پورے گاﺅں کی شان تھا وہ عمران
تھا وہ پورے قصبے کا مان تھا وہ مانی تھا جی ہاں مانی! سب کا مان رکھنے
والا، بچپن میں کسی نے پیا ر سے اسے مانی کیا کہہ دیا اس نے ساری زندگی اس
نام کی لاج نبھائی،کبھی کوئی اس ناراض نہ ہو ا نہ وہ کسی سے،وہ شروع دن سے
لے کر چلے جانے کے دن تک ایک جیسا تھا،وہ جتنا اجلا اور ہنس مکھ باہر سے
تھا اندر سے اس سے بھی زیادہ خوبصورت تھا،اپنے کام سے کام رکھنے والا کسی
کے کام میں رخنہ اندازی اسے پسند ہی نہ تھی سوائے جب کسی نے اس سے مشورہ
مانگا وگرنہ وہ اپنے حال میں من مگن رہنے والا شخص تھا ،میرے محلے میں چار
گھر چھوڑ کر پانچواں گھراس کا تھا میں نے بچپن سے لیکر اس کی زندگی کے آخری
روز تک اسے باہر تو کجا گھر میں بھی کبھی اونچا بولتے یا شور شرابا کرتے
نہیں سنا، سب کا بہی خواہ ہر ایک کا دوست، چھوٹوں کے ساتھ چھوٹا بڑوں کے
ساتھ بڑا،مذہبی لو گوں کے ساتھ مذہبی ،اہل علم کے ساتھ علمی ،سیاستدانوں کے
ساتھ سیاسی انداز میں بات کرنے کا ڈھنگ بھی اسے خوب آتا تھا میں بات کر رہا
ہوں اپنے دوست عمران عباس ایڈووکیٹ کی،جو زندہ رہا تو شان سے ،داعی اجل کو
لبیک کہا تو بھی بڑی آن سے اور راہی عدم یعنی اپنی اصلی منزل اور ہر مسلمان
کے اصلی گھرقبر کو روانہ ہواتو نظارہ ہی کچھ اور تھا،عمران ہم سے عمر میں
چھوٹا تھا لیکن کبھی نہیں لگا کہ وہ ہم سے چھوٹا ہے ہر مو ضوع پہ ہماری بات
چیت ہوتی اور گھنٹوں ہوتی،میں جب بھی کبھی ورکنگ ڈے میں تلہ گنگ گیا، بار
میں اس سے ملا قات ہوتی،وہ بڑے بھائیوں سے بھی بڑھ کر عزت کرتا،اس کی
ناگہانی وفا ت سے ایک دن قبل ہم تین چار دوست اس سے ملنے اس کے پاس گئے تو
وہ دفتر میں نہیں تھا ہم نے اسے فون کیا اس نے کے فون پر بیل جاتی رہی اس
نے اٹینڈ نہ کیا پھر ملایا دوبارہ کافی دیر گھنٹی جاتی رہی اور کال اٹینڈ
نہ ہوئی ہمارے ساتھ آنیوالے ایک صاحب بولے شاید وہ کورٹ میں ہو گا جہاں
عموماً فون سائیلنٹ پہ ہو تے ہیں ،معاً میں نے پو چھا ٹائم کیا ہو ا ہے
بتایا گیا دو ہو گئے ہیں میں نے فوراً کہا وہ کو رٹ میں نہیں مسجد میں ہو
گا اور تھوڑی دیر بعد اس کا فون آگیا کہ میں دو منٹ میں آیا اور دو تین منٹ
بعد جب وہ آیا تو انسانی جبلت کے عین مطابق شکوہ کیا گیا بھئی کمال ہے کب
سے تمھیں فون کر رہے ہیں تم اٹینڈ ہی نہیں کر رہے ،اپنے مخصو ص دھیمے انداز
سے مسکراتے ہوئے کہنے لگایار وہ، میں مسجد میں تھا، اس میں انگنت خوبیاں
تھیں وہ بے مثال خوبیوں کا مرقع تھا یہ اس کی تربیت کا اثر تھا اس کے والد
صاحب ماسٹر ملک امیر ایک اسکول ٹیچر تھے قناعت اور راضی بر رضا کی نہایت
عمدہ مثال،ان کے نظریات سے یا ان کی شخصیت سے لاکھ اختلاف رکھنے والے بھی
اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ کبھی انہوں نے اپنی اولاد کو لقمہ حرام کی ہوا
تک نہ لگنے دی انہوں نے اپنے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے اپنی محنت حق
حلال اور جائز کمائی سے اولاد کی پرورش کی،اور جب پرورش حلال رزق سے ہو تو
اولاد ایسی ہی نکلتی ہے جیسے عمران تھا،آپ یقین کریں کہ کوئی ذرہ بھر
تکبر،رعونت یا دوسروں سے ممتاز بننے کی خصلت اس نو جوان وکیل کو چھو کر بھی
نہ گزری تھی،اس نے ابتدائی تعلیم اپنے گاﺅں کے اسکول سے حاصل کی پھر ہائی
اسکول جسیال میں داخلہ لیا وہاں سے میٹرک کرنے کے بعد تلہ گنگ کالج میں
آگیا،یہاں بھی وہ شرافت کا پیکر بنا رہا یہاں کے پورے چار سالہ تعلیمی
کیرئیر میں ایک دفعہ بھی کبھی کسی نا پسندیدہ سرگرمی میں ملوث نہ رہا اس کی
ساری توجہ ہمیشہ اپنی تعلیم پر مرکوز رہی،یہاں سے فارغ ہونے کے بعد وہ
ملتان چلا گیا وہاں سے ایل ایل بی کرنے کے بعد واپس اپنے شہر تلہ گنگ آگیا
اور یہیں سے علامہ اقبا ل اور قائد اعظم محمد علی جناح کے شعبے شعبہ وکالت
سے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا، ہمارے ہاں عموماً پڑھ لکھ کرلوگ بڑے شہروں کو
سدھار جاتے ہیں اور پھر پلٹ کر جنم بھومی کی طرف مو نہہ نہیں کرتے مگر یہ
ہمارا دوست بڑے شہر کو چھوڑ کرچھوٹے شہر میں واپس آگیا اور یہاں آکر پریکٹس
شروع کر دی،اور کمال حیرت کی بات یہ کہ شعبہ وکالت میں ایسے وکیل خال خال
ہی ملتے ہیں جو کلائنٹ کو کیس سے پہلے بتا دیں کہ بھائی صاحب آپ کے کیس میں
جان نہیں ہے آپ اس کی بجائے اپنے حریف سے صلح صفائی والا معاملہ کر لیں
ورنہ آپ کا وقت اور پیسہ برباد ہوگا اور ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا،ورنہ
وکلا کمیونٹی میں اکثریت ہمارے ایسے دوستوں کی ہے کہ اگر کوئی ٹرک ڈرائیور
کسی غریب سائیکل سوار کو دن دیہاڑے بھری پری سڑک پر سب کے سامنے کچل ڈالے
تو بھی اس کا وکیل اسے کہتا ہے کوئی مسئلہ ہی نہیں فکر کرنے کی کوئی بات ہی
نہیں،مگر عمران عباس میں اس قسم کی کوئی بات نہ تھی یہی وجہ تھی کہ علاقے
کے لو گوں کی اکثریت کیس سے پہلے اس کی طرف رجوع کرتی کہ یہاں سے مشورہ
بالکل ٹھیک ملے گا اور جس نے بھی اس سے مشورہ مانگا چاہے وہ اس کا کٹر
مخالف ،اس کا نہیں اس کے والد صاحب کا چونکہ گاﺅں میں الگ سیاسی اثر و رسوخ
ہے جس وجہ سے تھوڑی بہت مخالفت چلتی رہتی ہے ،اگر ان کے مخالفین نے بھی
عمران سے رائے لی تو اس نے انہیں بھی اپنا عزیز جان کر سچی اور پوری
دیانتداری سے اپنی رائے دی،وہ کمال شخص تھا اگر کوئی سیاسی شخص ہے تو وہ
سمجھتا ہے کہ عمران ہمارے گروپ میں تھا اور اگر کوئی مذہبی ہے تو وہ سمجھتا
ہے کہ وہ ہماری فقہ کا تھا، دیوبندیوں کے نزدیک وہ دیوبندی تھا،بریلوی
مکتبہ فکر کے نزدیک وہ بریلوی تھا اور تبلیغی جماعت کے لوگ کہتے نہیں بھائی
وہ تو پکا جماعت کا بندہ تھا،وہ دیوبندی تھا ،بریلوی تھا یا تبلیغی وہ سب
کچھ تھا بلکہ نہیں وہ ان میں سے کچھ بھی نہیں تھا وہ ان تمام قضیوں سے اوپر
بہت اوپر ایک پکا سچا اور راسخ العقیدہ مسلمان تھا، بریلوی حضرات کا کوئی
پروگرام ہوتا عمران موجود ہوتا، ہر سال27 رمضان عشاءکے بعد اس کی اپنی مسجد
میں دیوبندی مکتبہ فکر کا چھوٹا سا اجتماع ہوتا وہ نہ صرف پورے ذوق و شوق
سے شریک ہوتا بلکہ آٹھ دس دن قبل کنفرم کرتا کہ کہیں اس دفعہ پروگرام مس تو
نہیں کیا جا رہا ،مسجد میں جب کبھی تبلیغی جماعت آتی تو عموماً تبلیغی حضرت
عصر کی نماز کے بعد چھوٹا سا درس دیتے ہیں اور اس وقت ہر شخص جلدی میں ہوتا
ہے بچوں کے کھیل کا وقت ہوتا ہے تو بڑوں کے کاروبار و دیگر معاملات کا،فقط
چند لوگ ہی بیٹھ کے ان کی بات سنتے ہیں اور جو چند لوگ رکتے ان میں ایک
عمران بھی ہوتا جو بڑے ہی انہماک سے اللہ رسولﷺ کی با تیں سن رہا ہوتا،
کبھی اگر کوئی اس کا دوست اس کو کھینچتا کہ نکلو لیٹ ہو رہے ہیں تو اس کا
جواب ہوتا کہ یار یہ لوگ ہمارے مہمان ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ کوئی ووٹ
نہیں مانگ رہے دین کی با ت کرتے ہیں ، وہ ایک باشعور شخص تھا اور اہل علم
جانتے ہیں کہ پڑھا لکھا ہونا الگ چیز ہے اور باشعور ہونا الگ بات ،عمران
پڑھا لکھا بھی تھا اور باشعور بھی، وہ ایک کامل مومن کی طرح عاجز ی و
انکساری کا نمونہ تھا ، اور یہی وجہ تھی کہ جس دن وہ جانب منزل روانہ ہوا
تو لوگوں کا ایک جم غفیر تھا جو جنازے میں شرکت کے لیے امڈا چلا آرہا تھا
آپ یقین کریں میں نے پہلی دفعہ دیکھا کہ جنازے میں چلنے کی کوئی ترتیب نہیں
بن رہی تھی رش اتنا زیادہ تھا کہ گلیاں اور راستے تنگ پڑ رہے تھے،ایک طرف
محبتوں کا یہ عالم تھا کہ ہر ایک کی خواہش تھی کہ چارپائی کو کندھا دے تو
دوسری طرف رش کا یہ عالم تھا کہ جس نے ایک دفعہ کندھا دیا اسے قبرستان تک
شاید ہی دوبارہ موقع ملا ہو یا ملا بھی تو بڑی تگ و دو کے بعد،وضاحت کرتا
چلوں کہ قبرستان گاﺅں سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پہ ہے جب جنازہ گاہ میں
پہنچے تو جگہ کم پڑ گئی اور صفوں کو کلوز کرنا پڑا ،جہاں تین بنتی ہیں وہاں
چھ بنائی گئیں اور جہاں چھ بنتی ہیں وہاں بارہ بنائی گئیں اس کے باوجود
شایدکچھ لوگوں کو جنازہ گاہ سے باہر بھی نماز ادا کرنا پڑی،ایسی محبت اور
والہانہ پن بہت ہی کم لو گوں کے حصے میں آتا ہے،جنازے میں شامل ہر آنکھ اشک
بار تھی ،اس کا چہرہ دیکھنے کے لیے لوگ ٹوٹ ٹوٹ پڑ رہے تھے اور جب میں نے
اس کو دیکھا تو لگا جیسے وہ انتہائی پر سکون نیند سو رہا ہو،جس دن اسے ہارٹ
اٹیک ہو ا وہ جمعے کا دن تھا اور جمعے کا دن بھی دنیا میں بھیجنے والے کی
طرف واپس جانے کے لیے عمران جیسے لوگوں کو ہی ملتا ہے اس کے استاد تلہ گنگ
بار کے صدر ملک ظفر اعوان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اس روز وہ بہت جلدی میں تھا
شاید اجل کو اپنے آس پاس اس نے محسوس کر لیا تھا اس روز اس نے اپنے ایک کیس
میں جج صاحب سے باقاعدہ درخواست کی کہ جناب آج میں نے بحث کرنی ہے اور ہر
حالت میں کرنی ہے اور پھر اس نے بحث کی اور بھرپور کی اور جب باہر آیا تو
سینے میں درد اٹھا دوست احباب فوراً ڈاکٹر کے پاس لے گئے جہاں جا کر طبیعیت
سنبھل گئی اور وہ گھر جانے کی تیاری کرنے لگا کہ معاً دوبارہ ہارٹ اٹیک ہو
ا جس نے اسے دوبارہ اٹھنے نہ دیا اور وہ اپنے چاہنے والوں کو روتا چھوڑ کر
چلا گیا کبھی واپس نہ آنے کے لیے،وہ زندہ رہا تو دوسروں کے لیے نمونہ تھا
اور گیا تو بھی اپنی مثال آپ تھا فقط تیس سال کی عمر میں جتنی چاہتیں اور
محبتیں اس نے سمیٹیں شاید ہی کسی اور نو جوان کے حصے میں کبھی آئیں،اس کے
جا نے پر ماسٹر ملک امیر اور ننھے حاشر (عمران کا اکلوتا بیٹا)کا تو نقصان
ہوا ہی ہوا مگر یہ نقصان صرف عمران کی فیملی کا نہیں پورے گاﺅں اور علاقے
کا ہے وہ پورے گاﺅں کا قابل فخر سرمایہ تھا جس پہ جتنا بھی ناز کیا جائے کم
ہے، وہ ایک گھنا درخت تھا جو خود دھوپ سہہ کر دوسروں کو چھاﺅں فراہم
کرتا،وہ ایک چراغ تھا جو خود جل کر دوسروں کو روشنی فراہم کرا،وہ تو گلاب
کا وہ پھول تھا جو اپنے توڑنے والے کو بھی اپنی خوشبو نوازتا، اس کے جانے
سے ہم ایک نہایت اعلیٰ پا ئے کے دوست سے محروم ہوئے تو پورا گاﺅں ایک نہایت
ہی شفیق انسان اور بے لو ث ہمدرد و غم گسار سے محروم ہو گیا،کسی کو ذرا خبر
نہ تھی کہ یہ ہنستا کھیلتا اور مسکراتا چہرہ اتنی قلیل زندگی لیکر آیا
ہے،اللہ تعالیٰ اسے کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور اسکی فیملی اور پورے خاندان
کو صبر جمیل عطا کرے ہر کسی انسان نے جانا ہے باقی رہنا ہے تو صرف رب کا
نام جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا جو بھی اس دنیا میں آیا اس نے واپس
اسی کے پاس جانا ہے جس نے اسے دنیا میں بھیجا ہے،انسان بہت تھوڑی مدت لیکر
دنیا میں آیا ہے ہمارے دوست کی ساری زندگی بچپن سے لیکر وفات تک ساری کی
ساری ہمارے سامنے ہے جیسے کل کی بات ہو ہمارے ساتھ بہت سے لو گوں کو تاحال
یقین نہیں کہ وہ جا چکا ہے ہمیشہ کے لیے کبھی نہ واپس آنے کے لیے ،جانا سب
نے ہے مگر شاید وہ تھوڑا جلدی چلا گیا یا شاید بہت جلدی، مگر اجل کے فیصلے
ایسے ہی ہوتے ہیں،قدرت کے اپنے قانون اپنے ضابطے ہم بے بسی کی تصویر بس،،،،،،
آتے ہوئے اذاں جاتے ہوئے نماز
اتنے قلیل وقت میں آئے اور چلے بھی گئے |