بحیثیت مجموعی ہم سے کوئی بڑی
شخصیت، صلاحیت کار،ماہرفن ہم سے رخصت ہوتا ہے تواس کی رحلت کے بعد ہم اس کی
تعریفات میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں،اُس کے نام روڈ ،پارک ،آئی ٹی
سینٹر تک منسوب کرتے ہیں ۔اس کی یاد میں محفلیں منعقد کرتے ہیں،اُس کی یاد
میں چراغ جلاتے ہیں،اُس کے لیے چند ساعتیں خاموشی اختیار کرتے ہیں جس کی
تازہ ترین دو مثالیں ہمارے سامنے ہیں،پیر شاہ مردان شاہ عرف پیرپگارا اور
دوسری مثال عالمی ریکارڈ یافتہ ماہر آئی ٹی ارفع کریم رندھاواکی صورت ہیں۔
ارفع کریم زندہ تھی اُس کی وجہ شہرت بننے والا ایوارڈ 2005میں جب اُس کو
ملا اُس کے بعد بھی 22دسمبر 2011تک بصحت وسلامت زندہ تھی،ہم نے اس کے لیے
کیا کیا؟اب اُس کی یاد میں جلائی جانے والی بتیاں ،منسوب کیے جانے والے روڈ
،پارک،آئی ٹی انسیٹیوٹ اُس کی یاد میں اختیار کی جانے والی خاموشی کا کوئی
فائدہ نہیں،اِس کی وجہ کہ ہم نے اُس کی زندگی میں اُسے نہ سراہا نہ ہی اُس
کی کارکردگی ،صلاحیت ،فن سے کوئی فائدہ اٹھایا۔اُس نے اپنی کم عمری ایک
کمپوٹر لیب بنوایا تھا جسے وہ اپنا اثاثہ اور اپنی خوشی گردانتی تھی ،اُس
وقت اس کے ہاتھ مضبوط کیے جاتے اور اُسے سراہتے ہوئے یہی تعاون اُس سے
کرتے،اُس کے نتائج کہیں بہتر نکل چکے ہوتے۔وہ اپنی مختصر زندگی میں کمپوٹر
لیب کی طرح مزید کامیابیاں سمیٹ کرہمارے معاشرے کی گود میں رکھ سکتی تھی ۔
ارفع کریم پر لکھے جانے والے کالم کے بعد فیڈ بیک سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہت
بڑی تعداد اِس وقت بھی تعلیم اور قابلیت سے محبت کرنے والوں کی موجود
ہے،ارفع کریم ایک نام ہی نہیں کردار بھی تھا جو ہمیشہ کے لیے یاد رکھا جائے
گا ،اتنی کم عمری میں اتنی زیادہ صفات کسی ایک میں جمع ہونایقینا بہت بڑی
خوش قسمتی اور کمال کی بات ہے ،زندگی اور موت کے خزانے کا مالک معبود برحق
ہے اور موت جیسی آئینی حقیقت کے انکار کا کسے یارا ہے مگر ارفع کے جانے کا
افسوس ضرور ہے،یہ بھی طے ہے کہ ارفع کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا مگر
صلاحیت سے بھرپور اور اسی طرح کی کم سن آسیہ عارف یہ پیغام دیتی ہوئی ایسے
میں نظر آتی ہے
کانپتا ہے دل تیرا اندیشہ طوفان سے کیا
ناخدا تو بحر تو کشتی بھی تو ساحل بھی تو
آسیہ عارف بھی اپنی جہت میں ایک خاص نام ومقام رکھتی ہے جس نے کم عمری میں
کمال ریکارڈ حاصل کر کے عرب دنیا میں بڑی بڑی شخصیات کو متاثر کیا ہے ،آسیہ
عارف جس کی عمر چھ سال ہے ،اس کی پیدائش قطر کے دارالحکومت دوحہ میں
ہوئی،قریباً تین سال قطر میں رہنے کے بعد اب وہ تیسراسال پاکستان میں رہ
رہی ہے۔تین سال کی عمر میں قطر ٹی وی کو دیے جانے والے اپنے پہلاانٹرویو
عربی زبان میں تھا جسے عربوں میں ایک عجمی کمسن معصوم بچی کا عربی زبان میں
بولنا بہت پسند کیا گیا ،وہ عربی زبان کے علاوہ اردو اور انگریزی بھی
تقریباً جانتی ہے،آسیہ پاکستان ،قطر،سعودی عرب کے کئی بڑے بڑے نامور
علماءاور اسکالر سے ملاقاتیں اور عربی زبان میں گفتگو کرچکی ہے ،ایم اے
عربی میں گولڈ میڈلسٹ عارف صدیق کی اکلوتی بیٹی اپنی ماں کی گود میں اس وقت
عربی زبان وبیان کی تربیت لینا شروع کرتی ہے جب کہ اس کی عمر ایک سال تھی
،عربی زبان کے ساتھ ساتھ آسیہ عارف عربی شاعری کے ساتھ بھی والہانہ شغف
رکھتی ہے ،اتنی کم عمری میں خداداد صلاحیتوں سے مالا مال اس پاکستانی ٹیلنٹ
کو سو سے زائد عربی اشعار از برہیں،جس میں دور نبوی کے شعراءآفاق شاعر حسان
بن ثابت ؓ سے لے کر حضرت امام شافعیؒ تک شعراءکا کلام شامل ہے۔
آسیہ اب تک جن بڑے لوگوں سے پاکستان میں ملاقات کر چکی ہے ان ناموں میں بڑا
نام عالمی مبلغ مولانا طارق جمیل ،مفسر قرآن مولانا اسلم شیخوپوری شامل
ہیں۔آسیہ عارف 19اپریل 2011کو مکہ مکرمہ کی بڑی یونیورسٹی ام القریٰ میں
امام مکہ مکرمہ شیخ سعود الشریم سے ان کے دفتر میں ملاقات کر چکی ہے،انہوں
نے بھی اس کم سن عجمی بچی کے عربی زبان وبیان کو سراہا ،یونیورسٹی کے ڈین
ڈاکٹر صالح بن سعید الزھرانی نے آسیہ عارف سے ملاقات میں اپنی ذاتی
لائبریری سے چھ عربی زبان کی کتابیں تحفے میں دیتے ہوئے یہ کہا کہ آسیہ یہ
کتابیں اس وقت پڑھے کی جب یہ بڑی ہوجائے گی چونکہ اس وقت میرے پاس بچوں کے
لیے کوئی کتاب نہیں ہے اس لیے اسے دو سو ریال دے رہا ہوں تاکہ یہ ان سے
بچوں کی کتابیں خرید سکے ،عرب کے صحافی وقلم کار حضرات نے آسیہ عارف کے
بارے میں اپنے آرٹیکل کا عنوان ”پاکستان سے کامیابی کی داستان “کے عنوان سے
دیا ،چھ سال کی آسیہ اس وقت قرآن مجید کے دو پارے بھی حفظ کر چکی ہے اور
بہت حد تک قرآن کو سمجھتی بھی ہے ،اور اس کی جاگتی آنکھوں میں ایک زندہ
خواب کہ میں عربی زبان وبیان کو پاکستان میں فروغ دینا چاہتی ہوں۔
آسیہ عارف عرب ممالک کے سفیروں سے متعدد بار قیمتی انعامات بھی وصول کرچکی
ہے ،29جنوری2011کو آسیہ نے سعودی سفیر عبدالعزیز ابراہیم الغدید کی خصوصی
دعوت پر سعودی سفارت خانے میں سیلاب زدگان کے لیے امدادی کام کرنے والوں کے
اعزاز میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں سیلاب سے متاثرہ تمام بچوں کی
نمائندگی کرتے ہوئے عربی زبان میں تقریر کرتے ہوئے سعودی بادشاہ عبداللہ بن
عبدالعزیز کا شکریہ ادا کیا ،مارچ 2011میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر
آسیہ نے عراقی سفیر ڈاکٹر رشدی محمود العانی کی رہائش گاہ پر عرب سفارت
کاروں کی خواتین کے سامنے حقوق نسواں پر بھی عربی میں تقریر کر کے ان کو بے
حد متاثر کیا ،گزشتہ ماہ جولائی میں مصری سفیر برائے پاکستان ڈاکٹر مجدی
عامر کی دعوت پر آسیہ نے مصر کے قومی دن کے موقع پر اسلام آباد میں ہونے
والی تقریب میں بھی شرکت کی ،پاکستان کی یہ کم سن آسیہ عارف عرب محققین کی
ریسرچ کا بھی حصہ رہ چکی ہے ،پاکستانی آسیہ کا ذکر متعدد عرب ویب سائیٹ اور
اخبارات وجرائد میں بھی موجود ہے ۔
اگر آج ہمارے پاس وسائل ہیں اور ہم علم،صلاحیت،فن،ہنرکی قدر کرنے والے ہیں
تبھی ہم بڑے بڑے اشتہارات کے ذریعے ارفع جیسی باصلاحیت سے محبت کا ثبوت
دیتے ہیں ،ارفع کی وفات کے بعد ہم اس کی یاد میں بتیاں جلاتے ہیں،روڈ،پارک
،انسیٹیوٹ اس کے نام سے منسوب کرتے ہیںمگر ارفع تو اب ہم سے جدا ہوگئی ہے
،آسیہ تو اب بھی زندہ ہے کونسے انسیٹیوٹ ،کتنے اشتہارات اس کے فن سے مستفید
ہونے کے لیے وقف کیے جائیں گے ؟اس کی حوصلہ افزائی کے لیے کیا کیا اقدامات
کیے جائیں گے ؟یہ تو بعد کی بات ہے ۔
بدقسمتی سے ہماری پوری مشنری اس وقت حرکت میں آتی ہے ،جب فائدہ ہمارے ہاتھ
سے جا چکا ہوتا ہے اور ہمارے معاشرے کا دستور ورواج رہا ہے کہ ”جو زندہ ہے
وہ ناکارہ ہے “اور”جو مر جائے وہ ہمارا سرمایہ ہے “ہم نہ جانے کیوں زندہ
لوگوں کی قدر نہیں کرتے ؟کیوں ان کو عزت دینے سے گھبراتے ہیں ؟ہمارے معاشرے
میں کسی شخص کو اس وقت تک اہمیت نہیں دی جاتی جب تک اس کو بین الاقوامی سطح
پر کوئی تسلیم نہ کر لے ہم خود ایسے ہیروز کو عزت وتکریم نہیں دیتے ۔مگر کم
از کم وزیر اعلیٰ پنجاب سے یہ توقع ضرور کی جاسکتی ہے کہ وہ اب زندگی اور
اس کی صلاحیتیوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کریں گے اور کرنی چاہیے ۔ |