میں ایک عام آدمی
ہوں۔آخر یہ عام آدمی ہوتاکیا ہے؟ یہ عام آدمی دراصل وہ ہے جوہزاروں لاکھوں
کی تعداد میں سڑکوں پر ، گلیوں میں ، بسوں میں اور ٹرینوں میں نظرآتا ہے۔
کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا، کوئی اس پر غور نہیں کرتا۔
یہ کسی جسمانی اتفاق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور مرغی کے بچے کی طرح
پیدا ہوتے ہی چونچ سے زمین میں اپنے حصے کا رزق تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے۔
گرتے پڑتے تعلیم تھرڈ ڈویژن میں مکمل کرتا ہے یا نامناسب حالات کی وجہ سے
تعلیم سے چھٹکارا پالیتا ہے۔ دس پندرہ سال مناسب نوکری کی تلاش میں ایڑیاں
رگڑتا ہے، مایوس ہو کر کسی دکان پر سیلز مین بن جاتا ہے یا پھر چھوٹی موٹی
نوکری یا ریڑھی لگا لیتا ہے۔ ادھیڑ عمر میں اپنے ہی جیسی کسی عام لڑکی سے
شادی ہو جاتی ہے اور اپنے جیسے چار پانچ عام آدمی پیداکر کے دنیا سے رخصت
ہو جاتا ہے۔اس کے بعد نئے عام لوگ چونچ سے زمین کریدنا شروع کر دیتے ہیں۔
یہ عام آدمی ایک پانی کا بلبلا ہوتا ہے۔ جب پیدا ہوتا ہے تو کسی کو نظر
نہیں آتا اور جب پھوٹ جاتا ہے تو کوئی اسے یاد نہیں کرتا۔میں ایک عام آدمی
ہوں پرانے شہر کی ایک تنگ گلی کے ایک بہت چھوٹے سے تاریک کمرے میں رہتا ہوں۔
ایم اے کرنے کے باوجود نوکری نہیں ملی۔ جب آنکھ کھولی تو ماں کودوسروں کے
سلائی کے کپڑے سیتے دیکھا۔ ماں کپڑے سیتی تھی میں مشین چلاتاتھا۔چھٹی کلاس
میں پہنچا تو دوپہر کا اسکول تھا شام کو واپسی میں اسکول سے تقریباً دو کلو
میٹر دور پیدل چل کر ایک امیرآدمی کے چار کوڑ مغز بچوں کو ٹیوشن پڑھاتا اور
پھر رات کو نو بجے گھرآتاتھا۔ زندگی یوں مفلسی میں گزرتی رہی غرض کوئی کام
ایسا نہیں جو نہ کیا ہو؟میرا اپنا کوئی بینک اکاﺅنٹ نہیں۔ اپنے ہی شہر میں
جائیداد کے نام پر ایک اینٹ بھی نہیں۔ کرائے کے ایک کمرے کے تاریک مکان میں
رہتا ہوں۔ کاروبار کرنے کی کوشش کی لیکن سرمائے کے نہ ہونے کی وجہ سے
کاروبار بھی نہیں کر سکا۔آٹا ، دال، چاول، سبزی وغیرہ سب مہنگے ہوتے جا رہے
ہیں۔ دوائیاں خریدنا میرے بس سے باہر ہے۔ سرکاری ہسپتال میں بس جو دوائی مل
جاتی ہے اسی پر اکتفا کرتا ہوں۔ ایک پرانی موٹر سائیکل تھی جو قرض ادا کرنے
کے لئے بیچ ڈالی تھی۔ چنانچہ پٹرول کی مہنگائی بھی اب میرے لئے کوئی مسئلہ
نہیں ہے۔ گھر کی بجلی بل نہ دینے کی وجہ سے کٹ چکی ہے۔ دن میں بغیر بجلی کے
گزارہ ہوتا ہے اور رات کو اسٹریٹ لائٹ پر تار ڈال کر پنکھا چلا لیتا ہوں۔
گھر میں مرغی کا گوشت پکے ہوئے کئی برس گزر چکے ہیں۔ پچھلے سال ایک مولانا
کی دعوت کی تھی بس جب مرغی پکی تھی۔اب تو مجھے اور میرے بیوی بچوں کو مرغی
کے سالن کا مزہ بھی یاد نہیں۔ بجلی مہنگی ہو یا لوڈ شیڈ نگ ہو مجھے کوئی
فرق نہیں پڑتا۔ گیس مہنگی ہو مجھے فرق نہیں پڑتا۔ میرے گھر میں تو مٹی کے
تیل کا چولہا ہے۔ ہاﺅس ٹیکس کتنا ہی زیادہ ہو جائے میری بلا سے۔ دیسی گھی
میری بلا سے دس ہزار روپے کلو ہو جائے۔ میں نے تو کبھی دیسی گھی کا مزہ
چکھا ہی نہیں۔ میں ایک عام آدمی ہوں۔ میرے والدین اور اب میرے بچے سرکاری
اسکولوں میں پڑھے ہیں اور ان اسکولوں میں بھی فیس معاف کروائی ہے۔ میرے بچے
بھی اب سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ میرا بیٹا اکثر مجھ سے سوال کرتا ہے
کہ بابا ہماری یہ حالت کیوں ہے؟ میں اسے بتاتا ہوں کہ بیٹا عام آدمی پوری
دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ہم ہیں۔ ہم اسی طرح بے مقصد پیدا ہوتے ہیں۔
محنت مزدوری کرتے کرتے مر جاتے ہیں۔ ہماری طرف سے(ن) لیگ کی حکومت بنے یا
پی پی پی کی ہماری حالت ایسی ہی ہے اور ایسی ہی رہے گی۔ سنا ہے کہ ہمارا
ملک پاکستان بہت ترقی کر رہا ہے۔ ہم نے نیو کلیئر بم بھی بنا لیا ہے۔ ہمارے
ملک نے میزائیل کے تجربے کر کے اپنی طاقت کا لوہا بھی منوا لیا ہے۔میں ایک
عام آدمی ہوں میں نے اپنے بڑے بیٹے کو بتایا کہ بیٹا دنیا کی عیش و عشرت تو
ہمارے ملک کے صرف ایلیٹ کلاس کے لئے ہے۔ ہمارے توآباء و اجداد سب کے سب ایک
عام آدمی تھے اور ہم بھی اور آنے والی ہماری نسلیں بھی عام آدمی ہیں۔ دنیا
کی آسائشیں تو صرف وزیروں، امیروں اور سرمایہ داروں کے لئے ہیں کیونکہ
ہمارا سیاسی اور معاشی نظام ہی ایسا ہے۔ ہمارے نظام میں امیر ہمیشہ امیر
رہے گا اور زیادہ امیر ہوتا جائے گا اور غریب ہمیشہ غریب رہے گا اور غریب
سے غریب ہوتا جائے گا۔ ہمارے بینکاری نظام جس کو ہم Fractional Reserve
Bankingکہتے ہیں۔اس نظام کے تحت ایک بینک جس کے پاس سو روپے کا ڈپازٹ ہے۔
وہ اکاﺅنٹنگ کے کمال کے ذریعہ ایک ہزار روپے قرض دیتا ہے۔ جس سے پیسے کے
سپلائی زیادہ ہوتی ہے اور افراط زر کی شرح بڑھتی ہے۔اس طرح ہمارا معاشی
نظام ایک اورفیکٹر یعنی سٹہ بازاری جس کو انگریزی میں اسٹاک ایکسچینج کہتے
ہیں پر ٹکا ہوا ہے۔ بینکاری ہو یا سٹہ بازاری دونوں ہی انصاف پر مبنی نہیں
ہیں۔اسی لئے یہ ماڈرن کیپٹالسٹکس اکنامک سسٹم ہی انصاف پر مبنی نہیں ہے۔ اس
نظام کے تحت آسائش کی زندگی جینے کا حق یاتو سرکاری کرپٹ وزیر، امیر اور
اہلکاروں کو ہے یا پھر سرمایہ دار کو یا پھر ان کے چیلے چپاٹوں کو۔میرا بڑا
بیٹا پوچھ رہا تھا کہ آج کل کھانے پینے کی چیزوں کی اتنی قیمتیں کیوں بڑھ
رہی ہیں اور پاکستان جیسے ملک میںجہاں اناج ہم خودکاشت کرتے ہیںپھربھی آٹا
اتنا مہنگا کےوں ہوتا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ بیٹا کسی سائبر کیفے میں جاﺅ
اور گوگل پر سرچ کرو۔Henry Kissinger Food Genocide Programme 1974 For The
New Century۔ یہ 200صفحات پر مشتمل ایک دستاویزہے ، جس میں بتایا گیا ہے کہ
Zionist کس طرح دنیا کی فوڈ سپلائی کو کنٹرول کریں گے۔میں ایک عام آدمی ہوں۔
میرا بڑا بیٹا مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ بابا اس وقت دنیا بھر میں اور خاص
طور سے ہمارے پاکستان میں کرپشن اتنی تیزی سے کیوں بڑھ رہی ہے۔میں نے بتایا
کہ بیٹا پوری دنیا اس وقت Zionist Bankers,Multinationalsاور Corrupt
Rulersکے شکنجے میں ہے۔ میں نے اپنے بیٹے کو مثال کے ذریعہ سمجھانے کی کوشش
کی۔ میں نے بتایا کہ بیٹا عالمی بینک جب کسی غریب ملک کو قرضہ دیتا ہے تو
کچھ اپنی شرطیں پہلے ہی منوا لیتا ہے۔ مثال کے طور پر وزیر خزانہ
اورمالیاتی سکریٹری اور دوسرے سرکاری عہدیدار جوStrategic Postsپر ہیں
عالمی بینک کی مرضی سے رکھے جائیں گے۔قرضہ صرف اسی ملک کو ملتا ہے جس میں
قدرتی وسائل موجود ہوں۔ اب مثال کے طور پر دو بلین ڈالر کا قرضہ کسی غریب
ملک کو مل جاتا ہے تو اس میں سے ایک بلین ڈالر سے زیادہ تو امیروں ، وزیروں
، ذمہ دار سرکاری اہلکاروں کے اوورسیز کھاتوں میں چلے جاتے ہیں(اور پھر
کبھی لوٹ کر واپس نہیں ملتے) باقی کی رہی سہی رقم میں سے بیشتر حصے چھوٹے
سرکاری اہلکاروں کو مل جاتے ہیں اور باقی رقم سے عوامی فلاح کے کام جیسے
سڑکیں پل وغیرہ بنا دئے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ قرضہ اور اس پر سود
واپس ادا کیسے ہوگا؟ اب اس ملک کے لوگ بحث کرتے ہیں ، حکومتیں اس قرض کو
اور اس کے سود کو ادا کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن ایسا ہو نہیں پاتا کیونکہ
یہ قرض کی رقم کسی Productiveجگہ پر تو لگی نہیں جہاں سے آمدنی ہو۔ اب اس
ملک کے قدرتی وسائل کی کوڑیوں کے مول بر آمدات شروع ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد
Devaluationکازمانہ آتا ہے اور آخر کار Privitizationشروع ہو جاتا
ہے۔Privitizationکا ترجمہ کیا جائے تو یہ ہے کہ غریب ملک اپنے قدرتی وسائل
Zionistsکے ہاتھ کوڑیوںمیں بیچ دے اور بنے ہوئے مال کی منڈی فراہم کرے۔میں
ایک عام آدمی ہوں میرے بڑے بیٹے نے مجھ سے پوچھا کہ بابا اس سے تو صرف ملک
قرضدار ہو جاتا ہے۔ عوام ذاتی طور سے تو قرضدار نہیں ہوتے۔ میں نے بتایا کہ
بیٹا اس کے بعد باہر کے بینک ہمارے ملک میں آتے ہیں اور ہرفرد کو گاڑی،
مکان ، دکان، فریج، ٹی وی ا ور دیگر اشیا Financeکرتے ہیں۔ہر فرد کی آنے
والی زندگی کی کمائی گروی رکھ لیتے ہیں۔ اس طرح سے ہر شخص کا روواں رواں
گروی ہو جاتا ہے۔ اب اسے ہر وقت اس قرض کو اتارنے کی جدوجہد کرنا ہوتی ہے
اور اس کوشش میں وہ ہر غلط کام کرنے کو بھی تیار رہتا ہے۔ سرکاری افسر
رشوتیں لیتا ہے۔ کاروباری آدمی کاروبار میں غلط طریقے اپنا تا ہے جو کچھ
نہیں کر پاتا وہ چوری ڈکیتی کرتا ہے کیونکہ ہر شکل میں اس کو بینک کا قرض
اتارنا ہوتا ہے۔ امیر ، وزیر اور بڑے سرکاری اہلکار تو پہلے ہی بڑی رقمیں
وصول کر چکے ہوتے ہیں اور جب انسان کے جسم میں سود اور حرام اترجاتا ہے تو
اس شخص سے کسی چیز کی امید رکھنا ہی بے معنی ہو تا ہے۔ اس طرح انسان کے
اندر سے انسانی ہمدردی ، خداترسی ، رحم ،مروت شرافت سب ختم ہو جاتے ہیں اور
انسان ایک پیسہ کمانے کی مشین بن جاتا ہے۔ بڑے بڑے مال اور گاڑیاں اور اعلیٰ
رہن سہن دیکھ کر ہرانسان کا دل چاہتا ہے کہ اسے بھی یہ آسائشیں میسرہوںاور
پھر انسان ایک پیسہ کمانے کی مشین بن جاتا ہے اور آخری حد تک حرام ، حلال
سب طریقہ سے ہر جائز ناجائز کام کرتا ہے کیونکہ تیس چالیس ہزار روپے ڈاﺅن
پیمنٹ کر کے دس لاکھ کی گاڑی کی قسط، عالیشان اپارٹمنٹ کی قسط اور دیگر
قسطیں ادا کرنی ہوتی ہیں۔میں ایک عام آدمی ہوں میرا بڑا بیٹا مجھ سے اور
بہت سے سوال کرنا چاہتا تھا لیکن نے اسے روک دیا کیونکہ یہ سب باتیں کر کے
میرا دماغ ماﺅف ہو گیا تھا اور میں سوچ رہا تھا آج کے دور میں انسان میں
صرف انسانیت ہی پیدا ہو جائے تو کیا اچھا ہو۔؟(پی ایل آئی) |