گیارہ ستمبر 2001کو امریکہ کے سب
سے بڑے شہر نیویارک کے بلندوبالاٹوئن ٹاورز پر ہونیوالے دھماکوں کے بعد سے
شروع ہونیوالی ’دہشتگردی کیخلاف جنگ‘ کا سب سے بڑا ہدف افغانستان سے ملحق
قبائلی علاقوں کوغیر ملکی فوج نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جس طرح ہر
طاقتور ملک کویقین ہوتاہے کہ وہ اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر دیگرممالک
کواپنا مطیع بناسکتا ہے۔ اسی طرح امریکہ کو بھی یہ زعم ہے کہ وہ قوی ترین
ہے جبکہ اس نے متعدد ممالک میں بے ضابطہ محاذ جنگ کھول رکھے ہیںجسکے باعث
اسکی افواج کومتعدد مسائل کا سامنا ہے۔حتی کہ انٹارکٹیکا کے سوا دنیا کے ہر
براعظم میں اسکے فوجی مراکز موجود ہیں۔گزشتہ دنوں سامنے آنے والی ایک ویڈیو
میں امریکی فوجیوں کو افغان باشندوں کی لاشوں کی شدید بے حرمتی کرتے ہوئے
دکھایا گیا۔ کسی بھی جنگی میدان میں لاشوں کی تذلیل کا یہ کوئی پہلا واقعہ
نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی ایسے کئی واقعات منظر عام پر آچکے ہیں جن میں
فوجیوں کو قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ حال ہی میں
امریکی فوجیوں کی جانب سے لاشوں کی بے حرمتی کے واقعے کے بعد متعدد حلقے یہ
سوال کر رہے ہیں کہ آخر اس طرح کی حرکت کرتے ہوئے امریکی فوجیوں کی سوچ کیا
تھی‘وہ ایسا کیوں کر رہے ہوتے ہیں؟ ان کی اخلاقی اقدار کہاں چلی جاتی ہیں؟
ایسے کرتے ہوئے غور و خوص اور دانشمندی ان کا ساتھ کیوں چھوڑ دیتی ہے؟
|
ماہر نفسیاتPsychiatrist فل سی
لینگرPhil C. Langer دوبرس تک افغانستان میں تھے۔ اس دوران انہوں نے جرمن
فوجیوں سے افغان مشن کے حوالے سے کئی انٹرویو کئے۔ ان کے بقول ایسے کرنے
والے فوجیوں کو فوری طور پر دماغی مریض قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم جنگی
میدان میں تشدد آمیز واقعات کا اثر انسانی ذہن پر ضرور پڑتا ہے۔ اس وجہ سے
جنگ میں تشدد ایک عام سی بات ہے۔فل سی لینگر کہتے ہیں کہ ہم ایک ایسے
معاشرے میں رہتے ہیں جہاں تشدد کی اجازت نہیں ہے جبکہ کسی کو قتل کرنا تو
بالکل ہی ممنوع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جمہوری ممالک یا مغربی معاشروں سے تعلق
رکھنے والے فوجیوں کو اگر اچانک جنگی میدان میں بھیج دیا جائے تو وہ ان
ساری معاشرتی اقدار کو سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ وہ ایک لمحے میں ایک ایسی
جگہ سے جہاں عدم تشدد کا درس دیا جاتا ہے، ایک ایسی جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں
انہیں لڑنے جھگڑنے، یہاں تک کے اپنے دشمن کو ہلاک کر دینے کیلئے بھی تیار
رہنا پڑتا ہے۔
ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ یہ ذہنی طور پر ایک بہت بڑی تبدیلی ہوتی ہے۔ ایسی
صورتحال میں فوجی ایک مخمصے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا
مطلب یہ نہیں ہے کہ آئی سیف میں شامل فوجیوں نے افغان باشندوں کی لاشوں کے
ساتھ جو کچھ کیا ہے، اسے صحیح قرار دیا جائے یا اسی نفسیاتی دباؤ کا نتیجہ
قرار دے کر بھلا دیا جائے۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان فوجیوں کی یہ
زیادتیاں ان کے طیش کے جذبات کے اظہار کا ذریعہ رہی ہوں۔ امن کے قیام کیلئے
کام کرنی والی ایک فاؤنڈیشن سے وابستہ زابینے مانٹزکے بقول کسی بھی جنگ میں
لاشوں یا قیدیوں کی بے حرمتی کے واقعات کا رونما نہ ہونا تقریباً ناممکن ہے۔
وہ کہتی ہیں اخلاقی اقدار کا خیال رکھتے ہوئے جنگ لڑنا بھی بہت ہی مشکل ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ انتہائی حالات میں بھی انسانی وقار اور شہری حقوق کا
خیال رکھنا اور مہذب رویہ اختیار کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔
دراصل وہ ایسا نہ کریں تو کیا کریں جبکہ ان کی نفسیاتی حالت ذرائع ابلاغ
میں منظر عام پر بھی آچکی ہیں جس کے مطابق پہلے عراق میں اوراب افغانستان
میں موجود امریکی فوجیوں میں خودکشی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے جبکہ وہ
نشہ آور ادویات کے بھی تیزی سے عادی ہوتے جارہے ہیں۔وہ اپنے ملک کی جنگ
کوحق کی جنگ نہیں سمجھتے اور اسی وجہ سے تفسیاتی مسائل کے شکار ہیں۔انکے
ہاتھوں معصوم بچوں اور خواتین کی مسلسل ہلاکتوں نے انکا ذہنی سکون چھین
کررکھ دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکی فوج کی ذہنی صحت پر تحقیق کرنیوالی ٹیم
کے اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ عراق میں متعین فوجی دستوں میں 27فیصد اور
افغانستان میں 17فیصد فوجی خواب آور ادویات کے عادی ہوگئے ہیں۔خاص طور پر
امریکی بری فوج کے 20ہزار دستے سکون آور ادویات پر انحصار کئے ہوئے ہیں۔
پینٹاگون کے ایک سروے کے مطابق جنگی علاقوں میں موجود تقریباً تمام فوجی
ذہنی کھنچاؤکا شکار ہوجاتے ہیںجن میں سے 20فیصد ایک بیماری کا شکار ہوجاتے
ہیں جسے فوجی اصطلاح میں عارضی تناؤ کے زخم گزشتہ دنوں سامنے آنے والی ایک
ویڈیو میں امریکی فوجیوں کو افغان باشندوں کی لاشوں کی بے حرمتی کرتے ہوئے
دکھایا گیا۔ ماہرین نفسیات اب یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فوجی آخر
ایسا رویہ یا ایسی حرکت کیوں کرتے ہیں جبکہ افغانستان میں تعینات کم از کم
15فیصدامریکی فوجی خواتین بڑی تعداد میں جنسی تشدد کا شکار ہونے کی وجہ سے
شدید ڈپریشن سمیت دیگر سنگین جنسی وذہنی بیماریوں اور اعصابی معذریوں کا
شکار ہوئیں۔یہ انکشاف 31اکتوبر 2008کوامریکی ریاست کیلی فورنیا میں قائم
امریکہ کے قومی ادارے برائے پوسٹ ٹراما اسٹریس ڈس آرڈر کی ماہر ڈاکٹر ریچل
کیمرلنگ کے تھے۔ادارے میں کام کرنیوالے ماہرین کے مطابق عراق وافغانستان
میں خدمات انجام دیکر واپس آنیوالی خواتین اپنے ساتھی مرد ساتھیوں کے
بدترین جنسی تشددکا نشانہ بنی ہیں،انکا کہنا تا کہ اگر ان خواتین نے اپنا
علاج معالجہ نہ کروایا تووہ عبرتناک طریقے سے موت کا شکار ہوجائیں گی۔
بہرکیف‘امریکہ نے افغانستان پر حملہ گیارہ ستمبر 2001کوورلڈ ٹریڈ ٹاوروں پر
حملے کے بعد اسکا الزام افغانستان میں مقیم اسامہ بن لادن پر الزام لگاتے
ہوئے 7اکتوبر 2001کوکیا تھا جوایبٹ آباد کارروائی کے باوجودتاحال جاری ہیں
جبکہ اسکی شدت میں دن بدن تیزی آتی جارہی ہے۔ اس کے باوجود تقریباً 12 سال
بعد بھی 2001میں حملے کے وقت افغانستان میں حکمران تحریک طالبان ملک کے
کافی بڑے رقبے پر حکمران تصور کئے جاتے ہیںلیکن ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ
9/11کے واقعے سے چھ ماہ قبل یعنی مارچ میں ہی طالبان کیخلاف حملے کی منصوبہ
بندی کرچکا تھا جسکے لئے لاجسٹک اسپورٹ روس، ایران نے فراہم کرنی تھی جبکہ
تاجکستان اور ازبکستان کی سرزمین کوفوجی ٹھکانے کے طور پر استعمال کئے
جانیکا منصوبہ تھا۔ایک اور مضمون کے مطابق 2001کی پہلی سہ ماہی سے ہی
امریکہ شمالی علاقے(تاجکستان) سے افغانستان پر حملے کیلئے افواج کوجمع
کررہا تھا۔اسی طرح بی بی سی نیوز(برطانوی ریڈیواورٹی وی چینیل) نے اٹھارہ
ستمبر2001کوپاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ نیاز نائیک کے حوالے سے بتایا
تھا کہ پاکستان کوجولائی 2001میں ہی بتادیا گیا تھا کہ امریکہ اکتوبر میں
طالبان حکومت کیخلاف جنگی کاروائی کرنیوالا ہے لیکن کیا وجہ صرف یہی تھی ؟
کیا امریکہ طالبان حکومت کونام نہاد ’دہشتگردی کیخلاف جنگ‘کی وجہ سے ختم
کرنیکا خواہشمند تھا؟ نہیں دراصل بنیادی وجہ امریکہ کے حکام طبقے کا معاشی
مفاد تھا جوافغانستان اور پھر عراق کی بربادی کا سبب بنا۔اس بارے میں متعدد
حوالے دیئے جاسکتے ہیں تاہم 2001میں امریکہ کے نائب صدر ڈک چینی نے 1998میں
جب وہ ایک بڑی آئل کمپنی کے چیف ایگزیکٹوتھے نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا
کہ’بحیرہ کیپسئین (وسط ایشیائ) کا خام تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر سے
مالامال خطے کوہم کیسے نظر انداز کرسکتے ہیںلیکن یہ ذخائر اس وقت تک بیکار
ہے جب تک انھیں دریافت نہیں کرلیا جاتا اور انکی دریافت کے بعد اسے وہاں سے
برآمد کرنیکا اقتصادی طور پر فائدہ منداور قابل عمل راستہ صرف افغانستان ہی
ہے جہاں امریکی مخالف طالبان حکومت ہمارے مفادات کیلئے سب سے بڑا خطرہ
ہے۔‘واقعی یہ ایسا ’خطرہ‘ ثابت ہوئی ہے کہ آج امریکی افواج اپنی ذہنی حالت
کے جس اذیت ناک دور سے گذر رہی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں رہی ہے۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ امریکی عوام خاص طور پر عیسائی المذہب
دنیا میں سب سے کم معلومات رکھنے والے افراد ہیں۔موقر امریکی روزنامے
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق دوتہائی عوام یا 75فیصد بالغ افراد کومذہب کی
ابتدائی معلومات تک حاصل نہیں۔روزنامے کے مطابق زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ
عیسائی اکثریت اپنے مذہب کے مقابلے میں اسلام، بدھ مت یا ہندومت کی تعلیمات
سے زیادہ آگاہی رکھتے ہیں،یہاں تک کہ حکمران جماعتیں بھی مذہبی اقدار کے
فروغ میں دلچسپی نہیں لیتے کیونکہ انکے خیال میں مذہب ایک ذاتی معاملہ ہے
جوشہریوں کی اپنی پسند سے تعلق رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے ادارہ
مردم شماری کے مطابق 1991سے 2001 کے دوران مجموعی عیسائی آبادی 88فیصد سے
کم ہوکر 78فیصد تک آگئی ہے جبکہ دومذاہب میں تیزترین اضافہ دیکھنے میں آیا
جسکے مطابق بودھ افراد 0.2سے بڑھکر 0.5جبکہ مسلمان 0.3 سے بڑھکر 0.6تک
جاپہنچے ہیں۔واضح رہے کہ یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں۔ مختلف غیرسرکاری
تنظیموں کے مطابق اسلام امریکہ میں تیزی سے پھیل رہا ہے جسکی آبادی 2001
میں صرف گیارہ لاکھ افراد پر مشتمل تھی مگر امریکی جریدے نیوزویک کے مطابق
صرف سات سال کے مختصر عرصے میں مسلمانوں کی تعداد 70سے 80لاکھ تک جاپہنچی
ہے‘ان میں عراق یا افغانستان سے نقل مکانی کرکے آنیوالے افراد شامل نہیںجن
کوملاکر مجموعی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہوجاتی ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق
امریکہ میں اسلام قبول کرنیوالوں کی تعداد میں سالانہ 25فیصد اضافہ ہورہا
ہے اور اگر یہی رفتار جاری رہی تو2025تک اسلام امریکہ کا سب سے بڑا مذہب
ہوگا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ستمبر 2011 کے واقعے کے بعد امریکی حکمرانوں کی
جانب سے اسلام کیخلاف پروپگینڈے کے نتیجے میں امریکی عوام کی زیادہ بڑی
تعداد اسلام کے بارے میں جاننے کیلئے کوشاں ہوئی اور نامعلوم تعداد میں
امریکی مسلمان ہوئے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا کہ مخلصین ہدایت کے چراغ ہوتے‘
ان کی قربانی کیسے رائیگاں چلی جائے؟لہذا ہدایت عام ہورہی ہے! |