وطن عزیز میں ایک عجیب سی رسم
چلی ہے کہ جہاں آپ کے خلاف کوئی عمل کوئی فیصلہ ہوا ہم بحیثیت قوم بھی اور
حکومت بھی اس پورے ادارے کے خلاف ہو جاتے ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ہم
اداروں کی تباہی کے لیے سرگرم ہیں تو بھی غلط نہ ہوگا اور زیادہ دکھ کی بات
یہ ہے کہ ایسا کرنے میں ہماری حکومتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتی بلکہ
حکومتی سطح پر یہ کام زیادہ اختیارات کے ساتھ زیادہ انہماک کے ساتھ کیا
جارہا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اور ہمارا میڈیا بھی اس
کام میں حصہ بقدرجثہ ڈال رہے ہیں اگر چہ عوامی سطح پر بھی یہ رویہ موجود ہے
تاہم یہاں اس کی اہمیت اس لیے کم ہو جاتی ہے کہ ان کی آواز اپنے ہی حلقے
میں دب کر ختم ہو جاتی ہے اور مزید دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ غلط پالیسیوں
پر بھی عوامی آواز نہیں اٹھتی کیونکہ عوام کو غم روزگار سے ہی فرصت نہیں وہ
کبھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں اور کبھی گیس کی۔ ایسے
میں وہ حکومتی پالیسیوں پر سوائے گھر کی بیٹھک میں بیٹھ کر تنقید کرنے کے
اور کیا کر سکتے ہیں اور ایسے میں اختیارات کے حامل لوگ بڑے سکون سے قوم
اور ملک کی قسمت کو اپنے مطابق موڑنے میں مصروف رہتے ہیں اور یہی سب کچھ اب
بھی کیا جا رہا ہے ۔ میمو گیٹ سکینڈل نے پوری قوم کو اپنے حصار میں لیا ہوا
ہے اور حکومت اور اداروں میں ٹکرائو کی سی صورتحال ہے جو یقینا ریاست کے
لیے خطرناک ہے۔ ہمارے سیاستدان جو جمہوریت کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن اس کے
اصل حسن یعنی اختلاف سے انہیں شدید اختلاف ہے اور جو نہی انہیں مخالفت کا
سامنا کرنا پڑے اس سے انحراف ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں رہتا۔ یہی کچھ
اس وقت ہو رہا ہے عدالت سے اختلاف ، فوج سے اختلاف بلکہ عوام سے بھی اختلاف
اور اس وقت حکومت فوج،عوام اور عدالت تینوں سے برسر پیکار ہے ۔ عدالت نے
میموگیٹ کا ازخود نوٹس نہیں لیا تھا اور نہ ہی فوج نے یہ پٹیشن داخل کروائی
تھی بلکہ اسے مسلم لیگ ن کے جناب نواز شریف کی طرف سے داخل کروایاگیاتھا جس
پر ظاہر ہے کہ عدالت کو کاروائی کرنی تھی ۔اس لیے یہ کہنا کہ عدالت اپنے
اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے بالکل غلط ہے کیونکہ جب ایک کیس عدالت میں
پہنچا دیا گیا تو پھر اُس کا نوٹس نہ لینا دراصل اختیارات سے تجاوز ہے ۔
لہٰذا اگر کوئی ادارہ کام کر رہا ہے تو اُسے کام کرنے دیں اسی میں ملک کی
بہتری ہے اگر میموگیٹ کی غلطی ہو چکی ہے تو اُسے درست کرنے کی کوشش کی جائے
نہ کہ مخالفت برائے مخالفت اور صرف حکومت بچانے کے لیے ملک کو داؤ پر نہ
لگا یا جائے۔ ملک رہے گا تو حکومت رہے گی ورنہ یہ شان و شوکت رہے گی نہ
کرّوفر نہ ہی گاڑیوں کے لمبے لمبے محافظ قافلے۔ حکومت کو سب سے پہلے اس
رویے کو اپنانا ہو گا کہ اداروں کے آئین پاکستان کے مطابق تفویض کردہ
اختیارات میں مداخلت نہ کرے اور اگر کوئی ادارہ اپنے فرائض کو بخوبی سر
انجام دے رہا ہے تو اُس کے ساتھ تعاون کرے ہاں جہاں کوئی بھی ادارہ یا شخص
ملک کو نقصان پہنچائے تو یقینا کوئی ماورائے قانون و آئین نہیں اور ایک شخص
کو بچانے کے لیے حکومت یا کسی شخص یا ادارے کو ملک کی سا لمیت اور وجود سے
نہیں کھیلنا چاہیے ۔ جمہوریت کے سلسلے کو یقینا ملک میں چلتے رہنا چاہیے
اور پارلیمنٹ کوبالادست ہونا چاہیے لیکن اس بالادستی کا یہ مطلب نہیں کہ
دوسرے اداروں کی تضحیک کی جائے یا انہیں مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔
میموگیٹ کے معاملے میں انتہائی ہو شمندی کی ضرورت ہے اگر یہ میمو حقیقت ہے
تو اس کے مجرموں کو ضرور سزا ملنی چاہیے ۔ تاکہ ہم مستقبل میں کسی بھی ایسی
صورتحال سے دوچار نہ ہوں اور اس کے لیے عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنا
چاہیے نہ کہ پہلے سے ہی اُسے تنقید کا نشانہ بنایا جائے ۔ اگر ہم اپنے
اداروں کو آزادی کار نہیں دیں گے تو یہ شاید ایک محدود مدت تک تو حکومت کے
فائدے کا باعث ہو سکے لیکن اس سے ملک میں تنازعات کی روایات میں اضافہ ہی
ہوگا اور ہم اب بحیثیت قوم مزید کسی تنازعے کے متحمل ہو ہی نہیں سکتے۔ |