اس نے ہاتھوں کی پلیٹ میں رکھ کر
ایک ملفوف کارڈ مجھے دیا، مصروفیت کی وجہ سے میں اسے موقع پر تو نہ کھول
سکا تاہم گھر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ وہ ایک دعوت نامہ تھا جس میں ربیع
الاول کے حوالے سے ایک محفل کا ذکر تھا، جس میں مرکزی جلسہ اور جلوس کے وقت
اور جگہ کا تعین کیاگیا تھا، اس کے ساتھ ہی بڑے سائز کے ایک صفحہ کے دونوں
طرف ان علاقوں کے نام، قیادت کرنے والے اصحاب کے اسمائے گرامی اور جہاں
جہاں سے جلوسوں نے گزرنا تھاان علاقوں کے نام درج تھے۔ اول وآخر عقیدت کے
پھول بھی نچھاور کئے گئے تھے، دعائیں طلب بھی کی گئی تھیں اور شرکاءکے لئے
خوشخبریاںبھی موجود تھیں۔
کالم کے آغاز میں ہی میں معافی کا خواستگار ہوں ، اگر میری نگارشات کسی
محترم قاری کے دل پر گراں گزریں تو میں پیشگی معذرت چاہتا ہوں، ایسے حساس
معاملات پر رائے زنی کرنا گویامصیبت کے منہ میں ہاتھ ڈالنا ہے۔ انسان فتوؤں
کے ایسے گرداب میں پھنس جاتا ہے جہاں سے سلامت نکلنا مشکل ہوجاتا ہے، اور
ستم یہ کہ کوئی سننے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ نہ جانے جشن عید میلادالنبی ﷺ
کے کتنے جلوس ہیں جو 12ربیع الاول کو برآمد ہوں گے اور بالآخر ایک بڑے جلوس
میں شامل ہوجائیں گے، ان کے لئے کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں، روٹ تیار ہوچکے ہیں۔
یکم ربیع الاول سے ہی چھوٹے چھوٹے جلوس بڑے پروگرام کی ریہرسل کرتے دکھائی
دیتے ہیں، شہروں کی معروف سڑکوں پر مدرسے کے بچوں کی قطاریں گزر رہی ہوتی
ہیں، جھنڈے لہراتے ، نعرے لگاتے یہ بچے روزانہ سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ آخری
دن تو نہایت عقیدت سے سیکڑوں ٹرالیاں اور دیگر سواریاں لاؤڈ سپیکر لگائے
جوش خروش سے منزل کی طرف گامزن ہوتی ہیں۔
اگرچہ ہمارے علماءحضرات کے پاس اپنے اعمال وافعال کے لئے بیسیوں دلائل ہوتے
ہیں، انہیں اظہار کاسلیقہ بھی آتا ہے اور ان کے پاس محراب وممبر کی صورت
میں زبردست پلیٹ فارم بھی موجود ہے۔ مگر ذرا سوچئے ، کہ کیا ان کمیٹیو ں نے
اصلاح معاشرہ میں کبھی کوئی کردار ادا کیا ہے؟ ہمارے شہروں کے درمیانے اور
غریب علاقوں کی گلیاں محلے کوڑاکرکٹ سے اٹے ہوئے ہوتے ہیں، ہر گلی کے باہر
کچرے کا ڈپو موجود ہوتا ہے، کیا صفائی نصف ایمان نہیں، کیا اس عظیم مقصد کے
لئے ہم میں سے کسی نے کبھی کوئی کمیٹی تشکیل دی؟ گلیاں محلے تو الگ بات ہے،
مساجد اورسکولوں کے قریب خالی جگہوں پر بھی کوڑے کے ڈھیر ہوتے ہیں۔ کیا
کوئی کمیٹی اس کارِ خیر کو بھی سنت نبویﷺ سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں
گے؟کیا ہم نے کبھی ایسی کمیٹیاں بنائیں جو ہمارے بچوں کو آوارگی اور بے راہ
روی سے بچانے کا بندوبست کریں؟ کیا ہم لوگ اپنے کاروبار میں دیانتداری سے
کام لیتے ہیں، ہم میں سے کتنے ہیں جو ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی کی غلاظت سے
پاک ہیں؟ کتنے ہیں جو ناجائز منافع خوری نہیں کرتے؟کیا ہم نے معاشرتی
برائیوں کے خاتمہ کے لئے کبھی اپنی خدمات پیش کیںیا رکاوٹ بننے کی کوشش کی؟
شہروں میں ایسے بینروں نے سایہ کررکھاہے، جن پر آمد رسول ﷺ کے نعرے درج
ہیں، ان بینر لکھواکر ثواب دارین حاصل کرنے والوں میں سے ممکن ہے کوئی لوگ
ایسے ہوں جو اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق میں سے مستحق لوگوں پر بھی خرچ
کرتے ہیں، لیکن اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع
خوری اور رشوت ستانی کے ذریعے دولت جمع کرتے ہیں، حج اور عمرہ کی سعادت بھی
حاصل کرلیتے ہیں، مگر کسی ہونہار غریب بچی کی سکول کی فیس یادیگر اخراجات
کے لئے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتے، کسی مستحق بچی کے علاج یا جہیز خریدنے
میں تعاون نہیں کرتے، کیا لاکھوں روپے کے بینر معاشرتی زوال کے زمانے میں
ثواب کا ذریعہ بن سکتے ہیں؟ کیا ہمیں دکھاوے اور جلوسوں کی بجائے سنت نبوی
ﷺ پر عمل کرنے کی فکر نہیں کرنی چاہیئے؟ کیا عقیدت اور محبت کا اظہار
جلوسوں اور نعروں سے زیادہ ہوتا ہے یا اپنی زندگی کو اتباع رسولﷺ کے مطابق
ڈھالنے سے؟ ؟ |