احتجاج اورچار نشانیاں

خوب ہے لفظ ”احتجاج “بھی۔اکیسوی صدی کے بطن سے نت نئے ویژن دنیامیں آئے۔کبھی میڈیاکا دیوتاسامنے آیاتو کبھی عدالتیں‘کبھی ثقافتی جنگ کو ہی عین شرافت کہا گیاتوکبھی موسیقی کی ہیجان پیدا کرنے والی دھنوں کو روح کی غذا قرار دیاگیا۔نام نہادجمہوریت کا جن پھن پھیلائے پوری دنیامیں غریبوں کو نگل رہاہے لیکن عوام کو اس قدر دیوانگی رہنماﺅں نے عطاءکی کہ وہ اس جمہوریت کے نام پر عزت‘جان ‘مال‘وقت‘حیات ہر شہ قربان کرنا راہ حق میں جان دینے کے مترادف گردانتے ہیں۔سیاست کیاہے ‘کیاتھی اور کیا ہوگئی اس سب سے نابلد لوگ بھی بولے جارہے ہیں ‘اور عوام ہمہ تن گوش ہو کر شہ سُرخیوں‘ٹاک شوز یا بریکنگ نیوز میں غرق ہو کر ہلکان ہوئے جارہے ہیں۔بغیر سوچے سمجھے خبر سنی یقین کیا اور اودھم مچادیا۔نہ دیکھا ‘نہ سنا‘نہ جانچا اور اعتبار کردیا۔ان عوامل کے بغیر توکسی بھی معاشرے یا مذہب نے کسی بات کو ناقابل یقین قرار دیاہے۔ مگر جب چڑیاں کھیت چگ جاتی ہیں تو کسان کی عقل ٹھکانے آتی ہے۔ہلاکتیں ہو یا ملاقاتیں ‘بات دین دار کی ہو یا بے دین کی ‘پی آئی سی(پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی) کی ہو یا این ۔آر۔او(نیشنل ریبل آرڈر)کی‘ ہوا چلتی ہے اور ستون لرزتے ہیں اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس پرابلم کے سلوشن کی گولی جیسے ہی معاشرے کو کھلائے جانے کی سعی کی جاتی ہے تو بدہضمی کے شکار فرد کی مانند معاشرہ اسے اُگل دیتاہے۔کیونکہ اس کمیونٹی یا ہجوم کا معدہ افورڈہی نہیں کرسکتا۔کسی بھی خطہ کی تقدیر بدلنے کیلئے ضروری ہوتاہے کہ وہاں باعمل عوام کی مقتدربھر مقداربھی موجود ہواور حاکم بھی مخلص۔وگرنہ جہاں کے چوہدری ‘وڈیرے اپنے خدا کی مانند اختیارات استعمال کرنا چاہیں وہاںسے کسی بھلائی کی اُمید خاک کی جاسکتی ہے۔

ہر جانب انقلاب کی نوید ہے ۔کسی نے پوچھا انقلاب کسے کہتے ہیں بزرگ کہنے لگے ”تبدیلی کی ہوا چلتی ہے سب کچھ اُلٹ پلٹ ہونے لگتاہے اور پھر دھڑام سے ایک مسیحاعوام میں آگرتاہے جو کرسی کی ٹانگوں پر اعتبار کر کے تکبر کی چادر اوڑھ لیتاہے بھلا بیٹا محض عوامی قوت سے کچھ بنتاہے جب تک میرا مالک‘میراخالق ساتھ نہ دے‘ روس کے زاروں سے جان چھوٹتی ہے تو کوئی سٹالن آجاتاہے ‘بے خبر ملکہ کے چنگل سے نکلتے لوگوں کا نپولین کے قبضے میں دم گھٹتے دیکھاہے“۔بزرگ نے بات مکمل کی اور پھر کہیں کھو گئے ۔لیکن تلاش کیا جاسکتاہے اُن سے بھی برتر کو‘ کیونکہ کہتے ہیں ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتاہے۔ممکن ہے اکیسویں صدی کی عظیم شخصیت دنیامیں موجود ہو اور ہمیں معلوم نہ ہو ۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ”نعمت جب پاس ہوتی ہے تو مجہول ہوتی ہے اور جب چلی جاتی ہے تو معلوم ہوتی ہے“۔لیکن جھوٹے ہیں وہ جو کہتے ہیں خلافت بناءآئین کے چلتی رہی ‘آج خلافت سا نظام نہیں تو آنکھ رکھنے والے جانتے ہیں کہ وہ کتنی عظیم نعمت تھی ۔خدا کا قانون سب سے برتر ہے ‘کوئی کوڑے سے زلزلہ روک کر تو دکھائے ‘کوئی بنا فون‘بغیر مادی وسائل کے عرب سے سینکڑوں میل دور آواز پہنچا کر تو دکھائے ‘کوئی اپنی تحریکوں سے حضرت علی ؓکی مانند عدل کر کے دکھائے ‘کوئی شہید کربلا کے والد ؓ کی مانند عدالتی نظام سلجھا کر تو دکھائے نہیں کرسکتا ہرگزنہیں کرسکتاجب بھی نظام سدھرا اسے ثانی ہی کہاجاسکتاہے ‘برابری نہیں کی جاسکتی ۔فرق رہے گا تاقیامت رہے گا۔بات گہری ہے ‘اُن کے نقشِ قدم پرچلنے والا تو کہاجاسکتاہے اُن جیسانہیں کہاجاسکتا۔کیسے کیسوں نے کبھی علم کے فخرمیں آکر تو کبھی اقتدار کے زعم میں آکر عظیم اسلامی شخصیات کے بارے میں ہرزہ سرائی کی اور آج قبروں میں تڑپ رہے ہیں ۔بعضوں کو تومیرے اللہ نے یہیں نشان عبرت بنادیا اور کچھ عذاب قبر میں مبتلاہیں۔کسی نے خوب کہاہے
اُس طرف خاموش رہناچاہیئے

ابتر ہوتی ‘دگرگوں ہوتی حالت سنبھل کیوں جاتی ہے ‘لرزنے والے محل قائم کیسے رہ جاتے ہیں کیونکہ حملہ آور اور مکین سب کے مقاصد ایک سے ہیں ۔رہ گئے عوام تو یہ محض اپنے ہی بھائیوں کا راستہ روک سکتے ہیں‘اپنی جیبوں کو ہی زک پہنچاسکتے ہیں‘اپنے جیسوں ہی کی سواریاں نذر آتش کر سکتے ہیں مگر پر امن احتجاج روا ہی نہیں ۔ہر شہ رنگ نہیں بدل سکتی مگر‘باغی ہو یا راہزن وہ ہر روپ میں سامنے آرہاہے۔کبھی کلیسا میں چھپ کر تو کبھی مندر میں رہ کر‘کبھی مسجد ضرار میں تو کبھی ۔۔۔ملکی حالات کا نصف صدی کا مطالعہ بتاتاہے کہ ہم زوال کی انتہاپر ہیں ۔ہرعروج کے بعد زوال اور ہر زوال کے بعد عروج آتاہے ۔ہر سیاہ رات کی صبح ضرور ہوتی ہے چاہے رات کتنی ہی سیاہ ‘گھناﺅنی یا لمبی ہو۔شیرخدا حضرت علی ؓکا فرمان ہے :زوال سلطنت کی چار نشانیاں ہیں
ٓٓاول:اصول کا خیال نہ رکھنا
دوم:فروعی باتوں کے پیچھے پڑنا
سوم:کمینوں کے مراتب بڑھانا
چہارم:شریفوں کے مدارج گھٹانا

ٹھنڈے دل سے سوچئیے کیا ہم اس سٹیج پر آگئے ہیں؟؟کیا national rebel ordinanceکم ظرف لوگوں کے مراتب بڑھا گیا؟کیا فروعی اختلافات نے اُمت کا شیرازہ بکھیررکھاہے؟کیا دولت کو معیار عزت دینے کے بعد ہم نے معاشرے میں شرفاءکے مقام و مرتبہ کو کم نہیں کردیا؟کیا ظالم اور مظلوم کے واسطے ایک ہی اصول اپنایا جاتاہے؟اگر جواب مثبت میں ہو تو پھر اللہ سے ایسے معاشرے کی دعامانگنی چاہیئے جس میں قانون کی نہیں انصاف کی حکمرانی ہو۔کیونکہ قانون تو ہماری ارض ِ پاک میں بھی بہت ہیں۔اگر آج سے ہم تہیہ کر لیں کہ پرامن احتجاج کرنے کہ ساتھ ساتھ ہم سب اپنی اپنی جگہ پر اپنے نفس کے خلاف مسلسل احتجاج کریں گے تو یقین کیجئے انصاف آپ کو آپ کی دہلیز پر میسر ہوگا۔ءانشااللہ
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174971 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.