عمر فراہی
اللہ نے جب آدم ؑ اور حواؑ کو پیدا کرکے جنت میں داخل کیا تو ان کی شرم
گاہیں ایک دوسرے سے چھپا دی۔مگر شیطان نے ان کو بہکایا تاکہ ان کی شرم
گاہیں جو ایک دوسرے سے چھپا ئی گئی تھیں ان کے سامنے کھول دے ،سورہ احزاب۔
پھر جب آدم و حوا کو زمین پر بھیجا گیا تو اللہ نے انسانوں کو آگاہ کرتے
ہوئے کہا کہ ”اے بنی آدم ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں پھر اسی طرح فتنے میں
مبتلا کردے جس طرح اس نے تمہارے والدین کو جنت سے نکلوادیا تھا اور انکے
لباس ان پر سے اتر وادیئے تھے تاکہ ان کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے
کھول دے۔وہ اور اس کے قبیلے تمہیں ایسی جگہ سے تاک رہے ہیں جہاں سے تم
انہیں نہیں دیکھ سکتے “ سورہ احزاب آیت 26۔اس کا مطلب یہ ہے کہ شیطان اور
اس کے قبیلے انسانوں کو بے شرمی اور بے حیائی کے کاموں میں مبتلاکرتے رہیں
گے تاکہ اللہ نے جس انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے شیطان اسے ذلیل
کرسکے۔
جنوری کی 20 تاریخ سے لیکر 24 تاریخ تک جئے پور میں جو ادبی سیمینار منعقد
ہوا یہ در اصل شیطانی قبیلے والوں کا میلہ تھا جہاں کثرت سے ایسی ناولوں
اور کتابوں کے اقتباسات پڑھے گئے یا مصنفین نے اپنی کتابوں کے تعلق سے
گفتگو کی ،جس میں یا تو خدا کے انکار پر بحث کی گئی تھی یا پھر گفتگو کا
سارا دائرہ بنت حوا کی آزادی اور عریانیت کے گرد گھومتا رہا ہے کہ کس طرح
نکاح ،طلاق،پردہ اور حجاب کے نام پر عورت کی خودداری پر حملہ کیا جارہا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ اس اجلاس کو بامعنی یا جائز ٹھہرانے کے لئے کچھ ایسے مصنفین
کو بھی دعوت دی گئی ہو جنہوں نے اپنی کتاب میں ہٹلر اور میلو سویچ کی
ہٹلریت کا بھی تذکرہ کیا ہو جیسا کہ ہری کنزرو جسنے رشدی کے نہ آنے کے
احتجاج میں امیتاوا کمار کے ساتھ بحث میں اپنی کتاب Gods without men پر
تبصرہ کرتے ہوئے رشدی کی کتاب شیطانی آیات کا حوالہ دیا اور پھر اس گفتگو
کو جائز ٹھہراتے ہوئے لکھا ہے کہ میرا مقصد کسی کے عقیدے کو نقصان پہنچانا
نہیں تھا اگر ایسا ہوتا تو میں خود اپنے ملک میں حکومت کے خلاف مسلمانوں کی
حمایت میں آواز نہ اٹھاتے رہتا جنہیں برطانیہ اور گوانتانا موبے کی جیلوں
میں بغیر مقدمہ چلائے قید رکھا گیا ہے۔حقیقت چاہے جو کچھ بھی ہومگر شیطان
نے بھی آدم ؑ کو دھوکا دینے کے لئے قسم کھا کر کہا کہ میں تمہارا سچا خیر
خواہ ہوں میری مانو تمہارے رب نے تمہیں جو اس درخت سے روکا ہے اس کی وجہ اس
کے سوا کچھ نہیں کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاﺅ یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل
نہ ہو جائے،سورہ اعراف آیت 20۔
اس وقت یہ سازش ایک شیطان کی نہیں ہے اور نہ ہی مسئلہ صرف ایک سلمان رشدی
کی گستاخی کا ہے بلکہ شیطانوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ مختلف طریقے سے پوری
عالم انسانیت کو بے حیائی اور فحاشی کے دلدل میں دھکیل دینا چاہتا ہے۔دنیا
کو بتانے کے لئے تو جئے پور کے اس اجلاس کو ادبی میلے کا نام دیا گیا جہاں
عالمی شہرت یافتہ ادیبوں نے خطاب کیا۔مگر اس پورے اجلاس میں عالمی شہرت
یافتہ ادیبوں نے جو گفتگو کی یا اپنی کتابوں کے اقتباس پیش کئے اسے کسی بھی
صورت میں ادب و احترام کے دائرے میں نہیں شمار کیا جا سکتا ۔دیکھئے اس
اجلاس میں شامل 65 سالہ لبنانی خاتون مصنف حنان الشیخ کی گفتگو کے چند
اقتباسات کا خلاصہ ۔ بظاہر اس کی گفتگو کا انداز یہ ہے کہ مرد عورت کو کیک
کی طرح استعمال کرکے اس پر ظلم کرتا ہے ۔مگر اس نے اپنی کتاب ”زہرہ کی
کہانی“ جس پر تبصرہ کرتے ہوئے امیتاوا سنیال نے لکھا ہے کہ اس کتاب میں
عورت اور مرد کے رومانس اور شہوانی جذبات کو بہت ہی بے باکی سے پیش کیا
ہے۔اسی بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود مصنف ایک انٹر ویوکے دوران اپنے
مذہبی باپ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتی ہے کہ ”جب میرا باپ زور زور نماز میں
تلاوت کرتا تو میری ماں کے ریڈیو سننے میں خلل پیدا ہوتا تھا۔مگر بار بار
منع کرنے کے باوجود میرا باپ اپنی حرکت سے باز نہیں آتا تو میری ماں رکوع
کی حالت میں اس کے پاجامے میں پونچھ لگا دیا کرتی تھی۔(ہندوستان ٹائمس
25جنوری 2012)، یہ اور اس طرح کی بہت سی خواتین مصنفوں نے نہ صرف اپنے باپ
کا مذاق اڑایا بلکہ بہت سی کتابیں اس مشہور و معروف مصنفوں کے قلم سے منظر
عام پر آچکی ہیں جس میں ماں بیٹےاور باپ بیٹی تک کے مقدس رشتوں کی دھجیاں
اڑائی گئی ہیں ۔اس قبیلے کے مصنفوں کو فحاشی کی دنیا میں Bold اور بے باک
کے نام سے جانا جاتا ہے۔
وی ایس نائیپال اسی قبیلے کا ایک عالمی شہرت کا حامل نوبل انعام یافتہ بے
باک مصنف ہے۔تقریباً تین سال پہلے اس نے اپنی سوانح حیات Biography کی رسم
اجراءکی مجلس کو خطاب کیا تو اس نے بھی اپنی کتاب کے ان اقتباسات کو پیش
کرنے کی جرات کی جو اس کی زندگی میں فحاشی اور رومانس سے تعلق رکھتے تھے۔اس
نے کہا کہ ”میں آج بھی اپنی زندگی کے اس دور کو یاد کرکے افسوس کرتا ہوں جب
میری بیوی شدید مرض میں مبتلا تھی میں اس وقت بھی اپنی شہوانی جذبات پر
قابو نہ رکھ سکا اور بیوی کی بیماری اور علاج کی وجہ سے میری مالی حالت بھی
اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ میں اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے فائیو
اسٹار ہوٹلوں میں نہیں جا سکتا تھا ۔اس لئے میری زیادہ تر راتیں لندن کے
طوائف خانوں میں گزرتی تھیں ۔جب یہ بات میری بیوی کو میرے دوستوں سے معلوم
ہوئی تو وہ اس صدمے سے ایک دن اس دنیا سے رخصت ہو گئی“۔ اب آپ اندازہ لگا
سکتے ہیں کہ ایک نوبل انعام یافتہ شخص کس معیار کا مصنف ہے ۔
سپریم کورٹ کے رٹائر جج مارکنڈے کاٹجو نے صحیح کہا ہے کہ سلمان رشدی ایک
گھٹیا اور غیر معیاری ادیب ہے جس نے اگر شیطانی کتاب شیطانی آیات نہ لکھی
ہوتی تو شاید گمنامی میں ہی رہتا اور جو لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں دراصل یہ
لوگ نو آبادیاتی احساس کمتری کے مرض میں مبتلا ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ
برطانیہ اور نیو یارک میں رہنے والا ادیب بلند پایہ کا ہوگا۔
افسوس ہمیں بھی ہوتا ہے کہ ہندوستان میں ایک بد معاش قسم کے مصنف کے داخلے
پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا کہ پورے قومی میڈیا اور نام نہاد ترقی پسند
مصنفوں کے قبیلے میں ہلچل سی پیدا ہوگئی اور سبھی یہ سبھی راگ الاپنے لگے
کہ مسلمان آزاد ئی اظہار رائے کے دشمن ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک شخص ایک
شخص کو اس کے عقیدے کو اس کے باپ کو اس کی ماں کو کسی بھی طرح سے گالی دے
اور دوسرا یا تو آزادی اظہار رائے کا احترام کرتے ہوئے خاموش ہو جائے یا
پھر وہی گالی وہ بھی دینا شروع کردےجو اس کا مخالف دشمن اسے دے رہا
ہے؟افسوس یہ سب اس ملک اور اس جمہوری دور میں ہورہا ہے جسے دنیامہذب جمہوری
دور کے نام سے جانتی ہے۔
ہمارا سوال بھی مسلمانوں سے ہے کہ تمہارا دشمن صرف ایک شیطان اور ایک شیطان
رشدی نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑا قبیلہ ہے جو ایسی جگہ پر قابض ہے اور اس
مقام اور اس ادارے کی طاقت سے اس طرح سے تمہارے خلاف جال پھیلا رہا ہے جہاں
سے وہ اسے دیکھ نہیں پاتا ۔رشدی کو حکمراں جماعت نے سیاسی وجوہات کی بناءپر
اس بار ہندوستان نہ آنے کے لئے مجبور تو کردیا مگر دوسرے طبقات کو خوش کرنے
کے لئے اس مصنف کو دوبارہ ضرور مدعو کیا جائے گا ۔اس بات کا اشارہ دہلی کی
ایک ٹرسٹ اور خود وزیر اعلیٰ شیلا دکشت نے بھی دے دیا ہے ۔سوال یہ نہیں ہے
کہ رشدی ہندوستان آتا ہے یا نہیں یا اس کے آنے یا نہ آنے سے مسلمانوں پر
کیا قیامت آپڑے گی۔سوال ان رشدیوں اور اس کے قبیلے کا ہے جو ہندوستان میں
بڑی تعداد میں مقیم ہیں ۔خشونت سنگھ نے رشدی کی حمایت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
ہندوستان رشدی کا مادر وطن ہے اس لئے ہمیں انگلش ادب میں رشدی کی کامیابی
پر فخر کرتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے اس کا استقبال کرنا چاہئے ۔مگر رشدی کے
تعلق سے یہ بات مجھے ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی کہ اس نے کثرت کے ساتھ شادی
اور طلاق کا ڈرامہ کیوں کیا جبکہ اگر اسے عورتوں سے اتنا ہی پیار ہے تو وہ
اپنی اس خواہش کو شادی کے بغیر بھی پورا کر سکتا تھا۔(ہندوستان ٹائمس 22
جنوری)خشونت سنگھ کا ایک اور اعتراف ہندوستان ٹائمس کے 18 دسمبر کے شمارے
میں بھی ہے ”میں نے ہندوستانی روایت کے علی الرغم زندگی میں کبھی کسی کو
ماں،بہن،بیٹی نہیں سمجھا ۔عورت میرے لئے ہمیشہ جنسی ہوس کی تکمیل کا وسیلہ
رہی اور آج بھی ہے“۔اندازہ لگائیے کہ سلمان رشدی سے لیکر وی ایس نائیپال
تسلیمہ نسرین اور خشونت سنگھ تک درمیان میں جن نام نہاد فحش ادیبوں کا ہم
نے تذکرہ کیا ہے اور جن کا نہیں بھی ہو سکا جسکی فہرست بھی ایک کتاب سے کم
نہیں ۔کیا انہوں نے صرف اپنے باپ اپنی ماں اپنی بیوی اپنی بہن اور اپنی
بیٹیوں کو گالیاں دینے یا ان کی عزت عصمت کا مذاق اڑانے کے سوا بھی کو ئی
تخلیقی کارنامہ انجام دیا ہے جو تعلیمی نصاب میں شامل ہونے کے لائق ہو۔غور
کیجئے کہ نوے سال کے خشونت سنگھ رشدی کو جن عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات
کا مشورہ دے رہے ہیں وہ عورت خشونت سنگھ کی اپنی بہن اور بیٹی بھی تو ہو
سکتی ہے ؟اس طرح جو سماج اور قبیلہ مسلمانوں کو قدامت پرست ،بنیاد پرست
ہونے کا الزام لگاتے ہوئے عورتوں کے پردے اور حجاب کو ظلم کی علامت قرار دے
رہا ہے کیا اس کی سازش یہ نہیں ہے کہ عورت کو بے پردہ اور بے سہارا کرکے
بھوکے بھیڑ ئیے کی طرح اس پر ٹوٹ پڑے ۔ہم اس لئے رشدی کے خلاف ہیں ۔ |