پوری دھرتی پر گہرے اور
گھپ اندھیرے کی چادر تن چکی تھی ۔ سڑکوں ، چوکوں، چوراہوں ، شہروں اور
دیہاتوںمیں گہرے سناٹے کا راج تھا اور رات نصف سے زیادہ بیتا چاہ رہی تھی،
ایسے میں مہمند ایجنسی کی سرد اور بلند ترین پہاڑی چوٹی پر یہ سر بکف سپاہی
اپنے فرض اوراس ذمہ داری سے قطعا ً غافل نہ تھا جو اسے ملک و ملت کی جانب
سے تفویض کی گئی تھی ، آر پی جی سیون راکٹ لانچر پر اس کی گرفت بہت مضبوط
تھی ،اتنی مضبوط کہ ایساگماں ہوتاتھا اس مہلک ہتھیار کو کسی انسانی نہیں
فولادی شکنجے میں جکڑ دیا گیا ہو ، سرد ہوا کے تیز ترین تھپیڑے ، ہر لحظہ
دشمن فوج کااندیشہ ، تاحد نگاہ پھیلے گھنے جنگلات اور پہاڑوں کا ایک
لامتناہی سلسلہ ۔۔۔مگر ان تمام تر حالات کی سختی کے باوجود بھی وہ بلا خوف
و خطر ،چاق و چوبند اپنے مورچے پر ڈٹا ہوا تھا اور ان ناموافق حالات میں
بھی اس کے عزم میں کمی اور پایہ استقلا ل میں لرزاہٹ ولغزش نہ آئی تھی ، اس
کی عقابی آنکھیں اس کی بہادری کا پتہ دے رہی تھیں، اتنی اندھیر ی رات کہ جس
میں قریب سے بھی کچھ سجھا ئی نہ دیتا تھا اس کی تیز نظریں شب تاریکی
کوچیرتی ہوئی بارڈر پر لگی خاردار تاروں کے اس پار مسلسل گشت کیے جا رہی
تھیں ، ایسا لگتا تھا کہ یہ مردِ مجاہد آہٹ پاتے ہی دشمن فوج پر ہلہ بول دے
گا اوراسے سخت ہزیمت سے دوچار کر کے اپنی سرزمین کے تحفظ کی خاطر کوئی بھی
کسر اٹھا نہیں رکھے گا ،اس کے عزم اور پامردی سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اگر
کسی نے اس کی دھرتی کی جانب میلی آنکھ سے بھی دیکھا تو پھراس کی آنکھیں اس
کے چہرے میں نہیں رہیں گی، اس کا فولادی جسم اس امر کی غمازی کر رہا تھا کہ
یہ محافظ وطن کسی طور بھی اپنے فرض سے غفلت کا مرتکب ہونا تو دور کی بات اس
کا سوچ بھی نہیں سکتا ، مورچے میں رات کے اس سمے وہ تن تنہا ہی کسی سیسہ
پلائی دیوار کی مانند کھڑا تھا ، اس کے بائیں کندھے سے فولڈنگ بٹ کلاشنکوف
،گرم قہوے کی چھاگل اور سینے پر گولیوں کی میگزینز لٹک رہی تھیں ، بس یہی
اس مرد مجاہد کی کل کائنات تھی، سر تا پا گولہ و بارود سے لیس اس جوان کے
دیگر ساتھی اس سے کچھ فاصلے پر ایک فوجی بنکر میں محو استراحت تھے جب کہ اس
کا گارڈ کمانڈر وائرلیس کے ذریعے سے اس سے مسلسل رابطے میں تھا ۔ جونہی
گھڑی نے رات کا ایک بجایا اچانک ہی اسے سرحد پار سے غیرمعمولی نقل وحرکت کا
اندازہ ہوا، اس منجھے ہوئے سپاہی کو یہ سمجھنے میں ذرا بھی دشواری نہیں
ہوئی کہ یہ نقل وحرکت فوجی ہے یا سویلین نوعیت کی، اس نے فورا سے پہلے
صورتحال کے متعلق اپنے کمانڈر کوآگاہ کیا ، اس ہلچل میں اس کے دیگر فوجی
ساتھی بھی جاگ چکے تھے کہ کچھ ہی ساعتوں بعد آسمان پر آ ہنی پرندوں کا ایک
غول برآمد ہوا اور اس کے ساتھ ہی فضا آتش وآہن کی بارش میں نہا گئی ۔اس
محافظ وطن نے اپنی بے پناہ عسکری تربیت اور جنگی اسرار و رموز کو کام میں
لانے میں ذرا بھر بھی دیر نہ کی اور پلک جھپکتے ہی اس کے کندھے پر رکھے
ہتھیار سے آگ کے شعلے بلند ہو نے لگے ، دشمن فوج اورپاکستان کی اس جری سپاہ
کے مابین گھمسان کارن پڑ چکا تھا ، دھرتی کا یہ بیٹا اپنی استطاعت سے بھی
بڑھ کر دشمن فوج پر قہر بن کر ٹوٹ رہاتھا اورلہو منجمد کردینے والی اس فضا
میں اپنے مورچے سے باہر نکل کر اپنے سے کئی گناہ زیادہ طاقتور دشمن سے نبر
د آزما ہوچکا تھا ۔ اس شہید سپاہی کی یونٹ 7-AK کے زخمی ساتھی مجھے بتا رہے
تھے کہ دھرتی کا یہ بیٹا ایساف اور نیٹو کے ”صلیبی لشکر “کے ساتھ بڑی ہی بے
جگری سے لڑا تھا اور ہم پورے ایقان سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ دشمن کی پیدل فوج
نے اس کی جوابی کارروائی سے ناقابل تلافی نقصان اٹھایا ہو گا،صلیبی لشکر کے
پاﺅں اس بہادرجوان اور اس کے ساتھیوں کی بروقت کارروائی سے اکھڑ چکے تھے
مگر ناٹو اور ایساف کے فوجی اس شدید ردعمل کو دیکھ کر اور خطرے کو بھانپتے
ہوئے واپس پلٹے اور اپنے لاﺅ لشکر کے ساتھ چند لمحوں بعد پھر سے جدید ترین
ٹیکنالوجی کے ہمراہ اس چوکی پر حملہ آور ہوئے اوردیکھتے ہی دیکھتے پاکستانی
فوجیوں کی اس چیک پوسٹ کو قبرستان میں تبدیل کر ڈالا،جب آگ و باردو کی گرد
چھٹی تو دنیا نے دیکھاکہ یہ بہادر سپاہی اپنے تئیس جانباز ساتھیوں سمیت جام
شہادت نوش کر چکا تھا۔یہ محافظ وطن تحصیل منکیرہ ضلع بھکر کا سپوت سپاہی
محمد مہربان شہید تھا جس نے 26اور 27نومبر2011ءکی درمیانی شپ مہمند ایجنسی
کی سلالہ چیک پوسٹ پر انتہائی کم جنگی و حربی وسائل کے باوجود اپنے جواں
ہمت افسروں اور فوجی جوانوں کے ہمراہ ملت کے دفاع کی جنگ پوری پامردی ، عزم
اور ہمت سے لڑی اور اس کی خوبصورت جوانی اس تاریخی معرکے میں کام آگئی ۔ اس
سربکف مرد مجاہد کی نماز جنازہ آبائی علاقہ میں ادا کی گئی اور علاقہ کے
عوام نے بھرپور جوش و جذبے کے ساتھ اپنے دلیر اورجری فرزند کو لحد میں
اتارا۔ یہ مرد حر صرف بائیس سال کی چھوٹی سی عمر میںشہادت کے رتبے پر فائز
ہو کر حیات جاودانی پاکر تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا
اور اپنے جوان و تازہ لہو کی سرخی سے قرطاس وطن پر یہ پیغام چھوڑگیا
جب بھی گھیرا تجھے ظلمتوں نے کبھی
مشعل جاں لیے ہم مقابل رہے
ہم نے مر کے تجھے سرخرو کردیا
ہم بھی تیرے شہیدوں میں شامل رہے |