پے در پے حادثات اور سانحات سے
دوچار پاکستانی قوم کے دکھوں میں ایک تازہ دکھ ذہین ترین کم عمر ارفع کریم
کی رحلت ہے۔ مائیکرو سافٹ ویئر انجینئرنگ کے شعبے سے کوئی واقف ہو نہ ہو،
بل گیٹس کا نام کسی نے سنا ہو یا نہیں مگر پوری دنیا سمیت پاکستان کا بچہ
بچہ اس ننھی طلسماتی گڑیا کے حیران کن کارناموں پر رشک ضرور کر رہا ہے۔ وہ
زندہ تھی تو اس کے والدین قریبی رشتہ دار اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے تعلق
رکھنے والا ایک مخصوص طبقہ ہی اس کی رفعت فکر و خیال کا معترف تھا مگر جب
وہ قید حیات سے خلاصی پا کر عالم بالا کی طرف اپنے رب کریم کی بارگاہ میں
حاضر ہوئی ہے تو اس کی شخصیت کا آفتاب پہلے سے زیادہ روشن ہو چکا ہے۔
نظام قدرت بھی کتنا عجیب ہے۔ اس نے ایک نو سالہ بچی کو کتنی علمی بلندیوں
پر فائز کر دیا، وہ ذہانت و فطانت کا ایک معجزہ بن کر ابھری۔ فیصل آباد کی
نواعی بستی رام دیوالی میں آنکھ کھولی اور خدا داد صلاحیتوں نے اسے بچپن
میں ذہین ترین لوگوں کا ہیرو بنا دیا۔ ابھی وہ اپنے خواب ترتیب دے رہی تھی
اور خوبصورت لب و لہجے میں اس کی تعبیر کے منصوبے بنا رہی تھی کہ دست قضا
نے اسے اچک لیا۔ سچ کہا تھا غالب جیسے بزرگ شاعر نے
لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے
قدرت جس سے جو کام لینا چاہتی ہے وہ بہر حال لے لیتی ہے۔ وہ نوازنے پہ آئے
تو 9 سال میں ارفع کو عالمی ریکارڈ قائم کرنے کی توفیق دے دے اور محروم کر
دے تو نوبل پرائز لینے والے بڑے بڑے دماغوں کو بھی حق شناسی کی نعمت سے دور
رکھے۔
بعض ماہرین نفسیات نے لکھا ہے کہ ناموں کا اثر شخصیت پر ضرور ہوتا ہے۔ اس
کا یقین ہمیں ارفع کی حیران کن مختصر لیکن معجز نما زندگی سے ہوتا ہے۔
والدین نے اس کا نام جب ارفع رکھا ہوگا تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں
ہوگا کہ ان کی یہ بچی کم سنی میں اسم بہ مسمیٰ ہو جائے گی اور کامیابیوں کی
بلند ترین کہکشاؤں کا سفر طے کر کے ارفع و اعلیٰ مقام حاصل کر لے گی۔ اس کی
ڈائری میں اقبال کے جو اشعار لکھے ہوئے ملے ہیں ان میں زیادہ تر زندگی اور
موت کے فکر و فلسفہ پر لکھے گئے اشعار ہیں۔ شاعر مشرق نے موت کو زندگی کا
خاتمہ نہیں بلکہ تسلسل قرار دیا ہے۔ ارفع نے اقبال کے اس پیغام کو تو براہ
راست یوں محسوس کیا جیسے اس نے ارض وطن کی اسی بچی کو مخاطب کر کے کہا تھا۔
قلزم ہستی سے تو ابھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
فی الواقع ارفع اس قلزم ہستی سے ابھرنے والا ایک حباب تھی مگر اس نے دنیا
کے زیاں خانے میں خود کو ضائع نہیں ہونے دیا۔ وہ زندگی کے امتحان میں بھی
اعلیٰ کامیابیوں سے ہمکنار ہو کر خالق حقیقی سے جا ملی ہے۔ وہ اس نفس
مطمئنہ کی مانند اپنے رب کی طرف لوٹی ہے جس کے متعلق قرآن نے فرمایا: "اے
نفس مطمئنہ! لوٹ جا اپنے رب کی بارگاہ میں اس حالت میں کہ تیرا رب تجھ سے
راضی ہو اور تو اپنے رب سے راضی ہو۔"
اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہے کہ اس معصوم کلی کے بکھرنے پر پورا چمن اداس
ہے۔ پورا ملک جیسے اس کا گھر تھا اور اہل وطن سب اس کے حقیقی رشتہ دار تھے۔
اس کے ساتھ کروڑوں لوگوں کا یہ رشتہ عزت وقار محبت اور فخر کا رشتہ تھا۔ جس
نے بھی سنا اس نے اس دکھ کو اپنا دکھ سمجھا۔ ہر آنکھ اشک بار ہوئی اور ابھی
تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ مجھ سمیت اس ملک کے لاکھوں کروڑوں مرد عورتیں بچے
بچیاں اس سے خونی رشتہ نہیں رکھتے، نہ انہوں نے اسے قریب سے دیکھا نہ اس سے
ملے مگر یوں لگتا ہے کہ وہ ہر گھرانے کی اکلوتی بچی تھی جو والدین اور بہن
بھائیوں کو غمزدہ کر کے دنیا سے کوچ کر گئی۔
اس کی کامیاب اور بامقصد زندگی کی دوسری دلیل یہ ہے کہ وہ اس وقت لاکھوں
نونہالان وطن کی آئیڈیل اور رول ماڈل بن چکی ہے۔ ان شاء اللہ وطن عزیز کی
زرخیز مٹی سے اس جیسی کئی کلیاں پھوٹیں گی۔ کئی خوشگوار پھول کھلیں گے اور
حکمرانوں کے ہاتھوں زخم خوردہ ارض وطن ایسے ہی پھولوں سے مہکے گی۔ ارفع کی
رفعتوں کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے قبر میں اترتے ہی لاہور کی بلند و
بالا اور خوبصورت ترین نو تعمیر شدہ عمارت جو "لاہور ٹیکنالوجی پارک" کے
نام سے تکمیل کے قریب تھی وہ اب "ارفع سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک" بن چکا
ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے یہ بروقت اور برمحل فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے مرحومہ کی خوابوں کو سچی تعبیر دیتے ہوئے بجا طور پر اس تقریب کو
بھی ارفع کریم کے نام سے منسوب کر دیا ہے جس میں ملک کے ذہین طلباء و
طالبات کو لیپ ٹاپ کے تحائف تقسیم کئے جائیں گے۔ یوں تو ارفع نے ثابت کر
دیا کہ اس کے پرخلوص جذبوں نے اس کی موت کے بعد بھی کامیابیوں کا حیران کن
سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ وہ زندہ تھی تو وہ تنہا وطن عزیز کو عالمی برادری
میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی بلندیوں پر لے جانے کے خواب دیکھتی تھی اب وہ
اس شان سے رخصت ہوئی ہے کہ اس نے اپنے پیچھے اپنی طرح کے لاکھوں ہزاروں
پرعزم ذہین نوجوانوں کی کھیپ کو جھنجھوڑ دیا ہے۔ انہیں عزم و ہمت اور اعلیٰ
و ارفع خواب دیکھنے اور ان کی تعبیریں تعمیر کرنے کا پیغام دیا ہے۔ وہ زندہ
تھی تو وہ اپنے والدین کی آنکھوں کا نور تھی، اپنے بہن بھائیوں کا فخر تھی
مگر اب عالم فنا سے عالم بقا کو سدھاری ہے تو ہر گھر میں اس کی کمی محسوس
ہو رہی ہے، اس ملک کے سارے پرعزم والدین اس کے غم میں آنسو بہا رہے ہیں اور
کروڑوں نوجوان اس کے بہن بھائی بن چکے ہیں جو اس کے مشن کو آگے لے کر چلنے
کی تمنا رکھتے ہیں۔ اسی لئے اقبال نے فرمایا تھا۔
موت سے مٹ سکتا اگر نقش حیات
عام یوں اس کو نہ کردیتا نظام کائنات
موت تجدید مذاق زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا پیغام ہے
ارفع اب عالم اسفل سے نکل کر عالم بالا کی طرف پرواز کر گئی ہے۔ اس کی
پاکیزہ روح ایک قفس عنصری سے نکل کر ہزاروں لاکھوں زندگیوں کو عزم و ہمت کا
پیغام دینے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس محروم و مجبور قوم کو
ایسے ہی مزید پرعزم اور لائق وجود عطا فرمائے جو پوری دنیا میں ارفع کریم
کی طرح وطن عزیز کے پرچم کو عزت و آبرو کے ساتھ بلند رکھنے کا سفر جاری رکھ
سکیں۔ وہ ایک پروگرام میں بڑے ہی پرعزم لہجے میں بتا رہی تھی کہ میں انشاء
اللہ بھارت کی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی مشہور بستی سے دو قدم آگے پاکستان کے
نوجوانوں کے لئے منصوبہ بندی کر رہی ہوں۔ موت نے بلا شبہ اسے مہلت عمل نہیں
دی مگر اس کے نام سے مجوزہ ارفع آئی ٹی یونیورسٹی بہر صورت اہل وطن کے
خوابوں کی تعبیر میں اہم کردار ادا کرے گی۔
کالم متاع کارواں
ڈاکٹر علی اکبر الازہری |