ہمارے کھمبے ہماری پہچان

تقریباً6 فٹ زمین کے اندر اور 30 سے 35 فٹ زمین کے اوپر بالکل سیدھے کھڑے دھاتی خول کو حرف عام اور پاکستان میں کھمبے کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ اس کی ایجاد کا بنیادی مقصد تو یہ تھا کہ اس میں مختلف بجلی اور ٹیلیفون کے تاروں کو لگا کر دور دراز کے علاقوں تک بجلی اورٹیلیفون کنکشن کو یقینی بنایا جاسکے ۔ لیکن ہمارے ملک میں یہ کھمبے اپنے ان بنیادی کاموں کے علاوہ بھی بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں ، اور یہ کھمبے ہماری پہچان کا باعث بنے ہوئے ہیں۔آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کیسی عجیب بات ہے کہ کھبموں سے ہماری پہچان یا شناخت کیسے ممکن ہے ؟تو وہ ایسے کہ اگر آپ اپنے ارد گرد کے ماحول میں غور کریں تو آپ کو شاذو نادر ہی کوئی ایسا کھمبا نظر آئے گا جس میں کسی سیاسی ، لسانی یا مذہبی تنظیم کا جھنڈا لہراتا ہوا نظر نہ آئے۔

کہنے کو تو ہم ، اور ہمار ی تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما وطن عزیز سے بے انتہا محبت کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے ، مگر ان کے قول وفعل میں اس وقت بہت بڑا تضاد نظر آتا ہے جب یہ تمام پارٹیاں اپنے سیاسی جلسے منعقد کرتی ہیں، ہزاروں لاکھوں کا مجمع اکھٹا کرنے والی ان جماعتوں کے جلسوں میں کہیں بھی پاکستان کا جھنڈا یا تحریک آزادی کے کسی رہنما مثلاً قائد اعظم، لیاقت علی خان وغیرہ کے تصویر تک نظر نہیں آتی ، ہاں البتہ اپنی جماعت کے جھنڈے اور اپنے قائد کی تصویروں سے پورے شہر کے درو دیوار سجائے رکھتے ہیں۔یہ کونسی پاکستانیت ہے؟ جس میں پاکستانی جھنڈے اور حقیقی رہنماؤں کی کوئی جھلک ہی نظر نہیں آتی۔کہنے کو ہم اس پرچم کے سائے تلے ایک ہیں۔ تو پھر ہمیں اپنی شاخت کے لیے الگ الگ جھنڈوں کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے؟ کیا ہم سب پاکستانی ہیں اتنا کافی نہیں؟ ایک آزاد ملک میں مکمل شناخت کے بعد ہمیں مزید شناخت یا قوموں میں بٹنے کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے؟ ہم ایک ملک میں ایک صوبے کے ایک شہر میں رہتے ہوئے بھی مختلف علاقوں مختلف گروپوں میں منقسم ہیں ، اور ہمارے علاقوں کی پہچان ہوتی ہے ہمارے کھمبوں سے ، ہمارے رنگین درو دیوار سے۔اور بعض مقامات پر تو ہمارے کھمبے ، پیڈسٹرین برج اور سب سے افسوسناک ہمارے تعلیمی ادارے خاص طور پر کالجز کی عمارتیں مختلف رنگوں کے جھنڈوں سے اس طرح سے سجی ہوئی ہوتیں ہیں کہ یہ تعلیمی ادارے کسی مزار کا منظر پیش کررہے ہوتے ہیں۔اور اکثر مقامات پر تو اپنی سبقت ثابت کرنے کے لیے آپ کو ایک ہی کھمبے ایک کے اوپر ایک جھنڈا نظر آئے گا۔ یہ ہمارے ملک کے ذمہ دار رہنماؤں کی سوچ کی عکاسی ہے کہ اگر ان کا جھنڈا وپر لگا ہوگا تو وہ عوام میں اتنے ہی مقبول ہوں گے۔

اگر ہمارے ملک کی یہ جماعتیں واقعی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہتی ہیں تو اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ یہ جو ہزاروں گز کپڑا اپنی پارٹیوں کے جھنڈے میں استعمال کرتی ہیں ، اسے ملک کی 80 فیصد عوام کے لباس کے طور پر بھی استعمال کرایا جا سکتا ہے ۔ اس کپڑے سے کسی غریب کی سفید پوشی کا بھرم بھی رکھا جا سکتا ہے ،، اپنے اس عمل کے بعد ان جماعتوں کو کسی بھی قسم کے جلسے کی ضرورت نہیں رہے گی اور نہ ہی زمانہ الیکشن میں ووٹ کی بھیک مانگنے عوام کے سامنے جھوٹی تقریروں کا سہارا لینا پڑے گا۔ صرف یہ ایک چھوٹا سا عمل ان تمام جماعتوں کے لیے نہایت موثر ثابت ہو سکتا ہے اور وہ واقعتاً عوام کے دلوں میں گھر کر سکتے ہیں۔ اگر ان جماعتوں کے پاس واقعی اتنا فنڈ جمع ہو جاتا ہے کہ وہ ہزاروں گز کپڑا گلنے سڑنے کے لیے کھمبوں، اور شہر کے دیگر دوسرے مقامات پر لگا دیتے ہیں تو اس سے بہتر ہے کہ وہ اس کپڑے کو کسی کی عزت کی حفاظت کے لیے استعمال کرنا شروع کردیں۔

اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم ذمہ داری نوجوان طبقے پر عائد ہوتی ہے کیونکہ عام طو ر پر نوجوان ہی ان جھنڈوں کو کھمبوں اور عمارتوں کی زینت بناتے ہوئے نظر آرہے ہوتے ہیں۔اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ نوجوان طبقہ ان فضول حرکات جھنڈے اور چاکنگ کو چھوڑ کر اپنے قائدین سے براہ راست اس بات کا مطالبہ کریں کے نعروں اور جھنڈوں کی سیاست سے باہر نکل کر عملی اقدامات کی طرف قدم اٹھائیں،سب سے پہلے تعلیمی نظام کی درستی کے مطالبے کو منواتے ہوئے ملک سے دوہرے نظام تعلیم کو ختم کرائیں۔ملک کو حقیقی فلاحی مملکت بنانے کے لیے وہ تمام اقدامات کریں جن کی بنیاد پر قائد اعظم محمد علی جناح اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کرمسلمانوں کے لیے علحیدہ اور آزاد مملکت پاکستان کو دنیا کے نقشہ میں ابھارنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ اور اب اس کی حفاظت اور سلامتی کی ذمہ داری ہم سب اور خصوصاً نوجوانوں کی ہے کہ ملک کے عوام کو ان رنگ برنگے جھنڈوں کے سائے سے نکال کر سبز ہلالی پرچم تلے اکھٹا کریں۔
Shariq Jamal Khan
About the Author: Shariq Jamal Khan Read More Articles by Shariq Jamal Khan: 4 Articles with 3139 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.