تاریخی پس منظر
جامعہ ازہر بین الاقوامی سطح کا عظیم الشان دینی و علمی ادارہ ہے جو مصر کے
دار الحکومت قاہرہ میں موجود ہے۔ اس کا سنگ بنیاد دوسرے فاطمی خلیفہ المعز
لدین اللہ کے حکم پر ان کے فوجی قائد جوہر الصقلی نے٣٥٩ھ بمطابق ٩٧٠ء میں
رکھا اور فاطمی خلیفہ المعز لدین اللہ نے 321 ہجری بمطابق 972ء عیسوی میں
رمضان المبارک کا پہلا جمعہ ادا کیا۔ اسی دن سے ازہر نے سرکاری طور پر اپنے
کام کا آغاز کر دیا اور رفتہ رفتہ یہ دین کی تبلیغ، علم کی نشر و اشاعت
اورفکری ترویج کا مرکز بن گیا۔ اس میں دین، لغت، قرات کے ساتھ ساتھ منطق،
فلسفہ، علم فلک اوردوسرے علوم کی تعلیم بھی دی جانے لگی۔
سرزمین مصر پر ایوبی دور کے آغاز سے فاطمی خلافت کے تمام نشانات واثرات کے
خاتمے کا آغاز ہوا اور مصر ایک نئے دور میں داخل ہوا اور یہ دور عظیم
اسلامی لیڈر صلاح الدین ایوبی کا دور تھا جس کی حکمرانی و قیادت میں مصر
میں عباسی خلافت کا دور دورا ہوا اور جامعہ ازہر اہل سنت کے لیے ایک عظیم
مرکز میں تبدیل ہوا اور اس نے ایک نئے دور کی ابتداء کی جس میں نئے مذہبی
اور علمی مقابلے شروع ہوئے اوریہ علم ومعرفت کا گہوارا بن گیا۔ اس کی تعمیر
و ترقی میں ہر زمانے کے بادشاہوں نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا اور انہوں نے
مختلف ممالک سے آنے والے طلبہ کو ازہر میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم
کیے۔ جوابا پوری دنیا سے علم کی پیاس بجھانے کے لئے طلبہ اورفکری و اعتقادی
ثقاہت و تربیت کے لئے علماء، ائمہ اورمفکرین ازہر کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور
وہ ازہر کے محبت و رواداری پرمبنی پیغام کو لے کر اپنے اپنے ملک میں ہر
زمانہ میں ازہر کی نمائندگی کرتے رہے اور اب حال یہ ہے کہ ازہر میں
بیسیوںشعبہ جات میں تعلیم دی جارہی ہے اور سو سے زائد ممالک کے ہزاروں طلبہ
وہاں زیر تعلیم ہیں۔
ازہر نے علمی و تربیتی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور ثقافتی ترقی میں بھی
بڑا اہم کردار ادا کیا ہے اور ہر زمانہ میں مسلم معاشرت و ثقافت کو درپیش
مسائل کا مناسب اور درست حل عطا کیا ہے۔ خلافت عثمانیہ میں گیارہویں صدی
ہجری کے آخر میں ازہرکے سرپرست کے لیے "شیخ الازہر" کے لقب سے معروف ہوا
اور علماء ازہر اپنی علمی ثقاہت کے ساتھ پوری دنیا میں معروف ہیں۔
علماے ازہرنے 1798ء میں مصر میں فرانسیسی دور میں اہم کارنامے سرانجا م دیے
اور فرانسیسی لیڈر نپولین بوناپارٹ ازہر سے بے حد متاثر ہوا اور اس کی
اہمیت کو بخوبی جان گیا۔ اسی وجہ سے اس نے ازہری علماء کے ساتھ نشستو ں کا
آغاز کیا اور مختلف قرآنی موضاعات پر علمی گفتگو کا آغاز کیا۔
جب محمد علی الکبیر نے مصر کی زمام کار اور باگ ڈور سنبھالی تو مغربی علمی
وتہذیبی ثقافت سے استفادہ کرنے کی غرض سے انہوں نے ازہری اراکین پر مشتمل
ایک جماعت کو فوجی وعسکری اور شہری ومعاشرتی میدانوں میں تربیت حاصل کرنے
کے لیے اٹلی، فرانس اور روس کی طرف بھیجا۔ جب یہ لوگ وہاں سے تعلیم حاصل کر
نے کے بعد واپس لوٹے تو انہوں نے مصر کی علمی تحریک کو مختلف میدانوں میں
رفعت وبلندی عطا کی۔ ترجمہ، جدید طرز تعلیم، ذرائع ابلاغ، قانون اور مختلف
میدانوں میں نئے علمی آفاق آشکار کیے۔
انیسویں صدی عیسوی کے آخر میں دور حاضر کے جدید نظام کے مطابق ازہر میں تد
ریس و تعلیم کا آغاز ہوا اور باقاعدہ طور پر عصرحاضر کے اصولوں کے مطابق
تعلیم دی جانے لگی۔ اسی دوران ازہر کی اعلی کونسل اور علماء کی کمیٹیوں کا
قیام بھی عمل میں لایا گیا اور ازہر میں خدماتی و وظیفہ جاتی نظام کو وضع
کیا گیا جن کے اراکین کو مختلف مذاہب حنفی، مالکی، حنبلی اور شافعی سے
اختیار کیاگیا۔ اسی عرصے میں مصر کے مختلف شہروں میں ازہر نے اپنے تعلیمی
مراکز بنانے کی ابتداء کی۔ قابل ذکر بات ہے کہ ابھی مصر کا کوئی شہر، قصبہ
اور دیہات اس سے خالی نہیں ہے۔ یہاں تک ہی بات مکمل نہیں ہوتی بلکہ یہ
ازہری ادارے مصری سرحدوں سے نکل کر عالم اسلام اور مغربی دنیا کو اپنے فکری
و نظریاتی امتیاز اور میانہ روی و اعتدال کے حسین اسلوب ومنہج سے نواز رہے
ہیں۔
پاکستان میں جامعہ ازہر رابطہ آفس کا قیام اور مقاصد و اہداف
فروری 2010م میں منہاج یونی ورسٹی لاہور میں ایک عظیم الشان پاکستانی
ازہریوں کا اجلاس منعقد ہواجس میں ازہر سے تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹروں
اور گریجوایٹس کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس اجلاس کی صدارت جامعہ ازہر کے
وائس چانسلر ڈاکٹر اسماعیل عبد النبی جواد نے کی اور ان کے ساتھ مصری سفارت
خانے سے فرسٹ سیکرٹری جناب احمد عبدالعظیم اور ازہر یونی ورسٹی شعبہ اردو
کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کے علاوہ مختلف جامعات کے ہیڈ
آف ڈیپارٹمنٹس اور عظیم مذہبی سکالرز نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں جامعہ
ازہر کے وائس چانسلر ڈاکٹر اسماعیل عبد النبی جوادنے شیخ الازہر امام اکبر
ڈاکٹر احمد الطیب کی نیابت میں پاکستانی ازہریوں کی درخواست پر منہاج یونی
ورسٹی لاہور میں جامعہ ازہر رابطہ آفس کے قیام اعلان کیا۔ ماہ ستمبر میں
جامعہ ازہر رابطہ آفس نے شیخ الازہر امام اکبر پروفیسرڈاکٹر احمد الطیب کے
حکم پر منہاج یونی ورسٹی کے تعاون کے ساتھ اسلام آباد میں اپنے کام کا آغاز
کیااور وہ احسن طریقے سے ازہر کے اہداف ومقاصد کی تکمیل کے لیے زیرعمل ہے۔
پاکستان میں جامعہ ازہر رابطہ آفس کے قیام کے اہم مقاصد میں سے ہے کہ میانہ
روی اور اعتدال پر مبنی عظیم فکر کو پاکستان میں پروان چڑھایا جائے اور
مختلف نظریات کے حامل لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے ازہر کے فارغ
التحصیل اسکالرز کی اعلی صلاحیتوں اور قدرتوں سے استفادہ کیا جائے اور امت
مسلمہ کے تمام گروہوں اور جماعتوں کے مابین ہم آہنگی، اعتقادی اصلاح،
معاشرے میں عفو و درگزر اور امن و سلامتی کے خیالات کو ترویج دی جائے۔
ان عظیم مقاصد کے حصول کے لیے ازہریین الاقوامی سطح پر علماء و ائمہ اور
خطباء و واعظین کو اپنی آغوش میں لے کر ان کی ایسی تربیت کرناچاہتا ہے کہ
ان کی فکری ساخت تبدیل ہوجائے اوران کی ترجیحات کی تنظیم نو کی جائے اور
انہیں اعتدال کی راہوں پر گامزن کیا جائے اور دوسرے ادیان کے ساتھ افہام
وتفہیم کی راہیں کھولی جائیں۔ اسی غرض کو پوراکرنے کے لیے اور مختلف ادیان
کے مابین گفتگو کرانے کے لیے ازہر نے ایک ڈائیلاگ فورم تشکیل دے رکھا ہے جو
مختلف ادیان ومذاہب کے مابین افہام وتفہیم پیدا کرنے اور گفتگو کرانے کی
راہیں ہموار کر رہا ہے اور نئے آفاق کو وسعت دے رہا ہے۔
یہ بات یاد رہے کہ ازہر نے کبھی بھی گروہی و دینی تشدد، سختی اور انتہاء
پسندی کی حمایت نہیں کی بلکہ تشدد، سختی اور انتہاء پسندی سے انسانی نفوس
کو پاک کرنے کے لیے اس نے ہمیشہ لازوال کوششیں سر انجام دی ہیں۔
آخر میں حالیہ شیخ الازہر ڈاکٹر احمدالطیب کا قول دیکھتے ہیں۔ وہ فرماتے
ہیں کہ میں نے ازہر میں پچاس سال کا عرصہ بطور طالب علم، پروفیسر، مفتی،
پرنسپل، وائس چانسلر اور بطور شیخ الازہر گزارا ہے۔ میں نے اس طویل عرصے
میں کبھی بھی ازہر کی فکر اور اسلوب میں کسی سطح پر بھی تشدد، سختی اور
انتہاء پسندی کا شائبہ تک ملاحظہ نہیں کیا۔
بشکریہ:
شفاقت علی بغدادی (جنرل سیکرٹری و ڈائریکٹر پاکستان برانچ) |