مولوی جی
(Atta Ur Rehman Chohan, )
صدیوں سے کائنات کا سفر جاری ہے
اور قیامت تک جاری رہے گا۔ اربوں انسانوں نے اس دنیا میں جنم لیا اور واپس
اسی خاک کی نذر ہو گئے۔ چند لاکھ لوگوں کا ذکر کتابوں میں موجود ہے، جن کی
خدمات سے انسانوں نے فائدہ اٹھا یا ۔ ایسے لاکھوں لوگ بھی بے نام رہے جن کے
کارنامے سالوں انسانوں کے سینوں میں دفن رہے اور ان سے مستفید ہونے والوں
انسانوں کے رخصت ہوتے ہی وہ کہانیاں بھی زمین کے سینے میں دفن ہو گئیں۔ خود
میں بھی ایک ایسی شخصیت کے کارہائے نمایاں کا امین ہوں اور میری خواہش ہے
کہ قارئین بھی ایک مثالی فرد کی خدمات سے آگاہ بھی ہوں اور ہم میں سے کوئی
ایک بھی ان جیسا بن جائے تو سینکڑوں انسانوں کو بدلنے اور انہیں کامیابی سے
ہمکنار کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ کالم کی جگہ کی کمی کی وجہ سے محض ایک یا
دو واقعات سے اس مرد بلندصفت کی شخصیت کی زندگی کے تین یا چار اوراق سے
آگاہی دے سکوں گا۔ 1947 میں پونچھ شہر کے نواحی گاؤں کھنیتر سے ہجرت کرکے
باغ (آزادکشمیر) میں منتقل ہونے والے قافلے میں ایک نوجوان عالم دین کے روپ
میں بے سروسامانی کے عالم میں اپنی بوڑھی والدہ، بیوی اور ایک بچی کو لے کر
پہنچے۔ تن پر موجود کپڑوں کے علاوہ کوئی سازو سامان نہیں تھا۔ خدا کا دیا
ہوا جو کچھ تھا اور الحمداللہ خوب تھا، وہ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ
الااللہ پر قربان کر کے پاک سرزمین کی طرف سفر شروع کیا۔
ان کے علاوہ سینکڑوں اور خاندان بھی منتقل ہوئے ، جو باغ (تب تحصیل) کے گرد
و نواح میں آباد ہوئے۔ باغ کے لوگ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ ان جیسی خوبیاں
کسی دوسرے علاقے کے لوگوں میں کم ہی پائی جاتی ہیں۔ اہل باغ نے اللہ کے ان
مہمانوں کا کھلے دل سے استقبال کیا، انہیں گلے لگایا اور اپنے بھائیوں کی
طرح اپنے گھروں میں آباد کیا۔مولوی جی کو باغ کے نواحی گاؤں بنی پساری کے
چند معززین اپنے ساتھ لے گئے اور ان کے قیام کا عارضی بندوبست کیا۔ بنی
پساری والوں کی مہمان نوازی سے کیا متاثر ہوئے کہ ساری زندگی وہاں گزار دی۔
مسجد سنبھال لی، نظام صلواة قائم کیا ، ترجمہ قرآن کئی بار مکمل طور پر
نمازیوں کو پڑھایا اور پورے محلے کو اللہ کی طرف پوری زندگی بلاتے رہے۔
موسم سرما کی سخت ترین سرد راتوں اور برف باری کے باوجود ہمیشہ سحری کی
نماز مسجد میں ادا کی اور ایک مثالی اور غیر متنازعہ شخصیت کے طور پر پوری
زندگی اس معاشرے میں گزاری، چند سال پہلے بزرگوں، نوجوانوں اور عورتوں بچوں
نے بھیگی آنکھوں، تڑپتے دلوں اور لرزتے ہاتھوں سے انہیں مقامی قبرستان میں
دفن کیا لیکن وہاں کے ہرفرد کے دل میں بسنے والے مولوی جی، سالوں ان لوگوں
کے دلوں میں آباد رہیں گے اور ان کی دعاؤں کا مرکز اور محور بھی۔ انسانی
ضرورتوں اور انسانی نقاضوں کے باوجود پوری زندگی غیر متنازعہ رہنا کتنا
آسان ہے وہ ہر کوئی جانتا ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ مقامی مسجد میں پوری
زندگی جو کچھ کیا محض اللہ کی رضا کے لیے کیا اور کبھی تنخواہ کیا کوئی اور
مالی فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ جو کچھ ان سے بن پایا وہ اپنی جیب سے خرچ کیا۔
ایک اجلی شخصیت کی خوبصورت زندگی سے باغ کا ہر فرد واقف ہے لیکن اس حقیقت
سے کم لوگ واقف ہیں کہ جب مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرکے آنے والے خاندانوں نے
ایک نئی زندگی کے سفر کا آغاز کیا تو مولوی جی نے ان کے سامنے کامیابی کے
دو راستے رکھے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط تر کر دو اور
دوسرے اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرو۔ عام لوگوں کو تو تلقین کی
لیکن اپنے قریبی رشتہ داروں کو تلقین کے ساتھ ساتھ ترویج اور دباؤ بھی
ڈالا۔ بچوں کو گورنمنٹ ہائی سکول کے صدرمعلم سے خصوصی رعائتیں حاصل کرکے
داخل کروایا۔ جو لوگ بچوں کو سکول نہیں بھیجتے تھے، ان کو آمادہ کیا اور
ایک پوری نسل کو جہالت سے نکال کر علم کی روشنی سے منور کرنے پر ساری
صلاحیتیں صرف کر دیں۔ وہ انسانوں سے کتنی محبت کرتے تھے ، اس کا اندازہ اس
سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو بچے سکول جانے کے بجائے مال مویشی چرانے جنگلوں
میں جاتے تھے، مولوی جی گُڑ (اس دور میں ٹافی ایجاد نہیں ہوئی تھی) جیب میں
لے کر جنگل میں چلے جاتے، بچوں کو گڑ کھلاتے اور انہیں تعلیم کی طرف راغب
کرتے۔ کچھ بچوں کو انہوں نے مولانا اسمعیل ذبیح ؒ کی تعاون سے مدرسہ تدریس
القرآن ، جامع مسجد روڈ، راولپنڈی میں داخل کروایا۔ جو بچے مدرسے میں داخل
ہونے پر تیار ہو جاتے انہیں اپنی گرہ سے سفر خرچ دے کر روانہ کرتے۔ کئی ایک
بچوں کو ان کے والدین کی مرضی اور منشا کے خلاف مدارس میں داخل کروادیا۔
لوگوں نے بہت مخالفت بھی کی، ناراض بھی ہوئے بلکہ بعض معاملات میں حالات
زیادہ خراب بھی ہوئے لیکن انہوں نے اپنا کام جاری رکھا۔
پچاس سالوں بعد جب ان کی کاوشوں کے نتائج مرتب ہوئے تو باغ سے کراچی تک
علماءکرام ایک بڑی ٹیم نظر آنے لگی۔ سکول میں داخل کیے گئے بچے گریڈ انیس
اور بیس تک پہنچے اور آج ان کے خاندان میں تین پی ایچ ڈی، پانچ انجئیر، دو
ڈاکٹر، درجنوں ماسٹر ڈگری ہولڈرز کے ساتھ اچھے دیندار اور خوشحال نسل کے
طور پر موجود ہیں۔ ان سب کے پیچھے مولوی جی کاخون جگر شامل ہے۔ تین سال قبل
جب وہ بقید حیات تھے تو روشنی کے ان میناروں کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا
کرتے تھے۔ اللہ کی شان دیکھیے کہ وہ خود نرینہ اولاد سے محروم رہے لیکن
دوسروں کے بچوں کو علم اور دین سے بہرور کرنے میں پوری زندگی صرف کر دی۔اس
مرد درویش نے پوری زندگی بڑے اطمینان اور سکوں سے گزاری۔ زلزلے کے بعد
راولپنڈی منتقل ہوئے اور یہیں اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کی وصیت کے مطابق
انہیں ان کی والدہ مرحومہ کے قدموں میں بنی پساری کے مقامی قبرستان میں دفن
کیا گیا۔ ایک زمانہ ان کی بے لوث خدمات کا معترف تھا اور پیرانہ سالی کے
دوران بھی ان کے گھر پرہر وقت انسانوں کا تانتا بندھا رھتا تھا۔ معاشرے میں
کوئی ایک فرد بھی ان سے نالاں نہیں تھا، انہوں نے کبھی کسی سے گلہ نہیں کیا
شکایت تو دور کی بات ہے۔ ہمیشہ دوسروں کو معاف کرنا اور ان کے لیے دعاءکرنا
ان کی زندگی کا خاصہ تھا۔ آج مدرسہ تدریس القرآن و الحدیث باغ کی وسیع و
عریض عمارت اور پرشکوہ مسجد ان کی شب و روز محنت کا عملی نمونہ فیض عام کے
لیے وقف ہے۔ یہ ادارہ بھی انہوں نے زندگی بھر کی محنت سے قائم کیا اور یہاں
سے بھی کبھی کوئی مالی منفعت حاصل نہیں کی۔
اللہ کروٹ، کروٹ انہیں جنت الفردوس کی نعمتوں سے نوازے۔ ایک مثالی کردار
تھا، جو ابدی نیند سو گیا۔ جس کی یاد صدیوں لوگوں کو ستاتی رہے گی۔ ان کا
نام مولانا عبد الرحمن تھا، گاؤں والے اور رشتہ دار مولوی جی اور شہر والے
مولوی صاحب کے نام سے موسوم کرتے تھے۔ میرے جیسوں کے وہ باوا جی تھے۔ مجھے
پچاس سالہ مشاہدے میں ایسے باوا جی دیکھنے کو نہیں ملے۔ وہ ہماری زندگی کا
مرکز اور محور تھے، صرف میرے ہی نہیں ایسے سینکڑوں کو میں جانتا ہوں جو مجھ
سے بھی زیادہ ہمارے باوا جی سے محبت کرتے تھے۔ ایک سو سال سے زائد عمر پانے
کے باوجود وہ بزرگوں ، جوانوں اور بچوں سب میں مقبول تھے۔ میرا چھ سالہ
بیٹا عثمان اور چار سالہ بیٹی عالیہ بھی انہیں اسی طرح مس کرتی ہے ، جس طرح
میں ، میری والدہ اور والد انہیں مس کرتے ہیں۔ |
|