امریکی افواج کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالی

گزشتہ دنو ں میں لینڈا ہرڈ کا ایک مضمون ”گلف نیوز“ میں شائع ہوا جس میں اس نے مختلف ممالک میں امریکی افواج کے ہاتھوں ظلم و تشدد، انسانیت سوز اور جنگی قیدیوں اور نعشوں کی بے حرمتی کے واقعات کا جائزہ لے کر امریکہ کی ”اخلاقیات اور انسانی ہمدردی“ کے دعوﺅں کی قلعی کھول کررکھ دی ہے۔ امریکی عوام عام طور پر اپنے فوجی جوانوں اور خواتین کے لئے بڑی تعظیم رکھتے ہیں۔ امریکی صدر، حکومت، کانگریس، امریکی ذرائع ابلاغ اور ہالی ووڈ اپنے سپاہیوں، میرینز اور سپیشل فورسز کوایسا فرشتہ صفت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ جیسے وہ اعلیٰ اخلاق کے پیکرہوں، اپنی قوم کے لئے جان کی قربانی کے لئے تیار ہوں جیسے پوری انسانیت کےلئے نجات دہندہ ہوں کہ انہوں نے کئی ممالک کے عوام کو ڈکٹیٹروں کے چنگل سے ”نجات “ دلائی۔ امریکی اسٹبلشمنٹ اپنے ان ”بہادر “ افسروں اورجوانوں کو خوبصورت میڈلوں سے زیب تن کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ امریکی میڈیا انہیں افغانستان اور عراق کے بچوں میں مٹھائیاں تقسیم کرتے ہوئے دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ان جیسا فرشتہ صفت اور ہمدرد شاید ہی اس دنیا میں کوئی ہو۔ ہالی ووڈ پینٹاگون کے تعاون سے امریکی افواج کے متعلق ایسی فلمیں بناکر پیش کرتا ہے کہ ناظرین امریکی افواج کی ”ہمدردی اور بہادری“ کے گن گانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بہت سے امریکی بچے اور جوان ہالی ووڈ کی ان فلموں سے متاثر ہوکر امریکی افواج کو جائن کرتے ہیں اور اس طرح چربہ پر مبنی یہ فلمیں ریکروٹمنٹ کا پرکشش ذریعہ ہیں۔ پینٹا گون ہالی ووڈ کے ڈائریکٹرز کو کسی بھی مخالف پراپیگنڈہ سے روکنے کے لئے خطیر رقم کے علاوہ فلم کی تیار ی میں ہونے والا قیمتی سازوسامان اور لوکیشن کے لئے اپنے جہاز وغیرہ بھی فراہم کرتا ہے۔ 1986ءمیں جب ہالی ووڈ نے ”ٹاپ گن“ فلم ریلیز کی تو امریکی فوج نے اپنے ریکروٹمنٹ بوتھ سینما ہالوں کے اندر لگا لئے تھے۔ پینٹا گون کے بلیک ہاک ہیلی کاپٹرز پر مبنی فلم ”بلیک ہاک ڈاﺅن “ میں امریکی میرینز کو امریکی عوام کے ذہن میں ایسا ثابت قدم، ایماندار اور وفادار کے طورپر پیش کیا گیا ہے کہ جو کسی بھی خطرے کی صورت میں بھاگتے نہیں۔ ظاہر ہے ان فلموں میں امریکی افواج کی مخالف برسرپیکار افواج کو منفی روپ یعنی ولن کی صورت میں دکھایا جاتا ہے ۔ ہالی ووڈ فلموں میں صرف امریکہ کی دشمن افواج ہی لوگوں کے قتل عام، جنسی جرائم اور تشدد میں ملوث نظر آتی ہیں جبکہ امریکی میرینز انسانیت کے خیر خواہ اور نجات دہندہ کے روپ میں دکھائے جاتے ہیں۔

ویتنام میں جہاں امریکی افواج نے عام انسانوں پر تشدد، ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ ڈالے اور شہریوں سے ایسا انسانیت سوز سلوک رواں رکھا کہ دنیا ہل کر رہ گئی ۔ اس صورتحال میں امریکی افواج نے اپنی ”نیک نامی“ بچانے کے لئے ہرممکن کوشش کی مگر پھر بھی حقیقت دنیا کے سامنے آکر رہی۔ آج جبکہ یو ٹیوب اور فیس بک کا زمانہ ہے، امریکی افواج کی مختلف علاقوں میں ظلم و تشدد اور انسانیت سوز سلوک کی داستانیں کیونکر چھپ سکتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پاور فل امریکی میڈیا، ہالی ووڈ فلمیں اور دیگر ادارے اپنے عوام کے ذہنوں میں اپنی افواج کی طرف سے عراق اور افغانستان میں ڈھائے جانے والے ظلم و تشدد اور بربریت کو کوئی اور ہی رنگ دینے میں مصروف ہیں۔ انہوں نے پورا زور لگایا کہ ابو غریب میں قید عراقیوں پر ذہنی، جنسی اور جسمانی تشدد کے واقعات کو امریکی فوج کے چند ”گندے انڈوں“ کے سر تھوپ کراپنے ”اجتماعی“ امیج کوداغدار ہونے سے بچا لیا جائے۔ یہ کوشش اس وقت اور بھی تیز کردی گئی جب معلوم ہوا کہ عراقی قیدیوں پر ظلم وتشدد،انہیں برہنہ کرنا اوران کے اہل ِ خانہ کو دھمکیاں دینے کے طریقے امریکی اعلیٰ کمانڈکی جانب سے باقاعدہ منظور کئے گئے تھے اورعراق پر قبضے کے فوراََ بعد گونتا ناموبے میں ان سزاﺅں پرکھلے عام عملدرآمد بھی کیا جاتا رہا۔ ابتدائی طور پر ان واقعات کی خبر کسی کو نہ ملی ۔ نیوز ویک نے جب خبر دی کہ گونتا ناموبے میں ایک امریکی اہلکار نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے تو وائٹ ہاﺅس نے اس واقعہ سے انکار کردیا۔ امریکی عوام نے بھی وائٹ ہاﺅس کی حمایت کی جس کے بعد میگزین کو اس خبر کو واپس لینا پڑا۔ 2004ءمیں این بی سی کے کیمرہ مین نے فلوجہ عراق میں ایک امریکی میرین کارپورل کی ایک نہتے زخمی عراقی پر فائرنگ کرتے فلم بنا لی۔ اس میرین کو تو کوئی سزا نہ ملی مگر فلم بنانے والے کیمرہ مین کو دھمکی آمیز ای میل ضرور ملنا شروع ہوگئیں۔ اسی طرح وکی لیکس نے بھی امریکی اپاچی ہیلی کاپٹرز کی جانب سے نہتے عراقیوں اور خبررساں ادارے ”رائٹرز“ کے نمائندوں پر فائرنگ کی فلمیں ریلیز کیں۔ جن میں پائلٹ ایک سویلین وین پر فائرنگ سے پہلے آپس میں باتیں کرتے سنائی دیتے ہیں کہ ان کی نعشوں کو دیکھ لو گوڈ شوٹنگ!

گزشتہ ہفتے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی ایک اور وڈیو سامنے آئی جس میں وہ بربریت اور انسانیت سوزی کی تمام حدود کو چھوتے دکھائی دیئے۔ اس وڈیو میں چار امریکی میرینز جن میں دو نان کمیشنڈ افسر بھی شامل ہیں طالبان کی نعشوں پر پیشاب کرتے اور قہقہے مارتے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکی میرین کور کے جنرل جم ایموس نے کہا ہے کہ وہ اس معاملہ کی تحقیقات کررہے ہیں۔اس کا مزید کہنا تھا کہ ایسا واقعہ امریکہ کی ان ” اعلیٰ اخلاقیات “ اور ”جنگی اقدار“ کے منافی ہے جس کا مظاہرہ وہ صدیوں سے کرتے چلے آئے ہیں۔ امریکی حکومت، جنرل اور میڈیا جو چاہے اسے رنگ دے یا ایسے واقعات پر پردہ ڈالے ، یہ بات طے ہے کہ امریکی افواج کی مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی کرنے اور نعشوں کی بے حرمتی کرنے کی اعلیٰ سطح پر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کیونکہ ان کے خیال میں دشمن کی بے حرمتی کرکے اس پربرتری پانا آسان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے طریقے امریکی افواج کا مستقل حصہ بن چکے ہیں بلکہ دشمن کو مختلف ہتک آمیز القابات سے نوازنا بھی امریکہ کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔

یہ تو ایسے واقعات ہیں جو شاید کبھی کبھی منظر عام پر آتے ہیں۔ مگر باقاعدہ حملے کی صورت میں بھی امریکی افواج نے کبھی دشمن کی شہری آبادی کا خیال نہیں رکھا۔ عراق اور افغانستان کے متعدد شہری علاقے روندھ ڈالے گئے اور وہاں بچوں ، خواتین اور بوڑھوں تک کو موت کی گھاٹ اتار دیا گیا۔ اسی طرح پاکستان ہر ہونے والے ڈرون حملوں میں بھی بہت سے معصوم افراد مارے جاچکے ہیں۔ گزشتہ دنوں منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی ڈرون حملوں میں دو سوکے لگ بھگ معصوم بچے شہید کئے جاچکے ہیں۔ دوسری معصوم شہری آبادی بھی شدید جانی نقصان پہنچا۔ حملوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جو دہشت گردوں کا تو صفایا نہ کرسکے البتہ امریکہ کے لئے نفرت میں اضافے کا سبب ضرور بنے۔

مختصراََ یہ کہ امریکی افواج ظلم و بربریت ، انسانیت کی بے حرمتی کرنے اور اخلاقیات کی عمیق گہرائیوں میں اترنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ اگر امریکہ خود کو واقعی دنیا کی مہذب اور اعلیٰ اخلاقیات اور اقدار کی مالک قوم کے طور پر منوانا چاہتا ہے تو اسے اپنے توسیع پسندانہ عزائم، انسانی حقوق کی پامالی اور دوسری اقوام کو ذلیل کرنے کی روش ترک کرنا ہوگی۔ دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ کوئی بھی طاقت اپنی مستقل حیثیت برقرار نہیں رکھ سکی۔ دور نہ جائیے روس اور برطانیہ امریکہ سے بھی بڑی سپر پاور تھے مگر آج ان کا سورج غروب ہوچکا۔جس طرح امریکہ آج کل معاشی بحران کی زد میں ہے، بے روزگاری اور مہنگائی کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے، اس پس منظر میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کی سپر پاور کا سورج بھی اب ڈھلنے کو ہے۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 69493 views Columnist/Journalist.. View More