بھی فوائد حاصل کرتا ہے اور دوسرے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ فیس بک انتطامیہ کے مطابق ہر روز ہزاروں کی تعداد میں فیس بک کے اکاؤنٹس کو ہیک کر لیا جاتا ہے اور ہیکرز روزانہ تقریباً 6 لاکھ مرتبہ یہی حرکت کرتے ہیں۔فیس بک کی طرح دوسری سائٹیں بھی 24 گھنٹوں کے دوران ہیک ہوتی رہتی ہیں اور ہیک کرنے والے لوگوں کے اکاؤنٹ تک رسائی سے ان کے پیغامات، تصویریں اور ذاتی اطلاعات حاصل کرلیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگ سوشل سائٹس پر اندھا اعتماد کرتے ہیں جس کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ سوشل سائٹیں استعمال کرنے والوں کی فراہم کردہ ذاتی معلومات اور تصاویر کا غلط استعمال اس وقت بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔انہوں نے متنبہ کیا کہ جب یوزر پاس ورڈ کا انتخاب کریں تو اس بارے میں کافی محتاط رہیں اور کسی بھی دوست کو اس بارے میں نہ بتائیں۔ جب کوئی ہیکر اکاونٹ ہیک کر لیتا ہے تو وہ آسانی سے اس پر پیغامات چھوڑ سکتا ہے، تصویریں لگا سکتا ہے یہاں تک کہ ذاتی اطلاعات تک بھی رسائی حاصل کر لیتا ہے جہاں تک پہنچنا ممکن نہ ہو جبکہ سوشل سائٹوں پر تصاویر اور ذاتی معلومات کو عام کرنے میں احتیاط ضروری ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے زیادہ تر ہیکرنو عمر ہوتے ہیں جو حسد اور ذاتی اختلاف کی بنا پر ایک دوسرے کا اکاونٹ ہیک کر لیتے ہیں اور پھرغلط قسم کے پیغامات اور تصویروں کے ذریعے بلیک میل کرتے ہیں۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126181 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More