پاکستان تو بن گیا لیکن انگریز
کی بدنیتی اور ہندو کی مکاری نے کشمیر کے تنازعے کی صورت میں ایک ایسے
مسئلے کی بنیاد رکھ دی جو نصف صدی سے زیادہ گزرنے کے باوجود حل کے قریب بھی
نہیں ۔ اس مسئلے پر پاکستان اور بھارت کی تین جنگیں ہو چکیں1948 سے لے کر
1999 تک ہونے والی ان جنگوں میں دونوں ملکوں کا بے تحاشا نقصان ہو چکا ہے
اورمستقبل قریب میں بھی اس کے رکنے کا کوئی امکان نہیں بلکہ وقت کے ساتھ
ساتھ اس کی پیچیدگی میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے جیسے اسی مسئلے سے پانی کے
مسئلے نے جنم لیا اور اگلی کسی بھی جنگ کے امکانات اور وجوہات میں پانی سر
فہرست ہوگا کیونکہ ہمارے تمام دریا اسی وادی سے ہوکر ہم تک پہنچتے ہیں۔
کشمیر بھارت کے لیے اہم ہو یا نہیں ہمارے لیے ہے اور وہ اِس پر قابض ہو کر
بیٹھا ہو ا ہے توبھی اس لیے کہ پاکستان کو نقصان پہنچائے اوراسے زیادہ سے
زیادہ مصیبت میں ڈالے رکھے ۔ وہ اسی مسئلے کی آڑ لے کر ہر جرم کا الزام
پاکستان پر رکھ دیتا ہے چاہے وہ بھارت کے دوسرے سرے پر وقوع پذیر ہوا ہو
یوں بھارت اس تنازعے کا مکمل فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ پاکستان کو نہ صرف
زمینی طور کشمیر کے مسئلے سے نقصان دینا چاہتا ہے بلکہ نفسیاتی طور پر بھی
مفلوج کرنا چاہتا ہے۔ 1951 میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے کشمیر میں
استصواب رائے کے لیے قرار داد منظور کی اور اس کے بعد بھی ایسی ہی قرار
دادیں منظور کی گئی لیکن بات قرار دادوں تک ہی رہی اس پر عمل درآمد کے لیے
بھارت پر وہ زور نہ ڈالا گیا جو مسئلے کو حل کی طرف لے جا سکے اور کشمیر
یوں کو ان کا حق خودا رادیت دلاسکے۔ کشمیر کا مسئلہ اِس وقت صرف آزادی تک
نہیں ہے بلکہ یہ انسانی حقوق کا بھی مسئلہ ہے جس طرح آئے روز کشمیری بھارتی
فوج اور پولیس کے ہاتھوں اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں وہ بذات خود ایک
المیہ ہے Shining India کی ترقی کے دروازے کشمیر تک آتے آتے بند ہو جاتے
ہیں اور کالے قوانین کے ذریعے فوج اور پولیس کو ایسے اختیارات مل جاتے ہیں
کہ وہ کسی کشمیری سے باز پُرس کیے بغیر اُس کی زندگی کے مالک بن جاتے ہیں ۔
بے شمار اجتماعی قبریں اپنے مدفونوں سمیت ان مظالم کی گواہ ہیں خواتین کی
عصمت دری بچوں کا قتل، جوانوں کا غائب ہو جانا اور پھر کچھ دنوں بعد ان کی
لاشیں ملنا اب کشمیریوں کے لیے انہونی بالکل نہیں لیکن انہوں نے حالات سے
سمجھوتا نہیں کیا اور وہ مسلسل اپنی آزادی کے لیے کوشاں ہیں جو کہ ان کا حق
ہے کسی بھی دوسرے انسان کی طرح اور مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے ناطے یہ
کشمیر یوں کا حق ہے کہ وہ غیر مسلم حکومت کے ساتھ نہ رہنا چاہیں تو وہ
آزادی کا مطالبہ کر سکتے ہیں اور انہیں آزادی ملنی چاہیے بالکل اُس طرح جس
طرح آزادی ہندوستان کے ہر ہندو کا حق ہے ۔ لیکن اس حق سے کشمیری کو محروم
رکھا جا رہا ہے جبکہ کشمیر نہ تو مذہبی طور پر اور نہ جغرافیائی لحاظ سے
بھارت کا حصہ ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ وہ اس راستے سے پاکستان کو مسلسل
دبائو میں رکھ سکے۔
اگر کشمیر کا مسئلہ آج بھی حل کر لیا جائے تو اس خطے کی قسمت سنور جائے
لیکن اس کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ بھارت اپنی ہٹ دھرمی ختم کر دے اور اس
بات کو تسلیم کر لے کہ وہ دس نہیں بیس لاکھ فوج کے ذریعے بھی کشمیر یوں کے
دل نہیں جیت سکتا۔ اور Prevention of Terrorist Activities Act ، Armd
Forces Special Power Act اور Terrorist and Disruptive Activities Act
جیسے ظالمانہ قوانین بھی اُسے کشمیریوں پر قابو پانے میں مدد نہیں دے سکتے
اِن قوانین کو اگر چہ بنایا تو پورے بھارت کے لیے جاتا ہے لیکن ان کا سب سے
زیادہ اور آزادانہ استعمال کشمیر میں ہی کیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کشمیر
بھارت کے ہاتھ میں پاکستان کے خلاف موثر ترین ہتھیار ہے اس لیے وہ کسی صورت
اسے ہاتھ سے نکلنے نہیں دے گا لیکن پاکستان کو بھی اپنی کشمیر پالیسی میں
تسلسل رکھنے کی ضرورت ہے کہنے کو تو ہر حکومت اسے اپنے ایجنڈا پر رکھتی ہے
لیکن درحقیقت اس کو وہ اہمیت نہیں دی گئی اور بین الاقوامی سطح پر اس کو
اجاگر کرنے کے لیے وہ کوشش اور محنت نہیں کی گئی جس کی ضرورت تھی اور ہے
۔صرف یوم یکجہتی کشمیر منالینے سے کشمیر کی آزادی کا کوئی امکان نہیں ہے
بلکہ اس کے لیے سرتوڑ اور انتھک کوشش کی ضرورت ہے اور ٹھوس عملی اقدامات سے
ہی اس کا حل ممکن ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ہر سال پانچ فروری کو پورا ملک
چھٹی کرکے یوم یکجہتی کشمیر مناتا ہے پورے ایک دن کی اقتصادی صنعتی، تعلیمی
، معاشی ہر قسم کی سرگرمی ختم کردی جاتی ہے کروڑوں کا کاروبار بند کرکے
یکجہتی کا اظہار کرنے کی بجائے اگر ہم بحیثیت قوم اور حکومت اس مسئلے کو
دنیا کے ہر فورم پر اٹھائیں، آٹھ کی بجائے بارہ گھنٹے کام کریں تو ہم دنیا
کو زیادہ مستحکم پیغام دے سکتے ہیں ۔ بقول قائداعظم کشمیر پاکستان کی شہ رگ
ہے اور ہمیں خود اس کا احساس کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی اس امر کا
احساس دلانا چاہیے ۔ اقوام متحدہ کو بھی یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ جس طرح
وہ طاقتور ممالک کے مفادات کے لیے پوری دنیا کو ہلاکر رکھ دیتا ہے اُسی طرح
مظلوم کشمیریوں کو بھی غاصب بھارت کے قبضے سے نجات دلائے۔ یہ سوچنا کہ
بھارت خود کشمیر کا قبضہ چھوڑ دے گا سراسر حماقت ہے کشمیر کی آزادی کے لیے
پاکستانیوں کا اُن کے ساتھ یکجہتی کا اظہار یقینا اُنہیں قوت دیتا ہے لیکن
اُنہیں ہماری مزید اخلاقی مدد کی ضرورت ہے تا کہ وہ یہ محسوس کر سکیں کہ
آزادی کی جدوجہد میں وہ تنہا نہیں ایک ایٹمی قوت ان کی پشت پر جم کر کھڑی
ہے۔ |