نام مو سی بن نصیر
وجھ شھرت
عظیم سپہ سالار، فاتح افریقہ
افسوس کہ عیسائی مورخوں کے دیرینہ تعصب کے باعث اس منفرد و یکتا فاتح کی
سیرت اور کارنامے پوری طرح صفحہ قرطاس پر آشکار نہ ہوسکے۔عبدالملک بن مروان
کے 86 ہجری میں انتقال کے وقت خارجیوں کے فتنے نے خوب سر اٹھایا تھا، جسے
سختی کے ساتھ حجاج بن یوسف نے کچل دیا۔ عبدالملک کے بعد اس کا بیٹا ولید بن
عبدالملک تخت خلافت پرممتکن ہوا اور اس دس سال یعنی 96 ہجری تک شاندار
طریقے سے معاملات امور مملکت نمٹائے۔ولید کا دور خلافت متعدد وجوہات اور
کثیر اسلامی فتوحات اور اصلاحات کے سبب تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے ۔اس کے
عہد میں قتیبہ بن مسلم، حجاج بن یوسف ، مسلم بن عبدالملک ، طارق بن زیاد،
محمد بن قاسم اور موسی بن نصیر جیسے جید اور عظیم المرتبت سپہ سالاروں نے
پرچم اسلام کو سارے عالم یعنی چین سے لے کر ہندو ستان، اسپین، افریقا ،
یورپ اور شام تک لہرا دیا۔وہ سر فرازی دین اور تبلیغ اسلام کا مشن ساری عمر
نبھاتے رہے لیکن ان فقید المثال شخصیات کو ولید کے بھائی سلیمان بن
عبدالملک کے زمانے میں ذلت و خواری کا سامنا ذاتی پسند و ناپسندیدگی کے سبب
کرنا پڑا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی مسلسل فتوحات اور اسلام کی عالم گیریت
کو سخت دھچکا پہنچا۔ ولید بن عبدالملک کادور بنوامیہ کا زریں باب سمجھا
جاتا ہے ۔ قتیبہ بن مسلم باہلی نے خراسان، مرو، طفارستا ن ،فرغانہ ، بخارا
، ثمر قند اورکاشغر کو فتح کرنے کے بعد چین کا رخ کیا تو خاقان چین نے صلح
کر لی۔محمد بن قاسم نے سندھ کا سفرکیا اورہندوستا ن کے بیش ترعلاقوں کو فتح
کر کے لاکھوں قلوب انسانی کو اپنے حسن سلوک سے مسخر کر کے انہیں مشرف با
اسلام کیا اور اسلامی پرچم سر زمین سندھ میں نصب کر کے گویا دین اسلام کے
بیج بو دیے۔ مسلم بن عبدالملک نے شام و عراق میں فتوحات حاصل کیں۔طارق بن
زیاد نے، جوکہ موسی بن نصیر کے جاں نثار غلام زیاد کا بیٹا اور موسی کا
پروردہ چہیتا تھا، اپنے آقا کی ہدایا ت ورہبری میں فتخ ا ندلس کے لیے چل
پڑا۔ نہ صرف عالی شان اور بے مثال فتوحات حاصل کیں بلکہ وہاں کے کروڑہا
مظلوم عوام کو عیسائی بادشاہوں کے ظلم و ستم اور کلیساں و پادریوں کے شکنجے
سے نجات وآزادی بھی دلائی۔ اسپین کے ظالم ترین اور عیاش بادشاہ راڈارک کی
ایک لاکھ سے ذائد فوج کو ان کے ہی ملک میں دریائے گواڈلٹ کے کنارے 93 ہجری
میںصرف سات ہزار مسلمان مجاہدین کے ساتھ عبر تناک شکست دی۔ راڈرک بے سر و
سامانی کے عالم میں جان بچانے کے لیے بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر ہلاک ہو
گیا ۔طارق بن زیاد اپنی فوجوں کے ساتھ جس پہاڑ پر اترا تھا وہ جبل الطارق
کہلایا اور اپنی کشتیوںکو جلانے کے بعد جو تقریر اس نے کی تھی، اسے آج بھی
فوجی جرنیلوں کی جانب سے کی گئی عالمی تقریروں میں نمایا ں مقام میں درجہ
حاصل ہے۔ موسی بن نصیرعرصہ دراز سے اسپین کو فتح کرنے کو ارادہ کئے ہوئے
تھا ، ایسے میں کانٹ جولین نامی ایک عیسائی امیر راڈرک کے بارے میں شکایت
لے کر آیا کہ راڈرک عیاش طبع ہے اور اس نے کانٹ جولین کی بیٹی فلورنڈا کی
عزت لوٹی ہے اور وہ چاہتا کہ راڈرک سے کام لینے کے لیے اور وہ مسلمانوں کی
ہر ممکنہ مدد اور رہنمائی کرے۔ اس ترغیب نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔
طارق بن زیاد جیسے مدبر اور بہادر جرنیل نے فتح کے بعد پیش قدمی جاری رکھی
تو ابتدا موسی بن نصیر نے اسے منع کیا لیکن بعد ازاں مزید پانچ ہزار کا
لشکر بطور کمک روانہ کیا۔ موسی کی ہدایت کے بموجب قرطبہ پر حملہ کیا گیا،
پھر مرسیہ پر قبضہ ہوا۔اب طارق نے طلیطلہ کا مظاہرہ کر کے انہیں بھی فتح
کیا اس درمیان موسی بن نصیر اندلس بھی پہنچ گیا اور کانٹ جولین کے مشو رے
کے بمو جب اندلس کے باقی ماندپ علاقوں بشمول اشبیلیہ وغیرہ کی تسخیرکے بعد
اندلس کی فتح کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ اسپین پرمسلمانوں کے حملے کی
ابتدا 27 ہجری میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں ہوئی اور
دوسرا حملہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں ہوا تھا ۔
موسی بن نصیر کے آبائو اجداد بنو امیہ کے خیر خواہ اور وفادار تھے خلیفہ
وقت کو اس خاندان پر بڑا اعتماد تھا، جو دن رات خلافت دمشق کی مضبوطی اور
برتری کے لیے کوشاں رہتا تھا۔موسی بن نصیر کے خاندان ، پیدائش ، بچپن،
تعلیم و تربیت وغیرہ کے بارے میں کتابوں میں زیادہ مواد نہیں ملتا۔ والی
افریقہ موسی اٹھارہ ہزار فوج کے ساتھ رمضان 93 ہجری کو اسپین میں وارد ہوا
اور جزیرہ خضرا کے جس مقام پر اترا، وہ اس کے نام سے جبل موسی کہلایا، اہل
اسپین ایک نیم مردہ قوم تھی ، جو پھلنے پھولنے کی صلاحیت رکھتی تھی ۔ ان کی
خوش قسمتی سے طارق اور موسی کی آمد نے اعجاز میسحائی دکھائی اور ان میں
منازل طے کرنے کا حوصلہ پیدا ہو گیا۔93 ہجری کو جبل موسی پر اٹھارہ ہزار
فوج کے ساتھ خیمہ زن ہونے سے پہلے موسی بن نصیر نے جو علاقے فتح کر لیے ان
میں شذونہ قرمونہ، اشبیلیہ، ماروہ لبلہ، باجہ مرسیہ اور یولہ قابل ذکر ہیں۔
ان میں سے کچھ قبل ازیں طارق بن زیاد کے فتح کردہ تھے جو طارق کی روانگی کے
بعد باغی اور خود مختار ہو گئے تھے۔94 ہجری میں موسی اور طارق کی ملاقات
اور طویل منصوبہ بندی ہوئی۔ تمام تر صورت حال اور فوجوں کو جائزہ لینے کے
بعد نئی مہمات کا آغاز کیا گیا۔ طارق نے شمال مغرب کے علاقے سر کیے اور
موسی نے مشرقی اندلس میں ارگون سرقسطہ، قتلونہ اور بلنیہ کے مغربی اندلس
میں برشلونہ، طرکونہ، جرندہ، جنوب اور جنوب مشرقی اندلس میںاشتورا جلیقیہ
اور بسطہ فتح کیے۔ ابھی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا کہ دمشق سے خلیفہ ولید بن
عبدالملک کا قاصد طلب نامہ لے کر آگیا، کیوں کہ ولید قریب المرگ تھا۔اس طرح
95 ہجری میں موسی اپنے جاں باز سپہسالار بیٹے عبدالعزیز کو اسپین کا والی
مقرر کر کے طارق کے ہمراہ دمشق کے لیے روانہ ہو گیا ، جہاںان دونوں کی
بدبختی سلیمان بن عبدالملک کی صورت میں راہ دیکھ رہی تھی اور یہ دونوں
زندگی ہار بیٹھے مسلمانوں نے جس تیزی سے ہسپانیہ کو فتح کیا، وہ تاریخ کا
حیرت انگیز اور انوکھا واقع ہے مگر اس کے کئی اسباب بھی تھے یعنی مذہبی
اسباب معاشی، سیاسی، فوجی ثقافتی و تمدنی اور ہسپانیوں کی اخلاقی گراوٹ
وغیرہ ۔عیسائی فوج تیزی وپھرتی سے عاری، بھاری بھر کم جسم والی، آہنی لباس
کے سبب حرکت پزیری سے محروم، کاہل آرام پسند تھی، بر خلاف اس کے مسلمان
اطارت و تنظیم جذبہ جہاد سرخروئی دین اسلام کی رکھوالی کا عزم ، نقل و حرکت
میں تیزی، موت کے خوف سے بے نیاز صبر و استقامت اور ثابت قدمی کے اوصاف سے
آراستہ ، بے جگری اور بے پناہ شجاعت کے علم بردار تھے اور فی سبیل اللہ
جہاد کرتے تھے، فوجی سواروں کا ایک پیالہ، خوردونوش کے سامان کا چمڑے کا
تھیلا اور پانی ایک چھاگل ہتھیاروں کے علاوہ دی جاتی تھی اور پیدل دستوں کو
صرف ہتھیار دیے جاتے تھے، جب کہ مذکورہ سامان ان کے ساتھ ساتھ باربرداری کے
جانوروں پر لد ا ہوتا تھا تا کہ نقل وحرکت میں تیزی برقرار رہے۔موسی بن
نصیر کی جانب سے فوجیوں کو لوٹ مار کرنے،آبادیوں، بستیوں ، شہروں اور عوام
کو تباہ برباد یا قتل کر نے کی سختی سے ممانعت تھی۔ معصوم شہریوں کے جان
ومال کی مسلمان حفاظت کرتے تھے، جس کے باعث عیسائی موسی کے حسن سلوک اور
انتظام سے بے حد خوش تھے اور بہتوں نے اسلام قبول کر لیا تو بیش تر مومن
مفتوحہ علاقوں میں آباد ہوگئے اور مقامیوں میں شادیاں کر لیں۔ مسلمانوں کی
آمد سے ہسپانوی قوم کو معلوم ہوا کہ عدل و انصاف اور شخصی آزادی اورعزت نفس
کیا چیز ہوتی ہے۔ مسلمانوں کی سر پرستی میں یہ درماند ہ قوم تحت الثری سے
نکل کر بام عروج پر پہنچ گئی اور برسوں بعد عبدالرحمن الداخل نے اسپین کے
نصیب بدل دیے اور یہ علاقہ سر چشمہ اسلام بن گیا۔موسی بن نصیر شریف النسل
خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ان کی سیرت کو ایک لفظ میں یوں کہا جا سکتا تھا
کہ ان کی زندگی سچے مومن کی زندگی تھی جو جلال و جمال کی مظہر تھی۔ شخصیت
پرکشش و جاذب نظراورمردانہ وجاہت سے عبارت تھی۔ مضبوط جسم بے حد متقی،
دیانت دار، راست باز، فیاض اور زبان و تلوار کے دھنی تھے۔ عادل مزاج تھے،
خیات کو بدترین عمل سمجھتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ملکوں اور جنگوں کی
فتح سے افریقہ و اندلس میں جو مال غنیمت اکٹھا کیا اور جس کا قیاس کرنا
محال ہے، سے ایک پیسے کی بھی بے ایمانی نہیں کی لیکن ایسے منصف مزاج ،
شیردل، راسخ، العقیدہ مسلمان پر سلیمان بن عبدالملک نے خوردبرد کا الزام
لگا کر دھوپ میں کھڑا کیا، کئی لاکھ کا جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی گئی۔
جواں ہمت وجواں سال بیٹے عبدالعزیزکا سر کاٹ کر اسے پیش کیا گیا جسے دیکھنے
کے بعد، موسی بن نصیر نے بے اختیار کہا تھا،'' بے شک میرا بیٹا دائم الصوم
اللیل تھا، اللہ مغفرت کرے۔ موسی نہ صرف ملکوں کا فاتح تھا بلکہ دلوں کا
بھی فاتحہ تھا جس کی دلوں پر حکمرانی تھی۔ افسوس کہ عیسائی مورخوں کے
دیرینہ تعصب کے باعث اس منفرد و یکتا فاتح کی سیرت اور کارنامے پوری طرح
صفحہ قرطاس پر آشکار نہ ہوسکے۔موسی بن نصیر نے سر زمین اندلس پر ماروہ کے
عظیم الشان قلعے کو مسمار کرنے کے لیے پہلی بار دبابے استعمال کیے تھے۔
موسی نہ صرف جنگجویانہ صلاحیتوں کا حامل تھا بلکہ ایک بہترین منتظم، سوجھ
بوجھ والا حکمران، رعایا اور عوام کا ہمدرد و بہی خواہ تھا۔اس کی اصلاحات
کے تذ کرے کے لیے کئی دفاتر درکار ہیں، بس مختصرا یوں سمجھیے کہ اگر موسی
کو اس کے عظیم منصوبے کی تکمیل سے قبل واپس نہ بلا لیا جاتا توآج یورپ بلکہ
پوری دنیا کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ، یورپ مسلمانوںکے زیرنگیں رہتا اور
کوئی بعید نہیں کہ رفتہ رفتہ یورپی اقوام حلقہ بگوش اسلام ہو جاتیں۔موسی کی
واپسی کا خمیازہ صدیوں بعد ہمیںایسا بھگتنا پڑا کہ سر زمین اندلس سے
مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ اسپین میں موسی بن نصیر کے قیام کی کل
مدت دو سال چار ماہ پر محیط ہے۔ |