صحافت کو ازمنہ قدیم سے ہی مقننہ
، عدلیہ اور انتظامیہ کے ساتھ ریاست کا چوتھا ستون گردانا جاتا ہے ۔گزرتے
وقت نے صحافت کو معاشرے کے کان اور سوسائٹی کی آنکھوں کا کردارادا کرنے کی
بھاری ذمہ داری بھی تفویض کر دی کیوں کہ صحافت ہی وہ واحد شعبہ ہے جو
معاشرے کی گندگی کو سب سے پہلے دیکھتا ہے اور اسے نشر کرنے یا نہ کرنے کا
بھاری فریضہ سر انجام دیتا ہے ۔ یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ ہرمعاشرتی
برائی یا معاشرے میں رونما ہونے والے ہر واقعہ کو خبر کا درجہ نہیں دیا
جاسکتا اور نہ ہی ہر خبر کو من و عن عوام الناس وخواص تک پہنچایا جا سکتا
ہے تا کہ انتشار اور بگاڑ سے بچا جا سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ صحافتی اصول و ضوابط اور قوانین کا تعین ہونے لگا اور صحافت کو بھی
تمام شعبہ ہائے زندگی کی طرح Ethics کے تابع کر دیا گیا ۔
اگرچہ ان Ethics پر ہر خطے اور علاقے کے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے تھوڑا
بہت رد و بدل کیا جاتا رہا اور ان Ethics میں نئے اضافہ جات بھی ہوتے رہے
۔شعبہ صحافت میں کہنہ مشق، حق پر قائم رہنے ، تمام مصلحتوں کو پس پشت ڈال
کرحق گوئی ،بے باکی کا مظاہرہ کرنے والے، سچ کی تلاش اور اس کو عوام الناس
تک ایمانداری، دیانتداری اور کسی دنیاوی منفعت سے پاک ہوکر پہنچانے والے
انسانیت دوست اور با ضمیر لوگوں کو ہمیشہ خوش آمدید کہاجاتا ہے۔صحافت کی
معاشرے اور سوسائٹی کے لیے اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں یہی وجہ ہے کہ
ترقی یافتہ معاشرے ریاست کے اس چوتھے ستون کی حیثیت سے ترقی یافتہ ممازلک
میں صحافیوں کو حد درجہ سہولیات کے ساتھ ساتھ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر
Facilitateبھی کیا جاتا ہے اور صحافیوں کی جانب سے دی گئی آراءاور تبصروں،
تجزیوں کو اہمیت بھی دی جاتی ہے ۔
بدقسمتی سے تیسری دنیا بشمول پاکستان کے صحافیوں کو اس شعبہ سے وابستہ رہنے
کے لیے انتہائی دگرگوں حالات کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور وہ صحافی جو قیام
پاکستان کے لیے کانگریس، انگریز راج اور ہندو بنئے سے نبرد آزما تھے آج
پاکستان بننے کے بعد اپنوں ہی کے ہاتھوں ذلت و رسوائی کی تصویر بنے دکھائی
دیتے ہیں ۔ صحافیوں نے قیام پاکستان سے استحکام پاکستان اپنی جدو جہد کو
پاکستان بننے کے بعد ختم نہیں کر دیا بلکہ صحافیوں نے ہر دور کے آمر اور
جمہوری حکمرانوں کو ان کی غلطیوں پر باز پرس کی اور تحریر و تقریر سے ان کی
اور معاشرے کے عام آدمی کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا مگر صحافیوں کو ان کی بے
لاگ خدمات کا کبھی بھی صلہ نہیں دیا جا سکایہی وجہ ہے کہ نیو یارک میں قائم
آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کی جنگ لڑنے والی جماعت کمیٹی ٹو پروٹیکٹ
جرنلسٹس کے مطابق سال 2010ءمیں دنیا بھر میں 42 صحافی قتل کیے گئے جن میں
پاکستان سر فہرست ہے۔ ایک اور صحافیوں کے حقوق کی علمبردار غیر سرکاری
تنظیم جرنلسٹس ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق سال 2010ءمیں پاکستان میں 12 صحافیوں
کو قتل کیا گیا ۔ مختلف اعداد و شمار کے مطابق سال 2002ءسے 2010ءتک41 صحافی
فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کر دیے گئے ۔ صحافیوں کی بین الاقوامی
تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے مطابق مقتول صحافیوں کی تعداد 94 ہے
۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دو سال سے پاکستان صحافیوں کے لیے انتہائی خطرناک ملک
قرار دیا جا چکاہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں اب تک جن صحافیوں کو بہیمانہ قتل کیا گیا ہے وہ
کرپشن، بد عنوانی، سیاست، جنگ، انویسٹی گیشن اور اسی طرح کے دیگر موضوعات
پر کام کر رہے تھے۔ ان صحافیوں نے اپنے قتل سے کئی ہفتے قبل ہی ملنے والی
قتل کی دھمکیوں سے متعلقہ حکام کو مطلع کر دیا تھا مگر صحافیوں کو ملنے
والی دھمکیوں پر کبھی بھی کسی قسم کاکوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور بالآخر یہ
صحافی ہلاک کر دیے گئے ۔ ان صحافیوں کی ہلاکت کے بعد تمام سیاسی حلقوں،
اعلی سرکاری عہدیداروں ،صحافی برادری اور صحافی تنظیموں کی جانب سے اس
صحافی کی ہلاکت پررٹے رٹائے جملے بولنے کا انتہائی تضحیک آمیز سلوک شروع ہو
جاتا ہے جو چند دن جاری رہنے کے بعداس امید پر ختم کر دیا جاتا ہے کہ کچھ
عرصے بعد ایک اور صحافی کو صحافتی خدمات بخوبی سر انجام دینے کے جرم میں
قتل کیا جائے گا اور تمام متعلقہ حکام کو ایک بار پھر انسانیت پرستی دکھانے
کا موقع میسر آ سکے گا۔ اسی طرح کا ایک بیان پاکستان کی وزیر اطلاعات
محترمہ فردوس عاشق صاحبہ نے اس وقت دیا جب ایک نجی ٹی وی چینل کے لیے کام
کرنے والے صحافی مکرم خان عاطف کو سر اور سینے میں تین گولیاں مار کر اس
وقت شہید کر دیا گیا جب وہ نماز مغرب ادا کر کے مسجد سے باہر آرہے تھے۔ اس
موقع پر وزیر اطلاعات کا کہنا تھا: بدقسمتی سے ملک میں شعبہ صحافت سے تعلق
رکھنے والے افراد بھی دہشت گرد عناصر کے نشانے پر ہیں۔ حکومت واقعے کی
تحقیقات کرکے اس میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی جانب سے کیے گئے سروے سے بات عیاں ہوتی ہے کہ
حکومت کی جانب سے بارہا کروائی گئی یقین دہانی کے باوجود 90 فیصد صحافیوں
کے قاتلوں کا سراغ ہی نہیں ملتا۔ جنوبی ایشیا میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم
سیفماکے سیکرٹری جنرل امتیاز عالم نے بھی حکومت کی جانب سے ایک بار پھر
کروائی جانے والی یقین دہانی پرصحافی برادری کے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے
کہا ہے: ماضی میں بھی ایسے دعوے کیے جا چکے ہیں لیکن کبھی بھی ملزمان کو
قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکا۔اس سے انتہا پسندوں کی حوصلہ آفزائی
ہوئی ہے ۔میں وفاقی و صوبائی حکومتوں اور تحقیقاتی اداروں سے مطالبہ کروں
گا کہ تازہ ترین واقعے کی تفتیش کرکے قاتلوں تک پہنچا جائے۔
حکومت پاکستان یہ بات جانتی ہے کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد سے جس طرح
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کر کلیدی کردار ادا کیا ہے
اس سے صحافیوں کے لیے بہت مشکلات پیدا ہو گئی ہیں مگر حکومت کی جانب سے اب
تک ان تمام ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کی سیکورٹی کے لیے کوئی قابل ستائش
اقدام نہیں کیا گیا بلکہ انویسٹی گیٹو جرنلسٹ سلیم شہزاد کے قتل پر وزیر
داخلہ کی جانب سے یہ کہنا : یہ ذاتی دشمنی کا کیس بھی ہو سکتا ہے۔ اس بات
کی دلیل ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو تیسرے درجے کا شہری بھی تصور نہیں
کیا جاتا کہ مرنے والے صحافیوں کی کردارکشی کر کے اور ان کے حوالے سے ملک
دشمنی الزامات لگا کر حکام بالا اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں ۔
مقتول صحافی سلیم شہزاد کے اغوا ہونے سے ایک روز قبل دیے گئے بیان سے یہ
بات عیاں ہو جاتی ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے صحافیوں کو جتنا خطرہ شر
پسند عناصر سے ہے اتنا ہی مذہبی ، سیاسی ، عسکری اور دیگر پریشر گروپوں سے
ہے ۔انھوں نے اپنے اغوا سے ایک دن پہلے پاکستان کے دارالحکومت میں واقع
فاطمہ جناح پارک میں کہا تھا: جس خبر کا رد عمل نہ آئے تو اٹھا لیا جاتا ہے
۔پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے مرکزی سیکرٹری جنرل امین یوسف نے بھی
سلیم شہزاد کی طرح کا ہی موقف اختیار کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کے نمائندہ
سے بات کرتے ہوئے کہا: کچھ صحافی تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے
اہلکاروں، پریشر گروپوں ، فرقہ وارانہ اور شدت پسند تنظیموں کے کارکنوں کے
ردعمل کا شکار ہو کر جان کی بازی ہارگئے جبکہ بعض صحافی دہشت گردی کی
وارداتوں اور جنگی علاقوں میں ناکافی حفاظتی اقدامات کے تحت فرائض کی انجام
دہی کے دوران اپنی جان کھو بیٹھے۔
صحافیوں کو درپیش خطرات اور عالمی و ملکی صحافتی تنظیموں کی جانب سے پیش
کیے گئے اعداد و شمار اور پاکستان کے زمینی حقائق اس با ت کا تقاضا کرتے
ہیں کہ موجودہ حکومت اور آنے والی حکومتیں پاکستان میں موجود صحافیوں کے
حقوق کا نئے سرے سے تعین کریں اور صحافیوں کو درپیش خطرات سے بچانے کے لیے
مناسب قانون سازی کی جائے ۔ریاست اور ملک و قوم کے اس اہم ترین طبقے کی
سیکورٹی کے لیے جلد از جلد اہم اقدامات کرنا پاکستان سمیت تمام عالمی
برادری کی اولین ترجیحات میں ہونا چاہئے تاکہ معاشرے کا وہ اہم ستون جو
معاشرے کی آنکھ اور کان کا کردار ادا کرتا ہے اندھا ، بہرا اور خدانخواستہ
مقتول ہونے سے بچ سکے۔ |