امریکی تحقیقاتی ادارے ”پیو “ کی
ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک بلین اور 570ملین
ہو چکی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کا ہر چوتھا فرد مسلمان ہے۔یہ ایسا
سچ ہے جسکااعتراف دشمنان ِاسلام کر رہے ہیں اور جس کی پیشنگوئی صدیوں پہلے
قرآن نے سورہ صف میں فرما دی تھی:”یہ (منکرین حق) چاہتے ہیں کہ وہ اللہ کے
نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں)سے بجھادیں،جبکہ اللہ اپنے نور کو پورا فرمانے
والا ہے اگرچہ کافر کتنا ہی ناپسند کریں۔وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت
اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب ادیان پر غالب و سربلند کر دے خواہ
مشرک کتنا ہی ناپسند کریں۔“گویاخالقِ کائنات نے ازل سے اس بات کو مقدر فرما
دیا ہے کہ اسلام دنیا کے سارے خودساختہ مذاہب پر چھا جائے ۔ اندازہ کریں کہ
اسلام کے غلبہ و تسلط کی یہ باتیں ایسے دور میں ہو رہی تھیں جب کہ اقوام
عالم کے مقابلے میں اہل اسلام کی تعداد مٹھی برابر بھی نہیں تھی اور پھر
مسلمانوں پر گوناگوں قسم کی اِبتلا و آزمائش اس پر مستزاد ۔یہ وہ حالات تھے
جن کے تناظر میں مستقبل کے اندر اسلام کی حالت مایوس کن نظر آرہی تھی لیکن
آج قریباً ساڑھے چودہ سوسال بیت جانے کے بعد تمام باتیں حرف بہ حرف سچ ثابت
ہو رہی ہیں۔بے شک اسلام دنیا میں غالب ہونے کے لیے آیا ہے اورغالب ہوکر رہے
گا۔وہ وقت دور نہیں جب چار ُسو اسلام کی بہاریں ہوں گی اور ہر طرف مسلمانوں
کا غلغلہ ہو گا۔
نائن الیون حملہ کے بعد ساری دنیا خصوصاً امریکیوں کی توجہ اسلام کی طرف
مبذول ہوئی اور اب مغرب میں لوگوں نے اس بارے میں سوچنا شروع کر دیا ہے کہ
اسلام کس قسم کا مذہب ہے ؟قرآن کی بنیادی تعلیمات کیاہیں؟ایک مسلمان کی کیا
ذمہ داریاں ہیں اور مسلمانوں کو کس طرح اپنے معاملات طے کرنا ہوتے ہیں؟فطری
طور پراس دلچسپی نے ساری دنیا میں قبولیت اسلام کا دروازہ کھول دیا ہے۔گویا
گیارہ ستمبر کے بعد باربار کیا جانے والا یہ دعویٰ کہ ”یہ حملہ دنیا کی
تاریخ بدل دے گا“ایک لحاظ سے سچ ہوتا نظر آرہاہے۔اسلام کی تیزی سے بڑھتی
مقبولیت و ترقی کے باعث دشمنانِ اسلام کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں اور
اسلام کے بڑھتے کاروانِ نور کو گل کرنے کی ہرممکنہ کوششوں میں جٹے ہوئے
ہیں۔اس تیز تر اضافے کا سبب صرف مسلم ممالک میں آبادی کا بڑھتا ہوا گراف ہی
نہیں بلکہ یورپی ممالک میں اسلام قبول کرنے والوں کی شرح میں خاطر خواہ
اضافہ بھی ہے۔
امریکی تحقیقاتی ادارے کی اس رپورٹ کے مطابق یورپ میںنا صرف مسلم آبادی بڑھ
رہی ہے بلکہ مسلمانوں میں دین کی فہم و بصیرت بھی گہری ہوتی جا رہی ہے۔اس
رپورٹ کے مطابق” دنیا کا نقشہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ یورپ جیسا ہم سمجھ رہے
ہیں اب ایسا نہیں رہا۔اسے خود اپنا وجود بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ دین
اسلام آج کُل بساطِ عالم پر چھاتا چلا جا رہا ہے اور دنیا کا سب سے زیادہ
قبول کیا جانے والا مذہب بن چکا ہے“۔اس رپورٹ سے چند خاص خاص حقائق ملاحظہ
کریں:
﴿ فرانس کے اندر مسجدوں کی تعداد گرجا گھروں سے کہیں زیادہ ہے۔2027ءتک
فرانس کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہو گا۔آئندہ اُنتالیس سالوں میں فرانس میں
اسلامی جمہوریت کی داغ بیل پڑ جائے گی۔)
﴿گذشتہ تیس سالوں میں برطانیہ کے اندر مسلمانوں کی تعداد بیاسی ہزار سے بڑھ
کر پچیس لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ ہر ُسو مسجدوں کے مینار نظر آتے ہیں۔ اس وقت
وہاں ہزار سے زیادہ مسجدیں موجود ہیں اور ان میں بیشتر وہ ہیں جو پہلے گرجا
گھر تھیں اب تبدیل ہو کر مسجد کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔)
﴿نیدرلینڈ میں جس طرح اسلام پھیل رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج سے
پندرہ سال بعد وہاں کی نصف سے زیادہ آبادی مسلمان ہو گی۔)
﴿روس کے اندر دوکروڑ تیس لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں اور وہ وقت بہت
قریب آگیا ہے کہ روس کی چالیس فیصد عسکری قوت اسلام کی چھاو ¿نی میں آکر
آباد ہو جائے گی۔)
﴿جرمنی کی حکومت نے اپنے شدید قلق و اضطراب کے ساتھ اس حقیقت کا انکشاف کیا
ہے کہ 2050ءآتے آتے ملک جرمنی،اسلامی ریاست میں تبدیل ہو جائے گا۔)
﴿پورے یورپ میں مسلمانوں کی تعداد پانچ کروڑ بیس لاکھ سے تجاوز کرچکی
ہے۔پانچ سے دس سال کے اندر اسلام دنیا کا غالب ترین دین بن جائے گا۔)
﴿امریکہ کے اندر1970ءمیں مسلمانوں کی تعداد تقریباًایک لاکھ تھی اور
2008ءآتے آتے بڑھ کر نوے لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔)
﴿کیتھولک گرجا گھروں نے کُھلے دل سے اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ اسلام
کی صداقت ان کے شیدائیوں کے دل پر اپنا سکہ بٹھائے جارہی ہے۔)
اُوپر بیان کردہ حقائق سے خوفزدہ ہوکر سرکردہ عیسائی مشنریزHarry Morin اور
Phil Parshall نے ایک سمینار منعقد کیا جس کا مقصد تھا کہ فروغِ عیسائیت کی
راہ کے روڑوں کو کیسے ہٹایا جائے اور خصوصاً اُمتِ مسلمہ کو ان کے دین سے
برگشتہ کر کے اپنے جال میں کیسے پھنسایا جائے۔ عیسائیت کے بارے میں انہوں
نے یہ باور کرایا کہ ایک وقت آئے گا کہ اسلام ،مغرب کی تہذیب و ثقافت اوراس
کی شان و شوکت کے آگے گھٹنے ٹیک دے گا۔ لیکن حیرت انگیز طور پرسمینار کے
اختتام پر اسلام کے خلاف زہر آلودہ آراءرکھنے والے دانشور حقیقت کا اعتراف
یوں کرتے نظر آئے۔ ”ہاں! اب شب ِجہالت کی سحر طلوع ہوچکی ہے اور ہم پر یہ
حقیقت عیاں ہوگئی ہے کہ اس وقت اسلام دنیا کے مختلف خطوں میں سب سے تیز
پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔اسلام کے ماننے والوں کی تعداد پوری دنیا میں
ایک ارب بیس کروڑ سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔اب تک ہم اندھیرے میں تھے۔حال ہی
میں ہمارا مغالطہ دور ہوا اور اب ہمیں کہنا پڑرہا ہے کہ اسلام ایک ناقابلِ
تسخیر قوت ہے جو لوگوں کے دلوں پر اپنی فتح کا جھنڈالہرا کے رہے گا۔اسلام
کی خوشبوؤں کو نہ مٹھی میں بند کیا جاسکتا ہے اور نہ تلوار سے کاٹا جا سکتا
ہے۔“
قارئین !اب شاید آپ کچھ اندازہ کرسکیں کہ مغربی مفکرین ہاتھ دھوکر اسلام کے
پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں اور وہ ہر دن ایک نیا فتنہ کیوں جگا رہے ہیں۔ ان
کی بے تکان جدوجہد یونہی نہیں ہے ۔وہ اپنی علمی وفکری، جانی و مالی غرض یہ
کہ جملہ اقسام کی توانائیوں سمیت اسلام کے برق رفتاری سے بڑھتے قدم کو
پابندِسلاسل کرنے کی ٹوہ میں مسلسل لگے ہوئے ہیں۔ مغرب کروڑوں ڈالرز اسلام
اور مسلمانوں کےخلاف بے بنیاد پروپیگنڈوں کی تشہیر میں بہارہا ہے۔ اسلام کی
پاکیزہ تعلیمات کے ساتھ مذاق اوراس کے پر کترنے کی کوشش ہورہی ہے۔مسلمانوں
کے خون سے ہولیاں کھیلی جارہی ہیں۔ یورپی ممالک میں وقفے وقفے سے گُستاخانہ
خاکوں کی اشاعت ،مقبوضہ مسلم علاقوں حتیٰ کہ چرچ جیسی مقدس عبادت گاہوں میں
قرآن پاک کی بے حرمتی ، بعض یورپی ممالک میںمسلم خواتین کو نقاب اوڑھنے اور
مساجد کے مینار تعمیرکرنے کی ممانعت یہ سب کیا ہے؟ عزیزانِ ملتِ اسلامیہ!
ہمارے دشمن توبیدار ہو چکے ہیں مگر ہم تاہنوزخوابِ غفلت میں پڑے ہیں اور
نجانے کب تک غفلت کی نیند سوتے رہیں گے۔ |