ان کی تعلیم میٹر ک بھی نہ
تھی‘وہ مردہ جانوروں کی ہڈیاں چن کر کھاد فیکٹری میں فروخت کرتے یا لوہے کے
ٹکڑے چنتے اورکباڑیئے کو بیچ دیتے،پھر انہوں نے سا ئیکلیں مرمت کرنے کی
دکان کھولی‘ ان کا ارادہ بلند تھا،وہ باہمت اورمحنتی تھے،17ستمبر 1903ءکوان
کے بلند ارادوں ‘ہمت اورمحنت نے صلہ پالیا، ناممکن، ممکن ہواانسان ہوا میں
اڑنے لگا اوررائٹ برادران عظیم انسانوں کی فہرست میں شامل ہوکر لازوال ہو
گئے۔
وہ جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہواوہ انتہائی سست‘شرمیلا‘کندذہن
بلکہ مخبوط الحواس تھا اساتذہ اس سے تنگ تھے اوروالدین ناامید،اس کی زندگی
سادہ تھی،وہ بغیر استری کئے پرانے کپڑوں میں گھومتا پھرتا ‘غسل خانے میں
گانے گاتا اورسیٹیاں بجاتا اس نے کبھی شیونگ کریم استعمال نہ کی وہ نہانے
والے صابن سے شیو بھی کرلیتا‘ ایک دن وہ برلن میں سفر کررہا تھا،کنڈیکٹر نے
اس سے کرایہ لیا اورکچھ ریزگاری واپس کی اس نے ریزگاری گنی اورکنڈیکٹر سے
کہا تم نے کم پیسے واپس کئے ہیں،کنڈیکٹر بولادوبارہ گنو‘ دوبارہ گنے توپیسے
پورے نکلے‘کنڈیکٹر نے غصے میں اسے ڈانٹا اور گنتی نہ آنے کا طعنہ دیا ۔جی
ہاں وہ کند ذہن‘مخبوط الحواس اورنالائق جسے کنڈیکٹر گنتی نہ آنے کا طعنہ دے
رہا تھاجدید دور کا سب سے بڑا حساب دان اورسائنسدان بن گیا!!اس کی محنت
اورہمت نے اسے عظیم بنادیا،آج دنیا اسے نیوٹن کے نام سے جانتی ہے!!!
1913میں نوبل انعام کا حقدارقرار دیا جانے والا پہلا ایشیائی باشندہ سکول
اورکالج کی تعلیم سے محروم تھا لیکن مسلسل محنت اور جدوجہد سے و ہ ڈرامہ
نگار‘ افسانہ نگار‘ مصور‘ موسیقار ‘سیاسی مدبر، عظیم شاعر اورماہر تعلیم بن
گیا!آج رابندر ناتھ ٹیگورکے نام سے کون واقف نہیں۔
یہ اس شخص کی بات ہے جو صرف تین مہینے سکول جاسکا کیونکہ اس کے اساتذہ اسے
مزید پڑھانے کےلئے تیار نہ تھے،ان سب کا متفقہ فیصلہ تھا یہ بچہ انتہائی
کمزور حافظے کی وجہ سے پڑھ نہیں سکتا،ڈاکٹروں کا کہنا تھا عمر کے کسی حصے
میں اسکا دماغ مفلوج ہوجائے گا۔ایک دفعہ وہ بل جمع کرانے کےلئے قطار میں
کھڑا تھا جب اس کی باری آئی تو کلرک نے اس کا نام پوچھا تو وہ سوچ میں پڑ
گیا!اسے اپنا نام یاد نہیں آرہاتھا،اتفاق سے اس کا پڑوسی قریب موجود تھا وہ
صورت حال سمجھ گیااس نے جاکر کلرک کو اس کا نام بتایا۔ اس سب کچھ کے باوجود
جب اس نے محنت کی اورہمت سے کام لیا تووہ دنیا کا عظیم سائنسدان بن گیا،آج
ایڈیسن کو کون نہیں جانتا!!!
یہ بات ہے اس بچے کی جسے سکول پڑھنانصیب نہ ہوا‘وہ غریب باپ کا بیٹا تھا،وہ
دن بھر جنگل میں لکڑیاں اکٹھی کرتا اورگھر کے باقی کام بھی اسی کے ذمہ تھے،
وہ جوان ہوا تو اس نے دکانداری شروع کردی،وہ ڈاک بھی تقسیم کرتا کچھ عرصہ
تک وہ سواریوں والی کشتی چلاتا رہا،پھر اس کی زندگی بدلی اس نے محنت کی
اور1861ءمیں وہ امریکہ کا صدر بن گیا۔یقیناً آپ ابراہم لنکن کے نام سے تو
واقف ہوں گے۔
ارنسٹ ہیمنگوے پہلی جنگ عظیم میں ایمبولینس ڈرائیور تھا لیکن وہی ڈرائیور
1945ءمیں نوبل انعام کا حقدار بن گیا۔
یہ بات ہے اپنے وقت کے سب سے بڑے ادیب کی‘سکول میں وہ صرف پرائمری تک
پڑھامگرآج ایم اے کرنے والے اسے پڑھے بغیر ایم اے نہیں کرسکتے ۔ایک وقت تھا
جب اس کے پاس ٹکٹ خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے،اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے
اورجوتوں میں بڑے بڑے سوراخ ۔پھر ایک وقت آیا اس نے انعام میںملنے والے سات
ہزارپونڈ لینے سے انکار کردیاکیونکہ اسے مزید دولت کی ضرورت نہ تھی،دولت کے
ساتھ اسے اس قدرشہرت بھی ملی کہ نوبل انعام اس کی شہرت میں مزید اضافہ نہ
کرسکتا تھا۔دنیا آج اسے برنارڈشا کے نام سے جانتی ہے۔
جوزف سٹالن کے والدین غلام تھے،وہ ایک چھوٹے سے تاریک مکان مں پیدا ہوا،اس
کا والد جوتے مرمت کرتا تھا لیکن عزم ،ہمت اور پختہ ارادے نے سٹالن کو
20کروڑ لوگوں کا حکمران بنا دیا،وہ روئے زمین پر اپنے وقت کا سب سے طاقتور
انسان تھا،حکمران بننے کے بعد بھی وہ ایک چھوٹے سے مکان میں
رہتااورمزدوروںجیسا کھانا کھاتا۔
عظیم مسلمان سائنسدان جس کی پیدائش 737ءکو خراسان میں ہوئی‘اس کا تعلق ایک
معمولی گھرانے سے تھا،اس کا والد دوائیں بیچتا تھامگر کسی جرم کی سزا میں
اس کے والد کو پھانسی ہوگئی اوروہ یتیم ہوگیا،بچپن میں اس کی تعلیم معمولی
رہی لیکن محنت اورہمت سے وہ علم کیمیا کا بانی بن گیا۔آج دنیا اسے جابربن
حیان کے نام سے جانتی ہے۔
864ءمیں ”رے“شہر کے ایک غریب گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا،ابتدائی تعلیم اس
کی معمولی تھی،گھومنا پھرنا اوروقت ضائع کرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا،ایک
دفعہ اس کی ایک آنکھ خراب ہوگئی،وہ حکیم کے پاس گیا،حکیم نے علاج کےلئے سو
اشرفیاں مانگیں،وہ مجبور تھا راضی ہوگیا،حکیم نے علاج کیا اور وہ ٹھیک
ہوگیا،حکیم نے اسے نصیحت کی وقت ضائع نہ کرو،اس نصیحت کا اس پر اثر ہوا،اس
نے محنت شروع کردی اورفن طب کا امام بن گیا۔یقیناً آپ محمد بن ذکریا رازی
کے نام سے تو واقف ہی ہوں گے۔
سلطان محمد فاتح نے 857ءمیں ناقابل تسخیر قسطنطنیہ کو فتح کرنے کےلئے وہ
کارنامہ سرانجام دیا جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔22 سالہ اس
نوجوان کا عزم اورہمت دیکھیں۔اس نے 60بحری جہازوں کو 15کلومیٹر خشک پہاڑی
راستے پر چلا کر صرف ایک رات میں گولڈن ہارن میں اتارااورقسطنطنیہ فتح
کرلیا۔
یہ واقعہ ہے پولینڈ کی اس لڑکی کا جو مفلسی کی وجہ سے خوراک سے محروم رہتی
وہ اکثر اوقات بھوک کی وجہ سے بے ہوش ہوجاتی،19سال کی عمر میں وہ ایک گھر
میں معمولی پیسوں کے عوض ٹیوشن پڑھانے لگی،ایک دن گھر کی مالکن نے اس کی
سخت بے عزتی کی‘اسے غریب اورنیچ ذات ہونے کا طعنہ دیا اورگھر سے نکال
دیا،وہ نوجوان لڑکی ان طعنوں کا عملی جواب دینا چاہتی تھی،وہ کچھ کردکھانا
چاہتی تھی،اس غرض سے وہ پیرس چلی آئی‘اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اوردن
رات محنت کرنے لگی،اس کی محنت رنگ لائی اور1903ءمیں فزکس میں وہ نوبل انعام
کی حقدار قرار پائی۔اس نے محنت جاری رکھی اور1911ءمیں کیمسٹری میں بھی نوبل
انعام حاصل کرلیا۔وہ دنیا کی واحد شخصیت بن گئی جسے دونوبل انعام ملے۔اس نے
آٹھ ٹن لوہا پگھلا کر ریڈیم حاصل کیا۔یوں یہ ٹیوشن پڑھانے والی غریب لڑکی
دنیا کی قابل ترین اورمشہور ترین عورت بن گئی جی ہاں‘ آج دنیا کا بچہ بچہ
مادام کیوری کے نام سے واقف ہے۔
آج کا میرا یہ کالم ہے اُن اَن پڑھوں کےلئے ہے جو کھیتوں ‘فیکٹریوں‘
کارخانوں اورورکشاپوں میں کام کرتے ہیں،ان یتیم اوربے سہارا بچوں اوربچیوں
کےلئے جنہوں نے آج تک غموں کے سوا کچھ نہیں دیکھا،ان غریبوں کےلئے جو
معاشرے میں بے وقعت اورکمتر سمجھے جاتے ہیں،ان نوجوانوں کےلئے جن کا بہت
سارا وقت ضائع ہوگیا اور اب وہ اپنی زندگی سے مایوس ہو چکے ہیں،ان طالب
علموں کےلئے جنہیں نالائق اورکند ذہن ہونے کا طعنہ دیاجاتا ہے،ان لوگوں کے
لیے جن کی جوانی ڈھل چکی اوروہ سمجھ بیٹھے ہیں اُن کا وقت گزر گیا اب وہ
کچھ نہیں کرسکتے۔
سنیے اور غور سے سنیے!لاپرواہی سستی کم ہمتی جرم ہے جبکہ ناامیدی اور
مایوسی کفر۔شیر شاہین شارق،ہوا بادل سمندر،سورج چاند پہاڑ،عرش جن فرشتے سب
کا نام اور مقام سہی مگر اشرف المخلوقات تو بلاشبہ انسان ہی ہے،خدا کی سب
سے اعلیٰ سب سے عمدہ اور سب سے افضل مخلوق!شرط یہ ہے انسان اپنے آپ سے آشنا
ہو،وہ اپنے مقام مرتبے اور عطا کردہ صلاحیتوںسے واقف ہو،اسے وقت کی قیمت
اور عزم کی طاقت کا پتہ ہو،اسے معلوم ہو جب کوئی ہمت محنت عزم اور استقامت
کو رفیق بنالیتا ہے تو اُس کے سامنے پہاڑ ذرہ اور سمندر قطرہ بن جایا کرتے
ہیں،صحرا اپنی وسعت کھو دیتے ہیں اور ہوائیں تابع ہو جایا کرتی ہیں،وقت اُس
کا غلام بن جاتا ہے اور کامیابی اُس کے قدموں کی خاک۔
اٹھیں!!!فیصلہ کریں!!مایوسی ناامیدی کو جھٹک کر نئی زندگی کے آغازکا،ایک پر
امید خوشگوار اور جاندار زندگی،محنت ہمت اور جدوجہد سے بھر پور زندگی،ایک
روشن بامقصد اور کامیاب زندگی،ہاں ایک ایسی زندگی جس پر آپ کا خدا خوش آپ
مطمئن اورآپ کے متعلقین نازاں ہوں! لیکن کل نہیں آج اور ابھی!!!
نوٹ: سعید نوابی کواس کالم پر ”ورلڈ میڈیا سلیکٹڈ
رائیٹرز“کی جانب سے ایوارڈ دیا گیا۔نیز حیدرآباد(انڈیا)کی علم فاﺅنڈشن نے
یہ کالم اپنے نیٹ ورک سے منسلک تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کرنے کا
فیصلہ کیا ہے،ہم اس کامیابی پر جناب سعیدنوابی کو مبارک باد پیش کرتے
ہیں۔(ورلڈ میڈیا سلیکٹڈ رائیٹرز فورم ) |