دینی تعلیم-چند سوالات

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال:
تجارت کے متعلق رہنمائی درکار ہے، اس پر کچھ روشنی ڈالیں۔

جواب: اللہ رب العالمین قرآن مجید سورہ نساءآیت 29میں فرماتے ہیں:
ترجمہ: ”اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ، مگریہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضامندی کاہو۔“

اس آیت مقدسہ میں مال ناحق کی ممانعت اور تجارت وغیرہ کی اجازت دی گئی ہے۔ لہذا شریعت اسلامیہ میں انسان کی انفرادی اوراجتماعی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے دوسروں کا مال کچھ شرائط کے ساتھ لینا جائز قرار دیا گیا ہے، اس کےلئے کچھ ذرائع مقرر ہیں جو کہ یہ ہیں:

تجارت، اجرت، مہر، ہبہ، میراث، عاریت، ملازمت، خیرات، صدقات، دیات کاجرمانہ وغیرہ

ان میں سے حصول زرکاسب سے اہم ذریعہ تجارت ہے۔

مال کامال سے تبادلہ، جس میں مقصد نفع ہو، تجارت کہلاتاہے۔ تجارت کی مختلف اقسام ہیں۔ اور وہ تجارت جس میں درج ذیل دو شرطیں پائی جائیں وہ جائز ہے۔ اگر یہ شرائط نہ ہوںتویہ سودا حرام ہے۔ شرائط یہ ہیں:
1۔ بیچنے والے اورخریدنے والے کی باہمی رضامندی۔
2۔ جو شی خریدی بیچی جارہی ہے اس کی تجارت شرعًاجائزہو۔

تجارت میں باہمی رضامندی یہ ہے کہ خریداراوربیچنے والے پرکوئی جبرنہ ہووہ اپنی مرضی سے، اپنی ضرورت کےلئے خریدے یافروخت کرے۔ اگرتجارت میں رضامندی نہ ہو تو وہ سودا خریدنا اور اس سے نفع لینا ناجائز ہے۔ قرآن مجیدمیں باہمی رضامندی کوبڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اور حدیث پاک میں ہے: ”مسلمان کامال دوسرے کےلئے اس کی دلی رضامندی کے بغیرحلال نہیں۔“

بہرحال تجارت اعلٰی اوربابرکت پیشہ ہے، اس سے حاصل ہونے والی کمائی حلال وطیب ہے۔ بلکہ کہاگیاہے رزق کے دس حصوںمیں سے نوحصے تجارت سے حاصل ہوتے ہیں اورایک حصہ دوسرے پیشوںسے۔ جبکہ احادیث صحیحہ میں مومن تاجرکی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ حضورسیدالمرسلین ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: ”سچا، امانت دار، مسلمان تاجر بروزقیامت انبیائ، صدیقین اورشہداءکے ساتھ ہوگا۔“

سوال:
رسول اللہﷺ نے نابینا کےلئے دعا فرمائی تھی، اس حدیث کی تفصیل اور حوالہ درکار ہے۔

جواب: امام ترمذی، امام ابن ماجہ، امام ابن خزیمہ، امام حاکم، امام احمد، امام طبرانی اور کئی دیگر محدثین نے صحیح سند کےساتھ روایت کیا ہے کہ”ایک نابینا صحابی نے نبی اکرمﷺ سے آنکھوں کی بینائی کےلئے دعا کی درخواست کی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر چاہے تو دعا کرتا ہوں اور اگر تو صبر کرے تو زیادہ بہتر ہے۔ نابینا صحابی نے دعاءکےلئے اصرار کیا تو نبی اکرمﷺ نے اسے فرمایا: اچھی طرح وضو کرکے دو رکعت پڑھو پھر یہ دعا کرو:
اَللّٰھُمَّ اِنِّی ´ اَس ´ئَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَی ´کَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّح ´مَةِ یَامُحَمَّدُ اِنِّی ´ تَوَجَّھ ´تُ بِکَ اِلیٰ رَبِّی ´ فِی ´ حَاجَتِی ´ ھٰذِہ لِتُق ´ضیٰ لِی ´ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّع ´ہُ فِیَّ۔
ترجمہ: ”اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں سوال کرتا ہوں اور تیری بارگاہ میں تیرے نبی، نبی رحمت کے وسیلہ سے متوجہ ہوتا ہوں۔ یامحمد (ﷺ) میں آپکے وسیلہ سے اپنی اس حاجت کےلئے اپنے رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ پوری کی جائے۔ اے اللہ! میرے حق میں حضور کی شفاعت قبول فرما“

اس حدیث کے راوی حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ نابینا صحابی واپس آئے تو وہ بینا ہو چکے تھے، گویا کہ انہیں پہلے کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔

حوالہ : ”مستدرک علی الصحیحین للحاکم“ کتاب الدعا والتکبیر والتھلیل الخ، جز:1، صفحہ: 707

سوال:
سود کیا ہے نیز اس کا حکم تحریر کردیجئے!

جواب: رقم دے کر اس کے عوض اصل سے زائد رقم مقرر کرکے وصول کرنا، یا دو ایسی چیزیں جو ہم جنس ہوں اور وزن یا کیل کی جاتی ہوں کے لین دین میں کمی یا اضافہ کرنا یا ادھار کرنا ”ربا“ یعنی سود ہے۔ قرآن وسنت میں سود کو بہت بڑا گناہ اور اسے سخت ممنوع قرار دیا گیا ہے، بلکہ قرآن مجید میں سود خوروں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کریمﷺ کے ساتھ جنگ کا چیلنج کیا گیا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، سود کا حساب و کتاب لکھنے والے اور سودی کاروبار میں گواہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ اس وقت دنیا میں افراط زر، مہنگائی اور تجارتی خساروں کی بڑی وجہ سود ہی ہے۔ یہ تو دنیاوی نقصان ہے اور آخرت میں جو درد ناک عذاب ہے اللہ کی پناہ! حدیث پاک میں ہے کہ شب معراج رسول اللہﷺ نے سود خوروں کو جہنم میں اس حال میں دیکھا کہ ان کے پیٹ بڑی بڑی کوٹھڑیوں کی طرح ہیں اور یہ لوگ جہنم میں پتھر اور تھوہر کے کانٹے کھا رہے ہیں۔

سوال:
طلاق ثلاثہ کے نفاذ کے متلعق آئمہ اربعہ کی دلیل کیا ہے؟

جواب: اس سلسلہ میں ایک دلیل ملاحظہ فرمائیں:
صحاح ستہ میں سے سنن ابن ماجہ، کتاب الطلاق، باب من طلق ثلثا فی مجلس واحد، حدیث نمبر 2014، ترقیم العلمیہ ملاحظفہ فرمائیں:
ترجمہ: ”حضرت عامر شعبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے کہا مجھے اپنی طلاق کے بارے میں بتائیں تو انہوں نے کہا میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دے دیں جبکہ وہ یمن جارہے تھے تو رسول اللہﷺ نے ان (تینوں طلاقوں) کونافذ کردیا۔“
Pir Usman Afzal Qadri
About the Author: Pir Usman Afzal Qadri Read More Articles by Pir Usman Afzal Qadri: 27 Articles with 55995 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.