تحریر: عبداللہ منصور
تاریخ عالم کی حیرت انگیز حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے ایک زمانہ زندگی کے ہر
شعبہ میں شاندار ترقی کی اور اپنے کارناموں کا نقش صفحہ ءتاریخ پر اس طرح
ثبت کیا کہ دنیا کی دوسری قومیں ان کی عظمت و برتری کے سامنے سرِاطاعت خم
کر نے پر مجبور ہو گئیں۔جب تک مسلمان اسلام کے فطری قوانین پر عمل پیرا
رہے،وہ برابر ترقی کرتے رہے۔لیکن جب ان میں اسلامی روح کمزور ہونے لگی تو
ان میں تنزل پیدا ہونا شروع ہوگیا۔اب وہی مسلمان ہیں جن پر غربت مسلط ہے
اور بحیثیت قوم پریشان ہیں۔اب ان کی محفلوں میں علم و فن کے مذاکرے بہت کم
ہوتے ہیں،دماغ ایجاد کی قوت سے محروم اور ہاتھ سیاسی طاقت سے خالی
ہیں۔زندگی کے ہر شعبے میںوہ بدنصیب اور علم و عمل کے ہر میدان میں سب سے
پیچھے نظر آتے ہیں۔
امریکہ میں واقع ”پیو ریسرچ سینٹر“ کی حال ہی میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے
مطابق پوری دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک بلین اور 570ملین ہے۔اسکا مطلب
یہ ہوا کہ دنیا کا ہر چوتھا فرد مسلمان ہے،البتہ افسوسناک بات یہ ہے کہ
دنیا کی چوتھائی آبادی ہونے کے باوجود آج مسلمان سیاسی ،سائنسی،تکنیکی اور
اقتصادی طور پر پسماندہ ہیں۔ کشمیر، فلسطین، افغانستان اورعراق یا جہاں
کہیں بھی مسلمان استحصالی قوتوں کے ظلم کاشکار ہیں اور اپنی آزادی کی جنگ
لڑ رہے ہیں انہیں پوری قوت سے دبایا جا رہاہے۔ بےگناہ اور نہتّے کشمیری،
فلسطینی ،افغانی اورعراقی اپنی ہی سرزمین پر بے وطن،بے یار و مددگار ہیں۔
اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دہشتگردی قرار نہ دینا اُلٹا ان
مظلوموں پرجو آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں دہشتگردی کا لیبل لگاکر نشانہ بنایا
جا رہا ہے۔دنیا کے بہت سارے ممالک میںٹی وی اور ریڈیو پر اسلام مخالف
زہریلی زبان کا استعمال اور اب چرچ میں قرآن پاک کی بے حرمتی ناقابل برداشت
حد تک بڑھ چکی ہے۔یورپی ممالک میں وقفے وقفے سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے
پوری مسلم دنیا کے جذبات مجروح اور دل زخمی ہوتے چلے آرہے ہیں۔ بعض یورپی
ممالک میںمسلم خواتین کو نقاب اوڑھنے اور مساجد کے مینار کی تعمیر کی
مخالفت کی جاتی ہے۔ان سارے حقائق سے مسلمانوں کی پستی اور غیرمسلم اقوام کے
ہمارے خلاف حقارت آمیز رویوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔
قارئین! مسلمانوں کے شاندارماضی اورحالیہ زوال کا تقابلی جائزہ ملاحظہ
کریں۔ مسلمان جنہوں نے کارہائے زندگی کے ہر شعبے میں اپنا لوہا منوایا
خصوصاًعلم وفن میں 800سالوں تک پوری دنیا پر راج کیا۔ سولہویں صدی میں جب
مسلم معاشرہ کاہلی کا شکارہوگیا تو حالات یکسر بدلنے لگے۔دوسری جانب عیسائی
سائنس کی جانب بڑھ رہے تھے۔ایسے میں وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔مسلمان اُبھرتے
ہوئے یورپ کے سامنے جھک گئے۔ساتویں صدی سے لے کر سولہویں صدی تک دنیا کی سب
سے بڑی اور علمی یونیورسٹیاں مسلم ممالک میں واقع تھیں۔جبکہ حال ہی میں
شنگھائی یونیورسٹی نے دنیا کی چار سو اعلیٰ یونیورسٹیز کی ایک فہرست بنائی
تو اس فہرست میں حیرت انگیز طور پراسلامی ممالک کی صرف ایک یونیورسٹی(کنگ
سعود یونیورسٹی، سعودی عرب) شامل تھی۔سائنس میں مسلم ممالک کی پستی کا
اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ1901ءسے لے کر 2008 تک سائنس کے شعبہ
میں تقریباً 500نوبل انعامات میں سے صرف ایک مسلمان کو اس انعام کا حقدار
قرار دیا گیایعنی سائنس کے شعبے میں گذشتہ صدی میں مسلمان سائنسدانوں کے
تعاون کا تناسب 0.2 فی صد رہا۔ اس کے برعکس یہودی سائنسدانوں کو 140 باراس
انعام کا حقدار قرار دیا گیاجو کہ تقریباً25فی صدہے۔ ایک مشہور مسلم دانشور
کے مطابق ”مسلمانوں میں علم حاصل کرنے کی کم ہوتی لگن ہی ان کی اقتصادی و
سیاسی زوال کا باعث ہے۔“
اقتصادیات کی بات کریں تو دنیا کی مجموعی پیداوار جو کہ 60ٹریلین ڈالر ہے
،اس میں مسلمانوں کی شراکت صرف 3 ٹریلین ڈالر ہے جو کہ فرانس جیسے چھوٹے
ملک جس کی آبادی صرف 70ملین ہے اور یہ حصہ جاپان کی مجموعی پیداوار کا آدھا
ہے جس کی آبادی120 ملین ہے۔اسی طرح امریکہ جس کی آبادی 300ملین ہے،کی
مجموعی پیداوار کا یہ پانچواں حصہ بنتا ہے۔ گویا یورپ میں رہنے والے 20ملین
مسلمانوں کی کل پیداوار پورے برصغیر کے 500 ملین مسلمانوں سے زیادہ ہے۔اس
سے پتہ چلتا ہے کہ اقتصادی لحاظ سے یورپ کتنا مستحکم ہے اور ہم کتنے کمزور
ہیں۔
آٹھویں سے چودہویں صدی کے درمیان جب مسلمان اسپین پر حکمران تھے تب اس کی
آمدنی باقی تمام یورپ سے زیادہ تھی۔ایسا اس لیے تھا کیونکہ اسپین تب اعلیٰ
تعلیم کا بہت بڑا مرکز ہوا کرتا تھا۔علم وفن میں اسپین کی ناقابل یقین
ترقی، اقتصادی پختگی، فوجی اور سائنسی طور پر خوشحالی سے آج حالات پہلے سے
بھی کہیں بہتر ہیں۔آج عیسائیوں کے اسپین کی کل پیداوار دنیا کے 12تیل برآمد
کرنے والے مسلم ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔عروج کے اس دور میں مسلم حکومت کے
تحت سبھی ممالک کا اتنا ہی اچھا حال تھا۔اس زمانے میں بغداد،دمشق،قاہرہ اور
طرابلس سائنسی علوم کے لیے مشہور تھے۔اس زمانے میں مسلم ممالک کو اقتصادی،
تہذیبی اور علمی طور پر بہت ترقی یافتہ مانا جاتا تھا۔
آبادی کی بات کریں تو موجودہ رفتار سے مسلمانوں کی آبادی آئندہ پچاس سالوں
میں دوگناہو جائے گی۔تب مسلمان عیسائیوں سے تعداد میں زیادہ ہو جائیں گے،جن
کی آبادی آئندہ پانچ سو سالوں میں دوگنا ہو گی۔ایک نہایت ہی حیرت انگیز
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی 35فی صد آبادی عیسائی ہے لیکن یہ 35فی صد لوگ دنیا
کی 70فی صد جائیداد کے مالک ہیں،جبکہ مسلمانوں کادنیا کے 5فی صدی وسائل پر
قبضہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی، وسائل کی کمی،
بے روزگاری، اقتصادی بدحالی جو کہ مسلم ممالک میں بری طرح سے سرایت کر چکی
ہے میں آئندہ مزیداضافہ ہو گا۔ایک وہ دور تھا جب مسلم ممالک میں سائنس کا
سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا تھا اوراس وقت یورپ جہالت کے اندھیروں میں جی
رہا تھا۔ایک اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب اسلام دنیا میں تیزی سے پھیل
رہاتھا تب مسلمانوں کی آبادی بہت کم تھی۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں یہ بات یاد
رکھنے کی ضرورت ہے کہ آ ج سائنسی ترقی کے زمانے میں کسی بھی ملک کی عزت اور
طاقت صرف اس کی آبادی پر منحصر نہیں ہے۔آج کی دنیا میں سائنسی اور صنعتی
شعبوں میں ترقی ہی طاقت،عزت اور وسائل کی ضمانت ہے۔ اس کی مثال اسرائیل ہے
جو ایک چھوٹاملک ہونے کے باوجود پورے عرب ممالک پر حاوی ہے۔ایساصرف اس لیے
ہے کہ اسرائیل اقتصادی ، فوجی اور سائنسی طور پرایک خوشحال ملک ہے۔
مسلم معاشرے کے یہ تلخ حقائق ہماری بداعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔ مسلم معاشرے
کی بھلائی کااب واحدراستہ یہی ہے کہ وہ آج کے یورپ سے زیادہ تیز رفتاری سے
سائنسی راستے پر چلیں ۔لیکن ان سب سے پہلے مسلمانوں کو اپنی صفوںسے
انتہاپسندی اور شدت پسندی کو اکھاڑ پھنکنا ہوگا اور اسلام کی اصل روح کے
تحت بھائی چارے اور امن پسندی کو فروغ دینا ہوگا۔ہمیں پوری دنیا
کوباورکرانا ہوگا کہ اسلام انسانیت کی فلاح ،امن اوربھائی چارے کا مذہب
ہے۔دہشتگردی ،بربریت،خودکش حملے اور ظلم و استبداد کا اسلام سے دور کا بھی
کوئی واسطہ نہیں۔ خدارا!خواب ِغفلت سے اٹھیں اور یمانداری سے اپنا دینی
فریضہ سرانجام دے کر اسلام سے اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کریں۔ |