اک طرفہ تماشہ ہے رشدی کی مصیبت بھی

رشدی تنازع نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کردیا ہے کے کارپوریٹ کی دنیا نہ صرف عجب ہے بلکہ’غضب ‘ بھی خوب ڈھاتی ہے۔پورے عالم پر محیط مذہب بنام نام نہاد اظہار خیال کی آزادی کی ’لڑائی‘ میںبھلا ہندوستان کیسے پیچھے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی دہلی یونیورسٹی کے تعلیمی نصاب میں شامل متنازع مضمون اور روس میں گیتا پر پابندی لگائے جانے کاتنازع ٹھنڈا بھی نہیں پڑا تھاکہ رشدی کی ڈگڈگی نے کارپوریٹ گھرانوں میں امید کی ایک نئی شعاع پیدا کردی۔توہین رسالتﷺ کے خلاف بدنام زمانہ شاتم رسولﷺ کی بے ادبی جے پور کے ادبی میلے کو ایسی راس آئی کہ نہ صرف پورے عالم میں اسے مفت کی شہرت نصیب ہوگئی بلکہ متعدد کاروباری شعبوں کو اپنی دوکان چمکانے کایا جیبیں کاٹنے موقع مل گیا ۔ بالکل اس طرح جیسے مداری اپنے جمہورے کے ساتھ حلقہ لگائے تماشہ دکھاتا رہتا ہے جبکہ جیب کترے‘اٹھائی گیرے اورہالی موالی اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ شائقین کو پتہ بھی نہیں چلتا کے میلے میں کب ان کی جیب کٹ گئی ‘ کب ان کا دلاراآنکھوں کا تار ان سے جدا ہوگیا اورکب خریدے ہوئے سامان کی گٹھڑی ان کی بغل سے جدا ہوگئی۔دراصل صارف کوجتنا دکھائی دیتا ہے ، اس سے کہیں زیادہ پردوں کے پیچھے چھپا رہتا ہے جسے کارپوریٹ کی ’بصیرت ‘ہی سمجھ سکتی ہے۔کیا یہ ممکن تھا کہ کوئی کتب فروش ہندوستان میں’شیطانی آیات‘پر پابندی ہوے کے باوجودفوٹو اسٹیٹ ایڈیشن کو فروخت کرلیتا اپنی کوڑیوں کی چیز اشرفیوں کے مول بیچ دیتا؟لیکن وطن عزیز میں فوٹو کاپیوں سے لیکر انٹر نیٹ ہٹس تک بے شمار ایسے شعبے ہیں جنھوں نے اس آگ میں خوب ہاتھ تاپے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کارپوریٹ دنیا میں ’ٹاپ لیول‘ پر کام کرنے والے اگزیکٹو خاصے ’وزنی‘ ہوتے ہیں۔ کمپنی کو منافع کموانا ہی ان کا سب سے بڑا ہنر ہے اور ضرورت بھی! پھر اس کیلئے چاہے کسی بھی حد تک انھیں کیوں نہ جانا پڑے۔ کمپنی کو منافع ہو تو ان کی بھی جیب بھاری ، اتنی بھاری کہ غریب ہندوستان خود کو بے وزن اور ہلکا سمجھنے لگا۔ کارپوریٹ دنیا کو سمجھنے کیلئے ان سطروں کا مطالعہ ضروری ہوجاتا ہے۔

وہ بورڈ روم کی میٹنگوں میں ڈریس کوڈ کاعمل پورا کرتے ہیں۔ پانی پینے سے لیکر چھینکنے او رکھانسنے کے بعد بھی’ایکسکیوز می‘ کہتے ہیں ، پروجیکٹر سے پیش کی گئی سلائیڈوں پر رچی گئی کاروباری حکمت عملی کو نہایت دیانتداری سے درج کرتے ہیں۔ گاڑی میں بیٹھ کر اس وقت تک انتظار کرتے ہیں جب تک ڈرائیور پچھلا دروازہ نہیں کھول دیتا۔ کئی موبائل رکھتے ہیں اور بلیک بیری پر بات چیت میں مصروف رہتے ہیں۔ شام کو تھوڑے انفرملس یعنی ٹی شرٹ وغیرہ پہن کر کلبوں میں جاتے ہیں اور گولف کلب اور جم خانہ کلب کے ممبر بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان ابتدائی کلمات اور نشانیوں کے ذریعہ جدید تہذیب کی گود میں پلنے والی کارپوریٹ دنیا کوپہچانا جاسکتا ہے۔

سب سے پہلے بنیادی بات ہو جائے۔ کارپوریٹ لفظ بنا ہے کارپوریشن سے اور کارپوریشن کا مطلب فرہنگ میں وہ قانونی قرار ہوتا ہے جو آزاد حیثیت سے کاروبار کر سکتی ہے۔ کل ملا کر کارپوریٹ ایک کاروباری تنظیم کا نام ہوتا ہے اور ہندوستان میں جہاں کاروبار بھلے ہی چاوڑی یا صدر بازار سے چلتا ہو لیکن اس کے بارے میں بات چیت فائیو اسٹار ہوٹل کی کافی شاپ میں ہوتی ہے۔ اسے ہی کارپوریٹ کلچر کہا جاتا ہے۔کمانے کو ملک کے بڑے شہروں کے پرانے علاقوں میں بینک اکاؤنٹس لے کر بیٹھے لوگ زیادہ کماتے ہوں گے لیکن انہیں سائیکل پر نکلنے میں بھی شرم نہیں آتی لیکن اپنے ملک کی جو جدید کارپوریٹ دنیا ہے ، اس کا انٹرٹینمیٹ یعنی محض پارٹی بازی کاسالانہ اوسط خرچ 100 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ ریزرو بینک کے اکاؤنٹس میں درج ہے کہ 10 لاکھ روپے تک کی حد کے کارپوریٹ کریڈٹ کارڈ ہی تقریبا 15 لاکھ ہیں۔ انہیں بھی اچانک جہاز پکڑنے اور ہوٹلوں کے اخراجات کے بل ادا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ظاہر ہے اگر رشدی خوف کا مارا نہ ہوتا تو اسپانسر اسے فوری طور پر پرواز کروانے سے بھی نہ چوکتے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی شاید ہندوستان میں آنے والی پہلی کارپوریٹ تھی۔ اسی کے افسروں نے آج کے بڑے بڑے کلبوں ، پولو گلف اور دوڑ کی شروعات کی۔ وہ چارٹر جہازوں کا زمانہ نہیں تھا ، اس لئے وہ لوگ چارٹر کاروں میں چلتے تھے۔ چارٹر کار اس لئے کہا گیا کیونکہ اس زمانے میں سڑک پر وارد ہونے والی کار کو لوگ اتنی حیرت اور تعجب سے دیکھتے تھے ، جتنے استعجاب سے آپ اپنے آنگن میں اتر آنے والے ہیلی کاپٹر کو بھی نہیں دیکھیں گے۔کارپوریٹ کلچر ہندوستان میں اب پورے شباب پر ہے۔ اس کے کئی علامات اور کئی چہرے ہیں۔ ایک چہرہ تو وین ٹیلے ، بی ایم ڈبلیو اور مرسڈیز کاروں والا ہے۔ دنیا کی سب سے بیمثال رولس رائس کار میں کارپوریٹ سربراہ سفر نہیں کرتے۔ وہ زیادہ تیز نہیں بھاگتی جبکہ کارپوریٹ کلچر میں ایک ایک منٹ‘ ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہوتا ہے۔ دوسرا چہرہ رابطہ عامہ ایجنسیوں کے نام پر ’جگاڑ‘ کرنے والے اداروں کا ہے ۔ جن میں رشدی جیسوں کے پیغام پڑھوانے والا ٹوئٹر اور سرچ کروانے والے انجن بھی شامل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ایجنسیوں کے ضمن میں بعض کے نام سامنے آ جاتے ہیں جبکہ بے شمار تو صیغہ راز میں ہی رہتے ہیں ۔جوسامنے نہیں آتے ، وہ اصل میں زیادہ بڑے سودے کر نے میں مشغول ہوتے ہیں۔
کارپوریٹ دنیا کی بات کرنے میں کئی حجاب کے موضوع بھی ہیں۔ جس ملک میں غربت کی سرحد کی لکیر یا خط افلاس کے نیچے تقریبا نصف آبادی رہتی ہو ، وہاں آئی آئی ٹی اور ای ای ایم سے نکلے نئے چمکدار چہروں کو تین چار لاکھ روپے مہینہ (بلکہ زیادہ بھی) کی اوسط سے محض تنخواہ ملتی ہے۔ ایک اسیٹو نام کی چیز کا ایجاد بھی ہو گیا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ جتنا’ دھندہ‘ کرواؤگے ، اتنی ہی’ عیش‘ کرو گے۔ کارپوریٹ کی حکمت عملی طے کرنے کیلئے منعقد کئے جانے والے اجلاس کم سے کم کسی ساحلی مقام جیسے گوا یاتفریحی علاقہ میسور میں ہوتے ہیں۔ یہ وہ کمپنیاں ہوتی ہیں جو ابھی کارپوریٹ بننے کے پہلے یا دوسرے زمرے پر کھڑی ہوتی ہے ، بصورت دیگریہ اجلاس سنگاپور میں یا لندن میں منعقدہوتے ہیں۔ ملک کی ایک کمپنی کو مےڈاگاسکر کے سمندر میں کروز کرائے پر لے کر اپنے ایگزیکٹیوس کو چارٹر جہازوں سے لے جانے کی گویا’عادت‘ ہے۔

اب یہ اپنی اپنی ادائیں ہیں جبکہ آج کل حکومتیں بھی کارپوریٹ ہونے لگی ہیں۔متنازع معاملات کو سلجھانے کی بجائے اسے خوب ہوا دیتی ہیں۔ انگلینڈ رشدی کو پناہ دیتا ہے تو تسلیمہ نسرین کو ہندوستان میں ٹھکانہ مل جاتا ہے۔ مشرف صدارت چھوڑ کر ملک سے باہر روٹیاں سینکتے پھرتے ہیں تو ایم ایف حسین کے سر پر ہاتھ رکھنے کیلئے بھی دنیا کی کوئی نہ کوئی حکومت تیار ہوہی جاتی ہے کہ سب کے اپنے اپنے مفاد ہیں‘ خواہ اپنے ملک میں خالصتان کی خارجی حکومت ہی کیوں نہ قائم کرونی پڑ جائے۔ اسی رجحان کی وجہ سے ملک میں ای گورنس کا زمانہ تو خیر اب آیا ہے لیکن بقول شخصے ریاستوں کے’ وزرائے اعلی‘ نے اپنے آپ کو سی ای او یعنی چیف ایگزیکٹیوافسرکہلوانا بہت پہلے ہی شروع کر دیا تھا۔ آج کے زمانے میں بھی تین چار وزیر اعلی ایسے ہیں جو اپنے آپ کو سی ای او مانتے ہیں اور جب بھول جاتے ہیں تو ان کے آس پاس کے افسر انہیں یاد دلا دیتے ہیں کہ سر ، عوام نے بھلے ہی منتخب کیا ہو مگر آپ تو سی ای او ہیں۔

سچ بات تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں بھی لوک سےوایا خدمت خلق اور کاروباری کارپوریٹ کلچر کی دوری مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ لوک سےوا کا مطلب یہاں کھادی کا کرتہ پاجامے پہن کر گاؤں درگاؤں جاکر عوامی بیداری پیدا کرنا نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں انتظامی خدمات مہیا کروانے والے ادارے کا نام بھی لوک سیوا آیوگ ہے۔ اس آیوگ یاکمیشن سے جو افسر منتخب جاتے ہیں‘ آج کل انہیں بھی غیر ملکی کمپنیوں میں کارپوریٹ ٹریننگ دی جاتی ہے اور ہر سال کم سے کم 20سے25 قابل آئی اے ایس افسر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں چلے جاتے ہیں۔ کچھ افسر عوام کی خدمت ملٹی نےشنل طرز پر انجام دیتے ہیں یعنی وہ این جی او کے نام کی ان دکانوں میں سے کسی ایک میں کام کرتے ہیں جنہیں غیر ملکی کرنسی میں رقم ملتی ہے۔ یہ دوسرے طرز کا کارپوریٹ کلچر ہے جہاں دیہاتی کپڑے ہی اصل کارپوریٹ کپڑے ہیں اور اسی کی مانیٹرنگ ہوتی ہے۔ امریکہ اور سوئٹزرلینڈ جانے والے جہازوں کی ایگزیکیٹو کلاس میں آپ کو عام طور پر ایسے ہی کھادی کے کرتے اورصدرزیب تن کئے ہوئے افراد مل جائیں گے جو بڑے شوق سے فحش رسالہ ’پلے بوئے‘ کے مطالعے میں غرق ہوں گے یا اپنے سیل فون پر بلیو فلموں سے’ لطف اندوز‘ ہو رہے ہوں گے۔

ایک پورامعاشرہ ہے ، جو کارپوریٹ کلچر کے گرد گھومتا ہے۔ اس سماج میںنام نہاد صحافی ‘مصنفین اور دانشوربھی شامل ہیں ۔ جس کی مثال اردو قارئین کے سامنے رشدی او تسلیمہ جیسی شخصیتوں کی شکل میں ہے جبکہ موقع پرست لیڈر ان ، افسران اور سماجی تنظیموں کے طاقتور ترجمان بھی اس میں شامل ہیں بلکہ ہر وہ شخص شامل ہے جو ملک کی پالیسیوں اور ان کے عمل پر کوئی اثر انداز ہونے کی صلاحیت کا حامل ہے‘ان پر الگ الگ انداز میں احسانات اور نوازشیں کی جاتی ہیں اور ان کو تحفہ کے پیکنگ میں سپرد جاتا ہے۔ کچھ دن پہلے وزارت داخلہ کے ایک اچھے خاصے آئی اے ایس افسر کمپنیوں کو سرکاری پالیسیاں قبل از وقت بتانے کیلئے دھر لیاگیا تھا۔ ان کا سارا کاروبار فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ہوتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ کارپوریٹ جاسوسی اور کارپوریٹ لابی رسم بھی اب زور شور سے رواج پا چکی ہے۔ منتخب ایوانوں میں حکومت تک اپنی بات پہنچانے یا کسی دوسرے پر جاری احسانات کو رکوانے کیلئے متعددابن الوقت عزت مآب عوامی نمائندے میسر ہیں۔ ظاہرہے اس کامیابی کی کوئی قیمت بھی ہوتی ہو گی۔رشدی اور تسلیمہ جیسے اکثر صحافیوں اور دانشوروں کے گروہ کسی دور دراز اور گمنام ممالک کیلئے نکل جاتے ہیں اور بھاری تحفے لے کر لوٹتے ہیں۔ کسٹم وغیرہ کا دھیان تو کارپوریٹ کے پیادے رکھ لیتے ہیں۔

کارپوریٹ کبھی محض’اسم‘ ہوا کرتا تھا لیکن اب’ صفت‘ بن گیا ہے اور جلد ہی ’کاروبار‘ کا ایک لازمی لفظ بن جائے گا۔ پوری دنیا میں کارپوریٹ کلچر جس طرح سے بدل رہا ہے ، ہمارے یہاں بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے آنے کے بعد فائیو اسٹار ہوٹلوں اور ائیر لائن سروسز کا کاروبار بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ دلالی کا ایک منفردا سٹائل ہے اور اس میں اور اس میں اتنا ہی فرق ہے ، جتنا سیکس ورکر ہونے یاطوائف ہونے میں ہوتا ہے۔ پھر بھی بچکر کہاں جائیں گے؟ کارپوریٹ آپکو چاروں طرف سے گھیر رہا ہے۔ بجلی کا بل ادا کرنے کیلئے جو فون آتے ہیں ، گھر پر چیک لینے لوگ آتے ہیں اور بینکوں کے نمائندے آپ کے اکاؤنٹ کھولنے آپ کے گھر یا دفتر چلے آتے ہیں ، یہ بھی اسی تہذیب کا ایک اور چہرہ ہے۔

کارپوریٹ ہندوستان اور عام ہندوستان میں اتنا ہی فرق ہے ، جتنا سٹی اور ٹاؤن میں یا ہندوستان اور انڈیا میں ہوتا ہے۔ کارپوریٹ دنیا جدید ہندوستان یعنی انڈیا کی نشانی ہے اور اسی کی علامت ہے۔ اسے کاروبار کے ’بیمار‘ ہونے کا علامت بھی مانا جا سکتا ہے۔ اس کارپوریٹ دنیا کے کچھ ضروری آلات ہیں۔ ایسا نہیں کہ موبائل فون کی تلاش کے پہلے دنیا میں کارپوریٹ ضرورتوں کی کمی تھی مگر موبائل آ جانے کے بعد یہ دنیا کچھ آسان ہو گئی ہے۔ کم لوگ جانتے ہیں کہ بلیک بیری فون پر سیکورٹی وجوہات کی بنا پر پابندی کی جو لابیLobby سب سے زیادہ مخالفت کر رہی تھی ، اس کا اس فون کے کاروبارسے کوئی لینا دینا نہیں تھا بلکہ کارپوریٹ کو ’خوبصورتی‘ اور’حسن‘ بخشناہے کہ وہ اپنے فون سے ہی ای میل کر سکیں اور یہ احساس دلاسکیں کہ ہم کام کے تئیں کتنے سنجیدہ ہیں ، ظاہر ہے وہ بلیک بیری پر پابندی کی مخالفت کئے بغیر ممکن نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ بلیک بیری کی طرح ہی رشدی اور تسلیمہ جیسی شخصیتیں مقبول اور ہٹHitہوتی چلی گئیں۔

کارپوریٹ دنیا میں دلالوں کا بڑ اہم کردار ہے۔ ان دلالوں کو زبان کے ساتھ جنسی استحصال کرتے ہوئے نام نہاد’رلیشن منیجر‘ یا ’کارپوریٹ کمیونکےشن ایکسپرٹ‘ کہتے ہیں۔ یہ لوگ بظاہر کوئی کام کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے ، اس کے باوجود مہنگی کاروں سے لے کر نجی جہازوں تک میں اڑتے ہیں جبکہ ہ ملاقات کا وقت فائیو اسٹار ہوٹلوں میں طے کرتے ہیں۔ ویسے بھی جو ذرا بھی کارپوریٹ ہے ، اس کے ہر میٹرو سٹی میں کچھ ہوٹل بک ہوتے ہیں بلکہ سال بھر کیلئے بک رہتے ہیں۔ جب ملاقاتیں کرنی ہوں تو ملاقاتیں ہوتی ہیں ، بصورت دیگرفائیو اسٹار ہوٹل کے کمروں کے اور بھی بہت سے استعمال ہوتے ہیں۔کارپوریٹ کی اپنی یونیفارم ہوتی ہے اور ضروری نہیں کہ وہ تھری پیس سوٹ اور ٹائی وغیرہ ہی ہو۔ آج کل جب سے روایت اور تاریخ کو جدید ماننے کا فیشن چل پڑا ہے تو یہ پوشاکیں اور لباس تو’ چلتی‘ ہی ہیں ، چوڑی دار پاجامے اور ریشمی کرتے اورصدریاں بھی کارپوریٹ کا بہت بڑا حصہ ہو گئی ہیں۔

اسی لئے مثل مشہور ہے کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے جبکہ کارپوریٹ دنیا میں بڑے پیار سے ناجائز کو جائز بنا لیا جاتا ہے۔ برسوں تک رابطہ عامہ کا کام کرتے کرتے لوگ موقع پرست صحافیوں اور دانشوروں کی بدولت بڑے صنعتی گھرانوں کے وائس پریزیڈنٹ تک بن جاتے ہیں اور کریڈٹ کارڈ سے 50 لاکھ روپے تک ایک بار میں خرچ کر سکتے ہیں۔ رابطہ عامہ کے علاوہ ان کا کام کارپوریٹ جاسوسی کا بھی ہے۔کارپوریٹ جاسوسی بھی ہندوستان کی مارکیٹ کیلئے نئی مصیبت ضرور ہے لیکن کام بہت آتی ہے۔ ٹینڈر سے لے کر لائسنس تک کی معلومات ہی اس دھندے کی کرنسی ہیں اور اسی کرنسی کے ذریعے دلالوں سے لے کر کمپنیوں سے اندر تک کی معلومات پر حاتھ صاف کرلیتے ہیں۔ کارپوریٹ جاسوسوں کی اپنی دنیا ہے ۔ حال میں ممبئی میں ایک بڑی کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر کو اجلاس سے باہر کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ صاحب اپنا موبائل آن کر کے بیٹھے ہوئے تھے اور دوسرے سرے پر دیگر کمپنی والے بورڈکی میٹنگ کی پوری کارروائی سن رہے تھے لیکن انھیں کو ایک دن بھی بے روزگار نہیں رہنا پڑا اور ’مشیر ‘کے طور پر یہ دوسری کمپنی کیلئے کام کرنے لگے۔کارپوریٹ دنیافضول قسم کے خارجی سفر ، کمپنی کی بورڈ میٹنگ گوا میں کرنے ، نئے سال پر اسکاچ کے درجہ بندی کے حساب سے بڑے بڑے پیکٹ بھیجنے ، وزراءکے’اہل و عیال‘ کی بیرون ملک پڑھائی اور غیر ملکی کرنسی میں فیس کا انتظام کروانے سے لے کر میڈیا میں ’اتار چڑھاؤ‘ تک بکھری ہوئی ہے جبکہ اس میں متعدد عیاریوںبلکہ ہوشیاروں پر سے نقاب اٹھنا باقی ہے۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 126101 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More