مارکنڈے کاٹجو نے گذشتہ
روزملعون سلمان رشدی کوآئینہ دکھاتے ہوئے بلکہ اوقات بتاتے ہوئے اسے نہ صرف’
خراب‘اور’گھٹیا‘مصنف قراردیا ہے بلکہ یاددلایا ہے کہ متنازع کتاب’سیٹینک
ورسیز‘ سے قبل اسے زیادہ لوگ جانتے بھی نہیں تھے۔عالمگیریت کے اس زمانے میں
کہ جب ایک طرف قومی ادب کا سوال اپنی اہمیت کھورہا ہے ،اظہار خیال کی آزادی
کی آڑ میں مسلم دلآزاری‘ سامراجی چیرہ دستی اور لوٹ کھسوٹ ،اتحادیوں کی
مداخلت ، بڑی قوموں کی جانب سے تہذیبی اور معاشی دراندازی ،عالمی سرمایہ
کاری کی نئی منڈیوں کی تلاش اورکمزور قوموں کو صارفین دائرے میں مقید کرنے
کی ہوس نے کمزور قوموں کیلئے اسی سوال کو پھر سے اہم بنا دیا ہے‘عالمگیریت
کی حقیقت کھلی تو پتہ چلاکہ یہ تو سرمایہ دارانہ نظام کاولدالحرام ہے جو ہر
جگہ تہذیبی زوال پرآمادہ ہے‘ ہندوستانی پریس کونسل کے صدر اور کچھ عرصہ
پہلے تک سپریم کورٹ کے جج رہ چکے کاٹجو نے ہندنژاد اور برطانیہ میں رہنے
والے رشدی کے مداحوں کوبھی آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہاہے کہ وہ نو آبادیاتی
احساس کمتری کا شکار ہیں اور سمجھے ہیں کہ بیرونی ممالک میں رہنے والے مصنف
عظیم ہوتے ہیں۔انڈین پریس کونسل کے صدر نے اپنے بیان میں کہا کہ میں نے
رشدی کی کچھ کتابیں پڑھی ہیں اور میرا خیال ہے کہ وہ ایک خراب ادیب ہے یہاں
تک کہ ’مڈناٹ چلڈرن‘ کو بھی عظیم ادب کہنا مشکل ہے۔بقول کاٹجو مسئلہ یہ ہے
کہ آج ہندوستان کے تعلیم یافتہ لوگوں کی نگاہ میں بھی لندن یا نیویارک
میںمقیم مصنف تو عظیم ہیں جبکہ ہندوستان میں رہنے والے مصنف ذیلی سطح کے
ہیں۔جے پور جشن کا ذکر کرتے ہوئے کاٹجو نے کہا کہ یہاں لوگوں کو ادب پرشدید
بحث کی توقع تھی کہ یہاں کبیر ، پریم چند ، شرد چندر ، منٹو ، غالب ، فیض ،
قاضی نذرالاسلام جیسے ہندوستانی ادباءکی تخلیقات پر غور کیا جائے گا۔سپریم
کورٹ کے سابق جج نے کہا کہ کبیر اور تلسی داس اس لئے اچھے نہیں ہیں کیونکہ
وہ بنارس کے گھاٹ پر رہتے تھے جبکہ رشدی عظیم مصنف اس لئے ہیں کیونکہ وہ
لندن کے مشہور دریا کے گھاٹ پر رہتے ہیں۔ یہ ہمارے دانشور اور ادبی لوگوں
کا سوچنے کی سطح ہے۔ کاٹجو نے کہا کہ جشن میں بالمیکی‘ویاس اور تلسی داس سے
لے کر جدید ہندوستان کے تمام ادب پر بحث کی جانی چاہئے۔
دوسری جانب سلمان رشدی نے نہ صرف بزدلی کا ثبوت دیابلکہ انگریزی کے چار
ہندوستانی مصنف ’دی سیٹنک ورسز‘ سے کچھ سطریں پڑھوا کرمغرب کے دروازے ان
کیلئے کھول دئے کہ ان میں سے ایک نیویارک فرار ہوچکا ہے۔نام نہاداظہار کی
آزادی کی تحریک کیا بھگوڑوں کی جماعت کے بل پر چلے گی؟ کبیر ، صوفی ، لنکن
، گاندھی کے وور میں کیا کم خطرات لاحق تھے؟ حکومت اور جے پور فیسٹول کے
آرگنائزر دوہرے کردار کے نکلے ہی ، انگریزی کے ہندوستانی ادیبوں نے بھی
ثابت کردیاکہ وہ مسائل پیداتوکر سکتے ہیں لیکن حل نہیں کر سکتے۔سلمان رشدی
معاملے میں یہ شک پختہ ہوجاتاہے کہ اس کی تشہیرمنتظمین نے خود کی ہے۔ پچھلی
دفعہ اس کی آمد کی شہرت تشنہ رہ گئی تھی۔ جتنا فائدہ ایک متنازع مصنف سے
حاصل ہوناچاہئے تھا وہ نہیں ملا۔ آخر سیلزمینوں کا کھیل ہے۔ انہیں فروخت
کرنے ، ہنگامہ کرنے کے طور طریقے خوب آتے ہیں۔ میڈیا میں شیطانی آیات لکھنے
والے رشدی چاہے آئے یا نہ آئے ، اس کا شور اسے اتنی شہرت دے گیا جو آج تک
کسی مصنف کی شرکت تک نے نہیں دی۔محض شیطانی آیات پر اربوں ڈالر کی کمائی
کوئی معمولی بات نہیں۔ اگر یہ غلط ہے تو پوچھا جانا چاہئے کہ پھر اتنے
متنازع مصنف کے آنے کی خبرکو پچھلی بار کی طرح پوشیدہ کیوں نہیں رکھا گیا؟
جے پور لٹریچرفیسٹول نے واضح کر دیاکہ انگریزی کا ادبی عالمگیری طوفان ٹل
نہیں سکے گا۔ آج ہندوستانی زبانوں پر مغربی بدزبانی اور انگریزی ثقافتی
حملہ کا کیا جواب ہے‘ مذہب ‘ ثقافت اورادب سے بھی بڑا ادبی تہوار ہے ۔ اس
تہوار میں ایسا ہنگامہ مچاکہ پانچ دن میں دیکھتے ہی دیکھتے کروڑوں کی
کتابیں فروخت ہوگئیں۔ جے پور ادبی تہوار ایک نئے رجحان کی دستک ہے۔فےسٹول
میں ادیب ہی نہیں ، فلمی ہستیوں ، وزراء، امریکہ اور انگلینڈ سے آئے میڈیا
کے لوگوں ، ہزاروں طلباءنوجوانوں اور یقینا ناشروں کا بھی ایک بڑامجمع تھا۔
شہر کے ہوٹلوں کے تین ہزار کمرے بک کئے گئے تھے۔ گلابی شہر میں ان گنت ادیب
گلابی گلابی ناظرین بلکہ تماش بینوں کو پہلی مرتبہ محسوس کہ یہ ’ ادب کا
طوفان‘ ہے۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ چند سال میں ہی یہ رجحان اتنا
فروغ پاجائے گا۔ تزک و اہتمام ، مشتہری اور سب کچھ ایک بڑے ثقافتی دھماکے
کی ترجمان تھی جس پر انگریزی چادر تنی ہوئی تھی۔اس ادبی جشن میں ہندوستانی
زبانوں کے گنے چنے مصنف مدعو تھے‘ ان کی نہ کوئی آواز تھی اور نہ یہ کسی
اہم منظرکا حصہ تھے‘ ان کو صرف اوقات دکھائی جا رہی تھی‘ چاروں طرف انگریزی
کا دبدبہ تھاجو ہندوستانی زبانوں کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر شرما رہے تھے۔
اس میں شک نہیں کہ ہندوستانی زبانوں کے ادیبوں کا عام تجربہ یہی ہوگا کہ یہ
تہوار انگریزی میں لکھنے والے ہندوستانی ادیبوں بلکہ انگریزی میں لکھنے
والے غیر مغربی نژاد ادیبوں کو پرموٹ کرنے کیلئے ہے۔ یہ یقینا سب سے زیادہ
ہندوستان میں انگریزی کا ادبی ماحول قائم کرنے کا معاملہ ہے۔
جے پور لٹریچرفیسٹول کی کاریگری بے مثال ہے۔ اس کے پیچھے مختلف ذرائع سے
پیسے کی ریل پیل ہے۔ غیر ملکی مصنفین اور ادب کے شائقین کو سب سے زیادہ
متاثر کرنے والی چیز دو سو چالیس سال پرانے ڈگی پیلس کے وسیع و عریض قیمتی
احاطے میں اس تہوار کا انعقاد۔ اس محل میں ہندوستانی راج کی شبیہ ہے ، ایک
تاریخ ہے۔ 1857 پر تحریر کردہ 'دی لسٹ مغل' کے مصنف ڈیل رمپل اور اس تہوار
کے کنوینر (پروڈیوسر) سنجے رائے دونوں بنیادی طور پر دہلی کے باشندے ہیں
لیکن ادبی تہوارمنانے کیلئے انہوں نے منتخب کیا جے پور شہر کو۔ اس سے عزائم
غیر واضح نہیں ہیںکہ جے پور لٹریچر فےسٹول بنیادی طور پر تاریخ ، عوامی
ثقافت اور ادب کو عالمگیریت پر مبنی کھیل میں بدلنے کی پر لطف مہم
ہے۔لہذایہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اس فیسٹول میں گلزار ، جاوید اختر اور
پرسون جوشی جیسے کاروباری نغمہ نگار ہی بڑے شاعرہی کیوں نمائندگی کرتے
ہیں؟فیسٹول میں کپل سبل بھی بڑے شاعر ہیں۔ وہ گزشتہ سال بھی مدعو تھے ، اس
مرتبہ بھی موجود تھے۔ اس بار تو اشوک واجپئی نے ان سے بات چیت کی۔ ممبئی
میں ایشوریہ-ابھیشیک کوبچی کی ولادت پر مبارکباد دیتے ہوئے ، متھرا کے
ٹریفک سے گذرتی ہوئی ، سلم اور تاج محل دونوں کا مزا لیتے ہوئے امریکی’
دھنا سیٹھ‘ کھربوں کی مالک وینفرے چمکتی دمکتی چہکتی ہوئی جے پورفیسٹول
پہنچی۔ آخر کس حیثیت سے اسے مدعو کیا گیا تھا؟ اب غیر واضح نہیںرہا ہے کہ
اس فیسٹول کے پس پردہ کونسی پالیسی کارفرما تھی۔
دراصل جے پور فیسٹول کو ڈی سی ایم جے پور لٹریچرفیسٹول کے طور پر یاد کیا
جاتا ہے۔ ڈی ایس سی سڑک اور پل بنانے والی ایک بڑی کمپنی ہے۔ اس میں ادب کی
محبت کیسے پیدا ہوئی‘ یہ تو تحقیق طلب امر ہے جبکہ اس نے پچھلے سال سے
جنوبی ایشیائی ادب کیلئے پچاس ہزار ڈالر کا ڈی ایس سی انعام شروع کیا ہے جو
امسال بھی دیا گیا۔یہ انعام ہندوستان میں دیا جانے والا سب سے بڑی رقم پر
مبنی ہے۔جبکہ یہ تقریبا طے شدہ ہے کہ یہ ایوارڈ ناول کیلئے دیا جائے گا اور
وہ بھی انگریزی میں لکھے گئے غیر مغربی مصنف کے ناول کو۔ تین سال قبل بدنام
زمانہ شاتم رسولﷺ سلمان رشدی نے اسی فےسٹول میں بالکل واضح کر دیا تھا کہ
انگریزی میں لکھا گیا ہندوستانی ادب ہی ہندوستانی ادب کی نمائندگی کرتا ہے
، مغرب میں اسی کو قبولیت حاصل ہے۔گلوبلائزیشن نے ہندوستان میں انگریزی کا
سامراجیت بڑھایا ہے۔ درمیانہ طبقہ کے پڑھے لکھے نئے لوگ فاسٹ فوڈ ، فیشن
اور مغربی طرز زندگی میں جی رہے ہیں۔ چیتن بھگت کے ناولوں کی اگر لاکھوں
کاپیاں فروخت رہی ہیں ، اسی طرح اگر انگریزی میں چھپے دوسرے ادیبوں کے
ناولوں کی بھی بڑی کھپت ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہندی ، مراٹھی ،
تامل ، بنگلہ ، منی پوری وغیرہ تمام شعبوں سے انگریزی کو بڑی تعداد میں
قارئین مل رہے ہیں۔ یہ اپنی قومی زبان کے ادب کو ترک کرکے انگریزی کی
تخلیقات پڑھ رہے ہیں۔ جے پورفیسٹول میںمجتمع ہندوستانی قارئین اورادب کے
مداح جڑوں سے محروم ہیں ، ورنہ وینفرے ، چیتن بھگت ، ششی تھرور اتنے کیوں
پسند کئے جاتے ؟ واضح ہے کہ مغربی ممالک میں انگریزی کتابوں کی زوال پذیر
تعداد ایشیائی قارئین سے پوری ہو رہی ہے جوخطہ میں انگریزی کی بڑھتی ہوئی
ادبی عالمگیریت کی ایک اہم علامت ہیں۔جے پور لٹریچرفیسٹول انگریزی کتاب
بازار کا موثر ثقافتی اظہار ہے۔پینگوئن جیسوں کا کاروبار ہندوستان میں بڑھ
رہا ہے۔ انگریزی میں ہندوستانی تحریر سے صرف نظر یہ تو دیکھنا ہی ہوگا کہ
غیر ملکی پروں والی ہندوستانی چڑیا کیسی ہے؟ اس میں ادب کم اور تفریح زیادہ
ہے ، یہ کس حد تک امریکی مذہب بیزاری سے پاک ہے اور کس حد تک نئے
نوآبادیاتی ثقافت کا حصہ ہے؟ |