بچ کے تو دکھاﺅ

 ِِِشام کے سائے ڈھل گئے تھے اور اندھیرا ہونا شروع ہوگیا تھا میں نے بائیک کی ہیڈ لا ئٹ آن کی دن کے وقت مو سم کا فی خوشگوار تھا لیکن جونہی شا م کے سا ئے ڈھلے سردی کی لہر بڑھنے لگی تھی ۔ میں نے با ئیک روک کراپنے بیگ سے جیکٹ نکا لی ،پہنی اور دوبارہ اپنے سفر کا آ غاز کیا میں جلدی گھر پہنچنا چا ہتا تھا ۔ابھی کچھ دور پہنچا کہ پیچھے سے ایک بائیک نے مجھے اوور ٹیک کیا اور مجھے رکنے کا اشا رہ کیا یہ دو ہٹے کٹے نوجوان تھے ایک نے گہرے نیلے رنگ کی پتلون وائٹ شرٹ کے اوپر بلیک جیکٹ پہنی تھی دوسرا جس نے خا کی کلر کی شلوار قمیض کے اوپر جرسی پہنی تھی مجھ سے مخا طب ہوا ۔ آپ ہما ری بوڑھی اماں کو گرا کر آئے ہیں اور وہ کا فی زخمی ہیں ۔یہ با ت میرے لیے حیران کن تھی کیونکہ میں تو با لکل محتا ط اندا ز سے ڈرا ئیونگ کر رہا تھا اور نہ ہی میں کسی کو گرا کر آیا تھا میں نے جب اس بات سے انکا ر کیا تووہ میرے ساتھ بہت غصے سے بات کرنے لگے میں تھوڑا پریشان ہوا میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آخر ہو کیا رہا ہے بلیک جیکٹ وا لا مجھ سے مخا طب ہوا آپ ہما رے ساتھ پولیس اسٹیشن چلیے یہ سن کر مجھے اور تشویش ہونے لگی میں نے کہا کہ میں کہا ں آپ کی اماں کو گرا کر آیا ہو تو ایک بولا یہ چند فر لانگ پیچھے۔ میں نے طیش میں کہا کہ چلو میرے سا تھ ان دونو ں میں سے ایک میرے ساتھ بائیک پر سوار ہوگیا ابھی ہم تھوڑی دور گئے تھے کہ مجھے ایک وارڈن دکھائی دیا میں نے اسے دیکھتے ہی اس کے پاس جا کر بریک لگا دی اور سارا ماجرا بیا ن کیا وہ دونوں لڑکے اس غیر متوقع صورتحا ل پر حیران رہ گئے اس وارڈن کی دخل اندازی پر وہ کہنے لگے کہ چلو ٹھیک ہے ہم تمہیں چھوڑ رہے ہیں لیکن آئندہ دھیا ن سے بائیک چلانا میں ان کا بدلہ ہوا لہجہ دیکھ کر تھوڑا اور با ہمت ہوا اور بولا نہیں میں آ پ لوگوں کے ساتھ پولیس اسٹیشن جانا چا ہتا ہوں ۔ لیکن وا رڈن نے صلح کی راہ دکھا ئی اور وہ دونو ں لڑکے چلتے بنے ۔

اُن لڑکوں کا مقصد مجھے لوٹنا رہا ہو گا لیکن اگر انھوں نے مجھے لوٹنا تھا تو اُدھر کیوں نہیں لوٹا جہا ں انھوں نے مجھے رکنے کا کہا تھا ؟ شاید وہ مجھے کسی اور واردات میں ملوث کرنا چاہتے تھے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شاید واقعی کوئی لڑکا اُن کی بوڑھی اماں کو گرا کر زخمی کر گیا ہولیکن اگر ایسا ہوتا تو وہ اتنی جلدی راہ فرار اختیا رنہ کرتے۔مختلف سوالات میرے ذہن میں ابھر رہے تھے بہرحال ان کا جو بھی مقصد تھا اُس سے ہٹ کر میں سوچنے پر میں مجبور ہوگیا کہ آخر ہو کیا رہا ہے آئے دن چوریا ں ،ڈکیتیاں ،گلی محلوں میں ہونے جرا ئم یہ سب کیوں ہے ؟ اُن کی ایک بڑی وجہ تو بے روزگاری ہے ۔مہنگا ئی نے تو غریب عوام کی کمر توڑ دی ہے اور وہ اس طرح کی وارداتیں میں ملوث نظر آتے ہیں ۔فریب اور دھو کہ تو اس معاشرے کا حصہ بن کر رہ گیا ہے یہ سوچتے سوچتے میں کافی فا صلہ طے کر گیا اندھیرا زیا دہ ہونے کی وجہ سے میں نے ہیڈلا ئٹ کی بیم کو ہائی کر دیا ۔اتنے میں مجھے آگے ناکہ لگائے پولیس نظر آئی انہوں نے مجھے رکنے کا اشا رہ کیا میں نے بائیک سا ئیڈ پر کھڑی کی انہوں نے مجھے کا غذات چیک کروانے کو کہا میں نے کا غذات پیش کیے تو مجھ سے لائیسنس طلب کیا تب مجھے احساس ہوا کہ لائیسنس تو میں ہا سٹل بھول آیا ہوں ۔مجھے بتا یا گیا کہ آپ کی گاڑی بند ہو گی آپ بغیر لا ئیسنس کے ہا ئی وے پر سفر نہیں کرسکتے ۔میں جتنی جلدی پہنچنا چا ہتا تھا اتنا ہی لیٹ ہورہا تھا اتنی پریشانی میں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں ۔ابھی اسی شش وپنچ میں تھا کہ ایک کا نسٹیبل پاس آکر کہنے لگا کہ صاحب دل کے اچھے ہیں کوئی چا ئے پا نی دو اور جاﺅ۔یہ سن کر میرے ذہن میں بہت سے خیالات آرہے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اصل لٹیروں سے تو بچ گیا لیکن قانون کی وردی میں ملبوس لٹیروں سے نہ بچ سکا۔

یہ وا قعہ کچھ دن پہلے میرے ایک دوست کے ساتھ پیش آیاتھا ۔جہاں تک میرا ذاتی خیال ہے کہ جب تک تھانہ کلچر ٹھیک نہیں ہوتا جرائم کو کنٹرول نہیں کیا جاسکتااور نہ ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ٹریفک پولیس کا کام ٹریفک کو ریگولیٹ کرنا ہوتا ہے۔لیکن ٹریفک پولیس اپنی اس کوشش میں ناکام دکھائی دیتی ہے اس کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے ہی جہاں ان کا دل کرے ٹریفک روک کرکاغذات اور لائیسنس کی چیکنک شروع کر دیتے ہیں۔اس کا ایک مکمل حل نکالنا ہوگا۔ایسا سسٹم لانا ہوگا جو ڈویلپڈممالک میں لاگو ہے۔ تاکہ ٹریفک بغیر کسی مداخلت کے ریگولیٹ ہو سکے۔ ان وارڈنز کا جب دل کرے گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کے چالان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ایک غریب آدمی جو سارا دن مزدوری کرکے 300روپے کماتا ہے اسے گھر واپسی پر 100روپے کا چالان جمع کرانا پڑ جاتاہے۔آخر اتنی لوٹ مار کیوں؟ایک غریب آدمی جو اپنی روٹی پوری نہیں کر سکتا جو بجلی کے بل جمع کرانے سے معذور ہے۔مہنگائی نے جس کی کم توڑ دی ہے وہ لائیسنس بنوانے کیلئے پیسے کہاں سے لائے؟میں اعلٰی حکام سے یہی درخواست کروں گا کہ وہ لائیسنس کو موٹر بائیک کیلئیے فری کریں تاکہ ایک غریب پولیس کی لوٹ مار سے بچ سکے۔یہ کیسی سیاست ہے۔ایک طرف تو عوام سے اتنے وعدے کیے جاتے ہیں کہ ان کی ہر ضرورت پوری ہوگی دوسری طرف ان کو مہنگائی سے‘ بجلی کے بلوں سے‘گیس کے بلوں سے اور چالانات کے ذریعے لوٹ لیا جاتا ہے۔
Shahid Chaudhry
About the Author: Shahid Chaudhry Read More Articles by Shahid Chaudhry: 13 Articles with 11888 views I am journalist and columnist. .. View More