رب کائنات نے انسان کو تمام
مخلوقات میں اشرف المخلوقات کا درجہ عطا ءکیا اور اپنے قدرت کے خزانے میں
سے انسان کواُن علوم سے بہرآور فرمایا۔ جن کے بارے میں وہ نہیں جانتا تھا ۔تا
کہ انسان ان علوم کے ذریعے اپنے خالق کی پہچان کرکے اپنی زندگی کے مقصد کو
سمجھے اور اپنی زندگی میں آسانیاں پیدا کرکے کر ہ ارض پر اصلاح و فلاح کو
فروغ دے سکے ۔قدرت کی عطا ءکردہ ان ہی مہربا نیوں کے سبب انسان نے پتھرکے
دور میں آگ کو استعمال کر نے سمیت درخت کے تنوں کو بطور لیور اور پہیہ
استعمال کر نا سیکھا ۔یوں ترقی کے منازل طے کرتے کرتے انسان نے غاروں کو
خیر آباد کہہ کربستیاں آباد کی ۔مختلف زبانیں ایجاد کرکے زندگی کے اصول
سیکھے ۔زندگی کے اس سفر میں انسان جب بھی کم علمی کے سبب کوتاہیوں میں
مبتلا ہوا تو رب العزت نے اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے ذریعے اسکی مکمل
رہنمائی فرمائی ۔رب العزت کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی کا یہ سلسلہ اخری
نبی حضرت محمد ﷺ پر تمام ہوا ۔رب العزت نے آپ ﷺ کے ذریعے ایک کامل اور جامد
دین اسلام کو قیامت تک کے انسانوں تک پہنچایا ۔اس دین کامل میں رب العزت نے
تمام انسانوں کو حرام ،حلال، جائز ،نا جائز ،نفع ،نقصان حتیٰ کہ زندگی کے
تمام امور میں مکمل رہنمائی فرمائی ،تاکہ انسان کسی شش وپنج میں مبتلا ہوئے
بغیر باآسانی اپنی زندگی گزار سکے ۔ یوں علمی ارتقاءکے مختلف منازل کو طے
کرنے کے بعد کل کاانسان آج کے جدید دور میں داخل ہوا۔قدرت کے عنایت کردہ
علوم میں علم سائنس کے بدولت انسان نے کافی ترقی کی اور وہ کل کے نسبت آج
نہایت حیران کُن اور پُر آسائش زندگی گزار رہا ہے ۔اس علم کے بدولت انسان
نے چاند اور مریخ پر کہمندڈالے ۔اس نے مہینوں کے سفرکو چند گھنٹوں میںمحدود
کر دیا ،لاعلاج مرضوں کے حیران کن علاج دریافت کردیے ۔آسمان زمین خشکی
سمندر ہر جگہ انسان نے دیگر مخلوقات پر اپنا لوہا منواکر اپنے اشرف
المخلوقات ہونے کا ثبوت پیش کیا ۔ آج کے انسان نے الیکٹرونکس ٹیکنالوجی کے
ذریعے ذرائع ابلاغ کو بے انتہا وسعت دے کر دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل
کردیا ہے ۔ذرائع ابلاغ یعنی ٹی وی ،کمپیوٹر اور موبائل فون جیسے آلات علم
سائنس کے وہ ایجادات ہیں جس کے ذریعے انسان آسانیوں اور آسایشوں کے انتہا
تک پہنچ چکا ہے ۔ذرائع ابلاغ میں استعمال ہونے والے آلات نہایت کم وزن اور
کم قیمت ہونے کی وجہ سے ہر کوئی ان سے مستفید ہو رہا ہے ۔ٹی وی کے ذریعے نت
نئی خبریں اور دیگر معلومات صرف ایک بٹن کے دبانے پر حاصل ہورہی ہیں ۔موبائل
فون کے سبب دوریوںپر محیط فاصلے مٹ چکے ہیں ۔کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے ذریعے
علم کے خزانے ہر کسی کے دسترس میں ہیں ۔ سائنس کی اس ترقی کے بدولت انسانی
زندگی پرجہاں مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں تو وہیں اس کے منفی استعمال سے
نہایت برے اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں ۔
ان ذرایع کے مثبت استعمال سے ایک جانب اگر زندگی میں آسانیاں اور فائدے حا
صل ہو رہے ہیں تو دوسری جانب ان کے غلط استعمال کے سبب معا شرے میں بے
حیائی اور برائی فروغ پا رہی ہے ۔ذرایع ابلاغ کے یہ آلات اگر تریاق ہیں تو
مہلک زہر سے بھی کم نہیںہیں ۔اسی سائیڈ ایفکٹ کی وجہ سے ہمارے معاشرے کے
مختلف طبقات میں ٹی وی اور کمپیوٹر انٹر نیٹ کو بری نظر سے دیکھا جا تا ہے
۔اور ان آلات کوبرائی اور گناہ پھیلانے کا سب سے بڑا سبب مانا جاتا ہے
۔مختلف مذہبی جماعتیں اپنے فتوؤں میں ان آلات کو حرام قرار دے کر ان کے
خرید و فروخت کے کمائی کو بھی حرام گرانتے ہیں ۔اور مختلف موقعوں پر مذہبی
اجتماعات کے دوران ٹی وی ،سی ڈیز پلیئر کو چوراہوں پر آگ لگا کر اپنے جذبات
کا اظہار کرتے ہیں ۔کیا ذرایع ابلاغ کے یہ جدید آلات واقعی اسلام میں حرام
ہیں یا ان آلات کے متعلق حرام کے فتوے محض بے حیائی کے خلاف ہمارے جذباتی
فیصلے ہیں ۔یہ انتہائی نازک اورغور طلب بحث ہے ۔
عمومی طور پر ہمارے معاشرے میں ان آلات کو دو نکات کے پیش نظر اسلام میں
حرام قرار د یا جاتا ہے ۔اول یہ کہ اسلام میں ناچ ،گانا ،موسیقی ،بے حیائی
حرام ہے اور یہ آلات ان حرام کاموں میں استعمال ہوتے ہیں ۔دوئم یہ کہ اسلام
میں تصویر اور اس کا بنانا اوراستعمال کرناحرام ہے ۔اور ٹی وی ، کمپیوٹر
وغیرہ کا کام ہی تصویربنانا اور دیکھانا ہے ۔ لہذاان آلات کو اسلام میں
حرام تصور کیا جاتا ہے ۔اسلام میں موسیقی ،ناچ ،گانا بے حیائی حرام ہے لیکن
کیااس حرمت کے زمرے میں ذرائع ابلاغ کے یہ آلات بھی شامل ہیں ۔کیونکہ مثبت
اور تعمیری کاموں میں بھی استعمال ہونے والے ان آلات میں برائی استعمال کی
جا سکتی ہے ۔لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو برائی پھیلانے کے لیے یہ آلات
بذات خود ذمہ دار نہیں ہوتے ۔اس زمرے میں ان مردہ اوربے حس آلات کوکیسے
قصور وار ٹہراسکتا ہے۔جنہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ اُنہیں کس لیے استعمال
کیا جا رہا ہے ۔بلکہ قصوروار تومعاشرے کے وہ افراد ہیں جو ان آلات کو برائی
کے سگنل مہیا کرتے ہیں یاپھر استعمال کرتے ہیں ۔ یہ آلات اگرواقعی اسلام
میں حرام ہیں۔ تو مساجد میں ایمپلی فایئراور لوڈسپیکر کی شکل میں اور خانہ
کعبہ اور مسجد نبوی میں سکیورٹی کیمروں اور کمپیوٹر مانیٹروں کی شکل میں
استعمال نہ ہوتے ۔درحقیقت ذرایع ابلاغ کے یہ آلات بذات خود نہ برائی بنانے
کی سکت رکھتے ہیں اور نہ پھیلا سکتے ہیں ۔ یہ آلات ہمارے مرضی کے طابع ہوتے
ہیں ہم خودہی اس کو برائی مہیا کر کے بے حیائی کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔اس
لیے گناہگار ہم ہوتے ہیں یہ آلات نہیں ۔روز محشر ان گنا ہوں کی سزا ہمیں
ملے گی ان آلات کو نہیں ۔دنیاوی عدالت میں قاتل کو موت کی سزا سنائی جا تی
ہے آلہ قتل کو نہیں ۔ا س تناظر میں ان آلات کو بلا دلیل حرام قرار دے کر
سرعام جلانے کے بجائے ہمیں ان ٹی وہی سٹیشنوں اور کیبل آپریٹروں اور فحش سی
ڈی بنانے والوں کے خلاف بھرپور لب کشائی کرنی چاہیے جومعاشرے میں برائی
اوربے حیائی کے اصل ذمہ دار ہیں ۔ہم محض ان آلات کو خود ساختہ طور پر حرام
قرار دے کر نہی عن المنکر کی اصل ذمہ داری سے سبکدوش نہیں ہوسکتے ہیں ۔
نکتہ دوئم کی رو سے اسلام میں تصویر کا بنا نا اور استعمال کرنا حرام ہے
چونکہ ذرائع ابلاغ کے ان آلات سے مثبت کام بھی تصویر کی صورت میں موصول
ہوتا ہے ۔لہذا ن آلات کو حرام تصور کیا جاتا ہے ۔بے شک اسلام میں تصویر
حرام ہے ۔جسکا ثبوت ہمیں کئی حدیثوں سے ملتا ہے ۔فتح مکہ کے موقع پر
انحضرتنے بیت اللہ میں رکھے گئے تین سو ساٹھ بتوں مجسموں کو توڑکراور بیت
اللہ کی دیواروں پر بنائی گئی تصاویر کو مٹا کر عملی طور پر بھی ثابت کیا
کہ اسلام میں جانداروں کی تصاویر اور مجسنے بنا نا اور ان کااستعمال ممنوع
ہے ۔اسلام میں ان تصاویر کے حرام ہونے کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ پچھلی
امتیں پیغمبروں ،فرشتوں ،بزرگوں اورولیوں کے بت مجسمے اور تصاویربناکر ان
کی عبادت کیا کرتے تھے۔لہذا اسلام نے ان چیزوں کو حرام قرار دے کر امت
محمدی کوگناہ عظیم شرک سے بچانے کی تدبیر کی ہے ۔لیکن کیا تصویرکے حرمت کے
زمرے میں تمام تصویریں شامل ہیں؟ کیونکہ اسلام میں جاندار یعنی انسان
،جانور ،فرشتوں ،جنات اور پریوں وغیرہ کی تصاویر کا بنا نا یاگھر میں رکھنا
حرام تو ثابت ہے۔لیکن ایسی تصاویر جو صرف قرآنی آیات ،درخت ،پھول پودوں
،سمندر ،دریااور یانقشوں پر مشتمل ہوںاور ان کے استعمال کا مقصدبرائی نہ
ہوکیاایسی تصاویر کا حرام ہونا کہیں بھی ثابت نہیں ہے ؟البتہ سفری ،شناختی
دستاویزات اور کرنسی میں استعمال ہو نے والی انسانی نصف تصاویر کا شبہ
موجود ہے؟ جدید ذرائع ابلاغ کے یہ آلات یا تو صوتی شکل میں آؤٹ پٹ دیتے ہیں
اور یا پھر بصری شکل میں ۔لیکن کیا بصری صورت میں ان آلات سے موصول ہونے
والی اشکال تصویر وں میں شمار ہوتی ہیں؟کیونکہ تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ
تصویر غیر متحرک ،مستقل اورجامد ہوتی ہے ۔جبکہ عکس متحرک ،غیر مستقل اور
غیر جامد ہوتا ہے ۔مثلاً آینئے اور ٹہرے پانی میں بننے والی اشکال کو تصویر
نہیں بلکہ عکس کہا جاتا ہے ۔اور اسلام میںجائز عکس دیکھنے کا حرام ہونا
کہیں بھی ثابت نہیں ہے ۔بلکہ اسلام تو آئینے میں دیکھتے وقت دعا پڑھنے کی
تلقین کرتا ہے ۔ حیرت انگیز طور پرٹی وی ، کمپیو ٹر اور موبائل فون سکرینوں
پر بننے والی اشکال بھی شعاعوں سے بن کر عکس کی شکل اختیار کرتی ہیں ۔جو
متحرک اور غیر مستقل اور غیر جامد ہوتی ہیں ۔اس نظریے کی رو سے دیکھا جائے
تو ٹی وی ،کمپیوٹر کے سکرینوں پر موصول ہونے والے اشکال تصویر یں نہیں بلکہ
عکوس کا مجموعہ ہوتے ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذکورہ نکات کے
تناظر میں یہ آلات واقعی حرام ہیں ۔اسلام ایک جامد اور حقیقت پسند دین ہے
اور یہ دین انسانوں کی رہنمائی میں کبھی کوتاہی کا مظاہرہ نہیں کرتا ہے
۔آپﷺ کے دور مبارک میں بھی ناچ گانے والے موجود تھے اور جب آپﷺ نے بانسری
کی آواز سنی تو کانوں مبارک میں انگلیاں ڈالی ،ان کے اس عمل کو حرام قرار
دیا ،لیکن یہ کہیں بھی ثابت نہیں کہ آپ ﷺنے نعوذبااللہ تشدد سے کام لیتے
ہوئے ان ناچ گانے والوں کے گھروں کو جلانے کا حکم دیا ہو ۔اسی طرح اسلام
میں کسی کا ناحق قتل گناہ کبیرا اور حرام ہے ۔لیکن اسلام محض قتل کی وجہ سے
آلات قتل کو حرام قرار نہیں دیتا ،کیونکہ یہ آلات قتل کے علاوہ جہاد اور
سیکورٹی جیسے دیگر مثبت کاموں میں بھی استعمال ہو تے ہیں ۔جدید ذرائع ابلاغ
کے موجودہ آلات اگر محض برائی کے لیے استعمال ہوتے اور ان کا کوئی مثبت
استعمال نہ ہوتا تو پھر ان کا حرام ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا ۔لیکن محض
برائی کے سائیڈ ایفکٹ کی وجہ سے ان آلات کوخود ساختہ طور پرقطعاًحرام قرار
دینا برائی سے نفرت کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہے ،کیونکہ ان آلات کا مثبت
استعمال ترک کر کے کوئی بھی معاشرہ جدید دور کے تقاضوں کونہ پورا کر سکتا
ہے ،اور نہ ان کا مقابلہ کرسکتا ہے ۔اگر یہ آلات واقعی اسلام میں حرام ہیں
تو فتوے دینے والوں کو چاہیے کہ وہ دلائل میں قرآن اور حدیث کے حقیقی ٹھوس
ثبوتوں کا سہارا لے کر فتوے جاری کریں ۔بصورت دیگر ان کے فتووں کی کوئی
اہمیت نہیں رہے گی ۔ |