کائنات ا ورانسانیت کے
خالق و مالک ، رحمٰن و رحیم کی بے انتہا کرم گستری ہے کہ اُس نے انسانوں پر
رحم و کرم کا معاملہ کیا اور ساری انسانیت کی ہدایت کا سامان کرکے اس
انسانیت پر احسانِ عظیم فرمایا۔ قیامت تک انسانیت اب ہدایت سے فیض یابی کے
مواقع سے کبھی محروم نہیں رہے گی،اِس لیے کہ رحمن ورحیم نے اپنے رسول حضرت
محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک ایسی عظیم کتاب نازل فرمائی، جو
ہمارے درمیان پوری حفاظت کے ساتھ موجود ہے۔یہ ایک ایسی کتاب ہے جو اپنے آپ
میں مکمل ، ہدایت کا سر چشمہ اور گمراہی کی تاریکیوں میں بھٹکنے والوں کے
لیے منبع نور ہے۔ ایک ایسی نایاب و شاہکار کتاب کہ جس میں کہیں کوئی مغالطہ
نہیں
(نعوذ با اللہ) ،نہ تشکیک کا کوئی پہلو ، نہ کوئی معمہ کی طرح کی باتیں اِس
میں موجود ہے۔ یہ کتاب اپنی تشریح آپ ہے ۔ تضادات سے پاک اور نہایت کھلے
بیانات والی یہ کتا ب اپنے مدعا میں شفاف، اپنے موضوع میں واضح تریں اور
اپنے نظریات میں حقیقت آفریں ہے۔ظاہر ہے انسانوں کو ہدایت سے سرشار کرنے
والی کتاب پیچیدگیوں کی حامل کیسے ہو سکتی ہے۔ ناعاقبت اندیش ہیں وہ لوگ جو
اِس کے اطراف اپنی بد نصیبیوں کی دیواریں کھینچ دیتے ہیں اور بندگانِ خدا
کو ہدایت سے محروم کرنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔اِس عظیم کتاب کی فیض یابیوں
کے لیے ضروری ہے کہ اِ س سے اپنے تعلق کی تجدید ہو، اِس کے پیغامات کو جذب
کرنے کے لیے دل و دماغ کا Receptionآن ہو تاکہ تدبر و تفکر کے ذریعہ اِس سر
چشمہ ہدایت سے فیض یاب ہونے کا عمل پھر سے جاری ہوجائے۔ جس کے نتیجے میں
الکتاب سے تعلق کے سبب نو ر کی ربانی کرنیں انسانی دل و دماغ کو منور کرےں،
قلب و ذہن منور ہوں اورو زندگی جگمگا اُٹھے۔ اور آخرت انشاءاللہ حتمی فلاحِ
حقیقی سے ہمکنار ہو۔
قرآنِ الحکیم میں ستراویں سورةبنی اسرائیل کی ستر ویں آیت پر غور و فکر
قرآن سے مذکورہ تعلق کی ایک کوشش ہے، جو اِس مضمون کی شکل میں حاضرِ خدمت
ہے۔ کسی تامل کے بغیر ہم اعتراف کرتے ہیں کہ عرشِ اعظم سے نازل ہونے والی
عربی مبین کا اپنی زبان میں ترجمہ یا ترجمانی کا حق ہم نہیں ادا کر سکیں
گے۔البتہ ہماری کوشش رہے گی کہ اسکے مفہوم اور اسکی روح سے قریب تر
ہوسکیں۔اللہ ہماری مدد فرمائے:”....درحقیقت ہم نے بنی آدم کی بڑی تکریم کی(
Dignify اور Upgrade کیا)اور ہم نے برّ و بحر میں(اِس کی نقل و حمل کے لیے
تیز رفتارسواریوں پر)سوار کروا یا اورطیبات پر مشتمل رزق بخشا اور جن
مخلوقات کو ہم نے فضیلت کے ساتھ خلق کیا ، اُن میں سے بھی اکثر یت پر (بنی
آدم ہی کو)فضیلت دی۔“
یہی فضیلت ہے جو انسانی دنیا کی گہما گہمیوں میں منعکس ہوتی رہتی
ہے۔انسانوں میں جذباتِ الفت و یگانگت، محبت و بھائی چارہ، تعلق ِ خاطرو
خدمتِ انسانیت جیسی نمایاں خصوصیات کی فراوانی ہے، جو دیگر مخلوقات میں
نظرنہیں آتیں اور اگر نظر بھی آتی ہیں تو اِن کا دائرہ بہت تنگ ہوتا ہے۔
ایک جذبہ ان میں بطورِ خاص پایا جاتا ہے اور وہ ہےCharityیا اِنسانوں کی
بھلائی کے کام کرنے کا جذبہ۔ اگرچہ اِس کی شدت مختلف انسانوں میں مختلف ہو
سکتی ہے تاہم کسی نہ کسی درجے میں یہ جذبہ ہر انسان میں کم و بیش ضرور
موجود رہتا ہے۔ اہلِ ایمان کے لئے تو Charities کی کئی شکلوں میں سے ایک
مستقل شکل زکوٰة کی ہے جو فرض کا درجہ رکھتی ہے۔ صدقات اور کَفّارے کی
شکلیں بھی ہیں۔ اِنسانی فلاح کے اِن سارے اُمور کی کس طرح نگرانی ہو، کس
طرح ، کہاں اور کیسے فلاحی اشیاءکا استعمال کیا جائے،اِس سلسلے میں بھی رب
تعالےٰ نے ہمیں ضروری احکامات سے نوازا ہے۔ چنانچہ نویں سورة کی ساٹھویں
آیت میں ارشاد فرمایا:” درحقیقت،صدقات اور Charitiesتو فقراءکے لئے اور
مساکین کے لئے اور اس پر عاملین کے لئے اور انسانوں کے دلوں میں(دعوت حق
سے) الفت جگانے کے لئے اور پھنسی ہوئی گردنوں کو چھڑانے میں اور قرض میں
ڈوبے لوگوں کی مددکے لئے اور اللہ کی راہ میں اور راہ چلتے مسافروں کے لئے۔
فرض کردیا ہے اللہ نے اور اللہ علم والا، حکمت والاہے۔ “
گو کہ ہم اپنے پاس جو بھی مال و دولت رکھتے ہیں وہ سارا کا سارا ہمارے رب
ہی کا عطا کردہ ہے۔ تاہم یہ اُس کا فضل واحسان ہے کہ اسی میں سے وہ ہمیں
Charities کا حکم دیتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ ترتیب ترجیجات بھی بتا دی
جاتی ہیں کہ جنہیں charities کی تقسیم کے وقت ملحوظ رکھنا ہوتا ہے۔ لفظ
’صدقات ‘ سے ہر طرح کے صدقات مراد ہیں اور مالی تعاون کی جملہ مدات بشمول
زکوةبھی اِس میں شامل ہیں۔ charitiesکے مستحقین کی یہ ایک حکیمانہ فہرست ہے
جس میں معاشرے کے سارے ہی محرومین شامل ہیں۔ اِس سے بہتر کسی دوسری فہرست
کا تصور محال ہے۔اصل کام یہی ہے کہ اللہ کے دیے ہوئے مال کو اللہ کی بتائی
ہوئی فہرست کے مطابق اللہ کی رضا کی خاطرتقسیم کیا جائے۔جس مالک نے ہمیں
اپنے فضل سے نوازا ہے ، اُسی مالک نے انسانی نسل کے بعض طبقوں کو مال سے
محروم بھی رکھا ہے۔ان کی فہرست بھی اُسی نے تیار کرکے ہمیں دی ہے۔ اہلِ مال
کی ذمہ داری ہے کہ اِ ن سائیلین اورمحرومین کو اپنے اطراف و اکناف میں تلاش
کریں تاکہ اِن کی ممکنہ مددہو سکے اور احکامِ اِلٰہی کی پابندی کے ساتھ
خوشنودی رب کی جستجو بھی ممکن ہو سکے۔تدبرو تفکر کی مزید گیرائی و گہرائی
کے لیے توفیقِ خدا وندی کے ہم خواستگار ہیں۔
ایسے انسان جو ضروریات ِزندگی کے محتاج ہیں،مفلس و نادار ہیں،مشکلات کا
مقابلہ کر رہے ہیں،دراصل اِن ہی کے لیے زمین پر دولت مندی کا وجود ہے۔
ضرورت سے زیادہ دولت، وسائل اور سہولتوں کی فراہمی اصلاً دولت مندوں کے لیے
آزمائش کا سامان ہے۔اس پورے نظام میں انسان کے خود غرض بننے کا کوئی موقع
نہیں۔اُسے لازماً اپنے ماحول کی فکر کرنی ہے۔یعنی زائد از ضرورت دولت کو
مذکورہ مستحقین تک پہنچانا ہے۔ پھر یہ کہ اپنے ماحول کی فکر کرکے وہ کوئی
احسان بھی نہیں کرتا، کیوں کہ اُس کی دولت مندی کے برقرار رہنے کا دارومدار
خود اِس کے اِسی عمل پر ہے اوردولت مندی کی یہ منزل اُسے ماحول کے تعاون ہی
سے ملتی ہے اور مل سکتی ہے۔مثلاً،ترجیحات کی فہرست میں والدین کے ذکرکو
لیجیے۔ایسا کیوں ہے کہ والدین مستحقین میں سرفہرست نظر آتے ہیں؟ تدبر کہتا
ہے کہ، اپنی پیدائش کے وقت ایک مجبور اور کمزور انسان اپنے ماحول میں اپنے
والدین ہی کی بے پناہ نگرانی کامرہون منت ہوتا ہے۔یہ نگرانی اِس سے چھن
جائے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔پھرجوںجوں اِس کی عمر بڑھتی چلی جاتی ہے تو
اسکے والد محنت و مشقت کرکے اپنے گاڑھے پسینے کی کمائی اس پر خرچ کرتا ہے ،
پھر اس کی تعلیم و تربیت، علاج اور معالجے میں ماں باپ کی جانب سے کوئی کسر
نہیں چھوڑی جاتی۔اِس کے لیے والدین اپنی زندگی کا بڑا حصہ اپنی اولاد کے
لیے وقف کر دیتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خود والدین ایک مرحلے میں کمزوری
کا شکار ہو جاتے ہیں اور اولاد تندرست و توانا بن کر اُس کے سامنے کھڑی ہو
جاتی ہے ۔ اب وقت ہوتا ہے کہ انہیں خود اولاد کے سہارے، مدد، ہمدردی اور
محبت کی ضرورت ہوتی ہے اور یہیں اولاد کا امتحان شروع ہوتا ہے کہ ایسے میں
اولادکیا رویہ اختیار کرتی ہے۔
اِس پوری کیفیت کو درجِ ذیل آیتوں میں نفسیاتی طریقے سے سمجھا یا گیا
ہے۔اکتیسویں سورة کی چودھویں آیت میںرب تعالےٰ نے اِس کا شدید احساس ہم
انسانوں کو دلایا ہے:”.... اور ہم نصیحت کر رہے ہیں انسان کو اپنے والدین
کے تعلق سے۔اُٹھایا اُس کے بوجھ کو اُس کی ماں نے، بہت تکلیف پر تکلیف سہتے
ہوئے، اور سخت نگہ داشت کی اسکی (کم از کم) دو سال تک ۔اب انسان کو میرا
بھی شکر ادا کرنا چاہئے اور اپنے والدین کا بھی اور اسے معلوم ہونا چاہئے
کہ میری ہی طرف انسان کو لوٹنا ہے۔“
پھر ستراویں سورة کی تیئسویں اور چوبیسویں آیات میںیوں فرمایا: ” ہم نے
فیصلہ فرمادیا ہے کہ عبادت ہمارے سوا کسی کی نہ کی جائے اور والدین کے ساتھ
حسنِ سلوک کیا جائے۔ اگر تمہارے سامنے وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک
بڑھاپے کی منزل کوپہنچ جائے، تو انہیں اُف بھی نہ کہنا، اور بہت
Dignigtyاور احترام کے ساتھ ان سے بات کرنا ۔اور اپنی دونوں بانہیں پھیلا
دینا انکے لئے رحم کرتے ہوئے، اور ہم سے دعا کرنا کہ اے میرے رب! ان دونوں
پر آپ کی رحمت فرمائیے، جس طرح انہوں نے شفقت کے ساتھ بچپن میں میری پرورش
کی تھی۔ “ظاہر ہے کہ والدین کے اس احسان کا بدلہ انسان کیا ادا کر سکے
گا۔!! اپنی ساری دولت بھی لٹا دے تو وہ یہ بدلہ نہیں چکا سکتا۔
اِس کے علاوہ دیگر مدات کا تعین بھی اِس قدر حکیمانہ ہے کہ یہ صرف مالکِ
کائنات ہی سے ممکن تھا۔غور و فکر کے ذریعہ اِن مدات(فقرائ،مساکین، عاملین،
تالیف قلب کے مستحقین،پھنسی ہوئی گردنوں والے، غارمین، فی سبیل اللہ اور
ابن السبیل) کی حکمت کی توجیہ بھی تدبر سے ممکن ہے ، جیسا کہ والدین کے
سلسلے میں اوپر درج ہے۔لیکن حقیقی بندگی کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ مال
ودولت کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنے دیگر وسائل میں سے بھی عطیہ دیتے رہنا ہے
اور اس عطیہ کی ترجیحات بھی ہمیں ہمارے رب نے دوسری سورة البقرہ کی دو سو
پندرھویں آیت میں بیان فرمادی ہیں: ”اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم لوگ آپ سے
دریافت کرتے ہیں کہ وہ کیا، کس طرح اور کہاں خرچ کریں؟ آپ فرما دیجیے ! کہ
جو کچھ تمہیں خیر کے کام کرنے ہوں تو والدین، قریبی رشتہ دار لوگ، یتیم،
مساکین اور راہ چلتے مسافروں کے لئے کرنے ہیں اور خیر کے جو بھی کام تم
کروگے، اللہ انہیں جانتا ہی ہے۔ “
انسان کی یہ کمزوری ہے کہ خرچ کرنے پر اُسے قلاش ہونے کی فکر لاحق ہوجاتی
ہے۔ یہ پریشانی اُن ہی افراد کو لاحق ہوتی ہے جو خرچ کرتے ہوئے اعتدال کا
دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ سترویں سورة کی اُنتیسویں آیت میں قرآن ہماری
رہنمائی کرتا ہے:” اور نہ اپنے ہاتھوں کو بخیلی کے ساتھ گردن سے باندھ
رکھنا، اور نہ دونوں ہاتھوں کو پوری کشادگی کے ساتھ کھلے چھوڑ دینا، ورنہ
پریشانی اور افسوس کرتا رہے گا۔ “ ذاتی اخراجات کے سلسلے میں یہ بات ایک
عام مظہر ہو سکتی ہے لیکن نام و نمود اور صلے کی تمناکے بغیر اپنے مال کو
صرف رب کی رضاکی خاطر حقداروں پر خرچ کرنا ، رب تعالےٰ کے اُن وعدوں کا
مستحق بنا دیتا ہے جن کے بعد پھر ہمیں کسی فکر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
ملاحظہ ہو دوسری سورة کی دو سو بہترویں آیت:”.... اور تم صرف اللہ کی رحمت
کی امیدواری میں خرچ کرنا، اس طرح جو کچھ کسی کارِ خیر میں تم خرچ کروگے،
تمہیں پورا پورا لوٹا دیا جائے گا، اور تمہارا نقصان نہیں کیا جانے والا۔ “
نہ صرف لوٹایا جائے گا، بلکہ کئی کئی گنا بڑھاکر عنایت کیا جائے گا۔دوسری
سورة کی دو سو اکسٹھویں آیت:” جو لوگ اپنے مال و دولت اللہ کی راہ میں خرچ
کرتے ہیں، انکی مثال اس طرح ہے جیسے ایک دانہ ہو، اس دانے سے سات بالیاں
اُگیں، اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں۔ اتنا ہی نہیں ، اللہ جسے چاہے اس
سے بھی زیادہ دے، اور اللہ بڑی وسعتوں والا، علم والا ہے ۔ “
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ روز محشر کو بہر حال برپا ہونا ہے۔ ضرورت مندوں
کے ساتھ ہمیں مالکِ کائنات کی Super Supreme Courtمیں حاضر ی دینی ہے۔تصور
کیا جا سکتاہے اُس صورتحال کا کہ جب زکوٰة بھی ہم نے ادا کی ہو لیکن ہم پر
محض اِس لیے مقدمہ دائرکیاجائے کہ ہم نے اللہ کی فہرست کو نظر انداز کر کے
اپنی فہرست بنالی تھی تب کتنی شرمندگی اٹھانی پڑے گی ہمیں۔یہ سب اس لیے ہے
کہ دولت کی حیثیت ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ عجب کیا کہ آج جو دولت ہے کل نہ
ہو! کیا ہم نے امراءکوقلاش ہوتے نہیںدیکھا؟ حویلیوں، فلیٹس اوربنگلوںکی
نیلامی ہم روز دیکھتے رہتے ہیں۔ کل تک جو زمین میںسب سے زیادہ طاقتور
تھا،بے یار و مددگار ہو گیا؟ صنعتی علاقوں میں Industrial Areas کی کتنی ہی
فیکڑیوں کو ہم نے بند ہوتے نہیںدیکھا ؟ ابھی حال ہی میں ہم نے اپنے ملک کی
حکومت کے اصحابِ جاہ و حشمت وزراءکی ذلت دیکھی ہے،پھر بھی ہم عبرت حاصل
نہیں کرپاتے۔
کیا یہ رب کا کرم نہیں کہ ہمیں سکون کا ماحول بخشا۔کام یا کاروبار کے لئے
سازگار حالات دیے۔ تاکہ ہم اس سے محفوظ رہ کر مال ہی نہ کمائیں بلکہ ساری
انسانیت کو فائدہ بھی پہنچائیں۔ آیت میں وارننگ بھی ہے کہ انسانوں کا
معاملہ یہ ہے کہ اِ ن میں بہت کم شکر گذار ہوتے ہیں۔ کیا ہمارا شمار
ناشکروں میں ہوگا؟ کسی کو پوچھنے کی ضرورت نہیں،ہمارا ضمیر بتائے گا کہ ہم
کس کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں۔اپنے رب سے تجدید تعلق اور اپنے طرزِ عمل کے
صالح احیاءکی ضرورت ہے۔ اسی میں ہماری فلاح ہے۔ جس رب نے یہ فضل ہم پر کیا
ہے اسی رب ِ کائنات، الرحیم و الکریم نے بے بس انسانوں کے لئے اس میں سے
کچھ حصہ مختص کرنے کا حکم دیا ہے۔ہم لوگ بھی عجیب مخلوق ہیں۔ اللہ کے پاس
بے حد و حساب مانگتے ہیں لیکن جب دینے کی باری آتی ہے تو ڈھائی فیصد کی بات
کرتے ہیں، جو کم سے کم مقررشدہ شرح زکوٰة ہے جو بجائے خود برحق ہے ، تاہم
اِس سے آگے ہم ایک فی صد بھی بڑھنا نہیں چاہتے اور پھر بھی رب کی خوشنودی
کے دعویٰ دار بن جاتے ہیں۔اِس کے بعد صدقات کی باری آتی ہے
تو....فقرا،مساکین،عاملین، انسانوں کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا
کرنے،رقاب ، گردنوں کے چھڑانے، تاوان، Penaltiesکے ادا کرنے کے
لئے،اورغارمین، قرضداروں کے قرض Debts میںپھنسی گردنوں کو چھڑانے کے لئے،فی
سبیل اللہ،،ابن سبیل........ کی قرآنی فہرست کو نظر انداز کردیتے ہیں اور
بھول جاتے ہیں کہ یہی معتدل اور نہایت مناسب ترجیجات ہیں کیونکہ یہ رب
العلیم و الخبیر کی مقرر کردہ ہیں، جوعلم کا خالق ہے، اور جو حکمت و دانائی
کا تخلیق کار ہے۔کیا اس آیت شریفہ میں دی گئی فہرست اور اس کیSequenceکو،
اپنی خواہش، اپنی مرضی، اپنی منشاءاور اپنی نام نہاد دانائی کے مطابق بدلا
جاسکتا ہے؟ اور کیااپنی لسٹ اپنی ترجیحات کے مطابق زکوٰة اور صدقات کا ہم
استعمال کرتے رہیں گے؟ اِن کا حق مارکر کیا ہم اپنی مرضی کے”نیک کاموں“ میں
اِ نہیں صرف کر سکتے ہیں؟ چاہے یہ” نیک کام“ کتنے ہی” عظیم“، ”نیک“ اور”
عمدہ“ کیوں نہ ہوں؟ اپنی مرضی کی لسٹ کے مطابق خرچ کرنے اور اپنی خواہش کو
رب کے حکم پر فوقیت دینے پر ہم اڑے ہوئے ہیں تو پھر رب تعالےٰ کی پکڑ سے
ہمیںڈرنا چاہئے۔فقرائ، مساکین، یتیم و یسیر،بیماراور مجبور لوگ اپنی
پریشانیوں کے سبب ایڑیاں رگڑ رہے ہوں، لیکن ہم ان کے حق کو مختلف حیلوں کے
تحت مار رہے ہوں اور اپنی زکوٰة و صدقات کو اپنی خواہش کے کچھ دیگر کاموں
پر خرچ کر رہے ہوںاور مختلف اصطلاحوں کا سہارا لے کر ان کے حق پر ڈاکہ ڈال
رہے ہوں، ضرورت مند انسانیت کے حقوق کو نظر انداز کرکے اللہ کے حکم سے
روگردانی کرتے ہوئے اپنی خواہش کو فوقیت دے رہے ہوں، تو کیا ہم اللہ کے فضل
اور رحم وکرم کے مستحق ہو سکیں گے؟یہ ہر اُس شخص کی ذمہ داری ہے، جس پر اس
کے رب نے فضل خاص فرمایا ہو اور مال ودولت سے نوازا ہوکہ، اپنی زکوٰة اور
اپنے صدقات کو مذکورہ فہرست کی روشنی میں مستحقین تک ڈھونڈ ڈھونڈ کر
پہنچائے تاکہ انکی خبر گیری کا فریضہ منشائے اِلٰہی کے مطابق انجام دیا
جاسکے۔
کیا اب بھی اپنے محاسبہ کا وقت نہیں آیا؟کہ ہم اپنی روش کو درست کریں!اپنے
رب سے معافی چاہیں!مولا: تو غفار ہے۔ہماری مغفرت فرمادے۔ تو رحمٰن ہے،
تورحیم ہے۔ ہم پر رحم فرما، ہمیں معاف کردے، ہمیں اپنے فضل و استعان سے
نواز دے۔آمین۔
یہی کچھ سوچ کر مجھ سے نہیں ہوتی غلط کاری
رگِ جاں کے قریںموجودہر پل میرا داتا ہے....(ع ب) |