بھلے ہی شاتم رسولﷺسلمان رشدی کی
ویڈیو کانفرنس منسوخ کردی گئی ہو لیکن دہلی کی وزیر اعلیٰ شیلا دکشت نے
الیکٹرانک میڈیااور نام نہاد دانشور طبقہ کی تائید کرتے ہوئے اپنی حمایت کا
اظہارکردیا ہے۔شیلا نے جے پور میں سلمان رشدی کی مہمان نوازی کے خلاف مسلم
گروپوں کی جانب سے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے آج کہا کہ کسی کو بھی کسی
بھی مصنف کے ساتھ اختلاف ہوسکتے ہں لیکن انتہائی ممتاز مصنف کا دہلی میں
خیرمقدم ہے ۔ دکشت کی یہ رائے زنی اس وقت سامنے آئی جب ان سے گذشتہ روز
رشدی کو فنکار کارکن گروپ شامت کی جانب سے رشدی کو دعوت نامہ دئے جانے کے
بارے میں پوچھا گیا۔ دہلی کی وزیراعلی نے کہا کہ ہم ہر ایک کا خیرمقدم کرتے
ہیں۔ وہ انتہائی مشہور مصنف ہیں اور جو کچھ بھی انہوں نے لکھا ہے اس پر
اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن وہ انتہائی ممتاز مصنف ہیں‘ انہیں بکر پرائز
بھی دیا گیا ہے۔
شیلا دکشت کا یہ بیان آنے کی دیر تھی کہ گویا جلتی پر تیل ڈال دیا گیا
ہو۔این ڈی ٹی وی نے باقاعدہ رشدی سے لیا گیا ایکسکلو سیو نشریہ بھی جاری
کردیاجسے برکھا دت نے پیش کیا ۔ادبی میلے میں ویڈیو چیٹ کی اجازت نہ ملنے
کے کچھ گھنٹے بعد این ڈی ٹی وی سے بات چیت میں کہا کہ مسلم سخت گیروں نے
اظہار خیال کی آزادی کا آج’ گلا گھونٹ دیا‘ جبکہ جمہوریت میں سب کو بولنے
کا حق حاصل ہے۔ محض ’دھمکی دینے والوں‘ کو ہی بولنے کی آزادی حاصل نہیں۔خوش
فہمی میں مبتلا رشدی نے کہا کہ میرے ہندوستان آنے یا نہ آنے سے ملک کے
مسلمانوں کے فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنے روز مرہ کی زندگی میں مصروف ہیں۔ انہیں
فرق نہیں پڑتا کہ ایک مصنف ہندوستان آ رہا ہے اور ادبی کانفرنس میں اپنی
بات کرے گا۔ یہ صرف سخت گیر مولانا ہیں جنہیں مجھ سے پریشانی ہے۔ رشدی نے
کہا کہ اس کے نہ آنے کے پیچھے اتر پردیش میں ہو رہے انتخابات بھی ہیں‘ جس
طرح سے کانگریس پارٹی کی حکومت اور لوگوں نے میرے آنے کی مخالفت کی اس سے
صاف تھا کہ میرے مخالفت کی وجہ سے سیاسی ہے۔ہندوستان کی فرقہ پرستی پر
تبصرہ کرتے ہوئے رشدی نے کہا کہ ہندوستان میں فرقہ وارانہ اقدار کا زوال ہو
رہا ہے ، سخت گیروں کا اثر بڑھ رہا ہے۔ ہندوستان میں فن پر مسلسل شدید حملے
ہوتے رہے ہیں‘کبھی ہندو شدت پسند حملے کرتے ہیں تو کبھی مسلم شدت پسند حملے
کرتے ہیں۔ آزاد خیالات کیلئے ہندوستان میں ماحول سخت ہوتا جا رہا ہے ‘
ہندوستان کے لوگ اس بات پر افسوس کریں گے۔ اپنی کتاب کے اقتباسات کو چار
ادیبوں کے ذریعے پڑھے جانے پر پیدا ہوئے تنازع پر تبصرہ کرتے ہوئے رشدی نے
کہا کہ جن ادیبوں نے بھی میری کتاب پڑھ کر حمایت ظاہر کی میں ان کا شکریہ
ادا کرتا ہوں۔ ہندوستان میں میری کتاب کو اپنی مرضی کے قوانین کے تحت ممنوع
کیا گیا ہے۔ راجیو گاندھی کی حکومت کے دوران جب میری کتاب کو کالعدم قرار
دیا گیا تھا توکہا گیا تھا کہ پابندی کتاب میں اظہار خیالات پر نہیں ہیں۔
صرف میری کتاب کو ہندوستان میں شائع کئے جانے پر پابندی ہے۔ مجھے نہیں لگتا
کہ کتاب کے اقتباسات پڑھ کر ہندوستان کے کسی بھی قانون کو توڑا گیا ہے۔رشدی
نے کہا کہ میری کتاب سے لیبیا ، ترکی جیسے کئی مسلم ممالک نے بھی پابندی
ہٹا لی ہے۔ یہ ہندوستان کو طے کرنا ہے کہ وہ خیالات پر کتنی آزادی اپنے
شہریوں کو دیتا ہے۔ اگر لیبیا یا مصر جیسے ملک میری کتاب پر سے پابندی ہٹا
سکتے ہیں تو ہندوستان کیوں نہیں۔ہندوستان میں اسلام کے مطالعہ کی سپریم
ادارہ دارالعلوم پرکیچڑ اچھالتے ہوئے رشدی نے کہا کہ دارالعلوم سے ہی
طالبان سوچ کے لوگ پیدا ہوتے ہیں ، یہاں سے ہی عمرانہ معاملے جیسے معاملات
میں ’شرمناک فتوے دئے جاتے ہیں۔ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کو طے کرنا ہے کہ
انہیں’سخت گیروں‘ کو اپنا لیڈر منتخب ہے یا‘وسیع خیالات‘ والے لوگوں
کو۔اپنی حفاظت پرپیدا شدہ تنازع پر رشدی نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ سیکورٹی
وجوہات کا بہانہ بنا کر پاگل بنایا گیا لیکن مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ اگر
میں جے پور آتا تو تشدد بھی ہو سکتا تھا۔ مجھے ادب کانفرنس کے منتظمین نے
ای میل کیا جسے راجستھان حکومت کے اعلی حکام کو بھی بھیجا گیا تھا۔ ای میل
میں کہا گیا کہ میری جان کو خطرہ ہے۔مجھے صرف یہ بتایا گیا تھا کہ میری قتل
کرنے کیلئے کسی مافیا ڈان نے غنڈے بھیجے ہیں۔ جب میں نے یہ جاننا چاہا کہ
مجھے کس سے خطرہ ہے تو تین افراد کے نام بتائے گئے۔ ان میں ایک کالعدم
تنظیم سیمی کا رکن تھا اور باقی دو نام جو تھے انہیں توانڈرورلڈ میں کوئی
جانتا بھی نہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ منصوبہ بند جھوٹ تھا۔جے پور ادبی میلے
میں اپنے نہ پہنچنے پر گہرا افسوس ظاہر کرتے ہوئے رشدی نے کہا کہ جو آج ہوا
وہ سیاہ سوانگ تھا۔ کچھ اسلامی سخت گیروں اور سیاستدانوں نے سازش رچی جس کے
تحت مجھے ہندوستان نہیں آنے دیا گیا۔ ہند نژاد کا ایک مصنف ہندوستان میں
آکر اپنی بات کہنا چاہتا تھا لیکن اسے نہیں آنے دیا گیا۔ہندوستان کے حالات
پر تبصرہ کرتے ہوئے رشدی نے کہا کہ آزادی کے معاملے میں ہندوستان کے حالات
تیس سال پہلے سے بھی بدتر ہیں۔ میں نے اس وقت راجیو گاندھی کو خط لکھ کر
سوال کیا تھا کہ تم کیسا ہندوستان چاہتے ہو۔ وہ ہندوستان جس لوگ حفاظتی
اہلکاروں سے ڈرے یا وہ ہندوستان جس لوگ کھل کر اپنی بات کہہ سکے۔ ہندوستان
میں سیاست میں مذہب کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اب نہ مجھے سیاست میں یقین ہے
اور نہ مذہب میں۔ حالانکہ رشدی نے یہ بھی کہا کہ وہ جلد ہی ہندوستان آئیں
گے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہوگا کہ رشدی نے جے پور ادبی میلے کےلئے اپنا دورہ
منسوخ کردیاتھا کیونکہ مسلم تنظیموں نے اس میلے میں ان کی شرکت کے خلاف
پرزور احتجاج کئے جبکہ متنازع مصنت سلمان رشدی کی براہ راست ویڈیو
کانفرنسنگ جے پور میں ملی کونسل کے احتجاج کے بعد منسوخ کردی گئی ۔ ملی
کونسل کے بہت سے کارکنان نے منگل 24جنوری کی دوپہر بعد جے پور ادبی میلے کے
باہر پہنچ کر مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ رشدی کی جانب سے مجوزہ ویڈیو
خطبے کو منسوخ کیا جائے اور دعوی کیا کہ یہ مسلمانوں کی توہین ہے۔ اس سب کے
باوجود راجستھان سرکار میلے کے منتظمین کی حمایت کررہی ہے اور جے پور میں
ویڈیو کانفرنسنگ کے رابطے کو منسوخ کردیا گیا ہے۔ یہ ویڈیو کانفرنسنگ 345
منٹ پر ہونی تھی۔
اس موقع پر حقیقت کا اعادہ ضروری ہوگا کہ سلمان رشدی کے حوالے سے آپس میں
بیان بازی اور مظاہر سازی کی بجائے تحمل و بردباری کے ساتھ مغرب کی اس منفی
روش، فکر اور طرز عمل کا مضبوط بندوبست کرنے کی تدبیر نکالی جائے۔سلمان
رشدی پرانا قلمکارہے جو تاریخ کو افسانے اور ناول کی صنف ادب میں لکھنے کے
شوقین ہے۔قرآنی تعلیمات کے مطابق اسلام میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی ذات اقدس بنیادی اور مرکزی اہمیت کی حامل ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں
خدا کا تصور موجود ہے مگر انہیں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمٰ میسر
نہیں اسلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت عقیدت جانثاری اور
پروانگی کا نام ہے۔ اسلام میں امت کا تصور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی ذات اقدس سے محبت کے باعث پروان چڑھتا ہے۔اسی لئے عالمی کفار
مشرکین اور منحرفین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر حملہ
آور ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے دلوں میں ان سے محبت کے رشتے کو کمزور کرنے
کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس
پر رکیک حملوں کے حوالے سے مغرب کے پاس سلمان رشدی، تسلیمہ نسرین ، جہاد کش
مرزا غلام احمد قادیانی اور کارٹونوں کے سوا رکھا کیا ہے؟
پاکستان کے آئین میں اسلامی دفعات بالخصوص امتناع ردقادیانیت جس روسے
قادنیوں کو عملا غیر مسلم قرار دیا گیا کے تناطر میں رسوائے زمانہ کتاب
شیطانی آیات تحریر کی گئی۔یہ کتاب رحمتہ العالمین نبی آخرالزماں حضور اکرم
کی ذات ازواج اور اصحاب اور آئین انسانیت قرآن کریم کی تعلیمات کے اردگرد
گھومتی ہے جس کو ایک روایتی منفی انداز میں رقم کیا گیا ہے۔سلمان رشدی
ڈاکٹر رشدی کا بیٹا ہے جو علی گڑھ میں پڑھاتے تھے۔ ڈاکٹر رشدی ترقی پسند
مصنفین اور شاعر ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور فیض کے قرینی احباب میں شامل تھے
جو تقسیم ہندست قبل سملہ میں موسم گرما کی تعطیلات اکٹھے گزارا کرتے تھے۔
انہی احباب کی منڈلی میں پاکستان ٹائمز کے مدیر اور مشہور زمانہ نظم مجھے
تجھ سے عشق نہیں، بالکل نہیں کے شاعر کرنل مجید ملک بھی شامل ہو جاتے تھے۔
ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور فیص کی بیویاں سگی بہنیں تھیں۔ اسی طرح کرنل مجید
ملک کی بیوی آمنہ ڈاکٹر رشدی کی بیوی یعنی سلمان رشدی کی ماں کی سگی بہن
تھی اور ان عورتوں کا تعلق قادیانی گھرانے سے تھا۔ڈاکٹررشدی اور ڈاکٹر
تاثیر کے گھر بیٹے پیدا ہوئے تو انہوں نے اپنے بچوں کا نام سلمان رکھا۔
مذکورہ احباب سے استاد گرامی کی طرح ذاتی تعلق رکھنے والے کلیم اختر
ہیں۔امتناع ردقادنیت بل کے عملا نفاذ کے بعد قادیانیوں کی ایک اچھی خاصی
تعداد نے اسلام کے ایک دوسرے منحرف مذہب میں پناہ تلاش کی جس کی تعداد
قادیانیوں کی نسبت زیادہ ہے۔ شیطانی آیات 1980دہائی کے اولین حصے میں لکھی
گئی۔ عالم اسلام میں مذکورہ کتاب پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ ہندوستان
میں طویل مظاہروں کے بعد کتاب کی طباعت تقسیم اور ترسیل پر پابندی لگادی
گئی۔
دوسری جانب عالمی اسلامی عدالت انصاف نے سلمان رشدی پر ارتداد کا مقدمہ
چلایا اور مرتد کی عدم موجودگی کے باعث یہ فیصلہ اور فتوی دیاگیا کہ سلمان
رشدی پر مرتد کی تعزیر لاگو کرنے سے قبل صفائی اور وضاحت کو موقع دیاجائے۔
مذکورہ عدالتی فیصلے کا نفاذ اس ممکن نہ تھا اور ہے کہ سلمان رشدی مغرب کی
عالمی طاقتوں برطانیہ و امریکہ کی سرکاری پناہ اور تحفظ میں پل رہا
ہے۔مغربی عوام کو کیا پتہ کہ وہ یہودی چالباز کے ہاتھوں نہ اپنا دین بچا
سکے اور نہ دنیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات امن محبت رواداری اور
احترام انسانیت کے آفاقی اصولوں پر مبنی ہیں لیکن آج تقریبا تمام عیسائی
حکمران امریکہ برطانیہ فرانس جرمنی ناروے وغیرہ مذکورہ عیسائی تعلیمات کے
برعکس اسلام کے خلاف صلیبی روح کے نمائندے اور شہرت بخشنے والے بن کر رہ
گئے ہیںجس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ مغربی دنیا میں حضرت
عیسیٰ علیہ السلام کی توہین جرم نہیں مگر یہودی مخالف ہونا آئینی جرم ہے
مغرب کے اہل کلیسا کو یہودی چالباز اتنے عزیز ہیں کہ انہوں نے انجیل مقدس
سے یہودی چالباز کے خلاف پائی جانے والی آیات حذف کردیں۔ انجیل مقدس کی
تعلیمات کے تحت لکھے گئے انگریزی و مغربی قدیم ادبیوں او شاعروں کے ڈراموں
افسانوں اور ناولوں کا کیا انجام ہے؟کیا عیسائی عوام الناس یہودی چالباز کا
رویہ اور تجربہ بھول گئے جو مالٹا کا یہودی Jew of maltaوغیرہ میں درج ہے۔
جرمنی میں نام نہاد یہودی ہولوکاسٹ قتل عام کی فرضی کہانیوں کی حقیقت پر
لکھی جانے والی کتب غائب کردی جاتی ہیں۔ مصنف اورناشرین ماردئیے جاتے
ہیںجبکہ عیسائی عوام اور خواص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات پر اخلاص
سے عمل پیرا ہوجائیں تو وہ ڈیڑھ ارب انسانوں کے مرکز مہر ووفا کے خلاف
خاکوں اورسلمان رشدی جیسے لوگوں کی کتابوں کی پذیرائی سے باز رہیں گے۔
اہل مغرب نے سلمان رشدی اور ان جیسے کئی مردوزن پال رکھے ہیں جس سے وہ وقتا
فوقتا کام لیتے ہیں۔ سلمان رشدی سے 89 1988-میں بھی کام لیا گیا تھا۔ 15
فروری 1989کے دن مجاہدین افغانستان کی آزادی فتح اور جشن کا دن تھا۔ اس دن
عالمی اسلام کے مجاہدین نے ایک عالمی طاغوتی استعماری طاقت کو شکست دی مگر
اس دن سے چند ماہ قبل انقلاب ایران کے رہنما آیت اللہ خمینی کے فتوی نے
سلمان رشدی عالمی میڈیا میں دوبارہ زندہ کردیا جب انہوں نے سلمان رشدی کا
قتل کا (صفائی کا موقع دئیے بغیر) فتوی جاری کیا۔البتہ خمینی کے فدائی
سلمان رشدی کو قتل نہ کرسکے بلکہ عالم اسلام کے تقریبا 22یا20 جید
علماءشہید کردئیے جو مرتد کو صفائی کا موقع دینے کے بعد ارتداد کی سزاکے
نفاذ کے حامی تھے اور عالمی اسلام عدالت انصاف کے موقف کے حامی تھے۔ ان
مذکورہ جید علماءمیں سے ایک عرب عالم دین بھی شہید ہوئے جو پروفیسر مرزا
محمد منور کے دوست تھے اور پیرس کے اسلامی مرکز کے انچارج تھے۔اسی خمینی
-رشدی گرما گرمی میں مشہور و معروف پاکستانی علماءنے 14 فروری 1989میں
اسلام آباد میں سلمان رشدی کے خلاف جلوس نکالاجبکہ کوپیپلز پارٹی کی بینظیر
سرکار نے جلوس کے مظاہرین پر گولی چلائی جس میں مدارس کے کئی طلبہ شہید
ہوئے ۔15فروری کے اخبار و جرائد اور الیکٹرانک میڈیا نے افغان جہاد کی فتح
اور عالمی طاقت روس کی شکست کا جشن منانے کی بجائے شہدائے اسلام آباد کیلئے
سوگ منایا جو چند دن تک جاری رہا اور بعد ازاں عالمی میڈیا سے سلمان رشدی
کا منظر ہٹا کر لندن میں مقیم اینگلو انڈین ماڈل گرل پامیلا کے مناظر اور
چرچے شروع کر دئے۔ سلمان رشدی کی خدمات کو سراہتے ہوئے برطانیہ نے سر کا
خطاب دیا ہے اور اس طرح سلمان رشدی کو ایک بار پھر عالمی میڈیا کی توجہ کا
مرکز بنادیاجبکہ جے پور ادبی میلے نے اپنی فتنہ پروری کا ثبوت دیتے ہوئے
نئے سرے سے بحث کا موضوع فراہم کیا ہے ۔ اس کے پیچھے کیا چال اور جال ہے
اہل بصیرت کو متنبہ اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ |