مولانامحمد الیاس گھمن
چھ صدیاں گزر چکی تھیں۔۔۔۔ ابھی تک مسلمان اپنے رسول کی سیرت پر عمل کر رہے
تھے زمانہ نبوت ،عہد خلفائے راشدین، ائمہ متبوعین مجتہدین کے مبارک ادوار
بھی سیرت کے سچے پھولوں سے معاشرے میں خوشبوئیں بانٹ رہے تھے ۔سنت رسول صلی
اللہ علیہ وسلم پر جانیں نچھاور تھیں، سنجیدگی اور متانت کا دور تھا،
فضولیات ولغویات اور لایعنی امور سے اجتناب جیسی نعمت سے اہل اسلام مالامال
تھے کہ اچانک۔۔۔۔604ھ میں موصل نامی شہر میں ایک شخص نے ربیع الاول کا نیا
تصور متعارف کرایا،اس دن جشن منانے کا اہتمام کیا، فضول خرچ بادشاہ ۔۔۔۔
جسے تاریخ کے اوراق میں مظفر الدین کو کری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔۔۔۔
رعایا کے خون پسینے کی محنت سے حاصل شدہ رقوم سے اس کا خاطر خواہ انتظام
کرتا۔
تاریخ ابن خلکان
بلکہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ یعنی یہ فضول خرچ بادشاہ ہر سال
جشن کا سامان پیدا کرتا اور اس پر تین لاکھ خرچ کرتا تھا۔
دول الاسلام ج 2 ص 103
اس کا چنگل اس قدر مضبوط نہیں تھا کہ لوگ اس میں پھنس جاتے۔۔۔لیکن خوشامدی
ملا دحیہ بن ابو الخطاب نے اس کی یہ پریشانی بھی ختم کر ڈالی اور اس نئے
کام کو بھی "اسلامی شریعت" کا درجہ دے ڈالا۔ خوشامدی ملا کا کرتب بادشاہ کے
دل کو لبھا؛ گیا اور شاہی خزانے میں سے ایک ہزار پونڈ اسے بطور انعام کے
دیے گئے۔ )دول الاسلام ص104(
ممکن ہے یوں کہہ دیا جائے کہ اس میں کیا حرج ہے؟آخر وہ بھی تو عالم ہوگا آپ
کے تصور میں اس کی برگزیدہ صورت بن رہی ہو اس سے پہلے ہمیں علامہ ابن حجر
کا فیصلہ جاننا ضروری ہوگا ۔چنانچہ لکھتے ہیں: یہ شخص اولیاء اور سلف
صالحین کا گستاخ تھا، گندی زبان کا مالک تھا بڑا احمق اور متکبر تھا ،دین
کے کاموں میں سست اور بے پرواہ تھا ۔
فضول خرچ بادشاہ کو ایسے حواری میسر آنے تھے کہ اس نے اس جشن کو مستقل
قانون کی شکل دے دی جب معاملہ بڑھااور یہ جشن میلاد جس میں قوالیاں ،ناچ
گانے ،من گھڑت قصے ،کرشماتی کہانیاں عام ہونے لگیں توا ہل السنۃ والجماعۃ
کے تمام علماء نے اس کی بھر پور تردید کی بلکہ ائمہ متبوعین کے پیروکاروں
نے ڈٹ کر اس نوزائیدہ کا گلا دبایا چنانچہ۔امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے
مقلدین میں سے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی ج1ص312 پر ،امام
محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ کے مقلد ین میں سے نصیر الدین الشافعی رحمہ
اللہ نے رشاد الاخیار ص 20 پر امام مالک رحمہ اللہ کے مقلدین میں سے علامہ
ابن امیر الحاج رحمہ اللہ نےاپنی کتاب مدخل ج1 ص 85 اور امام اعظم ابو
حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلدین میں سے مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے
مکتوبات حصہ پنجم ص22میں دو ٹوک فیصلہ سنایا کہ یہ شریعت نہیں بلکہ شریعت
کے نام پر ایک دھوکہ ہے۔
وقت گزرتا گیا۔۔۔دھیرے دھیرے دو گروہ بن چکے تھے کچھ تو اپنی کم علمی اور
ناقص معلومات کی بناء پر اب اس نئے مفروضے کو دین کا درجہ دے بیٹھے اور کچھ
پختہ علم والے اس کو کسی صورت بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔پھر ایک
یلغار اٹھی۔۔وہ کیا ۔۔ ؟ وہ یہ کہ جو شخص ربیع الاول میں مروجہ جشن آمد
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں مناتا وہ "سنی" نہیں ہے۔ شور بڑھتا رہا۔۔۔اسی
اثناء میں دارالعلوم دیوبند کی مسند تدریسں پر فقیہ وقت شیخ رشید احمد
گنگوہی تخت نشین آراءتھے۔ بعض لوگوں نے آپ پر اور آپ کے ہم خیال علماء پر
الزام لگایا کہ "یہ لوگ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے
چِڑتے ہیں ان کو حضور کا ذکر کرنا اور سننا پسند نہیں ،وغیرہ وغیرہ "تو
حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں لکھا:
نفس ذکر ولادت فخر عالم مندوب ہے مگر بسبب انضمام ان قیود کے یہ مجلس ممنوع
ہوگی۔
فتاوی رشیدیہ ج1ص110
آج بھی ہمار نظریہ وہی ہے جو اکابر بتلا گئے تھے،نفس ذکر ولاوت ہمارے ہاں
ایک مستحسن امر ہے جو کسی ربیع الاول کا انتظار نہیں کرتا اور کبھی بھی وقت
کا محتاج نہیں۔ہمارے ہاں علمی دلائل کی بنیاد پر اختلاف رائے کرنا مفقود
ہوچلا ہے اور نظر وفکر کے پیمانے لبریز ہوچکے ہیں بدعات کو رواج دینے والے
" عشاق "کہلاتے ہیں اور سنت کا فیض عام کرنے والے "گستاخ" آپ بتلائیے کہ
کیا اسی کا نام انصاف ہے؟میں جب بھی غور کرتا ہوں توسر پکڑ کر بیٹھ جاتا
ہوں۔کیا اتنی سی بات پر ہم سے عشق رسالت کا تمغہ چھینا جاتا ہے کہ ہم اس
کام کو دین نہیں کہتے جسے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دین نہیں کہا
اتنی سی بات پر گستاخ بن جاتے ہیں کہ ہم نئی رسومات کو عشق نبوت کا معیار
قرار نہیں دیتے۔۔۔کیا کھڑے ہوکر جھنڈے لہرانا، جلسوں میں زرق برق لباس
پہننا ، گھر کو چراغاں کرنا، عیدیاں بانٹنا ،بیجز لگانا، مقامات مقدسہ کی
شبیہیں تیار کرنا اور خرافات ورسومات میں اپنے قیمتی اوقات کو ضائع کرنا
محبت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور قال اللہ وقال الرسول کے زمزے
لگانا ،عقائد اور اعمال کی درستگی کرنا، اپنے نفس کی اصلاح، حقوق اللہ اور
حقوق العباد کی پاسداری میں منہمک رہنا ،رسومات وبدعات سے اجتناب کرنا ،سنت
رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا ،تلاوت قرآن کریم کرنا، ذکر اذکار
کرنا اور تمام اسلامی افعال کو اپنی زندگیوں میں بجا لانا ایسا جرم ہے جس
پر نام نہاد ین کے ٹھیکے دار ہم کوستے رہتےہیں؟ ربیع الاول جب بھی آتا ہے
مجھے ایسی باتوں پر سوچنے کے لیے مجبور ساکردیتا ہے میرے پاس تو اس کا جواب
نہیں ہوتا شاید آپ کے پاس ہو۔ |