القائدہ لیڈر اسلم اعوان المعروف
عبداللہ خوراسانی ڈرون حملہ میں مارا گیا
ایک رپورٹ کے مطابق دس جنوری کو میران شاہ میں ہونے والے ڈرون حملے میں
القاعدہ کا سینئر رہنما اسلم اعوان مارا گیا۔غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے
مطابق دس جنوری کو میران شاہ میں کیے جانے والے ڈرون حملے میں ایبٹ آباد سے
تعلق رکھناوالا القاعدہ کاسرگرم رہنما ءاسلم اعوان مارا گیا۔ اسلم اعوان کو
عبداللہ خوراسانی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ
انہوں نے ڈرون حملے میں اسلم اعوان کو ٹارگٹ کیا اور جس کی زد میں
آکرالقاعدہ کے اہم رہنما اسلم اعوان المعروف عبداللہ خوراسانی ہلاک ہوگئے۔
اس سے پہلے پاکستان میں القاعدہ کا آپریشن چیف ابو حفص اور عطیہ عبدالرحمن
وزیرستان میں مارا جاچکا ہے۔
میجر جنرل غیور محمود، جو شمالی وزیرستان میں ساتویں ڈویژن کی کمانڈ کر رہے
ہیں، کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں میں بہت کم عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں
اور زیادہ تر دہشت گرد ہی مارے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ وزیرستان کا علاقہ
پاکستانی سیکورٹی فورسز کی رسائی سے باہر ہے۔ تاہم کوئی بھی جنرل غیور کے
حقائق پر مبنی تبصرے کو سننا پسند نہیں کرتا کیونکہ عوام کو عمومی طور پر
یہ تاثر یہ دیا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والے زیادہ تر بے گناہ شہری ہوتے ہیں۔
کیا یہی آزاد میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی مفاد کے خلاف عوامی جذبات کو
بھڑکائے اور بے بنیاد لمبے چوڑے جھوٹے دعوے کرے؟
ڈرون حملوں کی بابت جذباتیت کا شکار ہوتے ہوئے پاکستان میں القائدہ اور
طالبان کی طرف سے متواتر اوروسیع پیمانے پر کی جانے والی دہشت گردی اور
تباہی کی کارروائیوں سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔ گزشتہ برسوں میں 3000 سے زائد
بم دھماکے اور دہشت گردی کی کاروائیاں ہوئیں جن میں 35,000 سے زائد افراد
ہلاک ہوئے مگر کوئی عوام کو یہ اعداد وشمار یاد نہیں دلاتا۔ طالبان نے50 سے
زائد مزارات، مساجد اور دوسری عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا۔ ان مقامات ِ
مقدسہ پر ہلاک ہونے والے زائرین اور عبادت گزاروں کی تعداد 1100 سے زائد ہے
جبکہ 3000 کے لگ بھگ شدید زخمی بھی حیات و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
تاہم کوئی سیاست دان بھی انہیں عوامی یادداشت کے لائق نہیں سمجھتا۔ فاٹا
اور سوات میں طالبان نے دھماکہ خیز مواد سے بے شمار سکول اڑا دیے، لیکن اس
کی پروا کس کو ہے۔؟پچھلے برس 80 کے قریب فوجی تنصیبات کو طالبان نے نشانہ
بنایا۔ ان حملوں میں پاک فوج کے جوان شہید بھی ہوئے مگر شہدا کی یاد کس کو
ہے۔ گزشتہ برس بم حملوں میں بڑی تعداد میں معصوم شہری ہلاک ہوئے اور آج اُن
کی قبروں ، ناموں اور خاندانوں کا بھی کسی پتا نہیں ہے۔ یہ ہمارا قومی
المیہ نہین تو اور کیا ہے۔
لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ سب سے پہلے ہماری ملکی خودمختاری اور سالمیت کی
خلاف ورزی ان غیر ملکی جہادیوں نے کی جو وزیرستان کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ
جمائے بیٹھے ہیں۔ کوئی خوددار اور خود مختار ملک کسی جہادی کو اپنے سرزمیں
پر قبضہ کی اجازت نہیں دے سکتا مگر ہم ٹس سے مس نہ ہوئے ہیں اور جہادیوں کے
گن گائے چلے جارہے ہیں۔ کیا یہ بنیادی طور پر ہماری ذمہ داری نہ ہے کہ ہم
ان تمام جہادیوں کو پاکستان سے اٹھا کر زبردستی باہر کریں؟
اسلم اعوان المعروف عبداللہ خوراسانی کی ہلاکت القاعدہ کی اس صلاحیت کو بھی
متاثر کرے گی جو وہ القاعدہ کے نمبر 2 عطیہ کی ہلاکت کے بعد کے نقصان کو
پورا کرسکتی تھی کیونکہ اس کے آپریشن کے تجربات اور تعلقات گروپ کے اندر
تھے ۔ اسلم اعوان المعروف عبداللہ خوراسانی کی ہلاکت سے پاکستان کے اندر
ایک بڑا خطرہ بھی ختم ہوگیا ہے ۔
اسلم اعوان المعروف عبداللہ خوراسانی کی موت القائدہ کے لئے بہت بڑادھچکاہے
کیونکہ وہ تنطیم کے اہم آپریشن چلارہے تھے اورالقاعدہ کے لئے اس کامتبادل
ڈھونڈنامشکل ہوگا۔ اس سے القائدہ معذور ہو کر رہ گئی ہے۔ القائدہ ایک
زہریلے سانپ کی مانند ہے جس کو ختم کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور یہ
پاکستان اور پاکستانی عوام کے حق میں بہتر ہے اور ہم پاکستانیوں کو اس کا
احساس ہونا چاہئے۔
القائدہ کی شہہ ،تحریک اور تربیت پر طالبانی اور دوسرے دہشت گرد گروپوں نے
پاکستان بھر میں لا قانونیت،افراتفری اور قتل و غارت گری کا ایک بازارا گرم
کر رکھا ہے۔ القائدہ تمام دہشت گردوں کی گرو و استاد ہے اور اس ہی کے ذریعہ
پاکستان میں خودکش حملوں کا سلسلہ متعارف ہوا۔ اسلام خود کشی کو حرام قرار
دیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔معصوم جانوں سے کھیلنے والے انسانوں
کے روپ میں بھیڑیئے ہیں اور ان کا وجود پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ
ہے ۔
القائدہ ،پاکستان کی کبھی دوست نہ تھی اور نہ ہی ہو گی۔ القائدہ کے عملی
تعاون و اشتراک سے طالبان نے پاکستان کے معصوم لوگوں کے خلاف خون کی ہولی
کھیلی۔
اسلم اعوان المعروف عبداللہ خوراسانی کے مارےجانے سے القائدہ کی پاکستان
میں ریڑہ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے، اسامہ کے ہلاک کئے جانے پر القائدہ ٹوٹ پھوٹ
کا شکار ہوگئی تھی مگر اب پاکستان اس کا خاتمہ یقینی ہو گیا ہے۔
حالات گواہی دے رہے ہیں کہ وزیرستان کا علاقہ اب القائدہ کے لئے محفوظ نہ
رہا ہے کیونکہ القائدہ کے بے شمار بڑے لیڈر اور کارکن یہان مارے جا چکے ہیں
اور باقی جان بچانے کے لئے چھپتے پھرتے ہیں۔
القائدہ ایک مجرمانہ سرگرمیوں مین ملوث گروہ ہے،جس کا اسلام سے دور کا
واسطہ نہ ہے اور نہ ہی القائدہ نے اسلام یا اسلامی امہ کی کوئی دینی خدمت
کی ہے۔ اسامہ ان مجرموں اور ٹھگوں کا سردار تھا۔
القائدہ کے اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے ۔
القائدہ کی حماقتوں کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان
اٹھانا پڑا ہے، لہذا القائدہ ،مسلمانوں اور اسلام کو اپنی عنایات سے معاف
ہی رکھے تو یہ ملت اسلامی کے حق میں بہتر ہے۔ القائدہ نے اسلامی شعار کا
مذاق اڑایا اور قران کی غلط تشریحات کر کے فلسفہ جہاد کی روح کو بگاڑ کر
رکھ دیا ہے۔
اسلم اعوان المعروف عبداللہ خوراسانی کی موت سےا لقائدہ کے جنگجو اور دوسرے
لیڈر پژمردہ، پست حوصلگی اور انتشار کا شکار ہیں اور اپنی پناہ گاہوں مین
دبکے بیٹھے ہیں ۔ اس سے پہلے کہ القائدہ اپنے آپ کو دوبارہ منظم کرے، یہی
موقع ہے ان پر کامیاب اور کاری وار کیا جائے تاکہ دہشت گردی کے نا سور کا
ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے اور پاکستان مین امن و چین و خوشحالی کا بول
بالا ہو۔
ہمیں یہ نہ بھولنا چاہئے کہ دہشت گردی کا تسلسل ملک کی خودمختاری، سالمیت،
قومی یکجہتی اورمعیشت کے لیے بڑا خطرہ ہے، اس پر قابو پانے کیلئے ٹھوس اور
موثر لانگ ٹرم و شارٹ ٹرم حکمت عملی وضع کرنا ہو گی تاکہ اس ناسور کا ہمیشہ
کے لئے خاتمہ ہو سکے۔ |