وہ چار سال قبل آئرلینڈ کا پہلا
اور دنیا کا 156واں امیر ترین شخص تھا ، اُس کے خاندان کی مجموعی دولت 6ارب
ڈالر تک جاپہنچی تھی ، دنیا کے 14ممالک تک اُس کا کاروبار پھیلا ہوا تھا
لیکن رواں سال 16جنوری کو عدالت نے اُسے دیوالیہ قرار دے دیا۔ دنیا بھر میں
اُس کی دولت ضبط کی جارہی ہے اور اُس کی کوشش ہے کہ کسی طریقے سے اُس کی
بیوی اور بچوں کے نام پر رکھی گئی دولت محفوظ رہ سکے ۔ میں یہاں اسے اس لئے
دیوالیہ نہیں کہہ رہا کیوں کہ اس کے پاس آج پھوٹی کوڑی نہیں بلکہ میں اسے
ایک اور زاویئے سے دیوالیہ کہہ رہا ہوں جس کا ذکر میں بعد میں کروں گا پہلے
اس شخص کے بارے میں ایک دلچسپ بات بتانا چاہتاہوں ۔
سان کوئین نامی اس شخص نے کسی امیر کبیر گھرانے میں آنکھ کھولی نہ ہی یہ
کسی اعلیٰ تعلیمی قابلیت کا مالک تھا۔ اس نے یہ دولت کسی کا حق مار نے کے
بجائے خود اپنی محنت اور ذہانت سے جمع کی تھی۔ یہ 5دسمبر 1947کو ایک چھوٹے
سے کسان گھرانے میں پیدا ہوا اور 14برس بعد جب اس نے دیکھا کہ نہ اسے کچھ
لکھنا آتا ہے نہ پڑھنا، اس نے تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور اپنے والد کے
ساتھ کھیتی باڑی شروع کر دی ۔ پھر وقت اس پر مہربان ہو گیا۔ آپ یوں سمجھ
لیجئے کہ وقت نے اس کے ساتھ دوستی کر لی ۔ یہ گھاٹے کا سودا کر تا، وقت اسے
نفع بخش بنا دیتا ۔ اس نے اپنی زندگی کی پہلی بازی 33سال قبل ایک بینک
سے100 پونڈ قرض لے کر کھیلی ، اس نے یہ رقم اپنی آبائی 23ایکڑ بنجر زمین کی
صفائی پر خرچ کی اور پھر اسے صحیح وقت پر مقامی بلڈرز کے ہاتھوں مہنگے
داموں فروخت کر دیا اور پھر اس منافع سے اس نے زندگی کی دوسری بڑی بازی
کھیلی ، اس نے کوئین سیمنٹ کے نام سے ایک چھوٹی سی کمپنی بنائی اور اپنا
پور ا سرمایہ اس میں جھونک دیا۔ اس رسک نے اسے زمین سے آسمان پر پہنچا
دیااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کوئین ہوٹلز ، کوئین پلاسٹک ، کوئین گلاسز،
کوئین انشورنس سمیت نت نئی انڈسٹریاں لگنے لگی۔اس نے اپنے کیریئر کے دوران
کئی بڑے رسک لئے جو اسے بہت پہلے دیوالیہ کر سکتے تھے لیکن قسمت اور وقت نے
اس کا ساتھ دیا اور یہ ہمیشہ سرخرو ہوا۔ ایک مرتبہ اُس نے آئر لینڈ کے ایک
غیر معروف علاقے میں بہت بڑا فائیو اسٹار ہوٹل بنا نے کا فیصلہ کیا ، جس نے
بھی یہ خبر سنی اُس کے منہ سے بے اختیار یہی نکلا کہ کوئی بے وقوف ہی اس
علاقے میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے لیکن جب ہوٹل تعمیر ہوا تودنیا کھنچی
ہوئی اس کی طرف دوڑی آئی ،اور یہ علاقہ آج سکاٹ لینڈ کے اہم علاقوں میں
شمار ہوتا ہے ۔یہیں سے اُسے میڈیا نے کوریج دینا شروع کی او ر وہ اخبارات
کی زینت بننے لگا ۔ایک مرتبہ اُس نے ڈبلن شہر کے تمام بڑے بڑے پبز خرید لئے
اورخوب منافع کمایا۔ اُسے ایک انشورنس کمپنی کھولنے پر بھی ’بے وقوفی کے
طعنے سننا پڑے لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ اُس نے 2007میں آئر لینڈ کی سب سے
بڑی انشور نس کمپنی بوپا خرید لی ۔ کوئین اس منافع سے نہ صرف خود محظوظ ہو
تابلکہ اس نے آئرلینڈ کے ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے علاوہ اپنے
دوستوں ،عزیزوں اور رشتے داروں کو بھی خوب نوازا ۔ سان کوئین جس تیزی سے
کامیابی کے زینے چڑھ رہا تھا اُسے گمان ہی نہیں تھا کہ ایک دن اُس کی چھوٹی
سے غلطی اُسے آسمان سے زمین پر لا پھینکے گی اور آئرلینڈ کا امیر ترین شخص
چند مہینوں میں دیوالیہ ہو کر عدالت کے کٹہرے میں کھڑ ا ہوگا۔
یہ سال2007 تھا جب پوری دنیا عالمی اقتصادی بحران کی لپیٹ میں تھی۔ اس
دوران اس نے ایک بحران زدہ بینک اینگلو آئرش کے 5فیصد شیئر ز خریدے۔ کوئین
کو یقین تھا جیسے ہی بحران ختم ہو گا شیئر ز کی قیمت اپنی جگہ پر آجائے گی
اور وہ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی کوڑیوں کا مال خرید کر اسے سونے کے دام
فروخت کر ے گا۔اُس کا یہ یقین اس قدر پختہ تھا کہ اُس نے نہ صرف اپنے بلکہ
پورے خاندا ن اور دوستوں کے بھی شیئر ز خرید لئے ، یوں 2008میں وہ بینک
کے28فیصد شیئر ز کا مالک بن گیا ۔لیکن اس کی بدقسمتی کہ اس مرتبہ وقت نے
اُس کا ساتھ نہیں دیا ۔ دن بدن شیئر ز کی قیمت گھٹتی رہی یہاں تک کہ
2009میں حکومت نے اس بینک کو دیوالیہ قرار دے کر اپنے قبضے میں لے لیا۔
کوئین کو ایک اور بھی بہت بڑ ا دھچکا لگا ، مالیاتی بحران نے جب دنیا بھر
کی پراپرٹی مارکیٹوں پر حملہ کیا تو کوئین کی کروڑوں پونڈز کی پراپرٹی بھی
اس سے محفوظ نہ رہ سکی اور یوں دیکھتے ہی دیکھے ارب پتی سان کوئین کو اپنے
بچاﺅ کیلئے عدالت میں درخواست دینا پڑی ، دو سال مقدمہ چلا اور پھر 16جنوری
2012کو عدالت نے اُسے دیوالیہ قرار دے دیا ۔
جس دن میں نے کوئین کے دیوالیہ ہونے کی خبر پڑھی اُسی دن میرے سامنے ایک
اور انوکھی خبر آئی کہ بھارت کا ایک اسکو ل، ٹیچر جس کی ماہانہ تنخواہ فقط
700ڈالرتھی ،اربوں ڈالر کا مالک بن گیا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ یہ اسکول
ٹیچر بینک میں اپنا اکاﺅنٹ چیک کرنے گیا تو اسے پتہ چلا کہ اس کے اکاﺅنٹ
میں غلطی9.8ارب ڈالر کی رقم ٹرانسفر ہو گئی ۔ بعدا زاں اُس نے بینک کے عملے
سے رابطہ بھی کیا لیکن بینک نے اس غلطی کی وجہ بتانے سے گریز کیا۔ یہاں
مجھے سندھ کے معروف بزرگ وتایو فقیر سے منسوب وہ قصہ یاد آیا جب بادشاہ نے
اُس سے سوال کیا ، وتایو بتا کہ تیر ا اللہ اس وقت کیا دیکھ رہا ہے ؟ ۔
فقیر نے بادشاد کو جواب دینے سے قبل کہا کہ عالی جاہ ، میں اس سوال کا جواب
ایک شرط پر دوں گا، بادشاہ نے کہا شرط کیا ہے ، فقیر بولا شرط یہ ہے کہ آپ
نیچے آئیں گے اور میں تخت پر بیٹھوں گا ۔ بادشاہ نے شرط مان لی اور نیچے
آیا ، وتایو فقیر دوڑتا ہوا تخت پر جا پہنچا اور کہا کہ میرا اللہ اس وقت
یہ دیکھ رہا ہے کہ ایک بادشاہ فقیر اور ایک فقیر بادشاہ کی جگہ پر بیٹھا
ہوا۔ یقینا یہ پاک پروردگار کی قدرت ہے کہ وہ چاہے جسے چاہے ، بادشاہ بنا
دے جسے چاہے فقیر کر دے ۔ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت ۔کوئین کے دیوالیہ
ہونے کی خبر اُس کے دوست اور خاندان کے افراد پر بجلی بن کر گری کیوں کہ وہ
بھی براہ راست اس میں حصہ دار تھے ، اس وقت اُن کے کوئین کے بارے میں کیا
ریمارکس ہوں گے مجھے بیان کر نے کی ضرورت نہیں۔ کیا یہی حقیقی دیوالیہ پن
ہے کہ عمر بھر جس کی دولت پر عیاشیاں کر یں مشکل وقت میں اُسے بے وقوف کہنے
لگیں اور اُس نام سننے سے بھی گریزاں ہوں ؟۔ اگر ہاں تو پھر یہ پورا ہفتہ
ہی میرے لئے کچھ عجیب سا گزرا ہے جس میں میں نے کئی لوگوں کو دیوالیہ اور
کئی کو سرخرو ہوتے دیکھا۔ اسی ہفتے جہاں میں نے 32برس تک یمن کے سیاہ و
سفید کے مالک علی عبداللہ صالح کو اپنی قوم سے معافی مانگ کر امریکہ بھاگتے
دیکھا ہے تو اسی ہفتے میں نے کئی عشروں تک ظلم اور بربریت کا شکار اخوان
المسلموں کو ایوان کے اعلیٰ اقتدار پر جبکہ اُن پر مظالم ڈھانے والوں کو
جیل کی سلاخوں کے پیچھے دیکھا ہے ۔اسی ہفتے میں نے دیکھا کہ خود کو عالمی
سپر پاور کہنے والا امریکہ افغان طالبان کے ساتھ قطر میں مذاکرات کا راگ
الاپ رہا ہے۔
شیکسپئر ٹھیک ہی کہتا ہے کہ دنیا ایک اسٹیج کی مانند ہے جہاں ہر شخص ایک
مختصر وقت کیلئے آتا ہے ، اپنا کر دار ادا کرتا ہے اور چلا جاتا ہے یہ
زندگی ہر ایک کو پوری اننگز کھیلنے کا موقع دیتی ہے ۔ کوئی سان کوئین کی
طرح 30سال تک پچ پر کھڑے ہو کر صرف اپنے اور اپنے خاندان کیلئے کھیلتا ہے
جو آﺅٹ ہونے پر اسے بے وقوف کہتے ہیں تو کوئی علی عبداللہ صالح اور حسن
مبارک کی طرح لا لچ میں آکر سپاٹک فکسنگ کر جاتا ہے اور کسی ٹیم پر اخوان
المسلون کی طرح بلاوجہ پابندیاں لگادی جاتی ہیں لیکن وہ کسی شارٹ کٹ کے
بجائے مشکل وقت کا مقابلہ کر تے ہیں اور سرخرو ہوتے ہیں ۔
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
دنیا کی ہر چیز تبدیل ہو نے والی ہے سوائے ” تبدیلی “ کے، جو روز ازل سے
تبدیل ہو رہی ہے اور تبدیل ہوتی رہے گی کیونکہ یہ فطری عمل ہے ، جس سے کوئی
لڑ نہیں سکتا ، جس کے سامنے کوئی ٹہر نہیں سکتا، ہر خزاں کے بعد بہار نے
آنا ہے ، ہر رات کے بعد سویرا ہونا ہے ۔بچے کو جوان اور جوان کو بوڑھا ہونا
ہے ، کوئی خضاب لگاکر بڑھاپے کوروک نہیں سکتا لہٰذا اگر کوئی واقعی یہ
سمجھے کہ اس حقیت کا انکار ممکن نہیں تو پھر پتہ نہیں کیوں میرے ملک کے بعض
دانشور ٹی وی پر آکر قوم کو یہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں تبدیلی نہیں آسکتی
؟۔ |