چودہ فروری کو ویلنٹائن ڈے یومِ اظہارِ
محبت کی حیثیت سے بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔اس کے آغاز کے بارے میں
بہت سی روایات مشہور ہیں۔ لوگ اسے کیوپڈ (محبت کے دیوتا)اور وینس(حسن
دیوی)سے موسوم کرتے ہیں جو کیوپڈ کی ماں تھی۔ یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن ڈے
کا مرکزی کردار کہتے ہیں جو اپنے محبت کے زہر بجھے تیر نوجوان دلوں پر چلا
کر انھیں گھائل کرتا تھا۔ ایک دوسری روایت میں اِس تہوار کے تاریخی پس منظر
کو دیکھا جائے تو اِس تہوار کا تعلق سینٹ ویلنٹائن سے جوڑا جاتا ہے۔ اس
تہوار کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جب رومیوں نے نصرانیت قبول کی
اور عیسائیت کے ظہور کے بعد اس میں داخل ہوئے تو تیسری صدی عیسوی میں
شہنشاہ کلاڈیس دوم نے اپنی فوج کے لوگوں پر شادی کرنے کی پابندی لگا دی
کیونکہ وہ بیویوں کی وجہ سے جنگوں میں نہیں جاتے تھے تو اس نے یہ فیصلہ
کیا۔لیکن سینٹ ویلنٹائن نے اِس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے چوری چھپے فوجیوں
کی شادی کروانے کا اہتمام کیا اور جب کلاڈیس کو اِس کا علم ہوا تو اس نے
سینٹ ویلنٹائن کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور اسے سزائے موت دے دی۔کہا
جاتا ہے کہ قید کے دوران سینٹ ویلنٹائن کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور
سب کچھ خفیہ ہوا کیونکہ پادریوں اور راہبوں پر عیسائیوں کے ہاں شادی کرنا
اور محبت کے تعلقات قائم کرنا حرام ہیں۔ اسے 14 فروری 270 عیسوی کے دن
پھانسی دے دی گئی۔ روایت کے مطابق اس دن کی یاد میں محبت کرنے والوں کے
درمیان پیار بھرے پیغامات کا تبادلہ ہوگیا۔ یہ ویلنٹائن کی وہ کہانی ہے جو
مغرب میں بے انتہا مقبول ہے۔
جب سے یہ تہوار عیسائیوں نے شروع کیا ہے اس میں مقصود محبت زوجیت کے دائرے
سے باہر رہتے ہوئے عشق اور دل کو عذاب میں ڈالنے والی محبت مراد ہے ، جس کے
نتیجہ میں زنا اور فحاشی پھیلے اور عام ہو ، اور اسی لیے کئی اوقات میں
عیسائیوں کے دینی لوگوں نے اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے اس کیخلاف کام کیا
اور اسے باطل قراردیا اوراسے ختم کیا لیکن انیسویں صدی میں دوبارہ زندہ
کیاگیا۔ چونکہ عشق کا تعلق انسان کے اندرونی جذبہ سے ہے اسی کا استحصال
کرنے کیلئے تجارتی کمپنیوں نے ویلنٹائن ڈے کو ذرائع ابلاغ اورمیڈیا کے
ذریعہ خوب شہرت دی اور دلفریب بنا کر پیش کیا۔ اس دن کھربوں ڈالرز کا فائدہ
یہ اپنی مصنوعات محبت کے دیوانوں کو فروخت کر کے حاصل کرتی ہیں۔ انہیں کے
زیر اثردنیا تمام ذرائع ابلاغ اس دن کوبڑے تزک واحتشام سے نشر کرتے ہیں
خصوصاً اسلامی ممالک میں براہ راست موسیقی اورگندی تصاویر اوررقص وسرور کی
محافل نقل کرتے ہیں جس کی بنا پربہت سے مسلمان لوگ بھی اس کے دھوکہ میں آنا
شروع ہوچکے ہیں۔ اسی لئیے پچھلے چند برسوں میں بہت سے مسلمان نوجوان لڑکے
لڑکیوں میں بھی یہ دن منانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
اس دن ایک خاص قسم کے کارڈ کا تبادلہ ہوتا ہے، جس پر لکھا ہوتا ہے : (
Valentine BeMy) "میرے والنٹائن محبوب بنو"۔ سرخ گلاب کے پھولوں کا تبادلہ
مٹھائیوں، خاص کر سرخ مٹھائیوں اور چاکلیٹ کا تبادلہ ایک دوسرے کو تحائف
دینا، تفر یحی مقامات پر جانا اور کھانے کی دعوت دینا اِس دن کی مناسبت سے
عام ہے۔پہلے محبت قربانی کا جذبہ مانگتی تھی، اب خرچہ مانگتی ہے۔ بدقسمتی
سے اِسے بھر پور اندازا میں منانے والے اِس بات سے لاعلم ہیں کہ اِسے کیوں
منایا جاتا ہے۔ اِس دن شہر کی سڑکوں پر عجیب و غریب مناظر دیکھنے کو ملتے
ہیں۔ پھولوں کی دکانوں سے پھول اچانک غائب ہوجاتے ہیں،تعلیمی اداروں
بازاروں اور بس اسٹاپ پر منچلے لڑکے لڑکیوں سے چھیڑ خانی کرتے اور پھول
پھینکتے ہوئے دکھا ئی دیتے ہیں جب کہ تما م پارکوں اور گارڈنس میں نوجوانوں
کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اور اِس دن کے لحاظ سے لڑکیوں نے سرخ لباس زیبِ
تن کئے ہوتے ہیں تاکہ اِس دن بھر پور انداز میں لطف اندوز ہوا جاسکے۔ اِب
یہ ایک فیشن بن گیا ہے اور ہرکوئی اِس فیشن کو اپنانے کے لئے سرگرداں ہے۔
یہ دن سڑک چھاپ عاشقوں کیلئے ایک نعمت بن کر واردہوا ہے۔ اِب آپ جس سے محبت
کرتے ہیں مگر اِب تک اظہار کرنے کی جرات نہیں کر پائے اسے صرف پھول یا پھر
ایک سستا سا کارڈ بھیج کر اپنے دل کی آواز اس تک پہنچا سکتے ہیں۔آگے آپ کے
محبوب کی مرضی ہے کہ وہ بہت ساری آفروں میں سے کس کی آفر قبول کرتا ہے۔ اور
کتنی مدت کیلیے۔۔۔۔
یہاں اِس کا ذکر انتہائی ضروری ہے خصوصا نئی نسل کے لئے جو ایسے فیشن
اختیار کرتی ہے اور ایسے ایام خوشی سے مناتی ہے۔ جو ہمارے ہیں ہی نہیں۔
بلکہ اس تہذیب سے بھیجے گئے ہیں جسے دیکھ کر ہم شرم سے جھک جاتے ہیں۔ اِس
تناظر میں اِس امر کو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ مسلم ممالک اور معاشروں پر
تہذیب کی جنگ مسلط کردی گئی ہے چند سال پہلے کسی کویہ معلوم نہیں تھا کہ
دنیا گلوبل ویلیج ہے۔ گلوبل ویلیج کا نعرہ مغرب سے آیا اور مغرب کے
پیروکاروں نے اِسے پھیلایا جس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا کو ایک تہذیب کے زیر
اثر لایا جائے جہاں ایک نظام ہو، ایک تہذیب ہو،اور اِسکے ہر رسم و رواج کو
دوسری تہذیبیں قبول کریں۔ اِسے اپنی زندگی کا جزوِ لازم بنالیں اور اِسی
منصوبے کے تکمیل کیلئے وہ جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ
ہم احساس کمتری کا اس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ مغرب کی ہر روایت کو اپنا کر
فخر محسوس کرتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں ماڈرن اور روشن خیال ہونے کی دلیل
ہے مغرب کی تقلید بن گئی ہے۔ بقول علامہ
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
یوں غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
ایک طبقہ کی رائے ہے کہ اسلام خوشی منانے سے ہر گز منع نہیں کرتا اس لئے اس
دن خوشی منانے میں کوئی حرج نہیں۔ مزید یہ کہ آپ ان کے طریقے مت اپنائیں
بلکہ اسلامی طریقے اپناکر اسلامی انداز میں یہ دن منا سکتے ہیں اس میں کوئی
مضائقہ نہیں۔۔ افسوس ہے ان دانشوروں پر۔ طریقہ بدلنے سے کوئی غلط کام جائز
نہیں ہو جاتا۔ اگر خوشیاں ہی منانی ہے تو کسی اور دن کا انتخاب کر لیجئے۔
اسی دن منانا ضروری ہے؟ اور کیا خوشی صرف ایک دن کیلئے ۔۔ ہمیشہ کیلئے کیوں
نہیں؟؟؟ اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ فطری مذہب
ہے۔ خوشی اور محبت فطری جذبات ہیں اور اسلام اس کی اجازت بھی دیتا ہے۔ لیکن
اس کے اپنے اصول ہیں۔ مسلمانوں کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ وہ ہر چیز کو اسلام
کی کسوٹی اور معیارات پر پرکھیں۔ اسلام خوشی اور تفریح سے ہر گز منع نہیں
کرتا بلکہ صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے منانے کا
مطلب کفار و مشرکین کی مشابہت اختیار کرنا ہے، اور اسلام کی واضح تعلیمات
ہیں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیکہ آپ ﷺنے فرمایا: (من تشبہ
بقوم فھو منھم ) "جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو اسکا شمار اسی قوم
میں ہوگا"۔ اب ہر انسان خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کن میں سے ہونا پسند
کرتا ہے۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ ان کی
امت میں سے کچھ لوگ ایسے ہونگے جواللہ تعالی کے دشمنوں کے بعض شعائر
اوردینی علامات وعادات میں ان کی پیروی اوراتباع کرینگے جیسا کہ مندرجہ ذیل
حدیث میں اس کا ذکر ملتا ہے :
ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا : ( تم اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقوں کی بالشت بربالشت
اورہاتھ برہاتھ پیروی کروگے ، حتٰی کہ اگر وہ گوہ کے بل میں داخل ہوئے توتم
بھی ان کی پیروی میں اس میں داخل ہوگے ، ہم نے کہا اے اللہ تعالٰی کے ر سول
صلی اللہ علیہ وسلم : کیا یہودیوں اورعیسائیوں کی ؟ تورسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا اورکون ؟ ! ) امام بخاری رحمہ اللہ تعالٰی نے اسے صحیح
بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنہ با میں روایت کیا ہے ۔
یہ تو مذہبی پہلو ہے۔ معاشرتی اور اخلاقی پہلو سے یہ دن جو برائیاں ساتھ
لاتا ہے وہ کوئی بھی شریف النفس قبول نہیں کر سکتا۔ مغربی اور غیر اسلامی
معاشروں کا جو کلچر میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کے ذہنوں یہ دن منانے کی
دعوت دیتا ہے ، وہ طریقے بھی سکھاتا ہے۔ محبت اور عشق کے خوبصورت پردوں میں
جنسی بے راہ روی اس دن کا خاصہ ہے۔ مغربی ملکوں کو چھوڑئیے خود ہندوستان
میں اس دن ہونے والی بے حیائی سے تو جانور بھی شرما جائیں ۔ آپ google یا
youtube پر سرچ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔
بے شک اسلام میں محبت توایک صورت یعنی آدمی اورعورت کے مابین محبت میں ہی
منحصرہونے کی بجائے عام ہے زیادہ بہتر ہے وہ اس طرح کہ دین اسلام میں اللہ
تعالٰی سے محبت اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا ، صحابہ
کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے محبت کرنا ،اولیا اللہ بزرگانِ دین
اورخیروبھلائی اوراصلاح اوردین سے محبت کرنے والوں اوردین کی مدد کرنے
والوں سے محبت کرنا ، اوراللہ تعالٰی کے راستے میں شھادت پانے سے محبت کرنا
، اوراسی طرح بہت ساری اوربھی محبتیں ہیں جواسلام ہمیں بتلاتا ہے ، لھذا جب
محبت کے اس وسیع معنی کوصرف محبت کی اس نوع اورقسم میں ہی منحصرکردیا جائے
توپھر بہت ہی خطرناک بات ہے غلط ہے۔ در اصل یہ محبت نہیں ہوس ہے جو موقعوں
کی تلاش میں رہتی ہے۔ بے شک جولوگ یہ گمان اورخیال رکھتے ہیں کہ شادی سے
قبل محبت کرنا شادی کے لیے مفیداوربہترنتائج کا باعث ہے اوراس سے اچھے
اوربہتر تعلقات قائم ہوتیہیں توان کا یہ خیال اورگمان تباہ کن اورخسارے
والا ہے ، جیسا کہ تجربات وواقعات اورسروے سے بھی یہ ثابت ہوچکا ہے ،نے
محبت کی شادی love marriage کے بارے میں جو ریسرچ کی ہے اس سے یہ ثابت ہوا
ہے کہ : وہ شادی جومحبت کی شادی یا محبت ہونے کے بعد شادی کی جاتی ہے اس
میں% 88 اٹھاسی فیصد شادیاں ناکامی کا شکار ہوتی ہیں یعنی اس میں کامیابی
کا تناسب صرف% 12 بارہ فیصد سے زیادہ نہیں ۔
یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس برائی کو روکنے کے لئے ہر
ممکن کوشش کریں۔لوگوں میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے آگہی پیدا کریں، اس
دن اور ایسے دیگر تہواروں کے خرابیوں اور خرافات سے اپنی نوجوان نسل کو آگا
کرنے کے ساتھ اسے اس دلدل میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں۔ اگر ہم نے ابھی
آنکھیں نہ کھولیں، اپنی روایات کا پاس نہ رکھا اور مغرب کی تقلید میں مست
رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اخلاقی زوال میں مغرب سے آگے نکل جائیں۔ |