’ملتان سے لاہور جانا انتہائی
آسان ہے لیکن لاہور سے لاہور جانا انتہائی مشکل کام ہے‘ © یہ وہ فقرہ ہے جو
اکثر میرا ایک دوست مجھے اس وقت سناتا ہے جب بھی لاہور کی ٹریفک پہ ہماری
بات ہو رہی ہو۔ملکی ترقی کے جو بنیادی ستون ہوتے ہیں ان میں سے ایک اہم
ستون سڑکیں ہوتی ہیں۔لاہور میں تو ناقص مینجمنٹ کی وجہ سے ٹریفک آﺅٹ آٓف
کنٹرول رہتاہے۔کیونکہ ٹریفک زیادہ ہونے کی وجہ سے سڑکیں کم پڑ گئی ہیں۔یہاں
بہت سے ایسے مقامات ہیں جہاں پر انڈر پاس اور پلوں کی اشد ضرورت ہے۔لاہور
کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے کیلئے آپ کو بلند حوصلے کی ضرورت ہے۔
ہاں البتہ ایک دو مقامات پر پل بنوانے کی وزیراعلٰی کی کوشش قابل تحسین ہے۔
لیکن ایسی سڑکوں کا کیا فائدہ جس پر چلنے والی ٹرانسپورٹ کو ہم منظم نہیں
کر سکتے۔ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے سڑکوں کی اہمیت اس پر چلنے
والی ٹرانسپورٹ سے ہوتی ہے ۔اورعوا م کی ایک بڑی تعداد پبلک ٹرانسپورٹ
استعمال کرتی ہے۔ اور پبلک ٹرانسپورٹ اس ملک کااہم ستون بننے میں ناکام
کیوں ہے؟ اس بات کو جاننے کیلئے ہمیں ایک نظر سی این جی کی صورتحال پر
ڈالنی ہوگی۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان کی زیادہ تر ٹرانسپورٹ کا دارومدار پیٹرول
اور ڈیزل پر تھا ۔ مگر جب پیپلز پارٹی بر سراقتدارآئی تواس نے آتے ہی سب سے
پہلا تیر یہ چلایا کہ انہوں نے تیل پر دی جانے والی سبسڈی کو ختم کر دیا۔
مگر انہوں نے صرف اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ آئے دن تیل کی قیمتوں میں اضافہ
جاری رکھا جس کے نتیجے میں ٹرانسپورٹرز نے کرائے بڑھا دیے۔ اس کے بعد بھی
جب حکومت نے قیمتوں میں اضافہ جاری رکھا تو ایک دفعہ تو سپریم کورٹ نے یہ
اضافہ رکوا دیا مگر وزارت پٹرولیم نے لیوی ٹیکس کے نام سے ایک سمری تیار کی
اور صدر نے اس کو منظور کرکے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا ایک اور پہاڑ عوام
پر گرا دیاجس سے عوام بلبلا اٹھی۔ اسی اثناءمیں سی این جی پر چلنے والی
گاڑیوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گیس کی ترسیل میں
کمی واقع ہونے لگی جو کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے بڑھتے بڑھتے ایک
بحران کی شکل اختیار کر گئی۔ شروع شروع میں یہ لوڈشیڈنگ ایک دن پر محیط تھی
مگر پھر اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ پورے ہفتے میں
صرف چار دن گیس ملتی ہے اور تین دن بند ہوتی ہے۔ بیشتر ٹرانسپورٹرز نے اپنی
گاڑیوں میں اضافی سلنڈر لگوا رکھے ہیں جس میں وہ گیس سٹور کر لیتے ہیں اور
پھر جن دنوں میں گیس بند ہوتی ہے ان دنوں اپنی من مانی کرتے ہیں۔ حالانکہ
ان کا کرایہ نامہ ڈیزل کے حساب سے بنا ہوا ہے پھر بھی وہ ڈبل ٹرپل کرایہ
وصول کرتے ہیں جس کے باعث عوام کو بہت زیادہ پریشانی کاسامنا کرنا پڑتا ہے
اور وہاں پر ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔ ایک طرف لوکل ٹرانسپورٹر
حضرات عوام کو لوٹنے میں مشغول ہیں دوسری طرف ٹریفک پولیس نے عوام کی ناک
میں دم کر رکھا ہے۔ٹریفک کو منظم کرنے میں تو ناکام ہیں ہی اس کے علاوہ
چلتی ٹریفک کو روک کر چالان کرنا شروع کر دیتے ہیں۔مجھے تو وارڈنز اور
دوسری پولیس میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ان وارڈنز سے پہلے جو پولیس
ٹریفک کو کنٹرول کرتی تھی عوام کو وہ بھی لوٹا کرتی تھی۔فرق تھوڑا سا ہے وہ
لوٹ کر پیسے جیب میں ڈالتے تھے جبکہ وارڈنز چالان کرتے ہیںاور یہ پیسہ
گورنمنٹ کو جاتا ہے۔دونوں صورتوں میں عوام لٹ رہی ہے چاہے لوٹا ہوا پیسہ
کہیں بھی جا رہا ہو۔میں نے نیشنل بنک کی سامنے لگی ہوئی ایک لمبی لائن میں
کھڑے ہوئے لوگوں سے پوچھا کہ اتنی لمبی لائن کیوں لگی ہے؟ تو مجھے پتہ چلا
کہ وہ سب چالان جمع کرانے آئے ہیں۔کچھ لوگ یہ تک کہہ رہے تھے کہ پنجاب
حکومت جو لیپ ٹاپ تقسیم کرنے جارہی ہے اس کا پیسہ چالانات کے ذریعے اکٹھا
کیا جارہا ہے۔بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔
پاکستان میں بیشتر انڈسٹریز گیس پہ ٹرانسفر ہوچکی ہے۔جبکہ گیس میں بندش کی
وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔فیصل آبادمیں انڈسٹریز کی صورتحال
سے سب واقف ہیں۔دوسری اہم بات یہ کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی و جہ سے عوام کی
کثیر تعداد گیس جنریٹرز کا استعمال کرتی ہے۔اب ملکی اکانومی کی ایک خطیر
رقم تو جنریٹرز کی عوض چلی جاتی ہے۔اب جتنا سرمایہ جنریٹرز کی صورت میں
ضائع ہو رہا ہے اس کا نصف بھی شائد نہ لگے اگر حکومت بجلی پروڈیوس کرنے
کیلئے کسی پراجیکٹ پرکام کرے۔وہی گیس جو عوام جنریٹرز میں جلا رہی ہے اسی
گیس سے حکومت بجلی کے منصوبے چلا کر بجلی کی لوڈشیڈنگ پر با آسانی قابو پا
سکتی ہے۔اس کے علاوہ ایسے متبادل ذرائع بروئے کار لانا ہوں گے جو گیس کے
بحران کی کمی کو پورا کر سکیں۔ |