چمن کے مالی اگر بنالیں چمن کے
جیسا شعار اب بھی
چمن میں آ سکتی ہے پلٹ کر چمن کی روٹھی بہار اب بھی
12 ربیع الاول کی مبارک تاریخ تمام کائنات اور اس کے باشندوں تمام انسانوں
کے لئے عموماً اور مسلمانوں کے لئے خصوصاً خوشی و مسرت کا دن ہے کیونکہ اس
کائنات ارضی کے بسنے والے انسانوں کو ترقی کی شاہراہ پر چلانے اور ہدایت کی
منزلوں کی طرف گامزن کرنے والی ذات (حضور نبی کریم تاجدار عرب و عجم محمد
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) اس دھرتی پر اسی تاریخ میں جلوہ
فگن ہوئی۔
اسی تاریخ سے کائنات کی ظلمت و تاریکیاں نورانیت میں تبدیل ہونے لگیں۔
انسان کا مردہ دل پھر سے تازگی پانے لگا، کفر و شرک کی گھنگور گھٹائیں ختم
ہونے لگیں۔ انسانوں کو انسانیت کے صحیح اور حقیقی مفہوم سے عملی آشنائی
ہونے لگی۔ ہر قسم کے خرافات اور بے بنیاد رسم و رواج کی بندشوں میں جکڑا
ہوا انسان آزاد ہو کر اپنے مقاصد زندگی، اور وجہ تخلیقات کو سمجھا۔ اپنے
معبود حقیقی کو جانا، عبد و معبود کے رشتوں کو سمجھا۔
اگر آج انسان چاند کا سفر کر رہا ہے، تیز رفتار طیاروں سے برسوں کا سفر
گھنٹوں میں مکمل کر رہا ہے۔ ہزاروں میل دور کی آواز و اخبار سیکنڈوں میں سن
رہا ہے۔ فون، کمپیوٹر، انٹرنیٹ، جیسی سہولتوں کو حاصل کر رہا ہے تو اس میں
بھی بنیادی طور پر اس بارہویں شریف کا دخل ہے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم نے انسانی فکر و ذہن کو ایسی جولانیت عطا کی ہے کہ تسخیر
کائنات کے لئے آگے ہی بڑھتا چلا جا رہے۔
یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا عشق غیر فانی دولت بن چکا ہے اور اس محبت کا
اظہارشیدائیانہ کرتے رہتے ہیں اور بارہ ربیع الاول کے موقع پر مختلف طریقے
سے اظہار مسرت کرتے ہیں۔ جو گوناگوں احسانات و نوازشات کا ہلکا سا شکر یہ
ہے۔
ہر ملک اور قوم کے لوگ اپنے رہنما، لیڈر، اور دانشوروں کا یوم پیدائش مناتے
ہیں جب کہ ان شخصیتوں سے فائدہ کسی ایک ملک یا ایک قوم کو یا کسی ایک خط کو
یا کسی ایک خاص نظریات و مکتب فکر کو ہی ہوتا ہے مگر یوم پیدائش پر خراج
عقیدت ضرور کرتے ہیں۔
یہاں اس ذات گرامی کے یوم پیدائش کی بات اور خراج عقیدت پیش کرنے کا معاملہ
ہے۔ جو ہر انسان، جانور، پرندے، چوپائے، پیڑ پودے اور ہر چیز کے نبی ہیں۔
سب کو وجود ان کے طفیل ہے سب کو ان سے برابر کا فائدہ ہے وہ تمام انسانوں
کے نبی، کائنات کے ہر اشیاء کیلئے رحمت ہی رحمت۔ ان کو سب سے پیار ہے۔
انھوں نے جو بتایا سب کے لئے۔ جو کیا سب کیلئے۔ جو ان کی باتوں کو مانا، ان
کی باتوں پر چلا۔ ان کے طریقوں کو اپنایا۔ اس کے وارے نیارے ہو گئے دنیا کی
ہر بھلائی مل گئی اور آخرت کی سرخروئی بھی مل گئی اللہ کی خوشنودی بھی مل
گئی۔ پھر ایسے عظیم محسن، ایسے پیارے نبی، جن سے بڑھ کر اللہ کے سواء کوئی
نہیں کوئی شخصیت کتنی عظیم کیوں نہ ہو مگر سرکار دو جہاں سے اس کی نسبت ذرہ
اور آفتاب جیسی ہے۔ کسی ذرہ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر آفتاب
کی برتری کا عالم کچھ اور ہے۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
عظمت کے آگے آفتاب بھی ایک ذرہ ہے آفتاب اپنی شعاعوں سے بیک وقت زمین کے
نصف حصہ کو روشن کرتا ہے مگر نبی کریم رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
ضوفشانی ان کے علم و حکمت نبوت و رسالت کی روشنی زمین ہی نہیں ہر عالم کے
ایک ایک ذرہ پر پڑ رہی ہے۔
12 ربیع الاول کی تاریخ، انسانی تاریخ کا عظیم ترین دن اس دن کو شایان شان
طریقہ سے خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پوری انسانی برادری اور انسانیت
کو دنیا و آخرت کی بھلائی کے حسین طور طریقوں کو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی
علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کے آئنے میں اخذ کرنے پر گزرانا چاہئے۔ ہر جشن
مسرت، ہر جلسہ میلاد بامقصد اور موثر ہونا چاہئیے۔ تمام مسلمانوں کو اس دن
کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے گزشتہ کا احتساب اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار
کرکے فلاح و صلاح انسانیت کے لئے ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ مشغول ہو جانا
چاہیے۔ اس تاریخ کے تمام جلسوں، میلادوں اور اجتماعات میں سرکار دو جہاں
صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سماجی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عائلی
زندگی کے تابناک گوشوں کو اجاگر کرنے اور بیان کرکے عوام الناس کو بامقصد
عملی زندگی کت آغاز کا سبق دینا چاہئیے۔ سرکار دو جہاں کی رحم دلی، امن
طلبی، احترام انسانیت، حقوق اللہ و حقوق العباد، تبلیغ اسلام، سماجی
بائیکاٹ، ترک وطن و ہجرت، کافروں مشرکوں کے ظلم و ستم عناد و دشمنی طرح طرح
کی اذیت و فتنہ فسادات جو وہ حضور اور صحابہ کے ساتھ کرتے تھے۔ حضور کی
رواداری، مساوات، عورتوں کے حقوق و احترام، بچوں کی تعلیم و تربیت و ذہنی
تعمیر، حق کی پاسداری، برائیوں کی بیخ کنی کے حسین طریقے، آپسی بھائی
چارگی، پڑوسیوں کے حقوق، وغیرہ پر روشنی ڈالنا انھیں بیان کرنا بہت ضرروی
ہے تاکہ آج کے بھٹکے ہوئے انسانوں کو تباہ ہوتے سماج و معاشرہ کو سدھارنے
کے لئے سچا جذبہ میسر آ سکے اور عظمت محمدیہ بھی اجاگر ہو اور دیگر اقوام
پر بھی اچھے اثرات مرتب ہو سکیں۔ فلسفہ و حکمت اور باریکیوں کو عام
اجتماعات و اجلاس میں بیان کرنے سے اپنی قابلیت صلاحیت کا دھاک بیٹھایا جا
سکتا ہے مگر فرد عام کے ذہنوں کو صحیح سمت کا پتہ نہیں دیا جا سکتا۔
جلسے جلوس کے انعقاد، اور بزم آرائی سے اصل مقصود حاصل نہیں ہوتے محض
تقاریر و خطاب سے معاشرہ کا زلف برہم سنور نہیں سکتا بلکہ ہر مسلمان خواص
سے عوام تک کی ذمہ داری اور عقیدت و محبت رسول کا تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو
رسول پاک کی سنتوں کے سانچے میں ڈھالنے کا عزم مصمم کر لیں اور ہر منزل پر
ہر موقعہ پر انھیں سنتوں کی عملی تفسیر بن کر سامنے آئیں دل، زبان اور عمل
اور میں یکسانیت پیدا کریں۔ ریاکاری و نام و نمود سے بچیں، خلوص و للہیت کو
اپنائیں۔ ایثار و قربانی پر کمربستہ رہیں، صبر و استقلال کا دامن ہاتھ سے
نہ چھوٹے۔ صورت و شکل وضع قطع کو اسلامی تہذیب کا آئینہ بنائیں۔ ہاتھ، پاؤں
اور زبان سے کسی کو اذیت نہ دیں۔ کسی بھی غریب ناچار مجبور کی طاقت بھر مدد
کریں۔ مظلوم کی حمایت، حق کی پاسداری کریں، علماءکرام، حفاظ، مساجد کے
اماموں کی عزت و احترام کریں۔ تعلیم کو عام کرنے میں بھرپور حصہ لیں۔ اچھی
اور نیک باتیں بلا جھجک مگر شفقت و احترام کے ساتھ دوسروں کو بتائیں۔
اختلاف و انتشار سے بچنے اور بچانے کی پوری کوشش کریں۔ دینی اسلامی کتابوں
کا مسلسل مطالعہ کرکے علم میں اضافہ کریں۔ بےحیائی، بےپردگی، اور عریانیت
سے احتراز لازم رکھیں۔ اولاد کو دینی تعلیم بھرپور دیں۔ جہاں کہیں رہیں جس
مجلس میں رہیں جس سوسائٹی میں رہیں مگر ایک سچے مسلمان بن کر رہیں اور
اسلامی تعلیمات اداب و اخلاق کی عملی و زبانی تبلیغ میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ
محسوس نہ کریں۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی مکی زندگی و
مدنی زندگی اگر سامنے رہے تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ اللہ تعالٰی ہر
عیدمیلادالنبی کے موقعہ پر تمام مسلمانوں کو نیا عزم نیا حوصلہ اور عملی
جذبہ عطا فرما کر سنت رسول پاک کا آئینہ بنائے آمین۔ ثم آمین |