کیا داڑھی رکھنا بدچلنی کی علامت بن جائے گا؟

مہاراشٹر میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ جنسی استحصال جیسے معاملات سے نمٹنے کے طریقہ کار میں اصلاح کرتے ہوئے اسے نہ صرف ملزم اور عین شاہدین کا سامنا نہیں کرانا چاہئے بلکہ حکومت کو ایسا قانون بنانا چاہئے کہ مبینہ شخص کو حراست کے دوران بال کٹانے اور داڑھی بنانے کی اجازت نہ دے تاکہ انکی شناخت میں مشکل نہ ہو۔گویا داڑھی رکھنا فرد کی بدچلنی اور بدکرداری کی علامت بن جائے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیابے پردگی کے ساتھ مختصر لباسی پر قائم رہتے ہوئے اس ’ترکیب‘ سے خواتین کی ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات میں کمی واقع ہوجائے گی؟ اور کیا وہ لوگ جو اس قبیح حرکت میں ملوث نہ ہونے کے باجودنہ صرف داڑھی رکھتے ہیں بلکہ سر کے بال بھی بڑھاتے ہیں‘ ان پر کیا گذرے گی؟یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ عام بات ہے اور یہ بات ہندوستان کیلئے بھی درست نہیں ہے لیکن مہاراشٹر میں خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو ختم کرنے کیلئے لوگوں میں بیداری آرہی ہے اور ایک طرح سے انہوں نے عہد کرلیا ہے کہ وہ اس برائی کا خاتمہ ضرور کریں گے جس کے تحت یہ تجویز سامنے آئی۔

گویابالغ ہونے پرٹھوڑی اور گالوں پراگنے والے بالوں کا مونڈناشرافت کی علامت جبکہ رکھنااس کے برعکس ہوجائے گا جبکہ اتر پردیش کے ضلع بجنور ممیں پولس نے محمد رضوان کی تو زبردستی داڑھی کاٹ دی۔پولیس انسپکٹر کی مذکورہ شرمناک حرکت کی چہار جانب سے مسلم تنظیموں کے نمائندوں نے سخت احتجاج اور مذمت کی ۔ دیو بند کے مولانا قمر الہدیٰ کو ان لی لمبی داڑھی کی بنیاد پر دہشت گرد سمجھ لیااور ان کو ہوائی جہاز سے اتار کر پریشان کیا۔آج بھلے ہی مغرب میں کلین شیو کا رواج ہو لیکن قدیم زمانے میں یوروپ اور ایشیاءمیں اس کو تقدیس کا درجہ دیا جاتا تھا۔ ڈاڑھی اہل اسلام کے مذہبی شعار میں داخل ہے اور یہودیوں اور رومن کتھولک عیسائیوں میں بھی اس کو عزت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ جب بنی اسرائیل مصر میں غلامی کی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ تو ان کو ڈاڑھی منڈوانے کی اجازت نہ تھی۔ اس لئے وہ اپنی ڈاڑھیوں کو لمبا چھوڑ دیا کرتے تھے اور اسی نشانی سے ان میں اور مصریوں میں تمیز ہوتی تھی کیوں کہ مصری ڈاڑھی منڈایا کرتے تھے۔آج بھی جن لوگوں کا عرب ممالک میں رہنے اور مقامی افراد سے ربط و ضبط کا واسطہ پڑا ہے وہ بتا دیں گے کہ ان کی طویل داڑھی کی وجہ سے انھیں وہاں’موسوی‘ کہا جاتا ہے۔اس کے باوجود صدیوں کے اس رواج کے باعث ڈاڑھی ایک عزت کی نشانی بن گئی۔ سکندر اعظم نے اپنی فوج میں ڈاڑھی رکھنا ممنوع قرار دے دیا تھاجبکہ سکھوں اور سادھوؤں میں اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ دنیا میں سب سے لمبی داڑھی کا ریکارڈ سرون سنگھ نے حاصل کیا ہے۔ ان کی داڑھی کی لمبائی 7 فٹ 9 انچ ہے۔امریکہ کے شہر واشنگٹن میں استمھ سونین انسٹی ٹیوٹ کی عمارت میں ساڑھے ستر فٹ لمبی ایک شخص کی داڑھی رکھی ہوئی ہے۔ ناروے کے رہنے والے ایک شخص لینگیستھ نے جو کہ 1846میں پیدا ہوا تھا، اپنی داڑھی ساڑھے سترہ فٹ تک بڑھائی تھی اوروہ اسے لپیٹ کر تہہ در تہہ رکھتا تھا۔ اس شخص کا انتقال جب 1927میں ہوا تو اس کی داڑھی اتار کر امریکہ کے اسمتھ سونین انسٹی ٹیوٹ میں محفوظ کرلی گئی۔

حوالوں پر یقین کریں تواسلام میں بھی ‘جہاں ڈاڑھی ایک مذہبی شعار ہے وہیں جنگ کے وقت اس کا منڈوانا جائز سمجھا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ شاہی امام مسجد فتح پوری دہلی میں مفتی محمد مکرم احمد انصاری کو فضائیہ کے افسروں سے 24فروری اور پہلی اپریل 2003 کے ایک حکم نامہ میں ڈاڑھی رکھنے سے باز رکھنے کو کہا تھا جسے آفتاب احمد انصاری نے سپریم کورٹ میں جیلنج کیا اس کے جواب میں مرکزی حکومت نے کہا کہ ’دین اسلام میں داڑھی رکھنا واجب نہیں۔‘ شاہی امام مفتی محمد مکرم نے کہا کہ حکومت کے اس جواب سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ انہوں نے مرکزی حکومت سے سپریم کورٹ میں داڑھی کے مسلہ میں دئے گئے جواب پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں کے دستور میں اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی اور ضمانت دی گئی ہے‘ اس لئے ملک کے کسی شہری کو اپنے مذہبی فریضہ کی ادائیگی کیلئے روکنا دستور میں دی گئی ضمانت کی خلاف ورزی ہی نہیں قرار دیا بلکہ گمراہ کن جواب داخل کرنے والے افسروں کے خلاف کاروائی کابھی مطالبہ کیا۔ شاہی امام نے کہا ایک مسلمان کو اپنے مذہب پر پورا عمل کرنے کے لئے داڑھی رکھنا بھی ضروری ہے اگر کوئی داڑھی نہیں رکھتا ہے تو دین پر اس کا عمل ناقص کہلائے گا۔ شاہی امام نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داروں سے بھی اپیل کی کہ اس نازک اور احساس مسلہ پر فوری طور پر حکومت کی توجہ مبذول کرائی جائے اور حکومت پر دباؤ بنا کر داڑھی رکھے جانے کے حق کو تسلیم کرایا جائے۔ شاہی امام نے حکومت ہند سے پر زور اپیل کی کہ اس طرح کے مسلوں میں سنجیدہ غور و فکر کرکے ایک واضح پالیسی بنائی جائے۔ اگر ایک اقلیت سکھوں کیلئے داڑھی کی اجازت ہے تو مسلمانوں کیلئے کیوں نہیں؟ یہ امتیاز اور تفریق ناقابل برداشت ہے۔

اسلام میںمردوں کیلئے داڑھی رکھنا واجب ہے‘ اس کی شرعی مقدار ایک قبضہ یعنی ایک مشت اور داڑھی رکھنا اسلامی اور مذہبی شعار ‘ تمام انبیاءکرام علیہم السلام کی متفقہ سنت اور شرافت و بزرگی کی علامت ہے۔ اسی سے مردانہ شکل وصورت کی تکمیل ہوتی ہے‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دائمی عمل ہے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے فطرت سے تعبیر فرمایا ہے‘ لہذا داڑھی رکھنا ضروری ہے اور منڈانا یا ایک مٹھی سے پہلے کترانا حرام اور گناہ کبیرہ ہونے پر امت کا اجماع ہے۔مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا :مولانا صاحب انگریز کا کہنا ہے کہ داڑھی خلاف فطرت ہے کیونکہ انسان داڑھی کے بغیر پیدا ہوتا ہے لہذا داڑھی رکھنا فضول بات ہے۔مولانا صاحب مسکرائے اور جواب دیا پھر تو دانت رکھنا بھی خلاف فطرت ہے کیونکہ انسان کی پیدائش کے وقت دانت بھی نہیں ہوتے اس لیئے انگریز کو اپنے دانت بھی توڑ دینے چاہئے۔

مسلم دنیا میں صرف طالبان کی حکومت ایسی گزری جس نے افغانستان میں ڈاڑھی منڈوانا ایک جرم قرار دیا۔ اور ڈاڑھی نہ رکھنے والوں کو باقاعدہ سزا دی جاتی تھی۔ روس میں پیٹر اعظم کے وقت اور انگلستان میں اس سے کچھ عرصہ پیشتر ڈاڑھی ولوں پر ایک ٹیکس لگایا جاتا تھا اور ڈاڑھی رکھنا صرف شاہی اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ انگلستان کے تمام بادشاہ ڈاڑھی رکھتے تھے۔ اڈورڈ ہشتم نے اس رسم کو خیر باد کہہ دیا اور اس کے جانشین بھائی نے اس کی تقلید کی۔ ڈاڑھی کی بحث ان ممالک میں پیدا نہیں ہوتی جن کے باشندے قدرتی طورپر اس سے محروم ہیں۔ مثلا چین ، جاپان ، کوریا ، ملایا ، ہند چینی ، برما ، تبت ، نیپال اور وہ تمام علاقہ جس میں منگول نسل کے لوگ بستے ہیں۔

image
image

انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اطلاعات کے مطابق ہندوستان کی ریاست ہماچل پردیش کے دوردراز علاقوں میں بڑی تعداد میں داڑھی والے گدوں کو دیکھا گیا ہے۔ریاست میں محکمہ جنگلات کے اعلٰی اہلکار ونے ٹنڈن کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اطلاع ملی تھی کہ ہمالیائی خطے میں بڑی تعداد میں داڑھی والے گدھ دکھائی دیے ہیں ان کے محکمے نے علاقے میں گدھ دیکھے جانے کی خبروں کی تصدیق کر لی ہے اور یہ بہت اہم واقعہ ہے‘۔انہوں نے بتایا کہ ان کے محکمے کی ایک ٹیم ہمالیا کے لیے روانہ ہو چکی ہے۔داڑھی والے گدھوں کی یہ قسم چین کے ساتھ لگنے والی ہندوستانی سرحد پر پہلے بھی دیکھی جا چکی ہے لیکن اتنی بلندی پر اور انتی بڑی تعداد میں پہلی مرتبہ سامنے آئی ہے۔ہندوستان میں حالیہ برسوں میں گِدھوں کی ختم ہوتی تعداد پر خاصی تشویش ظاہر کی جا رہی تھی اور ماہرین کا خیال تھا کہ اب ہندوستان میں چند سو گِدھ ہی باقی رہ گئے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ داڑھی والے یہ گِدھ ہڈیوں کو پہاڑوں کی چٹانوں پر گراتے ہیں تاکہ ہڈیاں توڑ کر ان میں سے گودا نکال سکیں۔یہی وجہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں گِدھوں کی آبادی تقریباً ختم ہوتی نظر آرہی تھی جبکہ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ان کی آبادی دو سے دس ہزار تک ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126152 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More