ایک عام مگر بہت خاص بات ہے جس
کا ذکر اکثرتبلیغی جماعت کے حضرات کرتے رہتے ہیں مگر ہم نے شاہد کبھی توجہ
نہ دی مگر بات کام کی ہے ۔جان ،مال اور وقت جب بھی آپ کسی کام میں اِن
تینوں چیزوں کو بروئے کار لاتے ہیں تو فطرت اُس کام میں آپ کو کامیابی
وکامرانی عطا کرتی ہے ۔اور یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ انسان جس کام میں جان ،مال
اور وقت لگاتا ہے اس کی قدر بھی ہوتی ہے ۔موجودہ دور چوں کہ میڈیا کا دور
کہلاتا ہے لہذاہ اب ما ل تو لگتا دکھائی دیتا ہے مگر وقت اور جان نہیں ۔آج
کل شدت کے ساتھ ہر جگہ جلسے و جلوس منعقد کیے جانے لگے ہیں اور اس میں
تقریباً ہر جماعت اپنی طاقت کا مظاہرہ دکھا رہی ہے ۔کہیں سونامی لائے جارہے
ہیں تو کہیں اقبال کے شاہینوں کو پرواز کے لئے پرَ دکھائے جارہے ہیں ۔کہیں
پر کوئی اگر صوبوں کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے تو دوسری طرف
جاگیر دار کو للکار کر غریب غریب کو جانسا دیا جارہا ہے ۔
جہاں ہر طرف جلسے ،جلوس ہورہے ہیں وہاں پر جمعیت علمائے اسلام بھی کوئٹہ کے
بعد کراچی میں جلسے کا اعلان کر چکی ہے اور خیر سے یہ جلسہ بھی کہنے کو تو
شاہراہ قائدین پر ہو گا مگر مزارِ قائد جہاں” للکارِ سونامی “جو پہلے تو
کپتان کے اچھے لقب سے ملقب تھے مگر شاید خود انہیں یا اُن کے مشیروں کو
اچھا نہیں لگا وہ اپنا سونامی لے کر آئے تھے پھر اُس کے بعد اُن کے پرانے
محسن اور ان کے گرد حلقہ ”انصاف “ میں شامل بہت ساروں کے تاحال مربی بھی
اپنا حیثیت ظاہر کر چکے ہیں اور اس جگہ کے بہت قریب ہوگا۔گزشتہ دونوں جلسے
اتوار کے دن ہوئے مگر اب مولانا کا جلسہ جمعہ کے دن ہوگا۔ابھی تک کسی جمعیت
علمائے اسلام کے رہنماکے بیان میں سونامی کا ذکر نہیں آیا یہ حیرت تو اس
لئے ہے کہ اس شاہراہ کو بھرنے کے لئے توخان کے ”سونامی “کی ضرورت ہے ،یہاں
سونامی نہیں بلکہ” زندہ باد“کے حوصلہ افزا ءنعرے کے سلوگن سے جلسے کی تیاری
کی جارہی ہے دوسرے الفاظ میں سونامی کی مایوسی اور حقیقت سے آگاہی کے لئے
”اسلام زندہ باد کانفرس “کے نام سے 27جنوری کا اعلان کیا گیا ہے ۔اتنے سارے
جلسے ہو چکے کراچی میں اور بڑے بڑے سیاست دان ان جلسوں میں اُدھر سے اِدھر
ہوئے جن سے اُن جلسوں کا مقصد واضح توہوتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ بہت سارے
سوالات بھی ان کے آگے اور پیچھے ہو گئے ہیں جن کے جوابات بالآخر انہیں آج
نہیں تو کل دینے پڑیں گے ۔ شاید خان صاحب کو یہ بھی بتانا پڑھے کہ سونامی
تو سب سے پہلے مرکز کو بہا کر لے جاتا ہے اور ان کے مرکز کی حالت کیسے
برقرار ہے یا بظاہر ایسا ہے اور ان کے مرکز کو ضمان کیسے مل گیا اس سونامی
سے ؟
جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن کی پالیسیوں سے لاکھ اختلاف کے
باوجو د بھی کوئی مولانا کی فہم و فراصت ،دوراندیشی اور ان کی سیاست بصیرت
سے انکار نہیں کرسکتا ۔ان کی ا س سوچ کو سمجھنے کے لئے اگر موجودہ حالات
میں ان کی چند سیاسی سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو حامد میر کی اس جواب میں
بالکل ابہام نہیں رہتا کہ مولانا فضل الرحمان بلا شبہ اس وقت تمام سیاست
دانوں کے سامنے اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ایسے وقت میں کی تمام سیاسی جماعتیں
ایک دوسرے کے ناراض رہنماﺅں کے پیچھے پڑھے ہوئے تھے اور ایک دوسرے کے حلقوں
میں سر چڑھ کر جلسے کر رہے تھے مولانا فضل الرحمن وہ واحد سیاست دان ہیں
جنہوں نے بلوچستان کے مایوس عوامی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے وہاں جلسہ
کیا اس کے علاوہ باقی تمام سیاسی زعماءنے باقی صوبوں میں سونامی اور نئے
صوبوں کے متعصب اور کھوکھلے نعروں سے ہی فارغت نہیں کہ ان کو ملک کے سب سے
بڑے اورقدرتی وسائل سے مالامال صوبے کی ناراض عوام کا خیال آئے ۔
نوازشریف کی بھی سیاست مولانا کی سیاست کے بعد نظر آتی ہے جبھی انہوں نے
بھی خیبر پختونخواہ ،پنجاب، سندھ کے بعد بلوچستان کا دورہ کیا ۔اس کے علاوہ
ایسے سیاستدان جو وقتی ہوا کے رخ پر چلتے ہیں ان میں اور مولانا کے مابین
ایک اور ہم حالیہ ایشو ”میمو گیٹ“کا بھی ہے جس پر مولانا کا پہلے دن ہی
سامنے آنے والا مؤقف اگرچہ بڑا عجیب سا لگا مگر آہستہ آہستہ حقیقت اسی بیان
کے گرد نظر آرہی ہے جس کا اظہار مولانا فضل الرحمن نے شروع میں کردیا تھا
۔چنانچہ مولانا کی سیاست کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے اس جلسے کہ آئندہ
انتخابات میں دور رس نتائج نکلیں یا نہیں یہ تو وقت کی بات ہے مگر بہت سارے
سیاسی دماغوں کے مائنڈ سیٹ تبدیل ضرور ہو جائیں گے ۔مولانا کی ان صفات کے
ذکر سے مراد یہ بالکل بھی نہیں کہ صحافت کے درس سے بغاوت ہے بلکہ اصل صحافی
جو صحیفہ سے صحافت کے مفہوم کو سمجھتاہو و ہ ہر اس وقت کہ جب میڈیا کے وار
سے جھوٹ کو سچ اور سچ پہ پردا ڈالا جا رہا ہو واضح کرتا ہے کہ کس کے جلسوں
کوکتنی کوریج کیوں دی جارہی ہے اور اس کے عوامل و اسباب کیا ہیں ۔ اور کون
ہے جس کے پاس طاقت بھی ہے عوام کی مگر اس کی آواز کو کہاں اور کیوں دبایا
جارہا ہے ؟
صحافت یہی سکھاتی ہے کہ واضح کرنا چاہیے کہ یہ جھوٹ ہے کہ نام نظام ِ خلافت
ِ راشدہ کا لیا جائے اور جلسے کی ابتداء کسی گلوکار اور ملی نغموں سے کی
جائے ۔کرپشن کے خاتمے کی بات کی جائے اور کرپٹ لوگوں کے ہجوم کو تحفظ بھی
فراہم کیا جارہا ہوکسی انصاف کے سائے میں لاکر ،مولانا کے جلسے میں
یقیناپرچم کشائی نہیں ہو گی مگر اس جلسے میں پاکستانی پرچم لہرانے والے کے
جانشین ضرور ہوں گے ۔اس جلسے میں مزارِ قائد پر سیروتفریح پر آنے والے نہیں
مگر قائد کے بنے ہوئے پاکستان کے حقیقی وارث بھی ضرور ہو ں گے ،حقیقی وارث
اس لئے کہ اسلام کا مقصد و مفہوم سمجھنے والے ہی زیادہ بہتر نتائج دے سکتے
ہیں اس میدان میں بھی اور جو شخص بصحت وسلامت بھی بیٹھ کر نماز پڑھے اور اس
کے جلسوں میں اس کی رکتی سانس کے ساتھ ہی مجمع ڈانس کلب کا منظر دکھائی دے
اور ایسی حالت کو ایک صحافی ثقافت کہے اور دوسرا اسلام کے منافی تو فیصلہ
آسان ہے ۔احقاقِ حق بھی یہی ہے کہ عمران خان اپنے نئے آنے والوں کی موجودگی
میں کم از کم تو خلافتِ راشدہ کے نظام کے نام پہ قوم کو ایک بار پھر 64سال
پیچھے نہ لے جائیں اس صورت ِحال میں تو خان صاحب سونامی لائیں نہ لائیں
اسلام کے نام پر بے دینی کا سونامی ضرور لے آئیں گے ۔جمعیت علمائے اسلام کا
جلسہ جہاں آئندہ آنے والے انتخابات میں اسلامی حلقوں میںض ایک نئی نوید
لائے گا وہیں پر کراچی میں گزشتہ کچھ عرصہ سے مدارس اور علماءکے ساتھ ہونے
والی ناانصافیوں میں کمی لائے گاکیوں کہ اب بہت ساروں کو پتہ چل جائے گا کہ
کراچی میں بھی زندہ باد والے ہیں ۔ |