بات تو یہ اٹل ہے ، اس کی حقیقت
سے کسی کو انکار نہیں اور نہ ہی اس سے کوئی جائے مفر ۔ قرآن مجید میں ارشاد
باری تعالیٰ ہے: ”ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ “ ان سب پر یقین ہونے
کے باوجودبھی جب کوئی اپنے پیاروں کو چھوڑ کر چلتا بنتا ہے تو افسوس ،
تکلیف ، رنج وغم کا ہونا فطری عمل ہے ۔ لیکن اگر کوئی ایسا چھوڑ کرا پنے
پیاروں کو روٹھ جائے جیسا کہ ”عبداﷲ “ تو یہ صدمہ مرتے دم تک دل میں پیوست
ہوجاتا ہے اور جب تک یہ پیارے خود اﷲ کو پیارے نہیں ہوجاتے روگ کی یہ ڈگری
بتدریج بلندی کی طرف ہی گامزن ہوتی جاتی ہے ۔بالفاظ دیگر اگر دارِ فانی سے
دار بقاءکی طرف کوچ کرنے والا ”لاڈلی اولاد“ کی صورت میں ہو تواک ماں کی
سوزشِ غم کو نوک قلم سے زیب ِ قرطاس کرنا صاحب قلم کے بس کی بات نہیں!
غم سے نڈہال ، ہاتھ میں خون آلود موبائل اور گھڑی لیے ایک قبر کے سرہانے
کھڑی باپردہ خاتون بلک بلک کر زاروقطار رورہی تھی ۔ میں بھی کسی رشتہ دار
کی میت کے ہمراہ خورشید پورہ قبرستان چلاآیا تھا ۔ اس عورت کو دیکھ کر میں
دلبرداشتہ ہوگیا اور بے اختیار میرے قدم اس کی جانب بڑھنے لگے ۔ قریب پہنچ
کر میں نے سلام کیا تو ادھیڑ عمر خاتون نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا ۔کچھ توقف کے بعد ماں کی ممتا سے ضبط کا
بندھن ٹوٹ گیا یہاں تک کہ ر وتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں اور درد بھرے
آنسو چھلک چھلک کر اس کے برقع کو تر کیے جارہے تھے ۔ آخر کا رمیں بول پڑا
کہ خالہ جان! ہم سب کو اس دنیائے فانی سے کوچ کرجانا ہے۔ حوصلہ مت ہاریں ۔
میری بات کو کاٹتے ہوئے خاتون دل کا روگ سنانے لگیں۔ یہ قبر نیو ایئر نائٹ
کا تحفہ ہے ! تجسس بھری نظروں سے میں اسے دیکھنے لگا اگرچہ 31 دسمبر کا
سورج 2011 کے طویل ترین تاریک دور کو اپنے آغوش میں سمیٹے غروب ہونے کو تھا۔
ابھی غروب نہ ہوا تھا اور قبر بھی خاصی پرانی لگ رہی تھی ۔عورت پھر سے گویا
ہوئی یہ قبر میرے سترہ (17) سالہ بیٹے کی ہے ۔ یہ موبائل اور گھڑی بھی میرے
اس جگر گوشے کی ہے اور اس پر جماہوا خون بھی میرے اس بیٹے کا ہے جو رات کو
میرے پیر دبائے بنا کبھی نہ سویا۔ یہ الفاظ عورت کے منہ سے نکلے ہی تھے کہ
اس پر غشی طاری ہونے لگی ۔ قریب ہی گاڑی پارک کیے اس کا ڈرائیوار پانی کی
بوتل لیے چلا آیا اور عورت کو تسلی دینے لگا ۔ بی بی جی ہمت نہ ہاریں اﷲ ان
کو ضرور ذلیل ورسوا کرے گا۔اور بی بی جی کو پانی پلایا۔ اس داستان ِ غم کو
سننے کی مجھ میں مزید ہمت اور سکت نہیں تھی خود میری حالت بھی غیر ہوتی
جارہی تھی میں خود سے بے خود ہوا جارہاتھا ۔ لیکن اس خاتون کے دل کا بوجھ
ہلکا کرنے کے لیے میں ٹہر گیا۔ میرے استفسار پر خاتون نے قبر کے سرہانے
بٹھا کر مجھے واقعہ کی تفصیلات بتائیں۔
2005 کی بے رحم آخری شام میرا پھول ساخوبصورت بیٹا ”عبداﷲ“ اسکوٹر لے کر
اپنے دوست ”کاشان“ کے ساتھ گھر سے بازار کی طرف نکلا۔ تھوڑی دیر بعد ”عبداﷲ
“کی خون میں لتھڑی لاش ہمار ے گھر کی دہلیز پر پہنچ گئی ۔اور اس کا دوست
کاشان گولی لگنے سے زخمی ہوگیا تھا۔بعد میں کاشان نے بتایا کہ مجھے عبداﷲ
نے کہا کہ آج نیو ائیر نائٹ ہے۔ مارکیٹ چلتے ہیں ۔میں ”امی جان“ کے لیے
تحفہ خریدوں گااور 2006 ہوتے ہی میں امی کو تحفہ پیش کرونگا۔ ہم مارکیٹ
پہنچے ہی تھے کہ تین موٹر سائیکل سوار دہشت گرد آئے اور ”عبداﷲ “ کو موبائل
اور بائک شرافت سے حوالے کرنے کو کہا ۔ مزاحمت پر انہوں نے ”عبداﷲ “کے سر
پر اور میری ٹانگ پر گولی ماری اور فرار ہوگئے ۔ اور یوں میرے چاند سے بیٹے
کی زندگی کا چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گُل کر گئے۔ خاتون لمحہ بہ لمحہ بے
حال ہوجاتی۔ اور اس کے منہ سے جھاگ نکلنے لگی ۔ ڈرائیور اسے گاڑی کی طرف لے
جانے لگا۔ گاڑی میں بٹھانے کے بعد ڈرائیور میرے پاس آیا اور کہا کہ بی بی
جی آپ کو بلا رہی ہے ۔ میں گاڑی کے قریب گیا تو خاتون نے مجھے کہا کہ ہمارے
ساتھ چلو میں تمہیں زندگی بھر کا اثاثہ دکھانا چاہتی ہوں ۔ تمہاری صورت میں
مجھے” عبداﷲ“ نظر آتا ہے ۔ میں نے معذرت کی لیکن خاتون کے اصرار پر ان کی
گاڑی میں سوار ہوگیا۔
نیول کالونی میں عالی شان بنگلہ پر گاڑی پارک کی گئی ۔ڈرائنگ روم کا ماحول
بڑاعا لیشان تھا ۔دیواروں پر لگی دیدہ زیب پینٹنگ، عمدہ ماربل پر بچھے ہوئے
ایرانی قالین ، ترتیب سے لگے پرتعیش آرام دہ صوفے اور قیمتی پردے ماحول کی
نزاکت میں مزید اضافہ کررہے تھے ۔لیکن ایک چیز جو میرے دل پر بار بار دستک
دے رہی تھی وہ دیوار پر چسپاں ایک بڑی سائز کی تصویر تھی ! پُر تکلف
اشیاءخوردونوش تناول کرنے کے بعد یاسر ، حماد اور وقاص سے ملاقات ہوئی جو
انتہائی بااخلاق اور سلجھے ہوئے معلوم ہورہے تھے۔ یہ تینوں اس خاتون کے
فرزند تھے ۔ یاسر سب سے بڑا بیٹا ہے عبداﷲ دوسرے نمبر کا بیٹا تھا اور باقی
دو چھوٹے تھے ۔خاتون سے میں نے گھر لانے کی وجہ پوچھی تو وہ مجھے ایک کمرے
میں لے گئی جہاں کھڑی اسکوٹر پر بہت سارے کپڑے ڈالے گئے تھے ۔ ایک ایک کپڑا
ہٹایا گیا توجمے ہوئے خون سے بھری بائیک برآمد ہوئی یہ وہی بائیک تھی جس پر
سفاک قاتلوں نے عبداﷲ کو موت کی گہری نیند سلادیا تھااور” 2190 “ دن گزرنے
کے باوجود ماں کی ممتانے اپنے جگر گوشے کا خون صاف کرنا گوارہ نہ کیا ۔ 6
سال کرب واذیت میں اس ماں پر بیتنے کے باوجود اس کا دل اب بھی بے چینی اور
اضطراب کا شکار ہے ۔اور نہ جانے یہ رنج والم کی کیفیت کب تک اس کے ہم رکاب
رہے ؟ شاید قبر کی آغوش میں جانے تک! یا اس کے بعد بھی ! !!
ماں جی زندگی بھر کا اثاثہ دکھانے کے بعد شائستگی سے کہنے لگی۔ بیٹا تم
میرے بیٹے ”عبداﷲ “ کی طرح معلوم ہوتے ہو۔ اگر ماں سمجھ کر مہینے میں ایک
آدھ چکر ہمارے ہاں لگا لیا کرو تو میرے دل کو تسکین ملے گی ! میں نے برجستہ
کہا ایک شرط پر ؟ ماں جی کہنے لگی بیٹا تمہاری ہر شرط کہنے سے پہلے ہی
منظور ہے بولو کیا شرط ہے ؟ میں نے کہا ڈرائنگ روم میں لگی یہ دیو ہیکل
تصویر یہاں سے ہٹادیں ۔ ماں جی نے میری طرف نظر بھر کر دیکھا اور کہنے لگی
نہ جانے تمہارے کہنے میں کیسا اخلاص ہے کہ مجھ سے انکار نہیں ہوسکتا ۔ تم
خود ہی ”عبداﷲ “کی تصویر کو دیوار سے اکھاڑ دو۔ میں نے اور یاسر نے ماں جی
کے جگر گوشے کی تصویر کو دیوار سے بڑی مشکل سے اکھاڑا جس سے دیوار کا رنگ
بھی خراب ہوگیا ۔ادھر ماں جی کے نہ تھمنے والے آنسو چھلکنے لگے ۔ میں نے
ماں جی کو تسلی دی کہ جس گھر میں کسی جاندار کی تصویر لگی ہو وہاں رحمت کے
فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔ اور دوسری بات یہ کہ اس تصویر کو دیکھ دیکھ کر
تمہارا غم تازہ ہوتا رہے گا ۔ماں جی نے سرد ”آہ“ بھری اور کہا بیٹا ہر نیو
ایئر نائٹ کو میرا غم تازہ ہوہی جاتا ہے !
بچھڑا کچھ اس اداسے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔
سفاک قاتلوں کو اگر قانون کے رکھوالوں کا ڈر وخوف نہیں کہ یہ تو قانون کے
محافظوں کی نظر میں کسی قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آتا تو کیا
”عبداﷲ “ کو موت کی نیند سلانے والے روزانہ اٹھتے جنازے نہیں دیکھتے ؟ کیا
وہ نہیں جانتے کہ ایک دن وہ بھی چھینی ہوئی موٹر سائیکلیں ، غصب کیے ہوئے
موبائل ، لوٹے ہوئے اموال سب چھوڑکر قبر میں سوال وجواب کے لیے ”منکر نکیر“
کے سامنے لے جائے جائیں گے ؟ اور ہرکیے کی جزا وسزا پائیں گے ۔ د نیا تو
ایسے لوگوں کی یوں ہی رسوائی میں گزرتی ہے ۔دوسروں کو دُکھ دینے والا کبھی
سُکھ کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا یہ اصولِ فطرت ہے ! |