نئی تہذیب کے زیر اثر تنہائی
پسندی کے فروغ نے نہ صرف عائلی نظام کی دھجیاںبکھیر کر رکھ دی ہیں بلکہ
جرائم کی رفتار کو بھی ایک نئی جہت سے روشناس کروایا ہے جس کے تحت معمر
شہریوں کی زندگی کی حفاظت انتظامیہ کیلئے ایک مسئلہ بن گئی ہے۔طبی نقطہ نظر
سے بھی اس کے مضراثرات منظر عام پر آئے ہیں۔ ابھی کوئی نگر معمر جوڑے کے
سانحہ کو مہینہ بھر بھی نہیں گزرا تھا کہ میور وہار کا سانحہ پیش آگیا۔
میور وہار کے علاقے میں ایک معمر خاتون صحافی کی گھر میں گھس کر قتل کر دیا
گیا۔ قاتلوں نے گھر میں دوستانہ انداز میں راہ ہموار کرتے ہوئے ملاقات کی
اور گھر میں گھستے ہی گلا گھونٹ کر ان کاقتل کرنے کے بعد گھر سے لوٹ مار
کرکے فرار ہو گئے۔ اس واردات کا پتہ منگل کی صبح اس وقت چلا جب ان کے یہاں
کام کرنے والی دو نوکرانیاں آئیں۔
عمر رسیدہ خاتون گھر میں اکیلی رہتی تھیں اور میور وہار تھانے میں سینئر
سٹیزن کی لسٹ میں رجسٹرڈ تھیں۔ پولیس خدشہ ظاہرکر رہی ہے کہ ان کا قتل پیر
کی رات آٹھ سے نو بجے کے درمیان کیا گیا ہے۔ فی الحال دونوں نوکرانیوں سے
پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ مرنے والی خاتون کا بیٹا برطانوی ہائی کمیشن میں
سیاسی مشیر کے عہدے پر تعینات ہے جواپنے خاندان کے ساتھ اندراپورم میں رہتا
ہے۔
تفصیلات کے مطابق سروجنی بھرتوال جنکی عمر81سال بتائی گئی ہے‘ میور وہارفیس
ون ، پاکٹ 4 مکان نمبر بی88 میں اکیلی رہتی تھیں۔ ان کے بیٹے ہیمیدر سنگھ
اپنے کنبے کے ساتھ اندراپورم میں رہتے ہیں اور برطانوی ہائی کمیشن میں
سیاسی مشیر کے عہدے پر تعینات ہیں۔ ان کی بیوی نپور نوئیڈا میں جاب کرتی
ہیں۔
سروجنی بھرتوال کے یہاں دو خواتین منجو (27) اور سروج (30) بطور نوکرانی
کام کرتی ہیں جو صبح اورشام کے اوقات میں ان کے یہاں آتی ہیں۔ پولیس کے
مطابق قتل کی اطلاع صبح تقریبا 11 بجے ملی جس کے بعد پولیس موقع پر پہنچ
گئی۔ جانچ میں پتہ چلا کہ صبح تقریبا 10 بجے پہلے منجو گھر پر آئی۔ اس نے
ورانڈے میں پڑے اخبار جمع کئے اور پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ اندر سے
بند نہیں تھا۔ اس نے کئی بار پکارا لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آیا۔
جھانک کر دیکھنے پر اندر سامان ادھر ادھر بکھراہوا دیکھ منجو واپس چلی گئی۔
پھر 11 بجے سروج آئی تو اس نے بھی سروجنی بھرتوال کو آواز لگائی۔ پھر وہ
گھر کے اندر گئی تو سامان ادھر ادھر بکھراہوا دیکھنے کے بعد وہ باہر آ گئی
اوراس نے شور مچا دیا۔
اس کے بعد وہ پڑوسیوں کے ساتھ اندر گیا ، جہاں ڈرائنگ روم کے اندر گھستے ہی
دروازے کے پاس ان کی چپل اور عینک پڑی ہوئی تھی۔ اندر خواب گاہ میں پہنچنے
پر پتہ چلا کہ سروجنی بھرتوال لیٹی ہوئی تھیں اور ان پر چادر ڈھکی ہوئی تھی۔
چادر ہٹانے پر دیکھا تو ان کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ فرش پر بھی خون کے
کچھ نشانات تھے۔ فوری طور پر معاملے کی اطلاع پولیس کو دی گئی۔
پولیس نے بتایا کہ سروجنی بھرتوال کے بیٹے ہیمیدر سنگھ سے پتہ چلا ہے کہ
انہوں نے تقریبا تین ماہ قبل گھر میں وائٹ واش کروایا تھا۔ انہوں نے انہی
لوگوں سے اپنے اندراپورم والے گھر میں بھی وائٹ واش کرایا تھا۔ خاص بات یہ
ہے کہ بیڈ روم میں رکھی ہوئی الماری ، خانے اور دیوان کو ہی کھول کر اس میں
رکھی نقدی اور زیورات وغیرہ لوٹے گئے ہیں۔
دیگر دونوں کمروں کی الماری وغیرہ کو کھولا بھی نہیں گیا ہے۔ سروجنی صرف
بیڈ روم میں رکھی الماری ، خانے اور دیوان وغیرہ میں ہی نقدی اور زیورات
رکھتی تھیں ، دیگر دونوں کمروں کی الماریوں میں کتابیں وغیرہ رکھتی تھیں جس
سے معلوم ہوتا ہے کہ قاتلوں کو اس بات کا پہلے سے علم تھا۔ پولیس دونوں
نوکرانیوں سے تفتیش کرنے کیساتھ ساتھ وائٹ واش کرنے والے مزدوروں اور
ٹھیکیدار کا پتہ لگا رہی ہے۔
ہیمیدر سنگھ نے بتایا کہ والد کی موت کے بعد سے ہی ان کی ماں یعنی سروجنی
بھرتوال اکیلی رہتی تھیں۔ وہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے موبائل فون پر ماں
سے بات کیا کرتے تھے۔ پیر کی رات کو تقریبا نو بجے بھی انہوں نے ماں کے
موبائل فون پربات کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا فون سوئچ آف تھا۔
تقریبا ساڑھے نو بجے بھی انہوں نے فون ملایا ، اس بار بھی فون سوئچ آف تھا۔
انہیںتشویش اس لئے نہیں ہوئی کیونکہ ان کا فون بیٹری ڈسچارج کی وجہ سے
اکثرآف ہو جایا کرتا تھا۔ منگل کی صبح وہ اپنے آفس میں تھے تو تقریبا 11
بجے کسی پڑوسی نے فون کر بتایا کہ ان کی ماں بیڈروم میں پلنگ سے نیچے زخمی
پڑی ہیں۔
انہوں نے فوری طور پر اپنی بیوی نپور کو فون کر ماں کے پاس جانے کیلئے کہا
کیونکہ نوئیڈا سے میور وہار قریب پڑتاہے۔ جب تک نپور وہاں پہنچی تو پولیس
بھی پہنچ چکی تھی۔ موصوفہ خاتون صحافی شام ہوتے ہی گھر کے دروازے بند کر
لیتی تھیں اور کسی بھی انجان شخص کیلئے دروازہ نہیں کھولتی تھیں۔ موقع پر
مشرقی ضلع پولیس کمشنر پربھاکر کے علاوہ نئی دہلی رینج کے جوائنٹ کمشنر بھی
پہنچے ہوئے تھے۔
سروجنی بھرتوال ایم اے تاریخ اور موسیقی ڈپلومہ ہولڈر تھیںجس کی وجہ سے فن
موسیقی کی نقاد تھیں۔ وہ ایک اہم اخبار میں بطور میوزک کریٹک کام کر چکی
تھیں اور ان دنوںبھی فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ اس کے
علاوہ اور انڈین ویمین پریس کلب سے بھی وابستہ تھیں۔ ان کے شوہر نریندر
سنگھ بھی سینئر صحافی تھے اور کئی اہم اخبارات کے ساتھ کام کر چکے تھے۔ ان
کا انتقال 2008 میں ہوا تھا جس کے بعد سے سروجنی بھرتوال اکیلے ہی رہتی
تھیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل کوئی نگر کے ای بلاک میں رہنے والے معمرجوڑے کے گھر
میں گھس کر خاتون کے قتل اور لوٹ مار کی واردات نے پولیس کو بھی پریشان کر
دیا تھا۔21دسمبر کو شائع خبر کے مطابق کہا گیا تھا کہ پولیس آرڈبلیواے کی
مدد سے ایسے عمر رسیدہ لوگوں کی شناخت کرے گی جو اپنے گھروں میں اکیلے رہتے
ہیں۔ ان کی فہرست بنانے کے بعد پولیس ان پر نگاہ رکھے گی۔ ایس ایس پی
رگھوویرلال کا کہنا تھا کہ پولیس کے ساتھ ہی پڑوسی بھی معمروں کا خیال
رکھیں گے تو ان کی حفاظت کی جا سکتی ہے۔
پولیس کے مطابق شہر میں بڑی تعداد میں ایسے بنگلے اور کوٹھیاں ہیں جہاں عمر
رسیدہ لوگ تنہا رہتے ہیں۔ بعض گھروں میں تو ان عمر رسیدہ شہریوں کی خدمت
اور تحفظ ایک نوکر پر ہی موقوف ہوتی ہے۔ اس نوکر کا بھی پولیس ویری فکیشن
نہیں ہے۔ ایس ایس پی نے تمام تھانے داروں کو ہدایات دی ہیں کہ وہ چوکی
انچارجوں اور آرڈبلیواے کی مدد سے اپنے اپنے علاقوں میں اکیلے رہنے والے
معمروں کی لسٹ بنواے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس کے تمام کوششوں کے باوجود
لوگ اپنے نوکروں اورکرائے داروں کا ویرفکیشن نہیں کروا رہے ہیں۔ پولیس اب
ویریفکیشن نہ کرانے والے مکان مالکان کے خلاف کارروائی کرنے پر غور کر رہی
ہے۔
|
|
جبکہ طبی نقطہ نظر سے بھی کوئی معمر شخص اگر تنہا رہتا ہے تو اس میں شادی
شدہ یا ساتھی کے ساتھ رہنے والے شخص کے مقابلے میں ذہنی طور پر بیمار پڑنے
کے خدشات دوگنے ہو جاتے ہیں۔ ا سپیڈین کے محققین نے ایک تازہ تحقیق کی
بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔حال ہی میں کیرونلس کا انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے
کروائی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اکیلے رہنے والے یاطلاق شدہ ا شخاص میں
ذہنی طور پر بیمار ہونے کا خطرہ تین گنا اورزیادہ عمر میں بیوہ یارنڈوا
ہونے والے شخص میں اس سے متاثر ہونے کے خدشات چھ گنا بڑھ جاتے ہیں۔اس کے
باوجود نہ صرف معمر لوگ تنہا رہنے پر بضد ہیں بلکہ نئی نسل بھی اپنے
چونچلوں میں مشغول ہے۔ محققین نے 1449 لوگوں کا جائزہ لینے کے 21 سال بعد
پھر سے ان کا تجربہ کیا ہے۔ ان میں 139 میں سمجھ بوجھ کی کمی پائی جبکہ 48
کو الزائمر کا شکار پایا گیا۔محققین کے مطابق ساتھی کے ہمراپ رہنے والے
لوگوں میں ایسے معاملے کم دیکھے گئے۔ کسی کا ساتھ سب سے بہتر سماجی اور
کنبہ کی شکل ہوتا ہے۔اس سے ان میں دماغی امراض ہونے کا خطرہ نہیں رہتا۔
ساتھی ہونے سے شخص اپنی پریشانی ایک دوسرے سے بانٹ کر دل ہلکا کر لیتے ہیں
جبکہ اکیلا شخص مسائل اور دقتوں کے بارے میں سوچ سوچ کر اسے دوگنا کر لیتا
ہے اور رفتہ رفتہ ذہنی طور بیمار ہونے کے ساتھ جرائم پر آمادہ جوگوں کا
آسان نشانہ بھی بن جاتا ہے۔ |