بھنوری دیوی:ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی

جودھپور سے سو کلومیٹر دور جالودہ گاؤں سے سی بی آئی نے چند ہڈیوں کے ٹکڑےایک ہار، انگوٹی اور گھڑی بر آمد کرلی جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ بھنوری دیوی کی آخری اثاث ہے ۔راجیوگاندھی نہر کے اندر سےچار ماہ بعد صحیح سلامت گھڑی اس وقت ملی جب بھنوری دیوی کا وقت ختم ہو چکا تھا ۔اپنی کامیابی پر شاداں و فرحاں سی بی آئی کے افسران نےجے پورہائی کورٹ میں پہنچ کر درخواست کی کہ بھنوری کو تلاش کرکے پیش کرنے کا مقدمہ جو اس کے شوہر نے داخل کیا ہے اسےبند کر دیا جائے ۔ اس بات کا سراغ مل چکاہے کہ اس کا قتل کر دیا گیا ہےچونکہ وہ پرلوک سدھار چکی ہے اس لئے اب لوٹ کر واپس نہیں آسکتی ۔ بھنوری کی سانس کا تار ٹوٹ گیا اسکی نبض رک گئی لیکن گھڑی کی ٹک ٹک جاری ہے اس لئے کہ وقت نہیں رکتااور یہ گھڑی بھنوری کی جانب سے گویا فریاد کر رہی ہے ؎
ا ب عمر کی نقدی ختم ہوئی،
ا ب ہم کو ادھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے ،
ہے کوئی جو دیون ہار بنے

سی بی آئی نے اس معاملے میں کمال کی پھرتی دکھلائی لیکن ہڈیوں اور اثاثوں سے قاتل کا پتہ نہیں لگتا ۔ اس معاملے میں قتل کی ساری کڑیاں مل چکی ہیں ۔بھنوری کو کس نے کس کے اشارے پر کیسے قتل کیا اور کس طرح اس کی لاش کو ٹھکانے لگایا گیا یہ تمام تفصیلات ذرائع ابلاغ کی زینت بنی ہوئی ہیں ۔ سی بی آئی کے مطابق چونکہ بھنوری دیوی نے خود اپنی سی ڈی برطرف شدہ وزیر مہی پال مدیرنہ کے ساتھ تیار کروائی تھی اور اس کے ذریعہ مدیرنہ سمیت لونی کے کانگریسی ایم ایل اے ملکھان سنگھ کو بلیک میل کرتی تھی اس لئے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت ان دونوں افراد نے مل کر اسے قتل کروایا اور اس منصوبے میں مدیرنہ کی بیوی لیلا، ملکھان کی بہن اندرا اور بھنوری کا شوہر امرچند سب کے سب شامل تھے ۔ملکھان سے بھنوری کے تعلقات بہت پرانے تھے اسی نے بھنوری کو مدیرنہ سے ملوایا تھا ۔ ان تعلقات کے باعث بھنوری کا شوہر امرچند اس سے نالاں تھا۔

بھنوری کا دعویٰ تھا کہ اس کابیٹا گنگن دراصل ملکھان سے ہے اس لئے اسے ملکھان کی جائیداد میں حصہ ملنا چاہئے ۔ ملکھان کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جارہا ہے حقیقت کا پتہ رپورٹ کے بعد ہی چلے گا۔مدیرنہ سے بھنوری کو یہ شکایت تھی کہ وہ اسے خاطر خواہ عیش و عشرت فراہم نہیں کرر ہا ہے اس لئے اس نے پانچ کروڈروپے کا مطالبہ کیا بصورتِ دیگر ۷ ستمبر کو لگنے والے عوامی میلے میں سی ڈی کو مشتہر کرنے کی دھمکی دے ڈالی اور یہی قدم اسے مہنگا پڑا۔ یکم ستمبر کی شب اسے اغوا کر کے قتل کردیا گیا۔ایک گینگ نے اسے قتل کرکے دوسرے کے حوالے کیا جس نے اس کی لاش کو جلا کر خاک نہربرد کردی ۔ امرچند کو خاموش رہنے کیلئے ۱۰ لاکھ کا وعدہ کیا گیا تھا اس نے پچاس ہزار وصول بھی کئے لیکن ۴ ستمبر کو نہ جانے کیوں شکایت لکھوانے پولیس تھانے پہنچ گیا۔ممکن ہے ڈر گیا ہو یا اسے بقایا رقم نہ ملنے پر ناراض ہو گیا ہو۔ وجہ جو بھی ہو لیکن اس شکایت کے نتیجے میں سارا را ز فاش ہو گیا اور فیض کے اشعار پھر سے زندہ ہوگئے ؎
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

بھنوری دیوی کا یہ عبرت ناک انجام ہمارے سماج کی جنسی بے راہ روی کی منہ بولتی تصویر ہے جس میں نہ صرف عوام بلکہ ان کے رہنما ، نہ صرف افراد بلکہ ان کا پورا کا پورا خاندان بڑی ڈھٹائی اور بے حیائی سے ملوث ہو جاتا ہے ۔ کسی کو اس میں کوئی عیب یابرائی نہیں دکھلائی دیتی ۔ حرص و ہوس کے اس کھیل میں دولت کی لالچ اور عیش و عشرت کی چاہت ہر موڑ پر نظر آتی ہے ۔ دولت کی خاطر بھنوری نے سب سے پہلے اخلاقی حدود کو توڑا ۔ اس کے شوہر امر چند نے دولت ہی کی خاطر اسے برداشت کیا۔ ملکھان اور مدیرنہ کے خاندان کی عورتوں تک نے اسے گوارہ کر لیا۔لیکن جب بات ورا ثت کی تقسیم اور پانچ کروڑ کی پھروتی تک پہنچی تو قتل کا منصوبہ بنا اور قاتلوں نے بھی دولت کی خاطر اس کام کو انجام دیا ۔ مادہ پرستی کس طرح انسانوں کو وحشی جانور بنا دیتی اس کی اعلیٰ مثال بھنوری دیوی کا معاملہ ہے ۔ دینی و اخلاقی اقدار کی پامالی کس طرح انسان کو شتر بے مہار بنا دیتی ہے اور آخرت فراموشی کے نتائج اس دنیا میں بھی کس قدر بھیانک ہوتے ہیں؟یہ سب اس حادثے میں عیاں ہے۔

ہندوستان کے مختلف ماہرین قانون بلکہ سیاستداں اور دانشور بھی بارہا اس حقیقت کا اعتراف کرتے رہے ہیں کہ جنسی اخلاقیات کے سخت ضابطوں کے بغیرخاندان اور سماج کا نظام درست نہیں رہ سکتا۔ اس معاملے سب سے بڑا فساد مغرب کی دوئی نے پیدا کی ہے ۔ مغربی مفکرین نے جب دین اور دنیا میں تفریق پیداکرکے مذہب کو عملی زندگی سے خارج کیا تواسی کے ساتھ زِنا بالرضا اور زِنابالجبر کو بھی الگ الگ کر دیا حالانکہ دونوں ایک ہی گناہ کی پوٹلی کے چٹے پٹے ہیں اس لئے ایک صحت مند سماج میں دونوں کی سزائیں یکساں طور پرسخت ہونی چاہئیں۔اس حقیقت کا اعتراف نہ صرف اسلام بلکہ یہودیت ا ورہندو مذہبی صحیفوں میں بھی موجود ہے ۔لیکن جب مذہب کا دائرہ کار صرف روحانیت ا ورعبادات تک محدود کردیا جائے ۔ سیاست میں رائے دہندگان کو بہلانے اور پھسلانے کی خاطر اس کا استحصال تو کیا جائے لیکن عدالت اور اجتماعی امور سے اس کا رشتہ کاٹ دیا جائے تو وہی کچھ ہوتا ہے جو بھنوری کے ساتھ ہوا۔ بھنوری کا قتل اس کے دشمنوں نے نہیں بلکہ ان دوستوں نے کیا ہے جو کل تک ابن انشا کی مانند یہ کہتے تھے ؎
تم سوہنی ہو ، من موہنی ہو ؛تم جا کر پوری عمر جیو
جب عمر کا آخر آتا ہے، ہر دن صدیاں بن جاتا ہے
جینے کی ہوس ہی نرالی ہے، ہے کون جو اس سے خالی ہے
کیا موت سے پہلے مرنا ہے، تم کو تو بہت کچھ کرنا ہے

بھنوری دیوی تو اپنے سارے کا م ادھورے چھوڑ کر چلی گئی ۔ سی بی آئی نے اپنا کام تمام کردیا لیکن اب عدالت کو بہت کچھ کرنا ہے ۔ یہ مقدمہ اب اپنے ابتدائی مراحل میں قدم رکھ چکاہے۔ہمارے ملک کا عدالتی نظام ہاتھی کی مانند بلند بانگ ضرور ہے مگر چیونٹی کی رفتار سے چلتا ہے ۔ اس حقیقت کا سب سے بڑا ثبوت راجھستا ن ہی کی ایک اوربھنوری ہے جسے ہم لوگ بھول چکے ہیں ۔تقریباً بیس سال قبل ۲۲ستمبر ۱۹۹۲ءکو جے پور کے بھتیری گاوں کے گوجروں نے ایک کم سِن بچی کی شادی کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرنے کے نتیجے میں کمہارن بھنوری دیوی کی اجتماعی عصمت دری کی تھی ۔ بھنوری نے اس ظلم کے آگے سپر ڈالنے کے بجائے علم بغاوت بلند کر دیااور ایسابونڈر مچا یاکہ پورا ملک اس کے ساتھ ہو گیا یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس وی آر کرشناایّر بھی بھنوری کو انصاف دلانے کی تحریک میں شامل ہو گئے لیکن اس کے باوجود اسے ابھی تک انصاف نہیں ملا۔بھنوری کی تکذیب کی گئی ۔ اسے برا بھلا کہا گیا۔ اس پر دباوڈالا گیا ۔ اسے دھمکیاں دی گئیں اور روپیوں کا لالچ بھی دیا گیا کہ لیکن وہ دلیر خاتون اپنے موقف پر ڈٹ کر قانونی جنگ لڑتی رہی ۔

تین سال کے عرصہ میں جے پور کی دیوانی عدالت کے پانچ ججوں کا تبادلہ ہوالیکن چھٹے نے آ کر نہایت حیرت انگیزطور پر تمام ملزمین کو بری کردیا۔اس فیصلے میں کہا گیا کہ اعلیٰ ذات کا آدمی ایک دلت کی عصمت دری نہیں کر سکتا چونکہ ملزمین میں ایک چچا بھتیجا شامل ہیں وہ ایک دوسرے کے سامنے یہ حرکت نہیں کر سکتے ۔بھنوری کا شوہر جو کہ ایک گواہ ہے وہ اپنی بیوی کی اجتماعی عصمت دری پر خاموش تماشائی نہیں بنارہ سکتا نیز ۵۲ گھنٹے بعد ہونے والی طبی رپورٹ کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا اسلئے ممکن ہے کہ بھنوری بہتان لگا رہی ہو۔ اس شرمناک فیصلے کی حمایت میں بر سر اقتدار بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نے جے پور میں فتح کا جلوس نکالا جس میں درگا واہنی کی خواتین کارکنان نے بھی بھنوری کو جھوٹا اورکذاب کہا لیکن اس کے بر عکس بھنوری کو حاصل ہونے والی ملک گیر حمایت کے آگے شیخاوت حکومت کو جھکنا پڑا اور اس نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ۔ اس بات کو ۱۷ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے اس بیچ صرف ایک سماعت کی نوبت آئی ہے دو اہم ترین ملزمین میں سے ایک کی موت واقع ہوگئی لیکن انصاف کا کہیں دور دور تک اتا پتہ نہیں ہے ۔

عام آدمی کیلئے یہ حیرت کی بات ہو سکتی ہے لیکن عدالتی حلقہ میں اس پر کسی کو تعجب نہیں ہوتا ۔ ہماری عدالتوں میں بیس بیس سال سے کئی مقدمات زیرِ التواہیں۔عدالت کی روایت یہ ہے کہ جن مقدمات کے ملزمین جیل میں ہوتے ہیں،اُن کی سماعت پہلے ہوتی ہے اور بھنوری دیوی عصمت دری کیس کے تمام ملزمین ضمانت پرہیں اس لیے مقدمے کی اگلی سماعت کب ہوگی کوئی نہیں جانتا؟فی الحال وطن عزیز میں ایک کروڈ سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جن میں سے کئی ایک کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے ۔ اگر حکومت چاہتی تواس مقدمہ کو فاسٹ ٹریک عدالت کو سونپ سکتی تھی لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ ریاکاری کے پیش نظر بھنوری پر انعام و اکرام کی بارش تو ہوتی رہی لیکن اسے انصاف سے محروم رکھا گیا۔ بھنوری کہتی ہیں کہ سرکار سے انہیں کوئی انصاف نہیں ملا لیکن بھگوان نے ان کی مدد کی۔ ’مجھے خوشی ہے کہ جو بیڑہ میں نے اٹھایا تھا اس میں کامیاب رہی ہوں۔اب بہت تبدیلی آئی ہے، عورتو ں میں حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ بچوں کی نو عمر میں شادیوں کے واقعات کم ہوئے ہیں، جہیز کے رواج میں بھی کمی آئی ہے۔ اب کوئی بھی ہمارے علاقے میں کھلے عام بچوں کی نو عمری میں شادی نہیں کرا سکتا۔ لوگوں کو ڈر لگتا ہے کہ بھنوری کہیں شکایت نہ کر دے ۔

بھنوری عورتوں کے لیے تبدیلی کا پیکر ہے اس جیسی خواتین کی جدوجہد کے باعث حالیہ برسوں میں راجستھان میں حقوق نسواں کی تحریک مضبوط ہوئی ہے ۔ان پر عزم خواتین میں سے ایک جےپور ضلع کی ریکھا (نام تبدیل کردیا گیا ہے)جو اپنے ساتھ ہوئی مبینہ اجتماعی زیادتی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئیں اور قصورواروں کو سزا دلوا کر ہی مانیں۔دیہاڑی پر مزدوری کرنے والی ریکھا ایک دلت عورت ہے۔ ان کے ساتھ چند سال قبل جب کہ وہ اپنے بیمار شوہر کے لیے دوا لینے جا رہی تھی اجتماعی زیادتی کا حادثہ پیش آیا تھا لیکن اس نے حالات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور عدالت میں گہار لگاتی رہی ۔ جب عدالت نے اس کے حق میں فیصلہ سنایا توریکھا نے کہا: ‘قصورواروں کو ابھی دس-دس سال کی سزا ہوئی ہے اور مجھے اس پر تسلی ہوئی ۔ کم سے کم آگے تو یہ کسی اور عورت کی آبرو پر ہاتھ نہیں ڈالیں گے۔’ ریکھا نے مزید بتایا ‘وہ سبھی امیر کبیر لوگ تھے، مجھ پر دباؤ ڈالا گیا کہ سمجھوتہ کر لوں ۔ لاکھوں روپوں کی پیشکش کی گئی یہاں تک کہ میری برادری کے لوگ اور رشتےدار بھی سمجھوتے کے لیے دباؤ ڈالنے لگے، پر میں جھکی نہیں۔‘

ریکھا ہی کی مانند بھرت پور ضلع کے بیر گاؤں کی دلت خاتون موہنی ہےجو گزشتہ دس سال سے گاؤں کے با رسوخ لوگوں کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ جنہوں نے اس کے شوہر لکشمن کو اتنا پیٹا کہ ان کے دونوں پیر کاٹنے پڑے۔ موہنی اپنی تمام تر آزمائشوں کے باوجود جس میں گاوں چھوڑ کر جے پور میں پناہ لینا شامل ہے اپنی جدو جہد جاری رکھے ہوئے ہے ۔ موہنی اپنے پرعزم انداز میں کہتی ہیں کہ ‘انصاف کی منزل ابھی بہت دور ہے، دلت کی کون سنتا ہے۔ مقدمہ اب بھی چل رہا ہے، گواہوں کے بیان تک مکمل نہیں ہوئے مگر ہم لڑیں گے یہ انصاف کی جنگ ہے’۔دلتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے پی ایل یمروتھ کا ماننا ہے کہ خواتین کے لیے زندگی مشکل ہے لیکن عورت اگر دلت ہو تو راہ اور بھی کٹھن ہو جاتی ہے۔ یمروتھ کے مطابق ’دلت عورت جنسی تشدد کا زیادہ شکار ہوتی ہے کیونکہ سماج کا ایک حصہ انہیں بہت نیچی نظر سے دیکھتا ہے۔ ایسے لوگوں کا ماننا ہے کہ دلت عورت کو جنسی حوس کا نشانا بنانا کوئی بری بات نہیں ہے‘

ہمارے ذرائع ابلاغ کی یہ ستم ظریفی ہے کہ وہ ا نصاف کی خاطر لڑنے والی جے پور کی بھنوری کو بہت جلد بھلا دیتا ہے ریکھا اور موہنی جیسی خواتین سے صرف ِنظر کرتا ہے اور جودھپور کی بھنوری دیوی کو اچھالتا رہتا ہے ۔ اب سنا ہے پہلے والی بھنوری کی پر بنی فلم بونڈر کی طرح اس نئی بھنوری دیوی پر بھی فلم بننے والی ہے اور ممکن ہے وہ فلم باکس آفس پر کامیاب ہو جائے ۔ اس بات کا بھی امکان ہے آئندہ انتخابات میں یہ مسئلہ سیاسی بازیگری کا کھلونا بن جائے اور وسوندھرا راجے اس سیڑھی پر چڑھ کر اپنا کمل کھلانے کی کوشش کرے لیکن کیا اس قتل میں ملوث طاقتور سیاستدانوں کو سزا ملے گی ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449549 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.