آزاد کشمیر دنیا کے خوبصورت ترین
خطوں میں سے ایک ہے ۔ پاکستان میں جہاں، جہاں بھی مجھے جانے کا موقعہ ملا
ہے کسی بھی مقام کو آزادکشمیر جیسا نہیں پایا اور دنیا کا جو خطہ میڈیا کے
ذریعے دیکھا ، کہیں میرے کشمیر جیسا کچھ نہ تھا۔ قدرت نے جو حُسن ہماری
دھرتی کو عطا کیا ہے، ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔قدرتی حُسن و جمال ، موسمی
تغیر،جغرافیائی حیثیت، پہاڑی سلسلے، جنگلات، نباتات و جمادات الغرض سب کچھ
یکتا اور منفرد ہے۔ ندی ، نالے اور دریا، برف کی دولت سے اٹے ہوئے پہاڑ،
جڑی بوٹیوں سے بھرے ہوئے جنگلات، سونا اگلنے والے کھیت، خوشبو بکھیرنے والی
جھاڑیاں اور دنیا کے نفیس ترین اور لذیذ ترین پھلوں دینے والے باغات اور
صبح سے شام تک رب العزت کی بڑھائی کے گیت گانے والے پرندے، کیا نہیں جو
قدرت نے ہمیں عطا نہیں کیا۔
تقسیم کشمیر سے پہلے کچھ سکھ اور ہندو بھی یہاں مقیم تھے۔ میرے بچپن میں ان
غیر مسلموں کے کچھ آثار باقی تھے، جو رفتہ رفتہ نا پید ہو چکے ہیں۔ میں نے
جو کچھ مشاہدہ کیا وہ ہم مسلمانوں سے لاکھ درجے بہتر اور منفرد تھا۔ ہم نے
تقسیم کے وقت جس بیدردی سے غیر مسلموں کو قتل کیا اور ان کی املاک کو جس
طرح لوٹا وہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے لیکن اس سے بھی زیادہ تلخ یہ حقیقت ہے کہ
ہم نے ان سے کچھ نہ سیکھا۔ میں نے اپنے بچپن میں یہ دیکھا کہ ہندووں کی
چھوڑی ہوئی زمینوں اور مکانا ت (جو جل کر کھولے بن چکے تھے) حُسن تدبیر اور
حُسن انتظام کے سنہری نمونے تھے۔ 1947 سے پہلے باغ جیسے علاقے میں نہ سڑک
تھی نہ ذرائع آمد و رفت ، نہ ہنر مند تھے اور نہ ٹیکنالوجی لیکن ہندووں کے
بنائے ہوئے گھروں میں پتھروں کو جس سلیقے اور انداز میں تراشا گیا تھا ،
مکانوں کا تعمیر اتی معیار، ڈیزائننگ اور اندرونی لے آؤٹ آج کے جدید ترین
ماڈلز کو شرمندہ کرتی تھی۔ کاشتکاری میں ان کا اپنا کمال تھا، کھیتوں کی
ترتیب، بارشی پانی سے بچاؤ کے طریقے، کھیتی باڑی کے طریقے، فصلوں، سبزیوں
اور پھلوں کا انتخاب بھی منفرد تھا۔میں نے اس دور میں غیر مسلموں کے کھیتوں
میں جو پھل ( اعلٰی نسل کاسیب، اخروٹ، خوبانی، آڑو،انگور، لوکاٹھ، بادام،
ناشپاتی، انار، آلوبخارہ اور دیگر پھل) دیکھے وہ اس دور میں بھی کسی مسلمان
کے کھیت میں نہیں تھے اور آج نصف صدی گزرنے کے باوجود بھی نظر نہیں آتے۔
انسانوں اور جانوروں کی گزرگاہوں کو جس خوبصورت انداز میں مرتب کیا گیا تھا،
چشموں اور ندی نالوں کو جس طرح قابل استعمال بنایا گیا تھا اور جنگلوں میں
بارشی پانی کو پالتواور جنگلی جانوروں کے لیے محفوظ کرنے کے لیے جو تالاب
”جبڑ“ نظر آتے تھے وہ آج نا پید ہیں۔ آج سرکاری سطح پر منصوبہ بندی اور
ترقی کے محکمے بھی موجود ہیں، لوکل گورنمنٹ کا نظام بھی ہے لیکن کہیں اس
پسماندہ دور کے ہندووں جیسا نظام نظر نہیں آرہا۔
ہم نے قدرتی حُسن سے مالا مال خطے کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی
اور بہت قریب ہے وہ وقت کہ پورا آزادکشمیر ٹنچ بھاٹہ (راولپنڈی ) کی طرح
گنجان آباد اور ناقابل گزرو بسر بستی میں تبدیل ہو جائے گا۔ زلزلے کے بعد
جب فی گھرانہ معاوضے کا معیار طے پا تا تو ہم کلمہ گو مسلمانوں نے جس ”حق
گوئی“ کا ثبوت دیا ، اس میں شاز ہی کوئی معیار سچائی پر قائم رہ سکا ہو،
ہاں پھر بھی ہم مسلمان کہلانے پر فخر کرتے ہیں۔ سرکاری معاوضے کی پابندی کی
وجہ سے 2006 کے بعد رہائشی مکانوں کی تعداد میں جو اضافہ ہوا اور ہم عقل
مندوں نے جس طرح اپنی بستیوں کو ترتیب دیا ، اس کے نتائج چند سالوں میں
ظاہر ہونا شروع ہو ں گے۔آج دیہی آبادیاں پرانے شہروں کی طرح گنجان آباد نظر
آ رہی ہیں۔ ان شہروں میں پانچ اور چھ فٹ کی گلی گزر گاہ کے لیے رکھی جاتی
تھی، ہم پڑھے لکھے او با شعور لوگوں نے اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔
دیہی اور شہری علاقوں میں جس تیز رفتاری ،بے ترتیبی اور بغیر منصوبہ بندی
کے تعمیرات جاری ہیں، ہم اسی تیز رفتاری سے پتھر کے دور میں داخل ہو رہے
ہیں۔بقول سکندر حیات سابق وزیر اعظم ہم اپنے خطے کو قبرستان میں تبدیل کر
رہے ہیں۔ سکندر حیات تو گورکن تھے، منتظم اعلیٰ ہونے کے باوجود وہ اہل
کشمیر کے لیے کوئی انتظام نہ کر سکے۔ سکندر حیات تو کوٹلی، میرپور اور
بھمبر سے چند انتظامی افسر اور پولیس اہل کار فراہم نہیں کرسکے، وزیر اعلیٰ
پنجاب چوہدری پرویز الہی نے تمام زلزلہ زدہ علاقوں کے لیے پنجاب سے پولیس
فورس تعنیات کر دی تھی ورنہ ہم ایک دوسرے کو نوچ ڈالتے۔پہلے حکمران کفن چور
تھے اور موجودہ مُردوں کے ہڈیاں تک بیچ ڈالنے والے ہیں۔ان سے کسی خیر کی
توقع نہیں۔ سوسائٹی کی بہتری کے لیے یہ کچھ سوچنے اور کرنے کی صلاحیت نہیں
رکھتے۔ گزشتہ بیس سالوں سے ضلع مظفر آباد، ہٹیاں، نیلم، باغ اور پونچھ کی
سڑکیں ان کی حُسن کارکردگی کی عمدہ مثالیںہیں۔جس طرح انہوں نے ان سے مال
کمایا ہے اسی طرح وہ ہمارے مستقبل کو تاریک کرنے میں پوری یکسوئی سے جتے
ہوئے ہیں۔
میں حکمرانوں اور بیوروکریسی سے معذرت چاہتے ہوئے کمیونٹی کے سنجیدہ طبقات
سے چند ایک گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔ (۱)ہمارے حکمران اور بیوروکریٹ مال
بناؤ مہم پر مامور ہے، اس لیے ان کی طرف دیکھنے، ان سے مطالبات کرنے اور ان
کو سکیمیں بنا کر دینے کے بجائے محلوں کی بنیاد پر فیوچر سیونگ (مستقبل
بچاؤ)کمیٹیاں بنائیں۔ ۲) ان کمیٹیوں کے ذریعے سب سے پہلے مقامی سکولوں کی
کارکردگی بہتر بنانے کے لیے صدر معلمین اور اساتذہ سے رابطہ رکھیں اور
انہیں اخلاقی دباؤ سے فرائض منصبی ادا کرنے پر آمادہ کریں۔ ۳) اپنی بستیوں
میں صفائی کا انتظام کریں اور گزرگاہوں (راستوں) کو قابل استعمال بنانے کے
لیے مل جل (لیتری لگا کر) کام کریں۔ ۴) اپنے ارد گرد قدرتی چشموں کی حفاظت
کریں اور پینے کے پانی کو صاف رکھنے کا اہتمام کریں۔ ۵) بستیوں کے اردگرد
بارشی پانی گزرنے کے لیے کولیں بنائیں تاکہ زمین کا کٹاؤ کم سے کم کیا جا
سکے۔ ۶) مقامی موسم اور زمینی صلاحیت کے مطابق کچن گارڈن اور پھل دار
درختوں کی کاشت کو رواج دیں تاکہ مقامی ضرورتیں مقامی طور پر پوری ہو سکیں۔
۷) گھریلو سطح پر مرغ بانی کو فروغ دیں۔ ۸) سرکاری سکولوں کی عمارتیں جو دن
دو بجے خالی ہو جاتی ہیں کو تین بجے سے رات گئے تک بچیوں اور نوجوانوں کو
ہنرمندی سکھانے کے لیے استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔ ۹) سرکاری محکموں
کی بے جا مداخلت ختم کرنے اور سرکاری اہل کاروں کی رشوت خوری کے خلاف ایکشن
کمیٹیاں بنائیں۔ 10) غیر اسلامی رسومات، نوجوانوں میں پھیلنے والی بیراہ
روی اور موبائل فون کے غیر اخلاقی استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔
۱۱) کیبل ٹی وی کے وسعت پذیر نیٹ ورک سے اپنی بستیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے
عوامی بیداری شروع کریں ۔ 12) بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اپنی بستیوں کا
کسی معروف ٹوپو گرافک سروئے کمپنی سے سروے کروا کر بہترین کنسلٹنگ کمپنی کے
انجیئرز کے ذریعے بستیوں کو جدید ترین طرز پر تبدیل کرنے کے لیے اس طرح لے
آؤٹ بنوائیں کہ موجودہ گھروں، راستوں اور زیر قبضہ رقبہ جات کے اندر رہتے
ہوئے مستقبل کے لیے رہائشی سہولتیں میسر آسکیں۔ اس کام پر زیادہ سے زیادہ
ایک ہزار روپے فی کنال خرچہ آئے گا جو مقامی طور پر چندہ کرکے پورا کیا جا
سکے گا۔ کمیٹیاں تمام لوگوں کو پابند کریں کہ اس منصوبہ بندی کے ہٹ کر نہ
کوئی تعمیر کرے گا اور نہ اس میں کوئی فرد رد وبدل کر سکے گا۔
ان سارے کاموں میں ہر فرد کو کچھ نہ کچھ حصہ ڈالنا پڑے گا، معمولی رقم جو
ہم روزانہ چائے نوشی پر خرچ کرتے ہیں، اس کی بچت کرکے ، چند ایک صاحب فہم
انسانوں کی مشاورت سے ہم اپنا مستقبل بچا سکتے ہیں ورنہ جن درندوں کے سپرد
ہمارے معاملات ہیں وہ ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیل دیں گے اور پھر ہماری
نسلیں ہماری غیر ذمہ داری، نااہلی اور غیر دانشمندی پر صدیوں کوستی رہیں
گی۔ اس کام کے لیے قومی اور بین الاقوامی این جی اوز سے بھی خاصا تعاون
میسر آسکتا ہے۔ میں نے بہت ہی اختصار سے اپنی گزارشات پیش کی ہیں۔ تفصیلات
کے لیے ای میل کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں۔ |