جذبۂ خدمتِ خلق کا فُقدان

جذبہ خدمتِ خلق ایک بہت بڑی نیکی ہے ۔لیکن ایک طویل عرصہ سے خدمتِ خلق کا جذبہ ہر پیشہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ناپید ہوتا جارہا ہے۔اور ہر شخص اپنے اپنے موقع پر ایک دوسرے کی کھال اُتارنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ہے۔ کیونکہ مادی ہوس اور مال وزر کی لالچ نے ہر شخص کو اندھا بنا رکھا ہے۔ ڈاکٹری پیشہ ایک مْقدس پیشہ ہے لیکن اِس پیشہ سے بھی روز بروز خدمتِ خلق کا جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے۔اِس کی سب سے بڑ ی وجہ بھی مادی ہوس اور مال ودولت کی تمنا ہے۔بعض ڈاکٹر مریضوں کو حصول مال وزر کی لالچ میں پرائویٹ کلینکوں میں علاج ومعالجہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ اُن کو بلا کس خوف دو دو ہاتھ لوٹ سکیں ۔ بعض پیرا میڈیکل سٹاف والے اور بعض ڈاکٹر آپسی ملی بھگت سے زیادہ سے زیادہ روپیہ کمانے کے لئے غیر معیاری ادویات کا کاروبار سنبھالے ہوئے ہیں۔ جو مریضوں کے لئے سم قاتل سے کچھ کم نہیں ہے۔ پرائویٹ پریکٹس اگر چہ گُناہ نہیں مگر یہ کام اُ س وقت گُناہ کے زُمرے میں آتا ہے جب ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سے ساتھ وابستگی رکھنے والے لوگ اپنی جیبوں کو بھرنے کے خاطر اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو بھول جاتے ہیں۔ ایسے ڈاکٹروں کی یہاں کمی نہیں ہے جو زیادہ تر وقت اپنے پرائویٹ کلینکوں پر صرف کرتے ہیں ۔ اور مختلف بہانوں سے بیماروں کو اپنے پرائویٹ کلینکوں پر علاج و معالجہ کرنے کے لئے مجبور کرتے ہیں۔ اِس غیر اِخلاقی اور غیر اِنسانی طرزِ عمل سے زیادہ تر اُن لوگو ں کو مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے ہیں کہ پرائویٹ کلینکوں پر جا کر اپنا علاج و معالجہ کر سکیں۔

بعض ڈاکٹر صاحبان ایسے بھی ہیں جو اکثر و بیشتر کمیشن حاصل کرنے کے اور اپنے فر ض کو بھول کر پرائویٹ کلینکوں پر مریضوں کا علاج و معالجہ کرتے ہیں۔ اور قیمتی دوائیاں تجویز کرتے ہیں جبکہ کم قیمت والی دوائیوں سے بھی علاج ہو سکتا ہے ۔وادی میں ایسے ڈاکٹر موجودہیں جو اپنے ذمہ داریاں خلوص اور اِخلاص کے ساتھ انجام دے رہے ہیں اور مریضوں کو ہر طرح کا آرام اور ہر طرح کی سہولیت فراہم کرنے کا جذبہ اپنے اندر رکھتے ہیں مگر اِن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔ بسا اوقات ایسے ڈاکٹروں کی حوصلہ شکنی اور نا عاقبت اندیش ڈاکٹر ہی کرتے ہیں جنکو مال زر کی لالچ نے ایسا اندھا بنا دیا ہے کہ اُن کو اِس کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے۔

اَربابِ اقتدار کو پوری طرح علم ہے کہ نادار مفلس اور غریب مریضوں کا کس کس طرح سے اِستحصال ہو رہا ہے۔ اور کس کس طرح سے اِن کو تنگ کیا جا رہا ہے لیکن اِس کا ازالہ کرنے کے لئے وہ کچھ نہیں کر پاتے ہیں پرائویٹ طور جسطرح داکٹر مریضوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اگر ہسپتالوں میں بھی ڈاکٹر اسی طرح سے اِن کا علاج ومعالجہ کرتے تو اِن بیماروں کی ڈھارس بندھ جاتی لیکن ایسا نہیں ہوتا ہے کیونکہ اِس سے اُن کے پرائویٹ ادارے متاثر ہو جائیں گے۔ حکومت تو ایسے ڈاکٹروں کے خلاف کاروائیاں کرنے کی دھمکیاں دیتی رہتی ہیں مگر عملی طور پر کچھ کرنے کے موڈ میں نہیں ہوتی ہے اِس سے ایسے بے ضمیر ڈاکٹر وں کے حوصلے اور زیادہ بڑھ جاتے ہیں اور وہ لوگوں کو دو دو ہاتھ لوٹنے کا سلسلہ دراز کرتے جارہے ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کی قوانین و ضوابط عمل درآمد کرانے کے لئے دیانت دار اور فعال اصحاب کی مانیٹرنگ سیل قائم کر دی جائے جو ایسے ڈاکٹروں کا وقت وقت پر محاسبہ کرنے کے لئے با اختیار ہو جو اِس جُرم اور گُناہ کے مرتبک ہو رہے ہوں اور اِن کی پیدا کردہ صورتِ حال عوام الناس کے لئے بلا لعموم جبکہ غرباء مساکین کے لئے بالخصوص سوہانِ روح ہو۔
MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 33380 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More