ڈاکٹر صلاح الدين سلطان
ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی
بسم الله ،والحمد لله، والصلاة والسلام على سيدنا وحبيبنا رسول الله، اللهم
صل وسلم وبارك عليه، وعلى آله وصحبه ومن والاه وبعد...
راہِ خدا کے ہمسفر ساتھیو، محترم بہنو! آج میری گفتگو کا عنوان ہے " ترکی
کا سفر: چند تاثرات "، میں نے کئی ممالک کا سفر کیا ان میں سے ایک ترکی بھی
ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ترکی پر ٹھہر کر کچھ خاص گفتگو کروں۔ ترکی کی پہلی
علامت جلیل القدر صحابی ابو ایّوب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ مسجدِ
ابو ایّوب الانصاری وہ مسجد ہے جس میں ہر جمعہ، ہفتہ، اور اتوار کو چالیس
ہزار افراد نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ تعداد صرف نمازِ جمعہ میں نہیں ہوتی بلکہ
فجر میں بھی یہی تعداد ہوتی ہے۔ |
|
ترکی کی صرف ایک مسجد
میں نمازِ فجر ادا کرنے والوں کی تعداد چالیس ہزار ہے۔ اگر آپ ان کو دیکھیں
گے تو معلوم ہوگا کہ ان مصلّیوں میں ساٹھ سے ستّر فیصد تعداد نوجوانوں کی
ہوتی ہے۔ یہ وہ عنصر ہے جو پورے یورپ کے لئے خوف اور دہشت کا ذریعہ ہے، جن
نوجوانوں کے لئے یہ لائحہٴ عمل بنایا گیا تھا کہ وہ راتوں کو جاگ کر فحش
گوئی ، بے حیائی، موسیقی اور شراب میں مست رہیں وہ جلیل القدر صحابی ابو
ایّوب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے موسوم مسجد میں اللہ کے
سامنے سجدہ ریز نظر آتے ہیں۔
ابو ایّوب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان اصحاب میں سے ہیں جنہوں نے
مدینہ میں رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم کا استقبال کیا۔ اور رسول اللہ
صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم نے مدینہ میں سب سے پہلے جس گھر میں قدم رکھا وہ ابو
ایوب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گھر ہے۔ ان کے گھر میں رسول اللہ
صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم کے لئے عمدہ انتظامات کئے گئے۔ وہ اور ان کی اہلیہ
اوپری منزل میں منتقل ہوگئے لیکن انہیں اس بات سے شرم محسوس ہوئی کہ ان کے
قدم رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم کے سر کے اوپر رہیں چنانچہ وہ اور ان
کی بیوی دیوار کے قریب رہے۔ کمرے کے درمیانی حصّے میں نہیں گئے تاکہ ان کے
قدم کہیں رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم کے سر کے اوپر نہ آجائیں۔
دوسرے دن ابو ایوب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ درخواست کی کہ رسول
اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم اوپری منزل میں قیام فرمائیں۔ یہ وہ صحابیٴ
رسول ہیں جنہوں نے غزوہٴ بدر ساتھ ساتھ تمام معرکوں میں حصّہ لیا، ہر غزہ
میں رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ رہے۔ انہوں نے ابوبکر، عمر،
عثمان، علی، اور معاویہ رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے عہد میں جہاد
کیا، یزید بن معاویہ کے دور میں بھی جہاد کیا۔ وہ کہا کرتے تھے: مجھے اس کی
فکر نہیں ہے کہ کون مسلمانوں کو خلیفہ بنا بلکہ مجھے اس کی فکر رہتی ہے کہ
میں اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہادت پا کر اللہ سے ملوں۔
ابو ایّوب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بعض غلط مفاہیم کی اصلاح کی۔
فتحِ مکّہ کے بعد انصار صحابہٴ کرام میں سے کچھ لوگوں نے جمع ہوکر کہا کہ :
اللہ تعالیٰ نے اسلام اور مسلمانوں کو اب قوّت دی ہے۔ ہم نے رسول اللہ صلّیٰ
اللہ علیہ وسلّم کی دعوت میں ان کا ساتھ دیا، اب ہمیں اس کا موقع دیا جائے
کہ اپنے گھروالوں، بچوں اور کاروبار میں لگیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت
نازل فرمائی (وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ تُلْقُواْ
بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ
الْمُحْسِنِينَ) ﴿اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو
ہلاکت میں نہ ڈالو احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنو ں کو پسند کرتا
ہے ﴾۔
سيدنا أبو أيوب الأنصاري صحح المفاهيم المغلوطة، ليس في عهد النبوة، وإنما
في عهدنا المنكوب، بكثير من ألوان التراخي، سمع أن جماعة من الصحابة، من
الأنصار الذين أيدوا دعوة النبي -صلى الله عليه وسلم ـ في مهدها، بعد فتح
مكة عملوا اجتماع وقالوا ماذا؟ قالوا: قد أعز الله الإسلام والمسلمين، وقد
ناصرنا النبي في دعوته، فدعونا، دعونا نقيم في أهلنا وأموالنا وأولادنا،
فأنزل الله هذه الآية: (وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ تُلْقُواْ
بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوَاْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ
الْمُحْسِنِينَ). ایک بار ایک بہادرترین نوجوان کسی غزوہ کے دوران ایک طویل
حصاربندی کے بعددیوار پھلانگ بیٹھا اور چیختا ہوا کفار کے لشکر تک جاپہنچا۔
فطری طور پر ان کو معلوم تھا کہ وہاں دیوار کی حفاظت کرنے والی فوج ہوگی،
وہ لوگ اسے قتل کر دیں گے۔ بعض مسلمانوں نے اس کو دیکھتے ہوئے کہا اس نے
اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا، صحابیٔ رسول حضرت ابوایوب انصاریؓ نے کہا :
نہیں خدا کی قسم اس آیت کا نہ یہ شانِ نزول ہے اور نہ ہی اسے ہم اس طرح
سمجھتے تھے۔ یہ ہلاکت نہیں ہے۔ اس آیت میں جس بات کو ہلاکت کہا گیا ہے وہ
اللہ کے راستے میں جہاد اور جنگ کو چھوڑ کر اپنے گھر اور بچوں کے درمیان رہ
کر کاروبار میں لگنا ہے۔ ہم ایسے لوگوں کی اصلاح کرتے تھے۔ اس لئے کہ یہ
چیز باعثِ ہلاکت تھی۔
سچ پوچھئے تو یہی حقیقت ہے۔ کیا امتِ مسلمہ کے افراد آپس میں ایک دوسرے کا
خون بہاکر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہیں ڈال رہے ہیں۔
أسدٌ علي وفي الحروب نعامة ... فتخاء تنفر من صفير الصافر
﴿میرے معاملہ میں تو تم شیر ہو اور جب جنگ کی بات آتی ہے توتم ایسےکمزور
شتر مرغٰ بن جاتےہو جو محض سیٹی کی آواز سے گھبرا جاتا ہے﴾۔
آج لوگوں نے ایک بت تراش لیا ہے جس کا نام امن و امان ہے۔ اسرائیل ہمارے
فلسطینی بھائیوں سے ہمیشہ برسرِ پیکار رہتا ہے، اس کے باوجود لوگ جمع ہوتے
ہیں اور وہ کہتے ہیں: ہم امن و امان پیش کرنے والے ہیں۔ اور جو اس دہشت
گردی کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اس کے بارے میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ امن و
امان کو تاراج کر رہا ہے۔ یہ کیسا امن و امان ہے؟ کیسی ہے یہ امن کی بات؟؟
نتیجہ یہ ہے کہ پورا جسم مرض میں مبتلا ہے۔ شہید کو تلوار کی دھار اذیّت
نہیں پہونچاتی۔ اسے تو اتنی تکلیف ہوتی ہے جتنی کسی کو چیونٹی کاٹنے پر یا
سوئی چبھونے پر ہوتی ہے۔ حدیث میں رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم نے
فرمایا: "شہید کو قتل ہوتے وقت بس اتنی تکلیف ہوتی ہے جتنی کسی کو چیونٹی
کاٹنے پر ہوتی ہے".
بتائیے امت میں کتنے لوگ ہیں جو سوئی کی اس تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے
تیّار ہیں؟ یہ مرض میں مبتلا ہیں، لوگ گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ ہر دن ذلّت
و رسوائی کا نیا مزہ چکھ رہے ہیں۔
ابو ایّوب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مفہوم کی اصلاح کی۔ انہوں
نےکہا کہ یہ آیت نہ اس طرح نازل ہوئی اور نہ ہی اسے اس طرح سمجھا گیا۔ ابو
ایّوب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم،
ابو بکر، عمر، عثمان، علی، معاویہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے ساتھ جہاد
کیا اور جب وہ یزید بن معاویہ کی فو ج میں نکلے تو اس وقت ان کا جسم بہت
نحیف ہو چکا تھا، ان کی آنکھوں کی روشنی کمزور ہو چکی تھی، ہڈیاں ٹیڑھی
ہوگئی تھیں اور آنکھ کے پپوٹے دھنس چکے تھےاور اچھی طرح دیکھ نہ پاتے تھے۔
ان سے کہا گیا : اے ابو ایّوب آپ نے رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم کے
ساتھ جہاد کیا۔ ابوبکر، عمر، عثمان، علی، اور معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم
کے ساتھ آنے جہاد میں شرکت کی۔ آپ کے لۛئے یہ کافی ہے، اب آپ آرام فرمائیں۔
آپ کمزوری کے اس مرحلے کو پہونچ چکے ہیں، آپ کیوں نکلتے ہیں؟
مفاہیم کی اصلاح کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے
صریح حکم کے بعد کسی کے لئے کوعذر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(انْفِرُواْ خِفَافًا وَثِقَالاً وَجَاهِدُواْ بِأَمْوَالِكُمْ
وَأَنفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ
تَعْلَمُونَ)۔ ﴿ نکلو، خواہ ہلکے ہو یا بوجھل، اور جہاد کرو اللہ کی راہ
میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم
جانو﴾۔ ابو ایّوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک اس عمر میں بھی کوئی عذر
نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں میں مسلمانوں کی فوج کے ساتھ جاؤں گا۔ اگر
کسی دشمن کو قتل نہ بھی کر سکا تو کیا ہوا مسلم فوج کی تعداد میں تو اضافہ
ہوگا۔ اگر کسی مشرک کو میں قتل نہ بھی کر سکا تو میں تعداد میں کمی کرنے کے
بجائے یہ تو ظاہر کر سکوں گا کہ مسلمانوں کی تعداد کم نہیں ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ : ہم غزہ میں محصور اپنے بھائیوں کے لئے کھڑے ہو جائیں،
یا ایسے فتنہ پرور فلم کے خلاف کھڑے ہوں جس میں اسلام اور پیغمبرِ اسلام
صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم پر حملے کئے گئے ہیں یا اہانت آمیز کارٹون کے خلاف
آواز اٹھائیں تو ایسے وقت میں اگر سب لوگ کاہلی کا مظاہرہ کریں اور کہیں کہ
: اس کام کے لئے کھڑے ہونے والے لوگ بہت ہیں ہم نہیں بھی گئے تو کوئی حرج
نہیں، تو تعداد بہت مختصر ہو جائے گی۔ آج فلسطین، عراق، اور افغانستان پر
دوسروں کا قبضہ ہے، صومالیہ کی فضا میں بے چینی ہے، اس کی ایک وجہ یہی ہے
کہ ہم میں سے ہر کوئی اسلام کی مدد کرنے کے کترا رہا ہے۔ ہم سب ایک امّت
ہیں، ہمارے لئے کشتی والی حدیث ہے، جس کی روایت امام بخاری نے نعمان بن
بشیر سے کی ہے ، انہوں نے نبی صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم سے بیان کیا ہے کہ : "
اللہ کی حدود پر قائم رہنے والے اور اس کو توڑنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے
کچھ لوگ کشتی پر سوار ہوں، بعض لوگ نیچے کے حصّے میں رہیں اور کچھ لوگوں کو
اوپر کے حصّے میں جگہ ملے، جب نیچے کے لوگوں کو پانی کی ضرورت ہو تو وہ
اوپر جائیں، پھر وہ کہنے لگیں کہ اگر ہم کشتی میں سوراخ کر دیں اور اپنے
حصّے کا پانی لے لیں تو اوپر کے لوگوں کو اذیّت دینے سے ہم بچ جائیں گے۔
اگر اوپر کے لوگ ان کو ایسا کرنے دیں تو کشتی میں سوار تمام ہی لوگ ہلاک ہو
جائیں گے۔ اور اگر وہ اُن کا ہاتھ پکڑ لیں تو سب لوگ بچ جائیں گے۔
یہی امّت کی صورتِ حال ہے۔ ایک امّت کے افرد ہونے کی حیثیت سے ہم سب ایک ہی
کشتی پر سوار ہیں۔ حضرت ابو ایّوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہی مفہوم
پہونچانا چاہتے تھے۔
یزید بن معاویہ کے دور میں جب قسطنطنیہ کا محاصرہ سخت ہوا، مسلمان ابھی شہر
فتح نہیں کر سکے تھے کہ حضرت ابو ایّوب الاںصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی
موت کی گھڑی آگئی۔ یزید ان کے پاس آیا اور اس نے پوچھا : آپ کی کیا خواہش
ہے؟، انہوں نے جواب دیا : جب میری وفات ہو جائے تو مشرکین کے علاقے میں
جتنی دور تک تم جا سکو جاؤ پھر وہیں مجھے دفن کرکے فوج کی طرف واپس آجاؤ
اور ان سے کہو : ابو ایّوب کی یہ چاہت ہے کہ وہ اپنے سر کے اوپر گھوڑوں کی
ٹاپوں کی آواز سنے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں قبر میں رہوں اور میرے سر کے اوپر
سے شہسوار گزریں۔ یزید بن معاویہ نے ایسا ہی کیا۔ واپس آکر اس نے فوج کو
ابھارا چنانچہ اللہ کے فضل سے اور اس ابو ایّوب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کی اس ترغیب کی وجہ سے اس بار ان کو کامیابی ملی۔
ابو ایّوب الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غیر مسلموں کے نزدیک بزرگانہ
مقام حاصل تھا، اس دور میں بھی جب ترکی غیر مسلموں کے قبضہ میں تھا لوگ ان
کے پاس بابرکت فرد کی حیثیت سے آتے تھے۔ اور سبحان اللہ آج بھی ان کی قبر
کی زیارت کرنے والے صرف مسلمان نہیں ہیں بلکہ بہت سے غیر مسلم بھی ان کی
قبر پر آتے ہیں۔ اگر کسی عورت کی شادی ہوتی ہے تو وہ کہتی ہے کہ ہم ابو
ایّوب الانصاری بزرگ کے پاس جاکر برکت طلب کریں گے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس
طرح کے عمل کو ہم جائز نہیں سمجھتے لیکن ہم کہنا یہ چاہ رہے ہیں کہ ان غیر
مسلموں کے نزدیک حضرت ابو ابّوب انصاری رضی اللہ عنہ کا ایک مقام ہے۔
ترکی میں اور مسجد ہے مسجدِ محمد فاتح۔ تمہیں کیا پتہ کہ محمد فاتح کتنا
عظیم نام ہے!! جب وہ چھوٹے تھے تو ان کے والد ان کے شیخ اور استاد کے پاس
روزانہ لے جاتے تھے، وہ انہیں قرآن پڑھاتے۔ اور جب وہ واپس جانا چاہتے تو
ان سے کہتے تھے: میں نے رسول –صلى الله عليه وسلم- کی ایک حدیث سنی ہے جس
میں وہ فرماتے ہیں "قسطنطیہ فتح ہوگا، اس کا سپہ سالار کیا ہی عمدہ سربراہ
ہوگا، اور اس کی فوج کتنی اچھی فوج ہوگی".
وہ کہتے ہیں کہ میرے شیخ نے اکّیس سالوں تک میرے سامنے روزانہ یہ حدیث
سناتے رہے۔ اس کے بعد وہ مجھ سے کہتے: میری خواہش ہے کہ رسول -صلى الله
عليه وسلم- نے جس شخص کا ذکر کیا ہے وہ تم بنو۔
آج ہمارے پاس جو اساتذہ ہیں وہ طلبہ کو لڑکھڑانے اور سر جھکانے کی تعلیم
دیتے ہیں، :وہ تم سے کہتے ہیں میرے بیٹے، میری یہ نصیحت سن۔ میری عمر زیادہ
ہوچکی ہے، سر پہ سفیدی آچکی ہے۔ دیوار کے پہلو بہ پہلو چلو، پھر جب تم
دیوار سے لگ کر چلتے ہو تو وہ کہتے ہیں، یاد رہے دیوار کے بھی کان ہوتے
ہیں۔ میرے بیٹے قلم رکھ دو، اپنے گھر میں بند رہو، اگر تم قلم چلاؤگے تو
قید خانے کا دروازہ تمہارا منتظر ہوگا، بیٹے ہر ضرورت سے کنارہ کش ہو جاؤ۔
ہمارے گاؤں میں ایک بزرگ خاتون تھیں، 1973ء کی جنگ کے زمانے میں ان کا بیٹا
فوج میں تھا۔ وہ اپنے بیٹے سے کہا کرتی تھیں، میرے بچّے تم جنگ میں کیوں
شریک ہو رہے ہو؟ کل جا کر یہ تمام بڑے لوگ صلح کر لیں گے اور درمیان میں تم
ہی ایک اکیلے دشمن رہ جاؤگے۔
اور ہوا بھی یہی۔ وقت گزرتا گیا۔ تمام بڑوں نے صلح کر لی اور تنہا عوام ہی
میدان میں دشمن بن کر رہی۔
محمّد فاتح کے شیخ ان کو جہاد پر ابھارتے تھے۔ جس وقت انہوں نے قسطنطنیہ
فتح کی اس وقت ان کی عمر اکیس سال تھی۔ پوری تاریخ میں ترکی میں رومیوں کا
سب سے بڑا قلعہ استنبول میں تھا۔
انہوں نے ایک بڑی فوج تیّار کی، نئے نئے وسائل جمع کئے۔ پتّھر کی گیند
بنائے۔ یہ اتنی بڑی ہوتی تھی کہ اسے توپ کے منہ میں رکھنے کے لئے تین ہزار
افراد اٹھا کر لے جاتے تھے، اس کے سامنے جو بھی آتا تھا پاش پاش ہو جاتا
تھا۔ انہوں نے بہت سی کشتیاں بنوائیں، ان کو انہوں نے پانی پر نہیں بلکہ
خشکی پر چلایا۔ قسطنطنیہ کا محاصرہ کرنے کے بعد انہوں نے ایک نئے طریقے سے
شہر میں داخل ہونے کا راستہ تلاش کیا۔ انہوں نے زمین پر لکڑیاں بچھائی ان
پر تیل ڈلوایا۔ اس کے بعد ان کے اوپر کشتیاں پھلسنے لگیں اور پھسلتے ہوئے
استنبول کے اندر اور پھر قلعہ کے اندر داخل ہوئیں۔ سخت معرکہ برپا ہوا۔
رومی شہنشاہ نے کہا : مجھے قتل کرکے میرا سر تن سے جدا کر دو۔ آج ہم سب لوگ
کرسیوں کے نیچے ہیں۔ بازنطینی شہنشاہ کے اندر مردانگی تھی تب اس نے کہا :
میر سر تن سے جدا کردو تاکہ محمد الفاتح اور ان کی فوج اس کو تکلیف نہ دے۔
معرکہ کے بعد محمد الفاتح نے اس کے جسم اور سر کو تلاش کروایا ، رسمی طور
پر اس کے لئے بادشاہوں اور شہنشاہوں کی طرح جنازہ کا انتظام کرایا اور اسے
بادشاہوں کے قبر کے درمیان دفن کرایا۔ اس کی موت کے بعد انہوں نے اس کی
اہانت نہیں کی۔ عیسائی پادریوں کا سردار فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ فوج
کے لوگوں نے اسے گرفتار کر کے محمد الفاتح کے سامنے حاضر کیا۔ اس سے انہوں
نے کہا : رسول اللہ صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم نے ہمیں اس بات کی تاکید کی ہے
کہ ہم نصاریٰ کے ساتھ حسنِ سلوک کریں۔ ہم مسلمان فاتح ہیں، ہم ان دشمنوں کی
طرح نہیں ہیں جو ہر چیز کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔ میں تمہارے لئے ایک
مجلسِ شوریٰ بناتا ہوں، یہی مجلس نصاریٰ کے معاملات کو انجام دے گی اور تم
خلافتِ اسلامیہ کی مجلسِ شوریٰ میں نصاریٰ کی نمائندگی کرو گے۔
عیسائی پادری نے تاریخ میں لکھا ہے: ہمارے معاملہ میں محمد الفاتح نے جس
کشادہ ظرفی کا معاملہ کیا تھا ویسا ہم نے کسی اور فرد کو نہیں پایا جب کہ
ہم نے ان کے خلاف سخت جنگ لڑی تھی جس میں کسی نرمی کی گنجائش نہیں تھی۔
محمد فاتح نے اپنی تلوار پر لکھا تھا :
ومن عجب أن الصوارم في الوغى... تحيض بأيدي القوم وهي ذكور
﴿تعجّب کی بات ہے کہ میدانِ جنگ میں تلواریں مردوں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں پر
ان سے اس طرح خون بہتا ہے جس طرح حیض میں عورتوں کا﴾۔
یہ وہ مثالیں ہیں جو آزادی کا راستہ دکھاتی ہیں۔ ہمارے آج کے نوجوان فیشن
کے دلدادہ ہیں۔ ان نزاکت بھرا حوصلہ دیکھئے
ولي عزم يشق الماء شقًا.. ويكسر بيضتين على التوالي
﴿میرا عزم پانی تراش کر راستہ نکالتا ہے، اور ایک ساتھ دو انڈے توڑ سکتا
ہے﴾۔
آج کا نوجوان کہتا ہے کہ : میں لگاتار دو انڈے توڑ سکتا ہوں، ہاں میرا ہاتھ
لوہا ہے اس لئے کہ دو انڈے توڑ سکتا ہے۔ عالمِ اسلام کے بیشتر نوجوانوں کو
یہی حال ہے۔ ہماری بچیوں کا روّیہ انتہائی معمولی اور حقیر ہے، وہ فتنے اور
ہلاکت خیز اشیاء کے پیچھے بھاگتی ہیں۔ ہم یہ گفتگو کر رہے ہیں لیکن بہر حال
ہمیں اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ کے فضل سے امّت میں ابھی
بھی کچھ مردانِ کار موجود ہیں، نیک لوگ موجود ہیں، نیک خواتین موجود ہیں۔
محمد فاتح نے اس ملک اور اس سرزمین کو فتح کیا اور انتہائی عفو و در گزر کا
مظاہرہ کیا۔ انہوں نے ایک انتہائی ترقّی یافتہ مملکت کی بنیاد رکھی۔ محمد
فاتح نے جب یہاں قدم رکھا تو یہاں کی ہر زمین بلندی پر تھی۔ یہ ترکی کا
بلند ترین منطقہ ہے۔ انہوں نے استنبول میں مسجد بنائی۔ یہ مسجد انتہائی
شاندار اور اعلیٰ طرزِ تعمیر کی مظہر ہے۔ اگر آپ سلطان محمد کی مسجد کے
منبر پر چڑھنا چاہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ کی صحّت اچّھی ہو۔ اس
مسجد کی امامت کے لئےکچھ شرطیں تھیں۔ پتہ ہے آپ کو اس کے لئے کیا شرطیں
تھیں؟
مسجد سلطان احمد کے امام کے لئے چھ شرائط تھیں ...
1 ـ قرآن کا حافظ ہو، قراتِ عشرہ سے واقف ہو۔
2ـ فقہ کے میدان میں درجہٴ اجتہاد پر فائز ہو، علم اصولِ فقہ، فقہ، علوم
حدیث، علوم سیرت، اور علوم دعوت کا ماہر ہو اور مجتہد ہو۔
3ـ - کسی ورزشی کھیل، تیراکی، شہسواری،یا تیر اندازی میں ماہر ہو۔ وہ
چیمپئن شپ حاصل کر چکا ہو۔ وہ محض کیمرہ کے شیخ کو منتخب نہیں کرتےتھے۔
4- سائنس یا ریاضی کے علوم میں سے کسی ایک یا دونوں میں امتیازی مقام رکھتا
ہو۔
5- اسے بہت سارے علماء سے سندِ اجازت حاصل ہو، وہ امت کے نئے معاملات و
مسائل کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو یعنی وہ سماجی انسان ہو، ایسا فقیہ
ہو جو سماجی امور سے واقف ہو، کوئی ایسا انسان نہ ہو جس کے بارے میں کوئی
کچھ نہ جانتا ہو۔
یہ امام اور مفتی دو ہی لوگ ایسے تھے جنہیں یہ حق حاصل تھا کہ وہ خلیفہ کو
معزول کریں۔ ان کو خلیفہ کو معزول کرنے کا حق حاصل تھا۔ ترکی کی مساجد کے
اندر یہ زبردست قوّت موجود تھی۔ اللہ کے فضل سے تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی
ہے۔
مسجدِ محمد فاتح میں دس ہزر حفّاظِ کرام ہیں، قرآن کو سینے میں محفوظ کئے
ہوئے دس ہزارافراد!!
یہاں پر حفظِ قرآن کا اہتمام کرنے والے اداروں میں سے ایک اسلامی مرکز میں
تین ہفتوں کا اجتماع منعقد ہوا .. اس میں انٹر میڈیٹ سے نیچے کی سطح کے
پانچ سو نوجوان ایسے ہیں جو قرات عشر کے حافظ ہیں۔ یہ صرف ایک مرکز کا حال
ہے۔ یہ ایک غیر معمولی تحریک ہے۔ میں نے اپنے پہلے سفر 92 ء میں ترکی کو
دیکھا۔ اور اب 2008ء میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ دونوں میں زبردست فرق ہے۔ 92ء
کے ترکی کی سڑکیں عریانیت سے بھری تھیں۔ جیسے ہی تم ائیر پورٹ میں داخل
ہوتے تمہیں عورتوں کی تصویر نظر آتیں، اگر انہیں میں عریاں تصویریں کہوں تو
یہ غلط نہیں ہوگا۔
آج صورتِ حال مختلف ہے، اب یہ تصویریں نہیں نظر آتی ہیں۔ یہ گھٹیا تصویریں
مشرق و مغرب، طول و عرض ہر علاقے سے ہٹائی جا چکی ہیں۔
ٹی وی، رسائل و جرائد ساری چیزیں بدل چکی ہیں۔ دو سال قبل لوگوں نے مجھے
ایک ریلی سے خطاب کرنے کی دعوت دی جس میں دس لاکھ افراد کی شرکت ہونی تھی۔
یہ تمام افراد فلسطین کاز کے لئے کام کر رہے تھے۔ میں نے کہا کہ یہ مبالغہ
ہے۔ میں اس اسٹیج کی طرف سے داخل ہونے کے لئے تیّار نہیں ہوا۔ اسٹیج سے دو
قدم کے فاصلے تک گاڑی آتی اور اتر کے اسٹیج پر جانا تھا۔ میں نے کہا : میں
نے کہا میں مخالف سمت سے آنا چاہتا ہوں تاکہ میں دیکھوں کہ واقعی دس لاکھ
افراد موجود ہیں یا یہ صحافتی افواہ ہے۔
میں افراد کے درمیان سے آیا۔ میں استنبول کے سب سے بڑے علاقہ میں تقریباً
دو کیلومیٹر تک پیدل چلا۔ لوگ چاروں طرف کھچا کھچ بھرے تھے۔ اس ریلی میں
شرکت کے لئے صرف انقرہ سے 300 بسیں نکلی تھیں۔ سماج کے اندر غیر معمول
تحریک جاری تھی۔ پہلے ہر طرف حجاب کے خلاف جنگ تھی اور اب اعداد و شمار کے
مطابق 70 فیصد خواتین حجاب استعمال کرتی ہیں۔ یہ ناممکن اور ناقابلِ تصوّر
تھا کہ قصرِ صدارت میں کوئی با حجاب خاتون داخل ہو جائے۔ عبد اللہ گل سابق
صدرِ مملکت سے پہلے ، چند ماہ قبل تک کسی بھی سرکاری تقریب میں کسی باحجاب
خاتون کا گزر نہیں ہو سکتا تھا خواہ اس کا شوہر وزیرِ اعظم، وزیر، یا
پارلیمنٹ کا ممبر ہی کیوں نہ ہو۔
آج .. ترکی کی خاتونِ اول با حجاب ہیں، آپ اس عظیم تبدیلی پر غور کریں۔
اردگان کہتے ہیں: ہمارے دورِ حکومت میں ، پانچ سالوں میں جو فائدہ نہیں
اٹھا ئے گا وہ نہ تو ہمیں ووٹ دے گا اور نہ ہی وہ ہماری طاقت بنے گا۔
میں نے 92ء میں دیکھا تھا کہ ہم شاندار ہوٹل میں رکے تھے اس کے باوجود کئی
کئی بار پانی کی فراہمی بند ہوتی تھی، سڑکیں انہائی خراب تھیں۔ مجھ سے ایک
صاحب نے پوچھا آپ کہاں قیام کریں گے، تو میں نے کہا: کوڑے کے دوبڑے ڈھیر کے
درمیان شاندار ہوٹل میں، یہ گفتگو 92ء میں ہوئی تھی۔ اور آج خدا کی قسم سڑک
پر تم ایک کاغذ بھی نہیں دیکھو گے۔ ہر تھوڑے فاصلے پر ایک خوبصورت باغ ہے۔
پورا شہر انتہائی خوبصورتی اور نفاست کی تصویر ہے اس لئے کہ اب یہاں چوری
نہیں ہوتی۔ حکومت چور نہیں ہے۔ اگر حکومت چور نہ ہو تو یقین جانیں کہ پوری
دنیا جھوم اٹھے، یہاں قیمتیں مناسب ہیں۔ ترکی کی معیشت انتہائی عمدہ ہے،
یہاں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قدر برکتیں ہیں کہ جن کا تصوّر بھی نہیں
کیا جا سکتا ۔ آج ترکی میں سرمایہ کاری کا تناسب دسیوں گنا بڑھ چکا ہے۔
یہاں کی معیشت ہمیشہ کمزور رہتی تھی، افراطِ زر ہوتا تھا۔ لیکن آج معیشت کا
بہاؤ زبردست ہے۔ حکومت انتہائی فائدے میں ہے۔ اللہ کے فضل سے آج ترکی کی یہ
صورتِ حال ہے۔ ہماری ملاقات ایسے زبردست لوگوں سے ہوئی کہ حقیقت میں میں
سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ہمارے لئے پہرہ دینے والا واچ مین نمازوں کا پابند
تھا۔ ہم تو ہمیشہ یہ دیکھتے رہے ہیں کہ ایسے پہریدار نماز پڑھتے ہی نہیں
ہیں۔ اللہ کی قسم ہمارے لئے پہرہ دینے والے پہریدار کی زبان ہر وقت بحرین
کے سرکاری وفد کی طرح اللہ کے ذکر سے معمور رہتی تھی۔ یہ پہلے دار گریجویٹ
ہوتے ہیں، اس کے بعد انہیں پولیس اکیڈمی میں داخلہ لینا ہوتا ہے۔ یعنی اس
ملازمت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ڈبل گریجویٹ ہو۔ یہ انتہائی باادب اور
ایماندار تھا۔ یہ ہمارا خیال ہے اللہ کے مقابلہ میں ہم کسی کو پاک و صاف
نہیں کہہ سکتے۔
راہِ خدا کے ہمسفر ساتھیو، محترم بہنو! یہ موجودہ ترکی کے چند نقوش ہیں۔ یہ
اسلامی بیداری کے قریب ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ یہ تجربہ
سارے عالمِ اسلام میں پھیل جائے۔
جزاكم الله خيرًا.. والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
ڈاکٹر صلاح سلطان کی آڈیو فائل سے تحریر کردہ |